دعوتِ دین میں خواتین کا کردار (اسلامی تاریخ وتعلیمات کی روشنی میں)
تمہید:دعوتِ دین کا مقصد انسان کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے پر چلانا ہے تاکہ وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو۔ اس عظیم کام میں جہاں مردوں نے اہم کردار ادا کیا، وہیں خواتین بھی پیچھے نہیں رہیں۔ تاریخِ اسلام کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ خواتین نے نہ صرف دعوتِ دین کو قبول کیا بلکہ اس پیغام کو پھیلانے میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ مذکورہ مضمون میں ہم جائزہ لیں گے کہ کس طرح خواتین نے دعوتِ دین کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور اسلامی تعلیمات اس کے متعلق کیا کہتی ہیں۔
ابتدائے اسلام میں دعوتِ دین سے متعلق خواتین کا کردار
اسلام کے آغاز ہی سے خواتین نے دعوتِ دین میں عملی شرکت کی۔ عورتوں میں سب سے پہلی ایمان لانے والی شخصیت سیدہ خدیجہؓ تھیں، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی، ان کی ہمت بندھائی اور ہر طرح سے ان کی مدد کی۔ حضرت خدیجہؓ کا کردار ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ خواتین دعوت و تبلیغ کے سفر میں نہ صرف معاون ہو سکتی ہیں بلکہ رہنمائی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہیں۔
اسی طرح حضرت اسماءؓ بنت ابی بکر نے ہجرت کے موقع پر رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکرؓ کے لیے خفیہ طور پر کھانا پہنچایا، جبکہ حضرت فاطمہؓ نے نہ صرف گھریلو محاذ پر بلکہ دین کے دفاع میں بھی سرگرمی سے کردار ادا کیا۔اِسی طرح سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے خواتین کے عائلی اسلامی مسائل کی ترویج اپنا اہم کردار ادا کیا۔
قرآن و سنت کی روشنی میں خواتین کا دعوتی مقام
قرآنِ کریم میں جہاں مومنین کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں اس میں خواتین بھی شامل ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ۘ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ؕ اُولٰٓىِٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ [سورۃ التوبہ : 71]
اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دعوتِ دین کی ذمہ داری مرد و زن دونوں پر ہے۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ.’’تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔۔۔۔‘‘ (بخاری، الصحیح، 1/304، رقم: 853)
یہ حدیث بھی واضح کرتی ہے کہ ہر مسلمان، خواہ مرد ہو یا عورت، دین کی حفاظت اور اس کے فروغ کا ذمہ دار ہے۔
اسلامی تاریخ میں نمایاں خواتین داعیات
اسلامی تاریخ میں ایسی خواتین کی مثالیں بکثرت موجود ہیں جنہوں نے دعوتِ دین کا کام نہایت حکمت، بصیرت اور فہم کے ساتھ کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جن باکمال عورتوں کا تذکرہ ملتا ہے ان میں سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ، سیدہ عائشہ ا ور سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا کے علاوہ بھی کوئی نمایاں صحابیات ہیں، جنہوں نے دعوت و تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا ۔ ان میں سے ہر خاتون کی دینی، علمی، عملی ہراعتبار سے ہر ایک کی الگ خصوصیت تھی، گویا ہمیں یہ حکم ہو رہا ہے کہ ہماری عورتوں کو ان خصوصیات کے اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ دین کے لئے قربانی دیتی تھیں، دین کے لئے جتنی قربانی انہوں نے دی، اتنی قربانی دوسری عورتوں نے بہت کم دی ہوگی، رسول اللہ ﷺ کی خدمت اور ان کو تسلی دینا اور ان پر اپنا مال خرچ کرنا اور ان کے ساتھ شعب ابی طالب میں رہنا اور بھوک و پیاس برداشت کرنا، یہ ان کی خصوصیات تھیں، اس خصوصیت کو ہم بھی اور ہماری عورتیں بھی اختیار کریں کہ اپنا مال دین پر خرچ کریں اور دین کے راستے میں بچے اور بچیوں پر تکلیف آئے یا شوہر پر تکلیف آئے تو ان کو حوصلہ دیں۔ جب رسول ﷺ پریشان تھے تو حضرت خدیجہ نے فرمایا: اللہ آپ کو رسوا نہیں کریں گے۔آپ رشتہ داریوں کو پالتے ہیں، اور آپ کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اور مال کماکر ان کو دیتے ہیں، جن کے پاس مال نہیں ہے،اور حق کے راستے میں جو مصیبتیں پڑتی ہیں ان کی مدد کرتے ہیں۔
یعنی تسلی دینا، مال خرچ کرنا اور مصیبت برداشت کرنا یہ خصوصیت ہماری عورتوں میں بھی آنی چاہئے جتنا عمل اونچا ہوتا ہے جزاء بھی اتنا ہوتی ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: حضرت جبریل نے مجھے بتایا کہ: میں خدیجہ کو ایسے محل کی خوشخبری دوں جو موتیوں کا بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ یہ خواتین نہ صرف اپنے گھروں میں بلکہ معاشرے میں بھی ایک داعی کا کردار ادا کرتی رہیں۔
دورِ حاضر میں خواتین کا دعوتی کردار
آج کے دور میں بھی خواتین دعوتِ دین میں بھرپور کردار ادا کر سکتی ہیں:
- گھریلو دعوت: ماں، بہن، بیٹی کے طور پر وہ گھر کے ماحول کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال سکتی ہیں۔
- تعلیم و تدریس: مدارس، اسکول، یونیورسٹی اور آن لائن پلیٹ فارمز پر خواتین دیگر خواتین اور بچوں کو تعلیمِ دین دے سکتی ہیں۔
- تحریر و تقریر: خواتین اپنے قلم اور زبان کے ذریعے دین کی دعوت دے سکتی ہیں۔ بلاگز، ویڈیوز، سوشل میڈیا، سیمینارز اس کے ذرائع ہو سکتے ہیں۔
- سماجی خدمات: خواتین فلاحی اداروں، مشاورتی حلقوں اور اصلاحی تنظیموں کے ذریعے بھی دعوتی خدمات انجام دے سکتی ہیں۔
موجودہ دور میں چیلنجز اوراُن کا حل
اگرچہ آج کی خواتین کے لیے دعوتی میدان میں امکانات بہت زیادہ ہیں، تاہم دورِ جدید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُن کے لیے چند چیلنجز بھی درپیش ہیں:
- معاشرتی رکاوٹیں: بعض معاشروں میں خواتین کی دعوتی سرگرمیوں کو محدود کیا جاتا ہے۔
- تعلیمی کی کمی: بہت سی خواتین اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہوتیں، اس لیے دعوت دینا مشکل ہو جاتا ہے۔
- میڈیا کا درست استعمال نہ کرنا: جدید میڈیا کا استعمال اگر دینی مقصد کے لیے نہ ہو تو وہ خود ایک رکاوٹ بن سکتا ہے۔
درپیش چیلنجز کا حل
1 - خواتین کے لیے دعوتی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔
2 - مساجد، مدارس اور اداروں میں خواتین کی شرکت کو آسان اور منظم بنایا جائے۔
3 - آن لائن اسلامی کورسز، تربیتی ورکشاپس اور اسلامی ویڈیوز کا فروغ کیا جائے۔
خلاصۂ کلام
اسلام ایک متوازن اور ہمہ گیر دین ہے، جو ہر فرد کو دین کی خدمت کا موقع دیتا ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ خواتین کا دعوتِ دین میں کردار نہ صرف تاریخِ اسلام میں روشن ہے بلکہ آج بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ خواتین کو ان کی دینی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جائے، انہیں مواقع فراہم کیے جائیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جب خواتین بیدار ہوں گی، تو گھروں سے معاشرہ اور معاشرے سے پوری امت بیدار ہو گی۔