نابغۂ عصر دلیلِ فردا و امروز

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

انسانی معاشرے کی تعمیر اور تکمیل میں انسانی شخصیات کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ افراد سازی سے قوم سازی تک کا سفر رہبر و راہنما کے ذریعے تکمیل تک پہنچتا ہے۔ کوئی بھی تاریخ ساز شخصیت اللہ کی بارگاہ سے انسانوں کے لیے اپنے دور کی ایک عظیم نعمت ہوا کرتی ہے۔ عصرِ حاضر میں باری تعالیٰ کے انعامات میں سے نابغۂ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات و شخصیت اس قوم و امت کے لیے ایک نعمتِ عظمیٰ ہے۔ آپ نے اپنی شخصیت اور کردار کی قوت سے وقت کے دھارے کا رخ موڑا ہے۔ جس میدان میں قدم رکھا ہے، اس میں انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں اور جس طرف رخ کیا ہے، زمانے کی ہوا کو اسی طرف موڑا ہے۔ آپ کی شخصیت میں باری تعالیٰ نے وہ chrisma رکھا ہے کہ آپ ہر سطح کے مخاطب کو نہ صرف قائل کرلیتے ہیں بلکہ اپنی طرف مائل بھی کرلیتے ہیں۔ آپ نے عصرِ حاضر میں جو فرمایا ہے، وہی بول زمانے کی بولی بنا ہے اور آپ نے جو لکھا ہے وہی عصرِ حاضر کا حوالہ بنا ہے۔

نابغۂ عصر کی قوت، دلیلِ زمانہ ہے

شیخ الاسلام کے پاس دلیلِ فردا اور دلیلِ امروز کی وہ قوت ہے جس سے آپ کے بڑے بڑے ناقد اور مخالف بھی قائل ہوجاتے ہیں، حتی کہ نہ ماننے والے بھی مان جاتے ہیں۔ آپ کی اس قوتِ دلیل کی انفرادیت و امتیاز کو اسی صورت سمجھا جاسکتا ہے جب ہم زمانے میں مروّجہ دلیل کی مختلف اقسام و انواع کا مطالعہ کریں:

1۔ کچھ لوگوں کے پاس ’’دلیلِ عصائی‘‘ ہوتی ہے۔ وہ اپنی تحکمانہ اور جابرانہ شخصیت اور قوت سے اپنے مخالف اور حریف کو مطیع کرتے ہیں۔

2۔ کسی کے پاس ’’دلیل ابوائی‘‘ ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے حریف کی ذات و شخصیت پر وار کرتا ہے اور اس کی کردار کشی کرتا ہے اور استدلال کو سنے بغیر اس کے مضبوط و مستحکم مؤقف کو رد کردیتا ہے۔

3۔ کسی کے پاس دلیل ترحم ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ کسی عصبیت، گروہی وفاداری، جماعتی وابستگی، ذاتی عداوت و رنجش اور کسی ذاتی خامی و کمی کی بنا پر اپنے مخالف کی ہر خوبی کا انکار کرتا ہے اور اپنی فضیلت و برتری پر بضد رہتا ہے۔

4۔ کسی کے پاس ’’دلیلِ عوامی‘‘ ہوتی ہے، جس میں وہ اپنے مخالف کو عوامی احساسات و جذبات کے ذریعے مجروح کرتا ہے۔ از خود ہی اس کی طرف من پسند الزام اور نامناسب کلمات منسوب کرتا ہے اوراس کے کلام اور عمل کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اس کا قول اور فعل بنادیتا ہے اور پھر از خود ہی اپنی زبان سے اپنے حلقہ احباب میں اس کی کردار کشی شروع کردیتا ہے اور عوامی احساسات اور جذبات سے کھیلتے ہوئے اس پر فتویٰ بازی کے تیر برسانے لگتا ہے۔یوں وہ اپنے مخالف کے بے داغ کردار کو داغدار کرتا ہے۔۔۔ اس کی علمی وجاہت کو جہالت بناتا ہے۔۔۔ اس کی ثقاہت کو ضعف بناتا ہے۔۔۔ اس کی فکری صلابت کو گمراہی شمار کرتا ہے۔۔۔ اس کی حق پر استقامت کو ضلالت قرار دیتا ہے۔۔۔ عوام کو خوش کرنے اور ان کو گمراہ کرنے کے لیے وہ اپنے فریق مخالف کی کردار کشی میں ہر حد پار کرجاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے منصب کو بھی بے آبرو کرتا ہے اور اسلام کی اقدار کے منافی عمل بھی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

5۔ کسی کے پاس ’’دلیلِ حق‘‘ ہوتی ہے۔ یہ دلیلِ حق ہی دلیلِ اسلام ہے جو قرآن اور سنت پر مبنی ہے اور اسی دلیل میں اقوام و امم کی دنیوی حیات اور اخروی نجات ہے۔

6۔ کسی کے پاس ’’دلیلِ مکرر‘‘ہوتی ہے۔ وہ ایک ہی دلیل کو ہر جگہ دہراتا چلا جاتا ہے اور اسی پر ساری زندگی صرف کردیتا ہے۔ وہ اپنا رعب صرف اسی ایک دلیل پر قائم کرتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ دلیل تجدید نہ ہونے کی بناء پر اپنی اہمیت اور افادیت کھودیتی ہے اور اس دلیل سے اس کا استدلال کمزور پڑنے لگتا ہے۔

7۔ کسی کے پاس ’’دلیلِ مبھم‘‘ ہوتی ہے۔ ایسے شخص کا موقف نہ اِدھر کا ہوتا ہے اور نہ اُدھر کا ہوتا ہے بلکہ زمانہ جدھر کا ہوتا ہے، اس کا رخ بھی اُدھر ہی کا ہوتا ہے۔

  • زمانے میں مروجہ مذکورہ ’’دلیل‘‘ کے علاوہ ایک حقیقی دلیل بھی ہے جسے ’’حجت‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ ہی اصل دلیل ہوتی ہے۔ اس حجت کا قرآنی مفہوم ویحق الحق ویبطل الباطل ہے۔ یعنی جس کے ذریعے احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کیا جائے۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ حجت وہ بات ہے جو مخالف کے ذہن میں قائل کے موقف کو ثابت کردے۔ حجت معلومِ نظری سے مجہولِ نظری تک پہنچاتی ہے۔

یاد رکھیں! دلیل خود ایک بہت بڑا علم ہے اور وہ دلیل جس میں ثقہ علم نہیں ہے، وہ دلیل؛ دلیل نہیں ہے۔غرضیکہ دلیل کا وجود علم سے ہے اور علم کا جادو اور طلسم خود دلیل ہے۔ دلیل کا اظہار ہم اپنے قول، فعل اور حال سے کرتے ہیں۔ زبان، قلم، عمل اور کردار؛ یہ سب کے سب دلیل کے اظہار کے ذرائع اور پیمانے ہیں۔ دلیل ان سب ذرائع سے اپنے پورے اظہار کے ذریعے اپنی حقانیت زمانے سے خود ہی منوالیتی ہے۔ہماری زبان اور ہمارا عمل؛ ہماری دلیل کی تفسیر و تشریح اور تبیین و توضیح ہوتا ہے۔ دودھ کو سفید ثابت کرنا دلیل ہے لیکن اگر اس کو کالا یا سبز کہا جائے تو یہ دلیل نہیں ہے بلکہ قول ذلیل اور قول تکذیب ہے۔

  • دلیل کو ’’برہان‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن ہر دلیل برہان نہیں ہوتی:

البرھان الحجة البینة الفاضلة او استدل ینتقل فیه الذھن من قضایا مسلمة الی اخری تنتج منھا ضرورة.

اہل مناطقہ کے ہاں برہان وہ دلیل ہے جو بڑی واضح اور مفصل ہو اور اس دلیل سے مراد وہ استدلال بھی ہے جس میں انسانی اذہان کو مسلّم چیزوں سے ان چیزوں کی طرف منتقل کیا جائے جو ان سے بدیہی، طبعی اور عقلی طور پر ثابت ہوں۔

برہان کی فقہی تعریف یہ ہے کہ:

الدلیل الذی یظهر به الحق و یتمیز عن الباطل.

برہان وہ دلیل ہے جس سے حق کا اظہار ہو اور جس سے باطل کی شناخت ہو۔

اسی سے برہانِ قاطع کا لفظ بھی ہے اور یہ وہ دلیل ہے جو ہر ایک کو لاجواب کردے۔ یہ ایسا واضح بیان ہے جو ہر نصیحت پر فائق ہوتا ہے ۔

نابغۂ عصر: ایک حجت۔ ایک برہان

نابغۂ عصر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے ہر کام کو ایک حجت، برہان اور دلیلِ قاطع بنایا ہے۔ آپ نے اپنے مصمم ارادے کے ذریعے 17 اکتوبر1980ء کو منہاج القرآن کے قیام کو ایک دلیل، حجت اور برہا ن کی صورت میں دنیا کے سامنے رکھا۔ آپ کا یہ مصمم ارادہ آپ کی شہرہ آفاق کتاب ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ میں موجود آپ کی 1973ء کی ڈائری کے اوراق کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ منہاج القرآن کی صورت میں آپ کی دلیل، حجت اور برہان کے اپنے قیام کے وقت سے ہی ایسے اثرات مرتب ہوئے ہیں کہ ہر طرف مقبولیت کے علم بلند ہوتے ہیں اور ہزاروں افراد اس حجت و برہان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔آپ کی تصانیف، دروس قرآن، خطابات اور اقدامات ہر ایک حجت، برہان اور دلیل قاطع بن کر سامنے آتے ہیں۔

(1) میدانِ خطابت میں حجت، برہان اور دلیلِ قاطع

ذیل میں میدانِ خطابت میں آپ کی حجت، برہان اور دلیلِ قاطع ہونے کے مظاہر درج کیے جاتے ہیں:

  • 1982ء تا 1989ء میں ماڈل ٹاؤن سے گونجنے والی آپ کی آواز نے لاہور کے شہریوں اور تمام ملک کے ہر اہل علم کو اپنی طرف راغب کیا۔
  • یہ آپ کی قوت دلیل عدالتوں کے ماحول کو بھی مسخر کرتی رہی ہے۔ا ٓپ کو 1982ء میں اپیلٹ شریعت بنچ کا مشیر فقہ (Advisor on fiqh) بنادیا جاتا ہے۔ 20 تا 23 جون 1982ء آپ کی دلیل عدل و انصاف کے ایوانوں پر اپنے علمی اور فقہی جوہر کو ثبت کرتی ہے جس کے نتیجے وفاقی شرعی عدالت آپ کے دلائل سے قائل ہوکر پاکستان میں رجم کو بطورِ حد نافذ کرتی ہے۔
  • منہاج یونیورسٹی کی خشت اول 29 دسمبر 1982ء میں رکھ دی جاتی ہے اور یہ یونیورسٹی بعد ازاں ان کی تعلیمی و علمی خدمات کے حوالے سے زمانے کے سامنے ایک دلیلِ ناطق بن جاتی ہے۔
  • 11 اپریل 1983ء میں یہ آواز قومی اور بین الاقوامی افق پر چھا جاتی ہے اور اس آواز نے اہلِ پاکستان کو اپنا ایسا گرویدہ بنالیا تھا کہ ہر کوئی ہفتے، پندرہ دن میں اس آواز کو سننا اپنا فرض سمجھنے لگا تھا۔ اس آواز نے لاکھوں لوگوں کے دلوں کے تار چھیڑ دیئے تھے اور اہلِ ایمان کے عقائد کو درست کرتے ہوئے انھیں صالحیت کی راہ دکھائی تھی۔ اس آواز نے بے مقصد زندگیوں کو زندگی کا عالمی اور آفاقی مقصد بتایا تھا۔ اس آواز نے نوجوانوں کے اخلاق و اعمال کو سنوارا تھا اور خواتین کو سیرت فاطمۃ الزہراءd پر گامزن کیا تھا۔

جو بھی اس آواز کو سنتا گیا، وہ اس کا اسیر ہوتا چلا گیا۔ یہ آواز پاکستان کے قومی اور بین الاقوامی افق پر فہم القرآن کے نام سے پاکستان ٹیلی ویژن پر گونجنا شروع ہوئی۔ پھر یہ آواز ہر آئے دن غالب اور موثر ہوتی چلی گئی اور اس آواز نے ہر میدان میں بڑے بڑے شہسواروں کو مغلوب کیا تھا اور مسلسل کررہی ہے۔ خواہ وہ مذہب کا میدان ہو یا سیاست، علم و ادب اور معاشرت و سماج کا کوئی میدان۔ یہ آواز درِ رسالت کی دریوزہ گر ہوکر آج تک سب پر غالب ہے۔ دنیا کی کوئی بھی قوت اور طاقت اس آواز کو نہ خرید سکی ہے اور نہ بند کراسکی ہے اور علم و عمل اور اخلاق سے لیس یہ آواز آج بھی گونج رہی ہے۔

(2) میدانِ تربیت میں حجت، برہان اور دلیل قاطع

کسی بھی تحریک کے لیے اس کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے افراد ہوا کرتے ہیں جو اس تحریک کے پیغام کو مختلف لوگوں، معاشروں اور ممالک تک پہنچاتے ہیں اور مختلف زمانوں اور مختلف نسلوں میں آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ افراد چراغ سے چراغ جلاتے ہیں اور ہزاروں سینوں کو روشن کرتے ہیں۔ یہ اپنے قائد کی آواز اور تحریک کے مشن کے پیامبر بنتے ہیں۔ لوگ ان کے کردار سے مشن کا تعارف اور قائد کی ذات کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں نابغۂ عصر تربیت کے میدان میں ایک دلیلِ قاطعہ، حجت اور برہان بن کر سامنے آتے ہیں۔

اس سلسلے میں افراد کی تیاری کے حوالے سے عمومی تنظیمی اسلوب پر 8 جولائی 1983ء میں منہاج القرآن تربیتی کنونشن کی صورت میں ایک مستقل نظام تربیت بپا کردیا گیا تھا جبکہ سالانہ روحانی بنیادوں پر افراد کی تیاری کے سلسلے میں ایک مستقل سالانہ تربیتی و روحانی پروگرام کا اجراء بصورتِ اعتکاف 27 رمضان 1983ء کو کردیا گیا تھا۔

تربیت کے میدان میں اس حجت و برہان نے وہ مناظر بھی دنیا کو دکھائے ہیں کہ یورپ کے ہزاروں نوجوان اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس دلیل علم و تربیت نے ان کو الحاد کے فتنوں اورمادیت کے حملوں سے بچایا ہے۔۔۔ ان کے ایمان کو راہِ حق پر ثبات دیا ہے۔۔۔ ان کے کرداروں کو داغدار ہونے سے بچایا ہے۔۔۔ ان کی برباد ہونے والی نوجوانیوں کو سنبھالا ہے۔۔۔ ان کو ظلمتوں کے گڑھوں سے نکالا ہے اور انھیں راہِ ہدایت پر گامزن کیا ہے۔۔۔ ان کی زندگیوں کو حرام سے نکال کر حلال پر ثابت قدم کیا ہے۔۔۔ ان کی جبینوں کو اللہ کے حضور جھکایا ہے۔۔۔ ان کو عرفان ذات کے شعور سے عرفانِ الہٰی کی منزل پر پہنچایا ہے۔ غرضیکہ نابغٔہ عصر کی یہ دلیلِ تربیت ہر آنے والے دن زیادہ سے زیادہ موثر ہوتی چلی جا رہی ہے۔

(3) میدانِ عمل و انتظام میں برہانِ قاطع

17 فروری 1984ء کا سورج اس تحریک کی تاریخ میں ایک نئے انداز سے طلوع ہوا، جب اس تحریک کی فکر کو ایک معنوی و خیالی حیثیت سے نکال ایک ٹھوس، جامع اور قابل مشاہدہ حقیقت کا روپ دے دیا جاتا ہے اور اس کا عالمی اور آفاقی فکر کا امین ایک بین الاقوامی معیار کا حامل سیکرٹریٹ قائم کردیا جاتا ہے جو آج ساری دنیا میں منہاج القرآن انٹرنیشنل سیکرٹریٹ کے نام سے جانا پہچانا ہے۔ اس کا سنگ بنیاد عالم عرب و عجم کی عظیم روحانی شخصیت قدوۃ الاولیاء شیخ المشائخ حضور پیر سید نا طاہر علاؤ الدین الگیلانیؒ القادری اپنے دست اقدس سے رکھتے ہیں۔

یہ سیکرٹریٹ اپنے موسس اور اپنے بانی کی انتظامی دلیل کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ دنیا بھر میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مراکز کا بھی مرکز ہے۔ اس کا انتظامی ڈھانچہ ایک خود کار نظام کے تحت چل رہا ہے اور اس سیکرٹریٹ کو یہ خاصیت اور انفرادیت حاصل ہے کہ یہ دورِ حاضر کے جملہ تقاضوں اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنے اندر سموئے ہیں۔ اس کے بے شمار شعبہ جات ہیں جن میں کام کرنے والے تمام سٹاف اور جملہ عہدیداران ایک انتظامی یونٹ اور وحدت میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہر شعبہ ایک نتیجہ خیز عمل دے رہا ہے اور ایک واضح ہدف کے ساتھ چل رہا ہے۔ ہر شعبے کی کارکردگی ہی اس کے وجود کا جواز ہے۔

باصلاحیت اور اہل افراد کا چناؤ اس سیکرٹریٹ کے ہر شعبے کو دوسرے شعبے سے ممتاز اور منفرد کرتا ہے۔ خود احتسابی سے اجتماعی جوابدہی کا نظام اس کے ہر شعبے کو ہر دم متحرک اور ہرلمحہ فعال رکھتا ہے۔ اس سیکرٹریٹ کو کثیر کل وقتی اور جز وقتی افرادی قوت ہر وقت آباد رکھتی ہے۔ اس کی گہما گہمی اور اس کی تحریکی سرگرمیاں ہر لحظہ اپنا اثر دکھا رہی ہوتی ہیں۔ ہر ذمہ دار اور ہر عہدیدار ایک واضح ہدف اور ایک مقرر ٹارگٹ کے ساتھ اپنے فرائضِ منصبی کو ادا کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اجتماعی انتظامی وحدت اس سیکرٹریٹ کو اپنے نظم، کام اور اہداف میں حسین سے حسین تر بنائے ہوئے ہے۔ جو شخص بھی پہلی مرتبہ اس سیکرٹریٹ کا وزٹ کرتا ہے، اس کے شعبہ جات کو دیکھتا ہے اور اس کے مکمل تعارف سے آگاہ ہوتا ہے تو وہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ یہ سیکرٹریٹ اپنے موسس کی کیا ہی عجب انتظامی دلیل ہے۔

اب تک اس سیکرٹریٹ کا وزٹ کرنے والی سیکڑوں بین الاقوامی شخصیات کا اعتراف اورکھلم کھلا اظہار اس پر گواہ و شاہد ہے۔ تحریک کے عظیم قائد کا یہ انتظامی ملکہ عصرِ حاضر کی دینی تحریکوں میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ ہر مخالف رائے رکھنے والا جب اس سیکرٹریٹ میں محو مشاہدہ ہوتا ہے تو وہ بھی اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ اس کی ز بان اس کے موسس کی عظمتِ انتظام کا اظہار اور اس کا قلم اس سیکرٹریٹ کے بانی کی عبقری شخصیت کی شہادت دے رہا ہوتا ہے۔ یہی حقیقی فضیلت ہے اور یہی اصلی عظمت ہے جس کی ترجمانی عربی کا یہ مقولہ کرتا ہے کہ:

الفضل ماشهدت به الاعداء.

فضیلت تو وہ ہے جس کا اظہار دشمن بھی کرے۔

(4) علم کے میدان میں دلیلِ قاطع اور حجت

نابغۂ عصر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ علم کے میدان میں بھی دلیلِ قاطع، حجت اور برہان ہیں۔ بڑے بڑے لاینحل علمی مسائل کو حل کرنا اور علمی و فکری الجھنوں کو دور کرتے ہوئے قوم و ملت کی رہنمائی کرنا بھی اس نابغۂ عصر کا امتیاز ہے ۔ مسئلہ دیت ہو یا رجم بطور اسلامی حد کا تعین، حقوق نسواں ہوں یا تحفظِ ناموسِ رسالت، ہر علمی محاذ پر نابغۂ عصر’’دلیلِ قاطع‘‘ بن کر سامنے آتے ہیں۔

اہلِ علم اور صاحبانِ فکرو نظر کے سامنے نابغۂ عصر نے اسلامی تعلیمات میں اختلاف رائے کی حکمت کو اجاگر کیا۔ عصری تقاضوں کے مطابق اسلام کی عظمت کو ثابت کیا اور اسلامی تعلیمات پرہونے والے حملوں کا تدارک کیا۔ جس کے نتیجے میں ماڈرن طبقہ کی ایک بڑی تعداد اسلام کی طرف راغب ہوئی، ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے اشکالات رفع ہوئے اور اسلام کے بارے پیدا کردہ ان کے شکوک و شبہات کا خاتمہ ہوا۔ نتیجتاً مکمل دلجوئی اور کامل یکسوئی کے ساتھ اسلام کو انھوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔

یوں تحریک کے اس عظیم قائد نے اپنوں کو غیر ہونے سے بچایا ہے اور غیروں کو اپنا بنایا ہے ۔۔۔ اسلام سے دور ہونے والوں کو اسلام کے قریب کیا ہے۔۔۔ لوگوں کو اپنے دلیل علمی کے ذریعے اللہ سے واصل کیا ہے۔۔۔ اپنی دلیل علمی کے ذریعے ان کو رسول اللہﷺ کا مطیع اور اسوہ رسول کا پیروکار بنایا ہے۔۔۔ اور دین اسلام کا سچا وفادار اور علمبردار بنایا ہے۔

  • اس عظیم قائد نے ناموسِ مصطفی، عظمتِ صحابہ اور مقامِ اہلِ بیتِ اطہار کا حقیقی معنی میں دفاع کیا اور بین المذاہب رواداری اور بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دے کر معاشرتی وحدت پیدا کی اور مذہبی فرقہ واریت کا خاتمہ کیا اور ایک دوسرے کے درمیان محبت اور مودت کا تعلق قائم کرتے ہوئے باہمی احترام و اکرام کے جذبات کو فروغ دیا۔

11-14 اپریل 1988ء میں شہر لاہور میں آپ کی سائنسی اور علمی دلیل کا اظہار عصرِ حاضر کے سائنسی علم کے باب میں ہوا اور بالخصوص دور جدید میں اسلام کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے انٹرنیشنل مسلم لائرز فورم کے زیر اہتمام تاریخی خطباتِ لاہور کا انعقاد ہوا۔ یہ خطباتِ لاہور آپ کی دلیل علمی کا بھرپور اظہار تھے۔ ان کے موضوعات خود عصر جدید کی نوجوان نسل اور تعلیم یافتہ لوگوں کو ایک علمی چیلنج کا جواب تھے۔ ان خطبات لاہور میں آپ کی قوت دلیل کبھی اسلام اور جدید سائنسی تحقیقات کو اجاگر کرتی تھی۔۔۔ کبھی اسلام اور جدید تصور قانون کو واضح کرتی تھی۔۔۔ کبھی اسلام اور تصور معیشت سے اہل زمانہ کو آگاہ کرتی تھی۔۔۔ کبھی اسلام اور سائنسی تحقیقات کے مخفی گوشوں کو وا کرتی تھی۔ غرضیکہ اپریل 1988ء کا پورا مہینہ شہر لاہور میں ان خطبات لاہور کا چرچا ہر خاص و عام کی زبان پر گونجتا رہا۔

  • اسی طرح اس عظیم قائد کے ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ کے لیکچرز نے معاشرے کی اکثریت کو ایک نئی فکر سے روشناس کروایا۔

خلاصۂ کلام

انسانی تاریخ کا سفر اور انسانی کارواں آج تک کبھی میدانِ حرب سے گزرا ہے اورکبھی میدانِ تہذیب سے گزرا ہے۔ میدانِ حرب کا موثر ہتھیار تلوار رہا ہے اور میدانِ تہذیب کا موثر ہتھیار دلیل رہا ہے۔تلوار میدانِ حرب میں اپنے ماہر، تجربہ کار حامل کو فاتح ٹھہراتی رہی ہے جبکہ دلیل میدانِ تہذیب میں اپنے حامل کو غالب اور نامورکرتی رہی ہے۔نابغہ عصر، شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے زمانے میں دلیل کی قوت کا بھرپور استعمال کیا ہے اور تمام دنیوی اور دینی میادین میں اپنی دلیل کی قوت کا لوہا منوایا ہے۔ آپ کی دلیل کی قوت نے اپنوں اور غیروں سے یکساں اعترافِ عظمت اور اظہارِ فضیلت کرایا ہے۔ کچھ نے ان پر اس نعمت کے بے پایاں ہونے کا اظہار جلوت میں کیا ہے اور کچھ نے دنیوی مصلحتوں کے بندھن کا شکار ہوکر اپنی خلوتوں میں اس کا اظہار کیا ہے۔

قرآن مجید تو خود سارے انسانوں کے لیے دلیل قطعی اور برہان حتمی ہے۔ اسی دلیلِ قرآن کا فیض بارگاہ رسالتمآبﷺ سے منہاج القرآن کی صورت اور اس کے بانی و موسس کی ذات میں جاری و ساری ہے۔ گویا منہاج القرآن آج کی موجود دنیا میں صرف ایک تحریک، ایک ادارہ اور ایک عمارت ہی نہیں ہے بلکہ یہ اسوہ رسولﷺ کی پیروی میں ایک زندہ اور متحرک کردار بھی ہے جو اس تحریک اور اس کے بانی کے ہمہ جہتی کردار سے مسلسل عیاں ہورہا ہے۔ شیخ الاسلام جس میدان میں بھی اترے ہیں، وہاں دلیل کی قوت کے ساتھ چھاگئے ہیں۔ انھوں نے اپنی دلیل کو جس بھی میدان میں استعمال کیا ہے تو اس میدان کا اصل چہرہ لوگوں پر عیاں کیا ہے اور اس کے حقیقی تصور اور اصل تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کرایا ہے۔ آپ نے دین اسلام کا ایک جامع تصور لوگوں کے سامنے رکھا ہے اور اسلام کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے ساتھ قوم و ملت کے سامنے پیش کیا ہے۔ آپ نے ایک زندہ اسلام کا تصور زندہ انسانوں میں منتقل کیا ہے۔۔۔ اتحاد و وحدت امت کا تصور دیا ہے۔۔۔ فرقہ واریت کو جڑ سے اکھاڑپھینکا ہے۔۔۔ دین کو ہر کسی کا خیر خواہ ثابت کیا ہے۔۔۔ دین پر عمل کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا ہے۔

کبھی یہ دلیل سلسلہ وار دروسِ قرآن کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔۔۔ کبھی دروسِ حدیث اور تصوف کی صورت میں عیاں ہوتی ہے۔۔۔ کبھی دراسات القرآن کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔۔۔ کبھی عدالتوں میں ادلّہ شرعیہ کے ساتھ اپنے موقف کے ثبات اور اس پر شرعی فیصلے کے قیام اور نفاذ کی صورت میں نظر آتی ہے۔۔۔ کبھی یہ دلیل عالمگیر دعوتی و تبلیغی نیٹ ورک بپا کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔۔۔کبھی یہ دلیل ہزاروں نوجوانوں کو اپنا ہمنوا بناتے ہوئے جلوہ گر ہوتی ہے۔۔۔کبھی یہ دلیل ساری دنیا میں تنظیمی نیٹ ورک بپا کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔۔۔ کبھی یہ دلیل دنیا کے نامور لوگوں کو اپنے مؤقف پر قائل کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ ۔۔کبھی یہ دلیل امریکہ، لندن، ڈنمارک، فرانس، آسٹریلیا، ناروے اور یورپ و ایشیا کی یونیورسٹیوں میں اسلام اور جدید سائنس (Islam and Modern Science) کے موضوع پر گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔۔۔ کبھی یہ دلیل عالمی سطح پر اسلام کے موثر پیغام کو پہنچانے کے لیے الاتحاد العالمی الاسلامی کا پلیٹ فارم وضع کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔۔۔کبھی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے مینار پاکستان پر چیلنج دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔۔۔کبھی یہ دلیل سود کا متبادل نظام دیتی نظر آتی ہے۔۔۔ کبھی یہ دلیل اپنی قوت کو تسلسل دینے اور اپنی مستقل علمی وراثت کا اجراء کرتے ہوئے منہاجینز کا ایک مضبوط تحریکی اثاثہ اور ایک موثر داعی طبقہ تیار کرتی ہےجو آپ کی آواز کو ساری دنیا میں پہنچا رہی ہے۔غرضیکہ آپ کی دلیل نے ہر میدان کو مسخر کیا ہے۔

سیاست کی دنیا میں بھی آپ نے اپنی سیاسی دلیل سے اپنی قائدانہ حیثیت کا لوہا منوایا ہے۔۔۔ مذہب کے میدان میں بھی ہزاروں، لاکھوں اہل علم سے اپنی تحقیقی دلیل کی قوت سے اپنی علمی ثقاہت کا اعتراف کرایا ہے۔ حتی کہ وہ معاشرے کے جس بھی شعبے میں گئے ہیں، اسی شعبے کی بات ان کی زبان میں کرکے آئے ہیں اور یوں اپنی بھرپور علمی دلیل کو ان سے تسلیم کرایا ہے۔

آپ کی دلیل نے ہر شعبے میں ایک قائدانہ کردار ادا کیا ہے اور اپنے سننے اور دیکھنے والوں کو یہی پیغام دیا ہے کہ تم اپنے وجود، اپنے عمل اور اپنے کردار میں ایک اذانِ سحر بنو۔ زمانے کو اپنی دلیل کی روشنی سے منور کردو اور اپنی دلیل امروز کو اپنے روشن مستقبل کے لیے دلیل فردا بنادو۔ یہی ایک مومن کا تشخص ہے اسی لیے اقبال کہتا ہے:

وہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی امروز
نہیں معلوم ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

اس دلیل کا منبع و سرچشمہ وہ جلالِ الہٰی اور وہ جمالِ الہٰی ہے جو بندۂ مومن کے قلب میں ایک چراغ کی صورت میں روشن ہے۔ بندہ مومن کی دلیل کی یہ ساری روشنی اسی جلال و جمال الہٰیہ سے ہے۔ اس لیے کہ بقول ا قبال:

ترا جلال و جمال مردِ خدا کی دلیل