اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقَادِرِيَّة: علمی وتحقیقی اور تعارفی مطالعہ

ڈاکٹر محمد زُہیر اَحمد صدیقی

دین کے حقیقی فہم کے لئے شریعت کا اوّلین مصدر اور اصل الاُصول قرآن حکیم ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی دوسرا مصدِر اصلی سنتِ رسول ﷺ ہے۔ قرآن و سنت باہم جڑے ہوئے اور ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا اور یہ دونوں مل کر ہی شریعت بنتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو تشریعی اختیارات تاابد عطا کئے۔ لہذا قرآن کی طرح حدیث کی حجیت بھی مسلم ہے جبکہ صاحبِ قرآن نبی آخر الزمان ﷺ کی عطا کردہ سنت وحدیث کو بطورِ مصدر اصلی قبول کرنے سے انکار کفر ہے۔

ائمہ حدیث نے قرونِ اولی سے ہی حدیث کے رد وقبول کے حوالے سے قواعد وضوابط مقرر کئے ہیں۔ اُن اصول وقواعد کی معرفت سے ہی فہمِ حدیث نصیب ہوتا ہے۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں میں سےاہل ِعلم حضرات کا حدیث اور علومِ حدیث سے عدمِ رغبت وعدمِ اشتغال کے سبب حدیث کی معرفت کا دعوے دار ایسا طبقہ وجود میں آگیا جو در حقیقت حدیث میں رد وقبول کے ضوابط میں خواہشِ نفس کی پیروی کرتے ہوئے جمہور اہلِ علم کے قائم کردہ اصول سے روگردانی کرتا رہا ۔ ایسے وقت میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے اپنا منصبی فریضہ جانا کہ علومِ حدیث پر قلم اٹھایا جائے تاکہ عصرِ حاضر میں مسلمانوں کے اس اکثریتی طبقے کے اذہان کو حدیث وسنت پر کسی بھی طرف سے اٹھنے والے اعتراضات کی گرد سے محفوظ کیا جا سکے۔ اس علمی کاوش سے نہ صرف یہ کہ عامۃ الناس میں حدیث سے رغبت پیدا ہو، بلکہ علماء کے لیے سیکڑوں کتابوں میں منتشر قواعد چن چن کر یکجا کر دیے جائیں تاکہ انہیں علومِ حدیث کے حساس موضوعات پر کامل دسترس حاصل ہوسکے اور وہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کے قواعد وضوابط، مصطلحات، جرح وتعدیل کے اصول، علل، طبقات، اصول تخریج وغیرہا علوم کے بارے مکمل آشنا ہوتے ہوئے علوم حدیث میں اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر سکیں۔

اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقَادِرِيَّة فِي الْعُلُوْمِ الْحَدِیْثِيَّة‘ شیخ الاسلام مد ظلہ العالی کی علومِ حدیث پر تحریر کردہ چودہ مستقل کتابوں کا ایک ایسا علمی ذخیرہ ہے، جو حدیث وسنت پر اٹھنے والے اعتراضات کا کافی وشافی جواب مہیا کرتا ہے۔ یہ موسوعہ جہاں حدیث کی حجیت پر دلائل پیش کرتا ہے، وہیں حدیث کے رد وقبول پر بنائے جانے والے من گھڑت تصورات کا بھی قلع قمع کرتا ہے۔ اس موسوعہ میں شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے علومِ حدیث میں تصنیف شدہ صدیوں پر محیط علمی ذخیرے سے ایسے نادر شذرات جمع فرمائے ہیں جن کی مثال نہیں ملتی ۔

اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقَادِرِيَّة فِي الْعُلُوْمِ الْحَدِیْثِيَّة‘ اُصول الحدیث کے اہم ترین موضوعات پر شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی تصنیف کردہ درج ذیل 14 کتب پرمشتمل ہے:

  1. الْأَنْوَارُ الْبَهِيَّة فِي حُجِّيَّةِ السُّنَّةِ النَّبَوِيَّةِ
  2. عَوْنُ الْمُغِيْث فِي طَلَبِ وَحِفْظِ عِلْمِ الْحَدِيْث
  3. تَرْغِيْبُ الْعِبَاد فِي فَضْلِ رِوَايَةِ الْحَدِيْثِ وَمَكَانَةِ الْإِسْنَاد
  4. الْاِكْتِمَال فِي نَشْأَةِ عِلْمِ الْحَدِيْثِ وَطَبَقَاتِ الرِّجَالِ
  5. حُسْنُ النَّظَر فِي أَقْسَامِ الْخَبَر
  6. الْبَيَانُ الصَّرِيْح فِي الْحَدِيْثِ الصَّحِيْح
  7. اَلْقَوْلُ الْأَتْقَن فِي الْحَدِيْثِ الْحَسَن
  8. الْقَوْلُ اللَّطِيْف فِي الْحَدِيْثِ الضَّعِيْف
  9. الْاِجْتِبَاء مِنْ شُرُوْطِ رِوَايَةِ الْحَدِيْثِ وَ التَّحَمُّلِ وَ الْأَدَاء
  10. شِفَاءُ الْعَلِيْلِ فِي قَوَاعِدِ التَّصْحِيْحِ وَالتَّضْعِيْفِ وَالْجَرْحِ وَالتَّعْدِيْل
  11. حُكْمُ السَّمَاعِ عَنْ أَهْلِ الْبِدَعِ وَالْأَهْوَاء
  12. الْخُطْبَةُ السَّدِيْدَة فِي أُصُولِ الْحَدِيْثِ وَفُرُوْعِ الْعَقِيْدَة
  13. إِعْلَامُ الْقَارِي عَنْ تَدْوِيْنِ الْحَدِيْثِ قَبْلَ الْبُخَارِي
  14. الْإِجْمَالُ فِيْ ذِكْرِ مَنِ اشْتَهَرَ بِمَعْرِفَةِ الْحَدِيْثِ وَنَقْدِ الرِّجَالِ

یہ بات پورے وثوق اور تیقن سے بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ علوم الحدیث کے باب میں ’اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقَادِرِيَّة‘ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایسا نادرعلمی مجموعہ ہے کہ جس کی گذشتہ چار صدیوں میں شاید ہی کوئی مثال مل سکے۔ برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص اور عالمِ عرب اور مغربی دنیا میں بالعموم کسی ایک شخصیت کے قلم سے اتنے موضوعات کے احاطے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ کام عصرِ حاضر میں شیخ الاِسلام دامت برکاتہم کی تجدیدی و اجتہادی کاوش ہے، جس کے ذریعے اُنہوں نے اسلام کے علمی ورثہ کی حفاظت، ترویج وفروغ اور نشأۃ ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ذیل میں قارئین کے لیے الموسوعۃ القادریہ کی آٹھ جلدوں میں سے ہر جلد اور اس میں موجود کتابوں کا مختصر تعارف پیش کیا جارہا ہے۔ تفصیلی تعارف کے لیے تعارفی کتابچہ کا مطالعہ مفید ہے، نیز موسوعۃ قادریۃ کا تعارف، امتیازات، اور تفردات پر شیخ الاسلام مد ظلہ العالی کا خطاب بھی میسر ہے۔

(جلد نمبر1) موضوع: حجیتِ حدیث

اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقَادِرِيَّة فِي الْعُلُوْمِ الْحَدِیْثِيَّة‘ کی پہلی جلد شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی تصنیف ”الْأَنْوَارُ الْبَهِيَّة فِي حُجِّيَّةِ السُّنَّةِ النَّبَوِيَّةِ“ پر مشتمل ہے۔ یہ مکمل کتاب حجیتِ حدیث سنت کے مضمون پر تحریر کی گئی ہے۔ جس میں حجیتِ سنت پر متعدد قرآنی نصوص اور احادیث نبویہ سے استدلال کرتے ہوئے منکرینِ حدیث و سنت کے اشکالات و شبہات کا رد کیا ہے۔ یہ کتاب اپنے عنوانات کی ندرت و جامعیت، ترتیب و تحقیق اور نئے دلائل وشواہد کے اعتبار سے حجیتِ سنت پر تصنیف کردہ جملہ قدیم وجدید کتابوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب حجیتِ سنت پر عام قاری کو جہاں بیشتر قدیم علمی تحقیقات سے متعارف کروائے گی، وہیں حجیتِ سنت پر ایسے بے شمار نئے استشہادات ودلائل بھی ملیں گے جن کا اس عنوان پر موجود سابقہ کتب میں ذکر نہیں ملتا۔

شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے اس کتاب میں حجیتِ حدیث و سنت کو اس احسن انداز میں قرآنی دلائل سے مزین فرمایا ہے کہ قرآن کو مصدر ماننے والے کے پاس حجیتِ سنت کے اقرار کے سوا کوئی اور صورت باقی نہیں رہتی۔ اِس جلد میں حجیتِ حدیث کے اثبات کے بیان میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی قدر و منزلت کو واضح کرنے کے لیے 100 سے زائد آیات کریمہ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اثباتِ احکام میں قرآن اورحدیث کے تسویہ کا قول ثابت کیا ہے، یعنی آپ نے دلائل سے ثابت کیا ہےکہ قرآن اور سنت اَحکامِ شرعیہ کے اثبات ميں حجیت کے اعتبار سے برابر ہیں۔

(جلد نمبر 2) موضوع: حصولِ علم حدیث کے لیے سفر، اسناد کی اہمیت، قواعدِ حدیث، تدوینِ حدیث

اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقَادِرِيَّة فِي الْعُلُوْمِ الْحَدِیْثِيَّة کی دوسری جلد میں درج ذیل تین کتابیں شامل ہیں:

1۔ پہلی کتاب ”عَوْنُ الْمُغِيْث فِي طَلَبِ وَحِفْظِ عِلْمِ الْحَدِيْث“ ہے۔ اس کتاب میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اپنی تحقیق کا موضوع علم حدیث کے حصول کے لیے سفر کو بنایا ہے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے علم حدیث کے لیے سفر کی فضیلت کو قرآن وحدیث سے بیان کیا ہے۔ پھر اس پر صحابہ کرام، تابعین و اتباع التابعین کی زندگیوں سے مثالیں پیش فرمائی ہیں کہ وہ کس طرح علمِ حدیث کے حصول کے لیے سفر کیا کرتے تھے۔ امت مسلمہ میں ہر زمانے میں اہلِ علم حدیث کے لیے سفر کرنے، اور اس کو یاد کرنے کے عمل کو بڑی اہمیت دیتے رہے ہیں۔ تاہم ہمارے زمانے میں حدیث کے لیے سفر، اور اس کو یاد کرنے کے لیے مذاکرہ معمولات کا حصہ نہیں رہا۔

اس مضمون کی اہمیت وناگزیریت کے پیش نظر شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے اس کتاب کو تصنیف فرمانے کا ارادہ کیا۔ طلب حدیث میں سفر پر مستقل کتابیں کم ہی تصنیف کی گئی ہیں۔ علوم حدیث کی تاریخ میں مستقل ’الرحلہ‘ کے عنوان سے خطیب بغدادی کی کتاب ’الرحلہ فی طلب الحدیث‘ ہی کو مقبولیت حاصل رہی۔ باقی ائمہ نے ہر زمانے میں اپنی کتب میں اس عنوان کو دیگر مباحث کے ساتھ ذیلی بحث کے طور پر ذکر فرمایا۔

بلا شبہ موضوع کی جامعیت، مکمل تحقیق وتخریج کے اعتبار سے اس کتاب کا مطالعہ، عام قاری کو اس مضمون پر سابقہ بہت سی کتابوں سے مستغنی کر دیتا ہے۔

2۔ الموسوعة القادرية کی دوسری جلد میں شامل دوسری کتاب ”تَرْغِيْبُ الْعِبَاد فِي فَضْلِ رِوَايَةِ الْحَدِيْثِ وَمَكَانَةِ الْإِسْنَاد“ ہے۔ یہ کتاب شیخ الاسلام مد ظلہ العالی کی جانب سے امت کے لیے ایک نادر علمی تحفہ ہے۔ اس کتاب میں اسناد کی اہمیت و ناگزیریت پر اور حدیث رسول کو آگے بیان کرنے کی فضیلت کو موضوعِ تحقیق بیانا گیا ہے۔

حدیثِ رسول کو روایت کرنے کے لیے سند کی اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اسی لیے سند کے علم کو دین کا جزء قرار دیا گیا ہے۔ اِسناد مومن کا ہتھیار اور عالم کی سیڑھی ہے۔ امت مسلمہ میں سند کا علم اس امت کے خصائص میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علم کی بدولت تاریخ میں لکھوکھ ہا راویانِ حدیث کے احوال منضبط ومحفوظ کر لیے گئے ہیں۔ عصر روایت تک بالخصوص اور اس کے بعد کے ادوار میں بالعموم تمام مشائخ اپنے اساتذہ کے احوال محفوظ کرتے آئے ہیں۔ تاریخ عالم میں اس فن کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔

اسناد کی ضرورت واہمیت پر مستقل تصنیف کی جانے والی تحقیق شدہ کتابیں بہت کم ہیں۔ اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اسے مستقل کتاب کی صورت میں ترتیب دیا اور سابقہ متفرق کتابوں میں بکھری تحقیقات کو جمع فرمایا۔

برصغیر میں بالخصوص اسناد کی اہمیت ایک عرصے سے زوال پزیر رہی ہے اور دین پڑھنے والے اساتذہ وطلبہ میں حدیث کی سند حاصل کرنے کا جذبہ ماند پڑتا جارہا ہے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس ماحول میں جہاں علوم حدیث کا احیاء فرمایا ہے، وہیں آپ نے اسناد کا بھی احیاء فرمایا۔ آپ نے عرب و عجم کے سفر کر کے عالم اسلام کے بڑے نامور مشائخ سے اجازات لیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پانچ سو (500) سے زائد اسانید رکھتے ہیں۔ اور اب بحمد للہ عرب وعجم سے علماء شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ سے اجازات لینے کے لیے سفر کرتے ہیں۔ الموسوعۃ القادریہ کی دوسری جلد میں شامل یہ کتاب ہر خاص وعام کے لیے حدیث میں سند کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا سبب بنے گی۔

3۔ الموسوعة القادرية کی جلد دوم کی تیسری کتاب ”الْاِكْتِمَال فِي نَشْأَةِ عِلْمِ الْحَدِيْثِ وَطَبَقَاتِ الرِّجَالِ“ ہے۔ علمِ حدیث کی نشاۃ وارتقاء پر یہ ایک جامع کتاب ہے۔ جو چیز اس کتاب کی امتیازی حیثیت کو مزید نکھار کر سامنے لاتی ہے وہ اس کتاب کے ابتدائی ابواب میں علم حدیث کے ان اسس وقوانین کا تذکرہ ہے جو خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اور اس کے رسول ﷺ نے احادیث مبارکہ میں قائم فرمائے ہیں۔ شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے اس کتاب میں ذیلی عنوانات قائم فرما کر بہت سی قرآنی نصوص اور احادیث مبارکہ سے ان اصول وقواعد کا ذکر فرمایا ہے۔

قرآن وحدیث میں وارد ہونے والے یہی عمومی ضابطے تھے کہ جن کی بدولت صحابہ کرام میں حفظ سنت وحدیث کا جذبہ پیدا ہوا، انہوں نے اس کی ناگزیریت کو سمجھا، اور عملا احادیث نبویہ کے ذخائر کو جمع فرما کر اپنے بعد آنے والے تابعین کو منتقل فرمایا۔

صحابہ کرام نے روایت کے اُن اصولوں اور معیارات پر مضبوطی سے عمل پیرا رہتے ہوئے سنت کی حفاظت کی، جو حضور نبی اکرم نے اپنی حیات مبارکہ میں حفاظتِ سنت کی غرض سے قائم فرمائےتھے۔ یہی اصول و ضوابط تھے، جن کی بنیاد پر بعد میں اُصولِ حدیث کا فن تشکیل پایا۔ صحابہ کرام رسول اللہ کی حدیث مبارک نقل اور روایت کرتے ہوئے اِن قواعد کو ملحوظ رکھتے۔ ان میں اہم یہ ہیں:

  1. جھوٹ کی حرمت و ممانعت
  2. فاسق کی خبر کو تحقیق کے بغیر قبول نہ کرنا
  3. راوی کی خبر کو قبول کرنے کے لیے شرطِ عدالت
  4. جھوٹی خبریں پھیلانے کی ممانعت

اس طرح کے دیگر درجنوں ضابطے شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے قرآن وحدیث سے استخراج فرمائے، جو علوم حدیث کے ارتقاء کا باعث بنے۔

علاوہ ازیں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس کتاب میں اس امر کی وضاحت کی کہ علوم حدیث کی نشاۃ و وارتقا ائمہ صحاح ستہ کے معاصر علماء سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ آپ نے تدوین حدیث میں ائمہ اربعہ کی خدمات کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ پھر آپ نے علومِ حدیث کے مرحلہ تدوین اور مرحلہ استقرار کا ذکر فرمایا اور بشمول امام خطابی اور امام حاکم دیگر علماء اسلام کا ذکر فرمایا جنہوں نے علوم حدیث پر گراں قدر خدمات پیش کی ہیں۔ شیخ الاسلام نے علومِ حدیث کے مرحلہ اکتمال کا ذکر بھی فرمایا اور ان مراحل میں امام ابن صلاح کی خدمات، امام نووی اور ان کے بعد کے زمانوں میں آنے والے مشائخ بالخصوص امام ابن حجر عسقلانی وغیرہ کا ذکر فرمایا اور یہ بات ثابت فرمائی کہ علوم حدیث کی تدوین کا سلسلہ بھی اوائل صدیوں سے ہی ہو چکا تھا۔

اس کتاب میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے علم الرجال، علم العلل علم الطبقات کا تعارف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان علوم پر لکھی گئی مشہور تصانیف کا تذکرہ کیا ہے ۔

(جلد نمبر3) موضوع: مصطلحات الحدیث اور حدیثِ صحیح، حسن اور ضعیف کی وضاحت

اس جلد میں درج ذیل چار کتب شامل ہیں:

1۔ اِس جلد میں شامل پہلی کتاب ”حُسْنُ النَّظَر فِي أَقْسَامِ الْخَبَر“ ہے۔ اقسام حدیث پر یہ کتاب انتہائی مفید اور جامع ذخیرہ ہے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس کتاب میں متواتر اور آحاد کو علیحدہ ذکر فرما کر ان دونوں کی ذیلی اقسام ذکر فرمائیں۔ آپ مد ظلہ العالی نے صرف احاد کی تریسٹھ(63) اقسام ذکر فرمائی ہیں۔

اس کتاب میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے علم الحدیث میں مستعمل اصطلاحات کی تعریف جیسے سنت اور اس کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اقسام، حدیث کا معنی اور دیگر مصطلحاتِ حدیث بیان کی ہیں۔ آپ نے اس کی ابتداء میں اہل الحدیث کے مراتب - محدث، حافظ، حجۃ وغیرہ - ذکر فرمائے۔ نیز یہ وضاحت فرمائی کہ حفاظِ حدیث کے لیے لاکھوں کے عدد میں حفظِ حدیث کی جو مقدار کتابوں میں روایت کی جاتی ہے، وہ لازم ضابطہ نہیں بلکہ اس کا اعتبار عرف پر کیا جائے گا۔

2۔ اس جلد میں شامل دوسری کتاب ”الْبَيَانُ الصَّرِيْح فِي الْحَدِيْثِ الصَّحِيْح“ ہے۔ یہ کتاب حدیث صحیح پر انتہائی اہم مباحث پر مبنی ایک جامع مجموعہ ہے۔ مباحث کے نادر انتخاب اور تحقیق وتخریج کے عمل نے اس کتاب کو ایسا در نایاب بنا دیا ہے کہ بالخصوص برصغیر پاک وہند میں جبکہ بالعموم عرب وعجم میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

ابتدائے کتاب میں حدیث صحیح کی تعریف، اس کی اقسام و مراتب، بخاری ومسلم کے مابین مسئلہ ترجیح، جیسی مباحث کا ذکر ہے۔ اس کے بعد شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس کتاب میں ان مباحث کو جمع کرنے کا التزام فرمایا ہے جن کا تعلق براہ راست دور حاضر میں پھیلائے جانے والے بہت سے علمی مغالطوں کی اصلاح سے ہے۔

ان اہم مباحث میں سے ایک بحث حدیثِ صحیح کا بخاری ومسلم میں عدم استیعاب، اور امام بخاری وامام مسلم کا اپنی صحیحين میں جملہ صحیح احادیث جمع فرمانے کا التزام نہ کرنا ہے۔ اس بحث پر شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے امہات الکتب سے بنیادی موقف دے کر اضافتاً آٹھ ائمہ کی مزید تصریحات بھی جمع فرما دی ہیں۔ جس سے یہ تصور بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ احادیث صحیحہ محض بخاری ومسلم میں ہی نہیں بلکہ لازمی طور پر دیگر کتب میں بھی ہیں۔

اس بحث کی تفصيل پیش کرنے کے بعد حدیث کی اصحیت میں پیش کی جانے والی ’ترتیب سبعی‘ (کتب کے سات درجات) کے مسئلے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے ان ائمہ کا ذکر فرمایا ہے جنہوں نے اصحیت کی اس ترتیب پر نقد کی ہے۔ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ صحت حدیث کے لیے اس کا صرف صحاح ستہ میں ہونے کا مطالبہ بھی درحقیقت درست نہیں۔

اس کتاب سے امت میں پھیلائے جانے والے عظیم فتنے کی جڑ کٹ جاتی ہے جو حدیث صحیح کے قبول ورد میں من مانی قواعد وضوابط وضع کرنے کی وجہ سے جمہور ائمہ اسلاف کے منہج سے منحرف ہے۔

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اپنی اس کتاب میں حدیث صحیح سے متعلق مباحث کو درجنوں امہات الکتب اور ان کی شروحات سے انتہائی عرق ریزی کے بعد یکجا فرما دیا ہے اور بہترین نظم، مکمل حوالہ جات کے ساتھ ان بکھرے موتیوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح سمیٹ دیا ہے۔ یوں یہ تصنیف ذہن میں حدیث صحیح پر اٹھنے والے تمام سوالات کی مکمل تشفی کرتی ہے۔

3۔ اِس جلد میں شامل اگلی کتاب ”اَلْقَوْلُ الْأَتْقَن فِي الْحَدِيْثِ الْحَسَن“ ہے۔ اس کتاب کو شیخ الاِسلام مد ظلہ العالی نے حدیثِ حسن کے موضوع پر تصنیف فرمایا ہے۔ اس کتاب میں ان افراد کی فکر کا رد ہے جو حدیث کی صرف دو ہی اقسام کے قائل ہیں، ایک حدیث صحیح، اور دوسری حدیث ضعیف۔ اس کتاب میں شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے حدیث حسن کی تعریف اس کی اقسام وغیرہ پیش کرنے کے علاوہ بہت سے شواہد کے ساتھ اس بات کا اثبات فرمایا کہ حدیث حسن کے موجد اول امام ترمذی نہیں ہیں بلکہ امام ترمذی سے بھی پہلے حدیث حسن بطورِ اصطلاح موجود تھی۔ لہذا یہ تصور کرنا صائب نہ ہو گا کہ امام ترمذی سے پہلے اگر کہیں کسی حدیث سے متعلق لفظِ حسن استعمال ہوا ہے تو وہ لازم طور پر لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ اصطلاحی معنی میں۔

علاوہ ازیں اس کتاب میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے بہت سے ائمہ کرام کی تصریحات کے ساتھ حدیث حسن کے مراتب، اس کا حکم اور تقسیم ذکر فرمائی ۔ پھر ان اصطلاحات کی وضاحت کی ہے جو صحیح اور حسن کا احاطہ کرتی ہیں اور یہ کہ صحیح اور حسن کا حکم سند پر ہے۔ اس کتاب کے اختتام پر حدیث حسن کے اہم مصادر کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

4۔ تیسری جلد میں شامل چوتھی کتاب الْقَوْلُ اللَّطِيْف فِي الْحَدِيْثِ الضَّعِيْف ہے۔ حدیثِ ضعیف پر یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کتاب حدیث کے رد وقبول میں مذہب جمہور سے انحراف برتنے والوں کا ناطقہ بند کر دینے والی ایک ایسی جامع کتاب ہے جس میں نادر مضامین پر سیکڑوں کتابوں میں بکھرے کام کو یکجا کیا گیا ہے۔ حدیث ضعیف کی مختلف جہات پر چار سو سے زائد حوالہ جات کے ساتھ یہ ایک ایسی جامع تحقیق شدہ کتاب ہے جو حدیث ضعیف پر معاصر ذہن میں اٹھنے والے جملہ اعتراضات کا مسکت جواب مہیا کرتی ہے ۔

شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے اس کتاب میں حدیث ضعیف کو قبول نہ کرنے کے فتنہ کی سرکوبی کی ہے۔ یہ سرکوبی اِقتضائے وقت اور فرمانِ اِمروز ہے۔ علم الحدیث سے نابلد لوگ کسی حدیث کو ضعیف کہہ کر اسے قبول کرنے سے یکسر انکار کر دیتے ہیں۔

اس کتاب میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے ضعیف، مضعّف اور موضوع کا فرق واضح فرمایا ہے۔ روایت حدیث کے جواز میں آپ نے امام سفیان ثوری، عبد اللہ بن مبارک وغیرہم سے لے کر امیر صنعانی تک کے انیس (19) جلیل القدر اہل علم کی آراء جمع فرما دی ہیں جن کے نزدیک حدیث ضعیف کو روایت کرنا بالکل درست اور صائب ہے۔

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اس کتاب میں حدیث ضعیف پر عمل کے تین مذاہب ذکر فرما کر مذہب جمہور کو ثابت فرمایا۔ مستزاد تلقی بالقبول کے مسئلے پر سیر حاصل بحث فرمائی۔ نیز حدیث ضعیف کو رائے اور قیاس پر فوقیت دینے کے مسئلے کو واضح فرمایا۔ اس بات کو ثابت کیا کہ جمہور ائمہ ہمیشہ سے حدیث ضعیف کو عقل ورائے پر فوقیت دیتے آئے ہیں۔ یہی حنفیہ کا مذہب بھی ہے۔

شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نےحدیث ضعیف پر مذاھب اربعہ کا موقف پیش فرمانے کے ساتھ ائمہ صحاح ستہ کے مذہب کو بھی بیان فرمایا ہے۔ مستزاد تاریخ میں جن ائمہ کی طرف سے بالعموم حدیث ضعیف کے رد کا قول نقل کیا جاتا ہے، شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے ان ائمہ کی اپنی تحریروں سے ایسے شواھد جمع فرما دیئے ہیں جو یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ خود حدیث ضعیف پر عمل کے قائل تھے۔

کسی حدیث کو ضعیف قرار دے کر ہزار ہا احادیث سے اکتساب فیض اور اکتساب علم سے محروم کردینے والی فکر کا شیخ الاسلام نے قلع قمع فرما دیا ہے۔ بلا شبہ یہ کتاب ہر خاص وعام کے لیے نہایت مفید ہے۔

(جلد نمبر4) موضوع: آداب ِ روایت، اصولِ جرح و تعدیل، مسئلہ اہلِ بدعت سے روایت، اصولِ حدیث اور فروعاتِ عقیدہ کا قرآن حدیث سے اثبات

الموسوعۃ القادریہ کی چوتھی جلد میں درج ذیل کتب شامل ہیں:

1۔ الموسوعة القادرية کی اس جلد میں پہلی کتاب: الْاِجْتِبَاء مِنْ شُرُوْطِ رِوَايَةِ الْحَدِيْثِ وَالتَّحَمُّلِ وَالْأَدَاء ہے۔ حدیثِ رسول کو روایت کرنے کے آداب، اور حدیث کے تحمل واداء کی شرائط جیسی اہم مباحث کو شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے اس قیمتی کتاب میں جمع فرمایا ہے۔ آپ نے کتاب کا آغاز روایت حدیث کے مفہوم اور اس کی شروط سے کیا ہے۔ پھر حدیثِ رسول کو پڑھنے پڑھانے کےآداب کا تذکرہ فرمایا ہے۔

اس کتاب میں شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے روایت حدیث کے تیرہ (13) آداب ذکر فرمائے ہیں۔ آپ نے حدیث رسول کی تعلیم وتعلم کے ضروری آداب کی بحث کے اختتام پر آدابِ روایت پر تحریر شدہ اہم تصانیف کے ذکر پر کیا ہے۔

اس کتاب میں تحملِ حدیث کی تعریف بیان کی گئی ہے، نیز اس امر کی وضاحت درج ہے کہ کس عمر کے راوی کی حدیث کی روایت درست تسلیم کی جائے گی،تحمل اور اداء کے طریقے ائمہ کی کتب سے اخذ کرتے ہوئے بیان کیے ہیں اور ہر طریقے کے ذیل میں اس کی صورت، حکم، رتبہ، اس کی شروطِ صحت اور روایت لینے والے کے لیے اداء کے الفاظ کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔

حدیث کے ہر طالب علم کو حدیث کی تعلیم لینے سے پہلے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ قراءت حدیث اور فہم حدیث سے پہلے حدیث پڑھنے پڑھانے کے آداب کے ساتھ ساتھ تحمل واداء کے طریقوں سے واقفیت حاصل ہو جائے۔

2۔ اس جلد میں شامل اگلی کتاب کا عنوان: شِفَاءُ الْعَلِيْلِ فِي قَوَاعِدِ التَّصْحِيْحِ وَالتَّضْعِيْفِ وَالْجَرْحِ وَالتَّعْدِيْل ہے۔ یہ کتاب دین کے ہر طالب علم کے لیے یکساں مفید اور انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے حدیث رسول کی تصحیح و تضعیف اور جرح وتعدیل کے کل بہتر ’72‘ ایسے اصول بیان فرمائے ہیں جو آپ نے علوم الحدیث پر زندگی بھر کے طویل مطالعہ کے دوران منتخب فرمائے۔

یہ بہتر آرٹیکلز علومِ حدیث کی تاریخ میں ہر دور کے جمہور ائمہ کرام کے نزدیک ایک مسلّمہ دستور کی حیثیت رکھتے رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا دستور ہے، جس میں حدیث کی تصحیح وتضعیف سے متعلق اہم ضابطے، جرح وتعدیل سے متعلق عمومی قواعد، ان قواعد پر اہم مثالیں، ائمہ جرح وتعدیل کے ہاں استعمال شدہ الفاظ اور ان کی دلالات، جرح وتعدیل کے مراتب تک تمام اہم مباحث کو ذکر کر دیا گیا ہے۔

فی زمانہ جب ہر کوئی، ہر کسی پر جرح کر رہا ہے۔ جہاں اکثر جرح کسی نہ کسی مذہبی تعصب کے نتیجے میں ہے یا ذاتی حسد وعناد کے نتیجے میں ہے، یا منافرت کے نتیجے میں ہے۔ ایسے ماحول میں جرح وتعدیل پر اور حدیث کی تصحیح وتضعیف پر ایسے دستوری ضوابط کو امت کے لیے پیش کرنا شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کا تجدیدی کارنامہ ہے۔

یہ 72آرٹیکلز، جو در حقیقت ہر زمانے کے جمہور ائمہ کے ہاں مسلم ضابطوں پر مبنی ہیں، محض علم حدیث کے طالب کے لیے ہی افادیت نہیں رکھتے بلکہ علم دین کے ہر طالب کے لیے ان کا مطالعہ ناگزیر ہے تاکہ معاشرے میں دین کی نمائندگی کرنے والے حضرات جہاں ایک دوسرے پر مذہبی تعصب اور ذاتی تحاسد کی بنا پر جرح کرنے سے گریز کریں، وہیں امت میں وہ گروہ جو حدیث کے رد وقبول میں من مانے ضوابط اختیار کیے ہوئے ہے، اپنی اصلاح کرتے ہوئے حدیث کی تصحیح وتضعیف پر جمہور کے مذہب پر واپس لوٹ آئے۔

3۔ الموسوعة القادرية کی چوتھی جلد میں شامل تیسری اہم کتاب: حُكْمُ السَّمَاعِ عَنْ أَهْلِ الْبِدَعِ وَالْأَهْوَاء ہے۔ اس کتاب میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اہل بدعت سے روایت لینے کے مسئلہ کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ کتاب اہل اسلام میں ’بین المسالک‘تکفیر وتضلیل کرنے کی روش اور آپس میں ایک دوسرے سے متعلق متشدد افکار ونظریات رکھنے کے طرزِ عمل کی نفی کرتی ہے۔

اس کتاب میں شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے آٹھ مختلف جہات سے بدعت کی اقسام کا ذکر فرمایا ہے۔ نیز بدعت کی تقسیم پر ابن حزم اندلسی سے لے کر علامہ آلوسی تک بائیس (22) اجل علماء کے اقوال بھی پیش فرما دیے ہیں، جس سے یہ بات خوب واضح ہو گئی ہے کہ محض بدعت کا لفظ بول کر اس سے ضلالت وگمراہی کا معنی لینا یا تو کم علمی کے سبب ہے یا یقینی طور پر علمی خیانت ہے۔

یہاں اس بات کی طرف انتباہ ناگزیر ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص اور عالم عرب کے بعض حلقوں میں بالعموم عقیدے کے باب میں فروعی اِختلافات کی بناء پرکفر وشرک اور بدعت و ضلالت کا فتویٰ لگانے کا رُجحان بہت عام ہو چکا ہے۔ علماء، و واعظین اور مبلغین اپنے فکری و نظری اِختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو کافر و مشرک، گستاخ، بدعتی اور ضالّ ومضلّ کہہ کر دائرۂ اسلام سے یا کم از کم اَہلِ سنت یا سوادِ اَعظم سے خارج قرار دینے میں ذرا برابر تأمل نہیں کرتے۔ اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ بدعت کی اصطلاح کا بے باک اطلاق کر کے دوسروں کو بدعتی، گمراہ، خارج اَز اِسلام قرار دینا کبھی سلف صالحین اور متقدمین کا طرزِ عمل نہیں تھا۔

اس کتاب میں بدعت کے بنیادی تصور کو خوب واضح کرنے کے بعد شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اہل اھواء اور بدعتیوں سے روایت پر ائمہ حدیث کے مذاہب ذکر فرمائے۔ اور جمہور کا موقف واضح فرمایا۔ اختتام پر اہل بدعت سے روایت لینے پر بالخصوص امام بخاری ومسلم کا مذہب بیان فرمایا تاکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جائے کہ امام بخاری ومسلم، جو کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتب شمار ہوتی ہیں، اپنی صحیحین میں بدعتی کی روایت لینے کو درست سمجھتے ہیں تو ہم کس بنیاد پر اپنے اوپر علم کے دروازے بند کر دینا چاہتے ہیں؟ اور جو کوئی بھی ہم سے اختلاف کرے، بنا تنقیح مسئلہ، بنا اختلاف کی درجہ بندی کیے، اس سے علم لینا تو درکنار ہم اس کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے۔

شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے اس کتاب میں یہ بات واضح فرمائی کہ وہ ائمہِ حدیث جن کے طفیل پورا دین اُمت تک منتقل ہوا اور جن کے اوپر پوری امت کا اعتماد ہے، انہوں نے اپنی صحیح کتبِ حدیث میں ایسے راویوں سے احادیث لینے کے عمل کو روا جانا، جن کے معتقدات بدعت پر مبنی تھے تو آج ہم کیوں ایسے فروعی مسائل میں ایک دوسرے کو واصل جہنم کرنے پر مُصر ہیں۔ ہم کس بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا تو کجا، ایک دوسرے کا وجود بھی پسند نہیں کرتے؟

4۔ اس جلد میں شامل ایک اور اہم اور نادر الوجود کتاب الْخُطْبَةُ السَّدِيْدَة فِي أُصُولِ الْحَدِيْثِ وَفُرُوْعِ الْعَقِيْدَة ہے۔ یہ کتاب شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کا تفرد ہے جو آپ کی قوتِ اجتہاد اور قوتِ استنباط کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی علم حدیث کی تاریخ میں پہلی کتاب ہے جس میں فروعِ عقیدہ کے بیان کے ذیل میں ایسے الفاظ کا سہارا لیا گیا ہے جو الفاظ بذات خود مصطلحات حدیث ہیں۔ مستزاد اس کتاب میں حدیث کی مصطلحات پر قرآنی آیات سے استشہاد بھی پیش کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں شیخ الاِسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ نے وحی کی اقسام کا ذکر فرمایا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے خصائص و اِمتیازات اور کمالات کا تذکرہ کیا ہے اور واضح کیا ہے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہرگز کسی دوسرے کے قول کی مانند نہیں ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کا فعل کسی دوسرے کے فعل کی مانند نہیں اور آپ ﷺ کا راستہ، عطا، رضا، فضل، غناء، آپ ﷺ کی بارگاہ کا ادب اور دیگر خصائص و کمالات اور عطایا جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو سرفراز فرمایا ہے، محض آپ ﷺ ہی کی ذاتِ با برکت کے ساتھ خاص ہیں۔ شیخ الاِسلام مدظلہ العالی نے اس کتاب میں وحی کی اقسام، شبِ اِسراء و معراج حضور نبی اکرم ﷺ کے رؤیت باری تعالیٰ کو بیان کیا ہے۔

فروع عقیدہ کے بیان کے ساتھ اقسام حدیث پر اور تحمل وادا کی صورتوں پر قرآنی استشہاد اس کتاب کی انفرادیت ہے۔ مثال کے طور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے حدیث صحیح، حدیث حسن اور حدیث ضعیف کا استنباط سورۃ فاطر کی درج ذیل آیت کریمہ سے کیا ہے:

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللهِ ذٰلِکَ هُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ.

(فاطر، 35: 32)

اس آیت کریمہ میں ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ کا اشارہ حدیث ضعیف کی طرف، وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ کا اشارہ حدیث حسن کی طرف ہے اور وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ کا اشارہ حدیث صحیح کی طرف ہے۔

شیخ الاسلام مد ظلہ العالی نے اِ س آیت کریمہ سے دوسرا استنباط یہ کیا ہے کہ اگر ارتقاء کی شرائط پوری کی جائیں تو تینوں درجوں میں سے آخری درجہ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ بھی مردود نہیں۔ آیت کریمہ کے مطابق تینوں درجات وارثینِ کتاب کے ہیں اور چنیدہ بندوں میں داخل ہیں اور ان کے لیے نعمتِ قبولیت کا اعلان ہے۔

علم الحدیث کے بے شمار قواعدہیں جن کا استنباط شیخ الاِسلام مدظلہ العالی نے بہ نگاہِ تعمق قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے کیا ہے۔ اس جامعیت کے ساتھ یہ ایسا نادر و نایاب اُسلوب ہے جسے شاید گذشتہ بارہ سوسال کی تاریخ میں کسی نے نہیں اپنایا۔

(جلد نمبر5) موضوع: امام بخاری سے قبل تدوینِ حدیث کی تاریخ

الموسوعة القادرية کی یہ جلد: إِعْلَامُ الْقَارِي عَنْ تَدْوِيْنِ الْحَدِيْثِ قَبْلَ الْبُخَارِي کے نام سے موسوم کتاب پر مشتمل ہے۔ شیخ الاسلام مد ظلہ العالی کی یہ کتاب تدوین حدیث پر قدیم وجدید تحقیقات کی جمع وترتیب اور مفید اضافہ جات پر مشتمل ایک نادر تحفہ ہے۔ جو قبل از بخاری تدوین حدیث پر جملہ اعتراضات کا کافی وشافی جواب پیش کرتی ہے۔

تدوین حدیث پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ رسول مکرم ﷺ کے پردہ فرما جانے کے دو صدیوں بعد ہوئی۔ منکرین حدیث ایک جھوٹا مفروضہ گھڑ کر اِس کے ذریعے حجیتِ حدیث کے عقیدے پر تشکیک کے ہتھیار سے حملہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلا ذخیرہ حدیث صحاح ستہ کی شکل میں مرتب ہوا، یا ان کی طرف سے چند دیگر معروف کتابوں، جیسے مسند احمد بن حنبل، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق اور موطا امام مالک وغیرہ کا ذکر، یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث کے اوائل مجموعے ہیں، جن کا وجود دوسری صدی کے اختتام اور تیسری صدی کے شروع میں سامنے آیا۔

اس کتاب میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے پچاس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر فرمایا جن کے پاس کسی نہ کسی صورت میں، کسی نہ کسی عدد میں کتابت شدہ احادیث نبویہ موجود تھیں۔ پھر ان میں سے کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کے پاس مستقل صحائف تھے اور کئی کئی کتب تھیں۔

مستزاد آپ نے اس کتاب میں اول تا آخر تابعین کے اوائل زمانے سے لے کر امام بخاری سے کم و بیش دس برس پہلے تک کے 100 سے زائد شخصیات کا تذکرہ فرمایا ہے جن کے پاس احادیث لکھی موجود تھیں۔ نیز ان میں کم و بیش 30ایسی شخصیات تھیں جن کے بارے میں تصریح ہے کہ ان کے پاس بہت سے صحائف موجود تھے۔

اِس کتاب میں شیخ الاِسلام مدظلہ العالی نے اس شبہ کا تجزیہ وتحلیل کرتے ہوئے اس کا ردّ اور ابطال کیا ہے اور ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کیا ہے کہ تدوین سنت و حدیث کی ابتداء دورِ نبوی ﷺ میں ہی ہو چکی تھی۔

شیخ الاِسلام مدظلہ العالی نے یہ کتاب لکھ کر تدوین حدیث پر اعتراض کی آڑ میں فتنہ انکارِ حدیث کا کلی سدِّباب کر دیا ہے۔ یہ ایک فقید المثال تاریخی و تحقیقی کارنامہ ہے۔ آپ نے صحیح بخاری کی تدوین سے قبل دو صدیوں میں 600 کے قریب چھوٹے بڑے تحریری ذخائرِ أحادیث ثابت کیے ہیں، جن کا ذکر کتب میں آیا ہے۔

(جلد نمبر 6 تا 8) موضوع: معرفتِ حدیث اور اسماء الرجال

اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقَادِرِيَّة فِي الْعُلُوْمِ الْحَدِیْثِيَّة کی آخری تین جلدوں کا عنوان شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے الْإِجْمَالُ فِيْ ذِكْرِ مَنِ اشْتَهَرَ بِمَعْرِفَةِ الْحَدِيْثِ وَنَقْدِ الرِّجَالِ مقرر فرمایا ہے۔ یہ تین جلدیں معرفتِ حدیث اور نقدِ رجال کے فن میں شہرت اور مہارتِ تامہ رکھنے والی ایک ہزار شخصیات کے تذکرہ پرمشتمل ہیں۔ رجالِ حدیث پر یہ کتاب اپنے منہج اور اسلوب میں کوئی مثال نہیں رکھتی۔ اس کتاب میں منتخب کردہ شخصیات کے تراجم بالتفصیل ذکر کرنے کا اہتمام نہیں کیا گیا، بلکہ صرف ان پر کلماتِ تعدیل کو ذکر کیا گیا ہے۔ نیز بعض مشہور ائمہ سے متعلق کلمات تعدیل کے ساتھ ساتھ ان ائمہ کے زہد وورع کا ذکر بھی کر دیا گیا ہے۔ تاکہ ہر خاص وعام کو جہاں ان شخصیات کی علمی ثقاہت کا علم ہو، وہیں ان کے تقوی وپرہیزگاری سے آگہی نصیب ہو۔ ایک عام قاری بھی یہ جان سکے کہ یہ ائمہ فنِ حدیث پر مہارت کے ساتھ ساتھ صاحبان زہد وورع بھی تھے۔

شیخ الاِسلام مد ظلہ العالی نے کتب التراجم والرجال سے ایک ہزار ایسی یگانہ روزگار شخصیات کا انتخاب کیا ہے جن کو تاریخ رجال میں حفاظ، نقاد، ثقات شمار کیا جاتا رہا ہے۔ اس کتاب میں عام قاری کی سہولت کے لیے تمام شخصیات سے متعلق معلومات کو نام، نسبت، کنیت، شیوخ، تلامیذ اور علمی مقام و مرتبہ کے مستقل عنوانات کے تحت درج کیا گیا ہے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے ان منتخب رجال (شخصیات) کے طبقات ان کی وفیات کے حساب سے تقسیم کیے ہیں۔ آپ نے اس میں تلمذ اور رؤیتِ شیخ، علاقے، لقاء وغیرہ ذکر کرنے کا اہتمام نہیں کیا۔

حرفِ آخر

قارئین محترم!”اَلْمَوْسُوْعَةُ الْقَادِرِيَّة فِي الْعُلُوْمِ الْحَدِیْثِيَّة“ کی آٹھ جلدوں میں موجود 14 کتب میں سے ہر کتاب کا ایک ایک صفحہ علم کے موتیوں کا بحرِ ذخار ہے۔ ہم یقینا اس موسوعہ کے کما حقہ فنی محاسن بیان نہیں کر سکتے۔ علوم الحدیث کا یہ گراں قدر انسائیکلو پیڈیا اہلِ علم و فن کے لیے ایک نادر و نایاب ارمغاں اور بے نظیر و بے مثال تحفہ ہے۔ اس موسوعہ کی اصل قدر و قیمت کا اندازہ اس کے مطالعہ کے بعد اہلِ علم و فن ہی کر سکیں گے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شیخ الاِسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ کی اس کاوشِ علمی سے کما حقہ مستفید ومستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سنت رسول اور حدیث نبوی کا کامل فہم عطا کرے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ )