ابتدائیہ
زندگی ایک مسلسل سفر ہے، اور ہر سفر کے لیے زادِ راہ ضروری ہوتا ہے۔ مگر یہ سفرِ حیات صرف جسم کا نہیں، روح اور فکر کا بھی ہے۔ اس کے لیے سب سے قیمتی زادِ راہ علم ہے، اور علم کا سرچشمہ مطالعہ۔
کتاب انسان کی بہترین رفیق ہے— نہ تھکتی ہے، نہ شکایت کرتی ہے، مگر جو سننے والا دل رکھے، اسے جہانِ معانی سے آشنا کر دیتی ہے۔
مطالعہ، دراصل اس خاموش گفتگو کا نام ہے جو انسان اور علم سکے درمیان جاری رہتی ہے، اور یہی گفتگو انسان کو شعور، فہم اور بصیرت کے مراتب تک لے جاتی ہے۔
مطالعہ: پہلی وحی کا پیغام
مطالعہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید کی پہلی وحی ہی ’’اِقْرَأْ‘‘ (پڑھ) کے حکم سے شروع ہوئی۔ یہ الفاظ انسانیت کی تاریخ میں علم کے سفر کا پہلا چراغ بنے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مطالعہ صرف دنیاوی ترقی نہیں، بلکہ روحانی بلندی کا بھی ذریعہ ہے۔
حضرت امام غزالی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’علم کے بغیر انسان جانور کی مانند ہے۔ ‘‘
علم انسان کو وہ روشنی عطا کرتا ہے جو دل کو منور اور زندگی کو با مقصد بناتی ہے۔
مطالعہ کا مقصد اور طریقہ
مطالعہ محض کتابوں کے اوراق پلٹنے کا عمل نہیں، بلکہ ایک عبادت ہے جو نیت کی پاکیزگی سے قبولیت پاتی ہے۔
اگر مطالعہ کا مقصد اللہ کی رضا، انسانیت کی فلاح، اور شعور کی بیداری ہو، تو یہی عمل انسان کو معرفتِ الٰہی تک پہنچا دیتا ہے۔
مطالعہ کے چند سنہری اصول
1. نیت کی خلوصیت: مطالعہ محض وقت گزاری نہیں، بلکہ رضائے الٰہی کی نیت سے ہو۔
2. مقصد کا تعین: ہر مطالعہ ایک واضح ہدف کے تحت ہو تاکہ علم بےثمر نہ رہے۔
3. استقامت: مطالعہ کو عادت بنائیں، روزانہ اس کے لیے وقت مقرر کریں۔
4. درست انتخاب: ایسی کتب پڑھیں جو علم میں اضافہ کریں اور کردار میں نکھار پیدا کریں۔
5. عمل کے ساتھ علم: علم اگر کردار میں نہ اترے تو بوجھ بن جاتا ہے؛ اس لیے علم پر عمل لازم ہے۔
مراکزِ علم — تہذیبوں کی بنیاد
مراکزِ علم صرف عمارتیں نہیں ہوتیں، یہ وہ مقامات ہیں جہاں فکر جنم لیتی ہے، کردار بنتے ہیں، اور قومیں اٹھتی ہیں۔
یہی مراکز علم و تحقیق کے چراغ جلاتے ہیں، یہی تربیت گاہیں قوموں کو جمود سے نکال کر حرکت اور خدمت کے راستے پر گامزن کرتی ہیں۔
مطالعہ اور عصرِ حاضر
آج جب دنیا تیز رفتار ترقی کی دوڑ میں مصروف ہے، تو مطالعہ کی عادت کم ہوتی جا رہی ہے۔ مگر یاد رکھیے۔ ”جو قومیں مطالعہ سے دور ہو جاتی ہیں، وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ‘‘ ”مطالعہ ہی وہ قوت ہے جو ذہن کو وسعت، دل کو گہرائی اور قوم کو استقامت بخشتی ہے۔‘‘
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے پھر سے مراکزِ علم و عرفان بنیں، تو ہمیں مطالعہ کو دوبارہ اپنی زندگی کا معمول بنانا ہوگا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری — امن، اعتدال اور احیائے امت کے معمار
اس دورِ فتن میں بڑھتے ہوئے معاشرتی مسائل، بگڑتے رویے، اور عدمِ برداشت اس بات کا ثبوت ہیں کہ اعتدالِ فکر اور علمِ ,کردار کا دامن چھوٹ چکا ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں تنگ نظری، فرقہ واریت اور تعصب نے قوم کے دلوں میں ایسی دراڑیں ڈالیں کہ ایک دوسرے کے مسالک اور عقائد کے ماننے والوں کو مسلمان کہنا بھی گوارا نہ رہا۔ ایسے انتشار اور نفرت کے ماحول میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1980ء میں اتحادِ امت اور اعتدال کی صدا بلند کی۔
آپ نے “منہاج القرآن” کے دروازے ہر مسلک، ہر طبقے اور ہر قوم کے لیے کھول دیے۔ آپ نے مناظرانہ کلچر کو ختم کرکے علمی مکالمہ اور دلائلِ قرآنی کا چلن عام کیا،یوں قوم کو نفرت کے اندھیروں سے نکال کر رواداری، علم و محبت کے نور میں داخل کیا۔
پیروی کا صراط
اگر اس عہدِ ظلمت میں امن کی کوئی روشنی دکھائی دیتی ہے،اگر امت میں دوبارہ امید کی کوئی کرن جاگی ہے،
تو یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکر،ان کی بصیرت، ان کی قربانیوں، اور ان کے اخلاص کا ثمر ہے۔
آپ نے امت کو بتایا کہ علم کے بغیر امن نہیں، اور محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں۔
صالح معاشرہ کی تشکیل — مرکزِ علم کی روشنی میں
قوموں کی ترقی اور بقا محض دولت، طاقت یا سیاست سے نہیں بلکہ علم، اخلاق اور کردار سے وابستہ ہوتی ہے۔
جب دل علم سے روشن ہوں، ذہن فکر سے منور ہوں اور کردار ایمان کی خوشبو سے معطر ہو، تو معاشرہ خود بخود صالح بن جاتا ہے۔
علم دراصل وہ روشنی ہے جو انسان کو اپنے خالق، اپنے مقصدِ حیات، اور اپنی ذمہ داری کا شعور عطا کرتی ہے۔
اسی روشنی کو عام کرنے والے مراکزِ علم دراصل امت کے لیے وہ چراغ ہیں جو قوم کے فکری اندھیروں کو دور کرتے ہیں، دلوں میں ایمان کی حرارت جگاتے ہیں، اور کردار کو سنتِ نبوی ﷺ کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔
قرآنِ کریم میں ارشادِ ربانی ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ
(آلِ عمران: 110)
یعنی: "تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کی گئی، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو، اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ "
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ امتِ مسلمہ کی اصل پہچان اصلاحِ معاشرہ ہے۔ نہ صرف خود نیکی اختیار کرنا بلکہ دوسروں کو نیکی کی دعوت دینا بھی ایمان کا فریضہ ہے۔
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ
(بخاری)
’’تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ ‘‘
یعنی اصلاحِ معاشرہ صرف علما یا اداروں کی نہیں بلکہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ لیکن علم کے بغیر اصلاح ممکن نہیں۔
آج بھی اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ امن، پاکیزگی، عدل اور خیر کا گہوارہ بنے، تو ہمیں پھر سے علم اور اخلاق کے ان مراکز سے وابستہ ہونا ہوگا۔ مساجد میں تعلیم کے حلقے، گھروں میں قرآن و سنت کی فضا، خواتین و نوجوانوں کے لیے تربیتی مجالس— یہ سب دراصل صالح معاشرے کے ستون ہیں۔
منہاج القرآن کے مراکز علم
تحریک منہاج القرآن کے قیام کے مقاصد میں سے ایک بنیادی مقصد" ترویج ِعلم اور اہتمامِ تربیت" ہے۔ اسی مقصد کے پیش نظر ہر فرد تک علم کو پہنچانا، علم کے کلچر کو دوبارہ Revive کر کے علم کی ثقافت کو زندہ کرنا اور ہر شخص کو علم کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرنا اور فرد کو خاندان اور معاشرے کا مفید رکن بنانا ہے۔
علم نور ہے اور نور کے بغیر ماحول اور زندگی ظلمت اور تاریکی ہوتی ہے۔ ہماری زندگیوں میں جتنی بھی مشکلات، تلخیاں اور الجھنیں ہیں ان کی ایک بڑی وجہ جہالت اورعلم کا فقدان ہے۔
علم ایک ایسا انمول خزانہ ہے جو انسان کو صاف و شفاف سوچ اور بلند خیالات سے نوازتا ہے۔ یہ نہ صرف عادات کو بدلتا ہے، بلکہ انسان کے اندر رویوں میں ایک مثبت انقلاب بھی برپا کرتا ہے۔ جب علم انسان کے حصے میں آتا ہے، تو اُس کے افکار و خیالات میں نیا شعور پیدا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں اُس کی زندگی میں نہ صرف بہتر تبدیلی آتی ہے، بلکہ وہ دوسروں کے ساتھ اپنے برتاؤ میں بھی ایک واضح فرق محسوس کرتا ہے۔
علم انسان کے دل و دماغ میں وہ بیداری اور احساس پیدا کرتا ہے جو اسے صحیح راستے کی پہچان عطا کرتا ہے۔ یہ احساس انسان کو اُٹھ کھڑا ہونے، بلند ارادے بنانے اور نیک عمل کی طرف مائل کرتا ہے۔ اگر علم نہ ہو تو انسان ان مراحل کو طے نہیں کر سکتا اور وہ زندگی کی حقیقتوں سے بے بہرہ رہ جاتا ہے۔
تو آئیے!علم و شعور کے ذریعے ایک فلاحی معاشرے کی تعمیر میں حصہ لیجئے، کیونکہ یہی وہ راہ ہے جو ہم سب کی ترقی اور کامیابی کی ضامن ہے۔
تحریک منہاج القرآن نے ہمیشہ روایتی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ، علم کی ترویج کے لیے غیر روایتی ذرائع کو بھی اختیار کیا ہے۔ کبھی عوامی تعلیمی مراکز کے ذریعے گاؤں گاؤں میں تعلیم و تربیت کے مراکز قائم کیے، اور کبھی "آئیں دین سیکھیں" اور "عرفان القرآن کورسز" اور "Diploma in Quran Studies" جیسے پروگرامز کے ذریعے ملک کے کونے کونے تک قرآن و سنت کی تعلیمات پہنچائیں۔
آج تحریک منہاج القرآن ایک بار پھر افرادِ معاشرہ کی تعلیم، تربیت اور شعور کی بیداری کے لئے سکولز، کالجز، مدارس، اکیڈمیز، مساجد اور گھروں میں علمی مراکز قائم کر رہی ہے۔ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے افرادِ معاشرہ کی اصلاح اور اُن کی تعلیم و تربیت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے آئندہ پانچ سالوں میں ملک بھر میں 25 ہزار مراکز علم کے قیام کا عزم فرمایا ہے۔
یہ عزم نہ صرف معاشرتی اصلاح کا پیش خیمہ ہے، بلکہ ایک ایسے روشن مستقبل کا آغاز ہے جہاں ہر فرد علم کی روشنی سے منور ہو گا اور معاشرہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہو گا۔
مرکزِ علم کے بنیادی اہداف
1. قرآنِ مجید کے معانی و مفاہیم کی گہری سمجھ بوجھ پیدا کرنا اور سنتِ مصطفیٰ ﷺ پر عمل کی رغبت دلانا۔
2. اسلام کے حقیقی عقائد، افکار اور نظریات کی خالص اور مستند تعلیم فراہم کرنا۔
3. ذاتِ مصطفیٰ ﷺ سے قلبی محبت اور والہانہ عشق کا تعلق مضبوط کرنا، تاکہ اسی تعلق کے ذریعے اطاعت و اتباعِ رسولﷺ کا جذبہ پروان چڑھے۔
4. معاشرے میں اسوہ حسنہ ﷺ کو انفرادی و اجتماعی سطح پر عملی صورت میں ڈھالنے کی جدوجہد کرنا۔
5. اخلاقی، روحانی اور معاشرتی تطہیر کے ساتھ ساتھ تزکیۂ نفس اور اصلاحِ باطن کی تربیت دینا۔
6. افرادِ معاشرہ کی فکری و ذہنی بالیدگی، جسمانی طہارت اور صحتِ عامہ کا شعور بیدار کرنا۔
7. انسان دوستی، احترامِ آدمیت اور خدمتِ خلق کے جذبے کو پروان چڑھانا۔
8. روزمرہ زندگی سے متعلق فقہی رہنمائی فراہم کرنا تاکہ افراد دینی معاملات میں بصیرت حاصل کر سکیں۔
9. محض حقوق کا مطالبہ کرنے کی بجائے، فرض شناسی اور ذمہ داری کے احساس کو فروغ دینا؛ اس مقصد کے لیے حقوق و فرائض کی متوازن تعلیم پر زور دینا۔
10. معاشرے میں باہمی رواداری، اخوت، بھائی چارے، امن و آشتی اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینا۔
مرکزِ علم: ایک جامع علمی و تربیتی ماڈل
1. یہ مرکز، تربیت گاہ یا اکیڈمی کے طرز پر ایک ہمہ گیر عوامی علمی پلیٹ فارم ہوگا، جہاں علم و آگہی کے ساتھ تربیتِ کردار کا اہتمام کیا جائے گا۔
2. مرکزِ علم کا تعلیمی دورانیہ ایک سال پر مشتمل ہوگا، جسے تین سمسٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے، ہر سمسٹر کی مدت چار ماہ ہوگی، اور ہر سمیسٹر کے لیے مخصوص نصاب ترتیب دیا گیا ہے۔
3. تدریس کا نظام ہفتہ وار دو گھنٹے پر محیط ہوگا۔ حلقہ جات کے منتظمین کو اختیار ہوگا کہ وہ مقامی حالات اور شرکاء کی سہولت کے پیش نظر تدریس کا وقت تقسیم کریں، مثلاً دو دن ایک، ایک گھنٹہ یا ایک ہی دن دو گھنٹے کی نشست رکھیں۔
پہلا سال: نصابِ تعلیم
مرکزِ علم کے ابتدائی مرحلے میں دس اہم اور جامع مضامین کا انتخاب کیا گیا ہے، جو شرکاء کی دینی، اخلاقی، فکری اور شخصی تعمیر میں مؤثر کردار ادا کریں گے۔ مضامین درج ذیل ہیں:
1. تجوید و قراءت – قرآن مجید کو درست مخارج اور قواعد کے ساتھ پڑھنے کی عملی تربیت۔
2. ترجمہ و تفسیر – قرآنِ حکیم کے معانی، مضامین اور پیغامِ ہدایت کو سمجھنے کی روشنی۔
3. حدیثِ نبوی ﷺ – اقوالِ مصطفیٰ ﷺ سے عملی زندگی کی رہنمائی حاصل کرنا۔
4. سیرتُ الرسول ﷺ – حضور اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کا جامع مطالعہ اور اسوہ حسنہ کی روشنی۔
5. فقہ – عبادات و معاملات سے متعلق ضروری شرعی مسائل کی تعلیم۔
6. ارکانِ ایمان – ایمان کے بنیادی اجزاء کی تفہیم اور اعتقادی تربیت۔
7. آداب و معاملات – اسلامی تہذیب و معاشرت کے آداب اور حسنِ سلوک کی تعلیم۔
8. افکار و نظریات – اسلام کے فکری و نظریاتی پہلوؤں کا تعارف اور جدید چیلنجز کا مقابلہ۔
9. شخصیت سازی – کردار، خود اعتمادی، قیادت اور اخلاقی صلاحیتوں کی تعمیر۔
10. اخوت و بھائی چارہ – اسلامی معاشرت میں اتحاد، یگانگت اور ہمدردی کی روح کو زندہ کرنا۔
یہ مرکز نہ صرف علم کا سرچشمہ ہو گا بلکہ کردار سازی، روحانی بالیدگی، فکری ارتقاء اور معاشرتی بہتری کی راہوں کا روشن مینار بھی ثابت ہو گا۔ آئیے، اس علمی و تربیتی سفر کا حصہ بن کر ایک صالح، باوقار اور بامقصد معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔
دعوتِ عمل
ہم چاہتے ہیں کہ ان تعلیمات کی روشنی میںمراکزِ علم و عرفان کا جال بچھایا جائے۔ جہاں ہر فرد، ہر عمر اور ہر طبقے کے لیے علم و تربیت کا در وا ہو۔ آئیے!آپ بھی اس مشنِ علم و امن کا حصہ بنیے۔ مردوں، خواتین، نوجوانوں اور بچوں کے لیے الگ الگ نصاب دستیاب ہے۔
اس کی تدریس، تربیت اور تعلیم کے لیے ہم سے رابطہ کیجیے تاکہ ہم مل کر ایک بااخلاق، باشعور اور باعمل قوم بن سکیں۔