خواتین کی معاشی کفالت کے لیے اسلام کا تصورِ وراثت

دعا زہرہ

خواتین کی معاشی کفالت کے لیے اسلام کا تصورِ وراثت

تعارفِ موضوع

اسلام وہ دینِ متین ہے جو انسانی زندگی کے ہر شعبے میں ہر خاص و عام کو راہنمائی فراہم کرتا ہے۔آمدِ اسلام کے ساتھ جاہلیت کی باطل رسومات جہاں ختم ہوئیں وہی پر یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوقِ میراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات کا نزول ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی تشریف آوری کے نتیجے میں عورتوں پر ہونے والے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ خواتین کو بھی وراثت کا حق دار قرار دیا گیا۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ اور ان کی معاشی کفالت اسلام کے اہم مقاصد میں شامل ہے۔ جاہلیت کے دور میں عورت کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا، لیکن اسلام نے اس ظلم کا خاتمہ کیا اور خواتین کو وراثت میں حصہ دے کر ان کی معاشی خودمختاری کی بنیاد رکھی۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق عورت ماں، بیٹی، بہن اور بیوی ہونے کی حیثیت سے وراثت کی حق دار ہے۔

اسلام سے قبل خواتین کی معاشی حیثیت

اسلام سے قبل عرب معاشرے میں عورت کو محض جائیداد کا ایک حصہ تصور کیا جاتا تھا۔ اسے خود کسی قسم کا مالی حق حاصل نہ تھا۔ بیوی، بہن اور بیٹی کو وراثت میں کچھ نہ دیا جاتا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات عورت کو خود وراثت میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۝

(النساء : 7)

’’مردوں کے لیے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے‘‘

علامہ سیوطی اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

إِنَّ أَهْلَ الْـجَاهِلِيَّةِ كَانُوا لَا يُوَرِّثُوْنَ النِّسَاءَ وَلَا الْوِلْدَانَ الصِّغَارَ شَيْئًا يَـجْعَلُوْنَ الْـمِيْرَاثَ لِذِي الْأَسْنَانِ مِنَ الرِّجَالِ.

 (سیوطی، الدر المنثور، 2/439)

’’بے شک جاہلیت میں لوگ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو کسی بھی چیز کا وارث نہیں بناتے تھے بلکہ خود بڑی عمر والے لوگ وراثت پر قبضہ کر لیا کرتے‘‘

اسلامی تصورِ وراثت؛ ایک انقلابی نظریہ

آمدِ اسلام سے قبل عورت کو حقِ وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا۔اسلام نے عورت کو وراثت میں مقررہ حصہ دے کر ایک معاشی انقلاب برپا کیا۔ قرآن کریم میں واضح طور پر حکم دیا گیا:

لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ؕ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا۝
(النساء : 7)

’’مردوں کے لیے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے‘‘

یہ آیت وراثت میں مرد و عورت دونوں کے حق کو ثابت کرتی ہے، اور عورت کو خودمختار مالی حیثیت دیتی ہے۔

عورت کے وراثتی حقوق کی تفصیل

اسلام میں عورت کو مختلف حیثیتوں میں وراثت دی گئی ہے:

  • ماں کے طور پر: اگر اولاد موجود ہو تو ماں کو ترکہ کا چھٹا حصہ ((1/6دیا جاتا ہے۔ )النساء: 11)
  • بیٹی کے طور پر: اگر بیٹی اکیلی ہو تو آدھا حصہ ((1/2، دو یا دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی ((2/3۔(النساء: 11)
  • بیوی کے طور پر: اگر اولاد ہو تو بیوی کو آٹھواں((1/8 حصہ، اولاد نہ ہو تو چوتھا((1/4۔(النساء: 12)
  • بہن کے طور پر: اگر میت کی اولاد نہ ہو اور بہن ایک ہو تو اسے نصف، دو یا دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی، اور اگر بھائی بھی ہو تو پھر "عصبات" کا اصول لاگو ہوتا ہے۔(النساء: 176)

وراثت میں عورت کے حصے پر اعتراضات کا جواب

بعض ناقدین اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں آدھا کیوں ہے؟ اس کا جواب درج ذیل نکات میں ہے:

مرد پر معاشی بوجھ: اسلام میں مرد پر عورت کی کفالت واجب ہے۔ بیوی، بچوں، والدین اور بعض صورتوں میں بہنوں کی مالی ذمہ داری مرد پر عائد کی گئی ہے۔

عورت کا حصہ مکمل ذاتی ملکیت: عورت کو ملنے والا وراثتی حصہ مکمل طور پر اس کی ذاتی ملکیت ہوتا ہے، وہ چاہے تو اسے استعمال کرے یا بچائے۔

معاشرتی عدل: یہ فرق مساوات کی نفی نہیں بلکہ عدل کی بنیاد پر ہے۔ اسلام مساوات سے بڑھ کر عدل کو اہمیت دیتا ہے۔

جیسا کہ مولانا مودودی فرماتے ہیں:

’’اسلام میں مرد و عورت کی وراثت کے حصے ان کے فرائض و ذمہ داریوں کے مطابق رکھے گئے ہیں۔‘‘

وراثتی حقوق کی اہمیت اور موجودہ معاشرتی صورتحال:

آج کے دور میں اگرچہ قانونِ وراثت اسلامی ممالک میں موجود ہے، لیکن عملاً خواتین کو ان کے حصے سے محروم رکھنا عام بات ہے۔ خاندان اور معاشرہ بعض اوقات دباؤ، لالچ یا جھوٹ کے ذریعے عورت کا حق چھین لیتے ہیں۔خواتین کو ان کے شرعی وراثتی حقوق دینا نہ صرف ان کی معاشی بہتری کے لیے ضروری ہے، بلکہ معاشرے کی مجموعی فلاح کے لیے بھی ناگزیر ہے۔خواتین کے حقوق کا استحصال بالخصوص اُن کی زمین یا دیگر وراثت میں آنے والی اشیاء پر قبضہ جمانا یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہی نہیں بلکہ ظلمِ عظیم ہے۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ:

مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا، فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ.

’’جس نے زمین میں سے ایک بالشت بھی ظلم کرتے ہوئے (کسی سے) حاصل کی، قیامت کے دن اسے سات زمینوں سے طوق پہنایا جائے گا۔(بخاری، الصحیح، 3/1168، رقم: 3026)

خلاصۂ کلام

عورتوں کو میراث، تعلیم، صحت، اور برابری کے حقوق فراہم کرنے کیلئے معاشرتی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان کو معاشرے میں اپنے تناسب کے اعتبار سے مکمل شرکت دینی چاہئے تاکہ ان کا تعلق پورے معاشرتی نظام کے ساتھ قائم ہو۔ حقِ میراث عورت کا بنیادی حق ہے لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کی اکثریت کو ان کے حق کے مطابق وراثت میں حصہ نہیں ملتا۔ وہ لوگ جو بے خیالی میں یا جان بوجھ کر عورت کو حقِ وراثت سے محروم کر کے حرام مال کے حصول کی جانب گامزن ہیں، انہیں اس گناہ سے بچنا چاہیے۔اسلام کا تصورِ وراثت عورت کی معاشی خودمختاری، وقار اور تحفظ کی ضمانت ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو نہ صرف عورت کو معاشی سہارا دیتا ہے، بلکہ مرد کو بھی ایک ذمہ دار کردار سونپتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی وراثتی اصولوں پر نہ صرف زبانی اقرار ہو بلکہ عملاً ان پر عمل درآمد ہو تاکہ خواتین کے ساتھ عدل و انصاف کا حقیقی مظاہرہ ہو سکے۔