متوازن شخصیت فرامین رسولﷺ کی روشنی میں

اے نازایڈووکیٹ

متوازن شخصیت فرامین رسولﷺ کی روشنی میں

انسان اپنے کھانے، پینے، ذرائع روزگار، انداز تکلم، پہناوے، رہن سہن، لباس ،بیوی بچوں ،دوست احباب اور عزیز و اقارب کے ساتھ برتاؤ، سوسائٹی کے ساتھ تعلقات کے ذریعے متاثر کن شخصیت کا حامل ہو تاہے۔ کچھ لوگ بظاہر صاف ستھرے نظر آتے ہیں مگر جب اُن کے گھر میں جائیں تو کوئی چیز قرینے اور سلیقے کے ساتھ پڑی نظر نہیں آتی، جب کبھی اُن کے ساتھ کوئی معاملہ کریں تو وہ ایک مختلف شخصیت کے طور پر سامنے آتا ہے۔ نفاست کا تعلق امیری یا غریبی سے نہیں بلکہ حسن نظم اور احساس ذمہ داری کے ساتھ ہے۔ نفیس اور پرکشش شخصیت کے لئے لباس کا قیمتی ہونا ضروری نہیں البتہ صاف اور خوشبودار ہونا ضروری ہے۔ اچھی شخصیت اور طبیعت والا انسان کبھی بھی اپنے معاملات میں بے ربط اور بے ضبط نہیں ہو گا، ایک خاص قسم کی ترتیب اور نظم و ضبط اُس کے مزاج اور طبیعت کا حصہ ہو گی۔ نفیس شخص وقت کا پابند اور وعدوں کا پکا ہو گا۔تعلیماتِ اسلام ’’نظم و ضبط‘‘ کی اہمیت و افادیت کی طرف ہماری توجہ مبذول کرواتی ہیں۔سیدہ عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: یارسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالی کے ہاں سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ ’کسی بھی کام کو مداومت، مواظبت اور تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔(بخاری، الصحیح، ج: 5، ص: 2373، رقم: 6100)

اس حدیث کی روشنی میں کسی بھی کام کو نظم کے ساتھ کرنے اور تسلسل کے ساتھ انجام دینے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس حدیث کے دوسرے اور آخری حصے میں اس بات پر توجہ مرکوز کروائی گئی ہے کہ اگرچہ کام مقدار میں تھوڑا ہو مگر تسلسل کے ساتھ کیا جائے تو اُس کے ثمر آور اَثرات مرتب ہوتے ہیں۔روز مرہ معاملات کو ایک خاص نظم سے انجام دینا ہمارے اَسلاف کے نزدیک ناگزیر عمل تھا۔ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا جب آخری وقت آیا تو آپ نے سیدنا حسن وسیدنا حسین علیہما السلام کو بلایا اور فرمایا: أُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللهِ... وَالتَّثَبُّتُ فِي الْأَمْرِ’’میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے اور معاملات میں تسلسل و تثبّت کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘(محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج: 5، ص: 147)

کسی اَمر کے منظّم ہونے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنے معاملات کو منظم کرنا جانتے ہیں۔ ایک عام آدمی بھی اگر اپنی زندگی میں نظم و ونسق کا پابند نہ ہو اور اُس کے لباس، افکار، گفتگو اور معاملاتِ زندگی میں نظم و ترتیب اور اعتدال و توازن نہ ہو تو ایسا فردِ واحد بھی معاشرے میں اپنی شخصیت برقرار نہیں رکھ سکتا اور نہ اُس کی قدر و منزلت ہوتی ہے۔

انسان کی شخصیت

انسان کی شخصیت ایک مکمل آئینہ ہوتی ہے، جس میں اس کے باطن کی تمام پرتیں جھلکتی ہیں۔ کوئی شخص کیسا ہے، وہ کن اقدار کو مانتا ہے، اس کی زندگی میں نظم و ضبط کتنا ہے، اس کا اخلاقی معیار کیا ہے ، یہ سب محض اس کی ظاہری گفتگو سے نہیں بلکہ اس کی روزمرہ کی عادات سے آشکار ہوتا ہے۔ یہی عادات اس کی شخصیت کا بنیادی تعارف ہوتی ہیں۔ انہی میں وہ عناصر چھپے ہوتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ وہ شخص کتنا نفاست پسند، مہذب، بااخلاق اور متوازن طبیعت کا مالک ہے۔اَخلاق ہی انسان کی طبع کا آئینہ دار ہوتا ہے۔حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "بے شک میں (نبیﷺ) اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں"۔اِسی طرح ایک اور مقام پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا’’ایمان کے اعتبار سے کامل ترین مؤمن وہ ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہو۔‘‘

متوازن غذا ،متوازن شخصیت

جب ہم خوراک کا تذکرہ کرتے ہیں تو یہ صرف پیٹ بھرنے کی چیز نہیں ہوتی، بلکہ یہ کسی فرد کے ذوق، تربیت، سوچ اور توازن کا عکاس بھی ہوتی ہے۔ جو شخص بسیار خور ہو تا ہے اور اعتدال سے کام نہیں لیتا وہ درحقیقت صرف جسمانی سطح پر نہیں بلکہ نفسیاتی اور تہذیبی طور پر بھی ایک غیر متوازن کیفیت کا شکار ہوتا ہے۔ وہ کھانے کو صرف ایک لذت یا تسکین سمجھتا ہے نہ کہ ایک جسمانی ضرورت۔ اس کے برعکس جو شخص سادہ، متوازن اور صحت مند خوراک کا انتخاب کرتا ہے، وہ اپنی جسمانی صحت ہی نہیں بلکہ ذہنی اور روحانی نظم کو بھی اہمیت دیتا ہے۔خوراک کا تعلق جائز و ناجائز سے بھی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے خوراک نہ صرف جسمانی ضرورت ہے بلکہ روحانی ذمہ داری بھی ہے۔ جو چیز حرام ہے وہ صرف پیٹ کو نقصان نہیں دیتی بلکہ روح کو بھی آلودہ کرتی ہے۔ لہٰذا یہ دیکھنا کہ ہم کیا کھا رہے ہیں، کہاں سے آیا ہے، کس ذریعہ سے حاصل ہوا ہے ۔ یہ سب ہماری شخصیت کے سنجیدہ پہلوؤں کا حصہ ہے۔

بسیار خوری (زیادہ کھانا) اور بسیار گوئی (زیادہ بولنا) دونوں کی مذمت قرآن و سنت اور اقوالِ سلف میں واضح طور پر کی گئی ہے، کیونکہ یہ دونوں عادات انسان کے روحانی، اخلاقی اور جسمانی بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ حَسْبُ الْآدَمِيِّ لُقَيْمَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ فَإِنْ غَلَبَتْ الْآدَمِيَّ نَفْسُهُ فَثُلُثٌ لِلطَّعَامِ وَثُلُثٌ لِلشَّرَابِ وَثُلُثٌ لِلنَّفَسِ۔

’’آدمی نے کوئی برتن اتنا برا نہیں بھرا جتنا اپنا پیٹ۔ انسان کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اسے قائم رکھیں، اور اگر لازم ہو تو تہائی کھانے کے لیے، تہائی پانی کے لیے، اور تہائی سانس کے لیے ہو۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)

یہ حدیث بسیار خوری کی مذمت اور اعتدال کی ترغیب دیتی ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں: "میں نے سولہ سال سے پیٹ بھر کر نہیں کھایا، کیونکہ پیٹ بھرنا جسم کو سست کرتا ہے، عقل کو کند کرتا ہے، نیند کو بڑھاتا ہے اور عبادت سے غافل کرتا ہے۔" بسیار گوئی کے متعلق حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اُسے چاہیے کہ وہ بھلا کلام کرے یا خاموش رہے۔‘‘(بخاری، مسلم)

لباس ایک موثر شخصی تعارف

لباس صرف جسم کو ڈھانپنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک خاموش زبان بھی ہے جو بہت کچھ کہتی ہے۔ جب ہم کسی شخص کو دور سے دیکھتے ہیں تو اس کالباس اور اس کے چلنے کا انداز ہمیں اس شخص کے بارے میں ابتدائی معلومات فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص خوش لباس ہے تو ہمارے دل میں اُس کے لئے اچھے جذبات جنم لیتے ہیں، اس لئے لباس کے معاملے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا جانا ضروری ہے۔ انسان کے بولنے سے پہلے اس کا لباس اور اس کی ظاہری نفاست اُسے ایک اچھے انسان کے طور پر متعارف کرواتی ہے۔ کسی کا لباس کتنا صاف ہے، کتنا قرینے سے پہنا گیا ہے، یہ سب اس کی نفسیاتی اور تہذیبی تربیت کی علامتیں ہوتی ہیں۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ مہنگا لباس پہنا جائے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ لباس صاف ستھرا سلیقے سے پہنا ہوا ہو۔ ایک غریب آدمی بھی سفید کپڑے میں اتنا باوقار لگ سکتا ہے جتنا ایک امیر قیمتی سوٹ میں۔ اصل وقار صفائی، سلیقے اور نفاست میں چھپا ہے نہ کہ قیمت میں۔اسلام میں صفائی، ستھرا پن اور اچھا لباس پہننے کو دین کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ صاف لباس پہننا نہ صرف طہارت کا مظہر ہے بلکہ خوداعتمادی، وقار، اور عبادت کے ادب کی بھی علامت ہے۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ و سلف صالحین نے اس پہلو کو بہت اہمیت دی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إن الله جميل يحب الجمال۔’’ے شک اللہ جمیل (خوبصورت) ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم) سیاقِ حدیث میں صحابہؓ نے سوال کیا کہ کیا اچھا لباس پہننا تکبر ہے؟ تو نبی ﷺ نے جواب میں یہ حدیث ارشاد فرمائی، یعنی اچھا لباس پہننا تکبر نہیں بلکہ مستحسن عمل ہے۔

رہن سہن اور شخصی محاسن

ایک شخص کے گھر میں داخل ہوں تو وہاں کی فضا خود بتا دیتی ہے کہ اس گھر کے باسی کس سطح کے شعور کے مالک ہیں۔ کچھ گھر ایسے ہوتے ہیں جہاں کمرے میں داخل ہوتے ہی بدبو کا سامنا ہوتا ہے، گرد جمی ہوتی ہے، اشیاء بکھری پڑی ہوتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں نظم و ضبط، صفائی اور ترتیب کی کوئی جگہ نہیں۔ ایسے افراد کی شخصیت میں بھی اکثر بے ترتیبی، جلد بازی اور غفلت پائی جاتی ہے۔اس کے برعکس کچھ گھر ایسے ہوتے ہیں جہاں ہر چیز اپنی جگہ پر سلیقے سے رکھی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہاں کی فضا میں تازگی، صفائی اور ترتیب کا احساس ہوتا ہے۔ ان گھروں کے مکینوں کی شخصیت بھی متوازن، منظم اور نفیس ہوتی ہے۔ یہ نظافت صرف ظاہری نہیں بلکہ باطنی ترتیب کا آئینہ ہوتی ہے۔ہمارے ہاں جب بھی کچھ خاندان اپنے بیٹے یا بیٹی کے رشتے کے لئے جب کسی کے گھر جاتے ہیں تو اُن کی نظریں گھر کی صفائی، گھر والوں کے پہناوے، گفتگو کے انداز پر بطور خاص توجہ دیتے ہیں۔ انہیں ان چند لمحوں کی ملاقات میں اُس پورے گھرانے کے تہذیبی مزاج کا پتہ چل جاتا ہے۔ صفائی کا خیال رکھنا، گھر اور ماحول کو صاف رکھنا؛ یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے طہارت (صفائی) کو نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی پاکیزگی سے جوڑا ہے۔ الطُّهُورُ شَطْرُ الإِيمَانِ (صحیح مسلم) ’’صفائی (طہارت) ایمان کا نصف حصہ ہے۔‘‘ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ صفائی محض ظاہری نہیں بلکہ دینی تقاضا ہے۔ اس میں بدن، لباس، گھر، اور ماحول سب شامل ہیں۔ امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں:

من علامات العاقل: نظافة بيته، وحسن هيئته، وقلة كلامه فيما لا يعنيه.

’’عاقل انسان کی علامات میں سے ہے: اس کا گھر صاف ہو، اس کی ظاہری حالت اچھی ہو، اور وہ بے فائدہ باتوں سے بچے۔‘‘ یہاں گھر کی صفائی کو عقل مندی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔

رشتے اور سماجی تعلقات

شخصیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ایک فرد اپنے رشتوں کو کیسے نبھاتا ہے۔ ازدواجی تعلقات، خونی رشتے، عزیز و اقارب سے روابط اور سوسائٹی کے ساتھ انٹریکشن، یہ سب اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ ایک شخص کتنا حساس، مہذب اور متوازن ہے۔ جو فرد صرف اپنی ذات کے خول میں بند ہو وہ معاشرے کے لیے بھی بوجھ بن جاتا ہے جبکہ ایک سلیقہ مند شخص ہر رشتہ اپنے پورے حق کے ساتھ نبھاتا ہے چاہے وہ شوہر ہو یا بیوی، والد ہو یا اولاد، دوست ہو یا ہمسایہ وہ سب کے ساتھ ایک متوازن تعلقات رکھتا اور نبھاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی لاتعداد احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک اور توازن کی تعلیم دی گئی ہے۔ اسلام رشتوں کے مابین اعتدال اور توازن قائم کرنے پر زور دیتا ہے۔ اسلام نے والدین، بیٹے، بیٹی، بیوی، رشتہ داروں، ہمسایوں اور دوستوں کے حقوق بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ رشتہ داروں کے حقوق (صلہ رحمی) اسلام میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں۔ قرآن و سنت اور اقوالِ سلف میں قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک، ان کی خبرگیری، مدد اور تعلق جوڑنے (نہ کہ توڑنے) کی سخت تاکید کی گئی ہے۔قرآنِ کریم میں ہے:

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى

(النساء : 36)

’’اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، اور قرابت داروں کے ساتھ بھی۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی (رشتہ داروں سے حسن سلوک) کو عبادت کے بعد فوری ذکر فرمایا۔ حضور نبی اکرمﷺ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور اُن کے حقوق کے متعلق فرمایا:

مَن سرَّهُ أن يُبْسَطَ له في رزقه، ويُنسأ له في أَثَرهِ، فليَصِلْ رحمهُ۔

’’جو شخص چاہے کہ اس کا رزق کشادہ ہو اور عمر دراز ہو، اسے چاہیے کہ رشتہ داروں سے تعلق جوڑے۔‘‘

ایک اور مقام پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:لا يدخل الجنة قاطع رحم۔ ’’رشتہ داری کاٹنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘

اندازِ تکلم

آخرکار ایک انسان کی شخصیت کا سب سے اہم حوالہ اس کا اندازِ تکلم ہے۔ قرآن مجید میں آتا ہے دوسروں کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ بات کرو، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا مسکرا کر بات کرنا بھی صدقہ ہے۔ جب آپ اپنے کسی بھائی یا قرابت دار کے ساتھ متبسم لب و لہجہ کے ساتھ مخاطب ہوتے ہیں تو اس سے باہمی محبت اور اعتماد بڑھتا ہے۔ ایک متوازن شخصیت کا مالک شخص جلد باز نہیں ہوتا، غصہ والا نہیں ہوتا، اس کے لہجے میں ٹھہراؤ اور اس کا مزاج برداشت والا ہوتا ہے۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو کسی بھی انسان کو اس کے ہم عصروں اور ماحول میں معتبر بنا دیتی ہیں۔ قرآن مجید نے حضور نبی اکرم ﷺ کو ایک بہترین اخلاق والی ہستی قرار دیا ہے۔ اپنے تو کیا مخالف بھی آپ کی شیریں بیانی کے معترف تھے۔ آپ ﷺابہام سے پاک گفتگو فرماتے، آپ ﷺ کا بیان کیا گیا ایک ایک حرف سننے والوں کے دل دماغ پر نقش ہو جاتا تھا۔ ایک مہذب انسان اپنے رویے سے سب کو متاثر کرتا ہے، جبکہ ایک غیر مہذب شخص چاہے کتنا ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہو مگر وہ اپنے برے اخلاق کی وجہ سے اپنی ہی شخصیت کو داغدار کر دیتا ہے۔

شخصیت کوئی ایک لمحے میں بننے والا خاکہ نہیں، بلکہ یہ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا مجموعہ ہے۔ خوراک، لباس، رہن سہن، رشتے اور رویے یہ سب متوازن شخصیت کو ترتیب دیتے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف اپنی ظاہری صورت پر توجہ دیں بلکہ باطنی صفائی، اخلاقی تربیت، سلیقہ مندی اور انسان دوستی کو اپنی شخصیت کا حصہ بنائیں۔ کیونکہ اصل خوبصورتی چہرے میں نہیں، کردار میں ہوتی ہے اور کردار، ہماری عادات سے پہچانا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے تعمیر اخلاق و شخصیت کے موضوع پر نہایت شاندار خطابات سے نوازا ہے۔ شیخ الاسلام نے ہر عمر اور طبقہ کے افراد کی اخلاقی تربیت کے لئے نہ صرف سینکڑوں خطابات سے نوازا بلکہ کُتب بھی تحریر فرمائی ہیں۔ انہوں نے بچپن کے مختلف ادوار پر الگ الگ کُتب تحریر فرمائی ہیں تاکہ والدین کو بچوں کی عمر کے حساب سے اُن کی تربیت کرنے کے مواقع میسر آئیں۔ شیخ الاسلام نے نوجوانوں کے لئے، خواتین کے لئے بھی کُتب تحریر فرمائیں، اسلام کی تعلیمات کا بنیادی مقصد تعمیر اخلاق و کردار ہے۔ اسلام محض عبادات یا روحانی ترقی پر زور نہیں دیتا بلکہ اسلام کی تعلیمات ایک متوازن سماجی گھریلو و عائلی زندگی قائم کرنے سے متعلق ہیں۔ یہی وجہ ہے پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں انسانی معمولات کو بہتر بنانے اور خوشگوار سماجی تعلقات قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔