خصوصی خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

فضیلت و اَہمیتِ علم

ایک فرد کی انفرادی زندگی ہو یا قوموں کی اجتماعی زندگی سب کی ترقی علم ہی کی بدولت ہے۔ اللہ رب العزت نے جب سب سے پہلے انسان اور اپنے نبی حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی اور انہیں اپنی خلافت و نیابت دینے کا ارادہ کیا تو ارشاد فرمایا:

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً

(البقرۃ، 2: 30)

اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔

ملائکہ نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یقینا عبادت وبندگی ہی فضیلت کا معیار ہے، عرض کیا:

أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ

کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟ حالاں کہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہتے ہیں اور (ہمہ وقت) پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔

لہٰذا ہم نیابت اور خلافت کے مستحق ہیں۔ اس انسان کو کیوں خلیفہ بنایا جا رہا ہے؟

اللہ رب العزت نے فرشتوں کے اس سوال پر حضرت آدم علیہ السلام کی ایک ہی فضیلت کو تمام ملائکہ پر ظاہر فرمایا:

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا

(البقرۃ، 2: 31)

اور اللہ نے آدم (علیہ السلام)کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام محض نام ہی نہیں سکھائے بلکہ نام مع صفات اور افعال سکھائے۔ اس طرح اللہ رب العزت نے ملائکہ پر واضح فرما دیا کہ میں انسان کو اپنا خلیفہ ونائب بنانے اور اس کے سر پر اپنی نیابت کا تاج سجانے اور تمام مخلوقات پر اسے فضیلت دینے کا سبب صرف علم ہی ہے۔

علم، نیابتِ الٰہی کی سعادت کا باعث

ملائکہ کے سوال کے جواب میں اللہ رب العزت کا یہ فرمان واضح کرتا ہے کہ محض عبادت گزاری وجہِ نیابتِ الٰہیہ نہیں ہے۔ علم کا نور ایسی فضیلت کا حامل ہے کہ یہ بندے کو اللہ تعالیٰ کا نائب بناتا ہے۔ علم کی فضیلت عبادت، تسبیح اور ذکر سے افضل ہے۔یہاں یہ بات بھی میں ذہن میں رہے کہ اتنی اعلیٰ فضیلت کا حامل یہ علم یقینا خالی از عبادت نہیں ہوتا۔ جس طرح اس آیت کریمہ کے مصداق صرف عبادت بغیر علم کے اللہ تعالیٰ کی نیابت کے قابل نہیں۔ اِسی طرح علم بھی بغیر عمل، صالحیت اور عبادت نیابتِ الٰہی کا باعث نہیں بنتا۔

علم، عبادت کے مقابلے میں فضلیت رکھتاہے۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے آیت کریمہ میں پہلے تسبیح و عبادت کرنے کے حوالے سے ملائکہ کا بیان کا ذکر فرمایا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عليه السلام کی علمی برتری اور فضیلت کا ذکر فرما کر اس کو وجہِ نیابت قرار دیا۔ حضرت آدم e کو تمام اسماء مع صفات وافعال کا علم عطا کرنے کے بعد پھر ملائکہ پر پیش کیا:

ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

(البقرۃ، 2: 31)

پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔

یعنی اگر تم اپنے خیال میں سچے ہو کہ نیابت الٰہیہ کا تاج تمہارے سر پر سجایا جائے تو ان اشیاء کے نام بتاؤ؟ گویا اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں ایک موازنہ دیا ہے ایک طرف ملائکہ کی عبادت وتسبیحات ہیں اور دوسری طرف حضرت آدم علیہ السلام کا علم۔ اس موازنہ کے بعد ملائکہ کو ایک مشاہدہ کروایا جس سے حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی صورت میں حاصل فضیلت اور برتری کو ملائکہ پر واضح فرما دیا۔ اس پر ملائکہ نے عرض کیا:

قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ۝

(البقرة : 32)

فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے۔بے شک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے۔

مذکورہ آیات میں علم کا ذکر تین نسبتوں سے آیا ہے۔

1۔ پہلے مقام پر حضرت آدم علیہ السلام کی طرف نسبت ہے۔

2۔ دوسری آیت میں ملائکہ کی طرف نسبت ہے

3۔ دوسری آیت کے آخر میں اللہ رب العزت کی طرف علم کی نسبت ہے۔

حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کو واضح کرنے کے بعد اللہ رب العزت اگلی آیت میں ’علم‘ ہی کے حوالے سے اپنی شان کا اظہار یوں فرماتے ہیں:

أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ

(البقرۃ، 2: 33)

کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں۔اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔

مذکورہ آیات کریمہ میں علم کی فضیلت کے اظہار کے ساتھ ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت و نیابت کا سبب بھی علم کو قرار دینا اُمتِ مسلمہ کو اس جانب راغب کرتا ہے کہ علم کی اس قدر عظمت اور فضیلت کے باعث طلباء اور نوجوانوں کو اپنے اندر علم کی رغبت، شوق اور ایک inspiration پیدا کرنی چاہیے۔ اگر ہم صرف ڈگری کے حصول کے لیے پڑھیں گے توڈگری ملے گی مگر علم حاصل نہیں ہو گا۔ علم بہت پاکیزہ چیز ہے۔ جب علم دیکھتا ہے کہ مجھے میری خاطر حاصل نہیں کیا جا رہا بلکہ کسی اور کی خاطر (ڈگری کے لیے، روزگار کے لیے) حاصل کیا جا رہا ہے تو علم دل و دماغ کے برتن میں نہیں آتا۔ آدمی ڈگری کی صورت میں ایک piece of paper، یا ایک document تو لے لیتا ہے مگر حقیقی علم نہیں آتا اورنہ ہی انسان کو وہ فضیلت حاصل ہوتی ہے جو علم کا مقصود ومنتہٰی ہے۔

علم وحکمت کا باہمی تعلق

علم اگر علمِ صحیح ہو تو حکمت کو جنم دیتا ہے۔ علم اور حکمت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور یہ ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے یعنی جڑواں (Insepatrable) ہیں۔ حکمت کے بغیر علم، علمِ نافع نہیں ہوتا اور جو علم حکمت عطا نہ کرے، وہ علم کامل نہیں بلکہ ناقص ہے، کیونکہ اس نے علم ہونے کے تقاضے پورے نہیں کئے۔ گویا حکمت کا جب اکیلا ذکر آئے تو اس کا مطلب ہے اس میں already علم کا کمال موجود ہے۔ کیونکہ کمالِ علم سے ہی حکمت وجود میں آتی ہے۔

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ

(البقرۃ، 2: 269)

جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے۔

علم نافع انسان کو حکمت عطاء کرتا ہے اور حکمت انسان کو ہدایت کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ حکمت کا نفع بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

(البقرۃ، 2: 269)

اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں۔

کمالِ علم کا ثمرہ، نتیجہ اور پھل حکمت ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ کے پہلے حصے میں فرمایا کہ جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔ دوسرے حصے میں صاحب حکمت کے لئے فرمایا کہ وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ علم اور حکمت وہی فائدمند ہے جس سے بندے کو تذکّر، نصیحت اور ہدایت میسر آئے۔ اگر علم و حکمت سے انسان خیر اور شر میں امتیاز پیدا نہ کر سکے، اللہ کی طرف رغبت و رجوع پیدا نہ ہو، فکرِ آخرت میسر نہ آئے تو سمجھیں وہ علم، علم نہیں ہے اور ایسی حکمت حکمت نہیں ہے۔ قرآن مجید نے اسی بناء پر حکمت اور تذکیر کو ملاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ۔

اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل ودانش ہیں۔

لہٰذا تذکیر انسان کو رجوع الی اللہ، معرفت وقربتِ الٰہی اوربندگی کا احساس دلاتی ہے اور بندے اور اللہ کے درمیان روحانی تعلق کو آشکار کرتی ہے۔

اللہ رب العزت نے علم وحکمت کے باب میں ایک پیمانہ عطا کر دیا کہ اگرکتابوں کے پڑھنے سے اور اساتذہ سے پڑھنے سے تذکّر، رغبت و معرفت، فکر، دلوں کو نصیحت، ہدایت کا نور پیدا نہ ہو، انسان کی کیفیت نہ بدلے تو سمجھیں کہ جو کچھ حاصل ہو رہا ہے وہ علم اور حکمت نہیں ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ کیا چیز ہے؟ وہ دنیوی علم ہو سکتا ہے جو مباحات اور ضروریات میں سے ہے مگر آخرت میں نفع مند نہیں ہو گا۔ دنیا کمانے اور دنیا کی ضروریات کی تکمیل کے لیے تو نفع مند ہے اور جائز بھی ہے مگر جس علم کو فضیلت عطاء کی گئی ہے وہ انسان کو تذکیر اور تذکر تک پہنچانے والا علم ہے۔

کلام الٰہی کا عنوان ’الکتاب‘ رکھنے کی اہمیت

علم کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کا تعارف بھی ’’الکتاب‘‘ کے طور پر کروایا۔ اس سے یہ ایک تصور پیدا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے کتاب کے ساتھ ربط، تعلق اور شغف پیدا کرنے کے لیے اپنے کلام کا نام الکتاب رکھا ہے۔ قرآن کو ’’الکتاب‘‘ کہنا بھی علم کی طرف اشارہ ہے۔ علم کا اس سے بڑا مرتبہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے الکتاب کہہ کر اپنے کلام قرآن مجید کو علم کا عنوان عطا فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے :

ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ

(البقرۃ، 2: 2)

(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔

یعنی یہ کلام ایسا منبع ومصدرِ علم ہے کہ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہیں۔ اللہ رب العزت نے اپنے کلام کو ’’الکتاب‘‘ کہہ کر علم اور کتابی علم کو غیر معمولی اہمیت اور فضیلت عطاء کی ہے۔ علم کا کلچر پیدا کیا اور مسلمانوں کو علم اور کتاب کی طرف رغبت دلائی تاکہ مسلمان کتاب سے مانوس ہوں۔ ہمارے مفسرین اپنی تفاسیر میں اس موضوع کی طرف متوجہ نہیں ہوئے حالانکہ علم اور کتاب کی طرف ذوق وشوق اور رغبت دلانے کے لئے ’’الکتاب‘‘ سے یہ تفسیری نکتہ بھی اخذ ہوتا ہے۔

سُو علم اور کتاب کی عطا کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ تمام انبیاء کرام کی بعثت سے ہوتا ہوا نبی آخر الزماں، معلمِ انسانیت حضرت محمد ﷺ پر آ کر اپنے درجہ کمال کو پہنچا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو تمام کائنات کی طرف نبی اور معلم بنا کر مبعوث کیا۔ آپ ﷺ کے بعد علم کی یہ خیرات آپﷺ کی اُمت کے علماء کو عطا کر کے اُنہیں انبیاء کا وارث بنایا۔ گویا یوں علم کی حفاظت اور اس کی فضیلت کا یکساں اظہار فرمایا۔

علمِ نبوت کی جہات اور انسانیت پر حضور ﷺ کے احسانات

حضور نبی اکرم ﷺ کا انسانیت پر احسان عظیم ہے کہ علوم کے جو میدان انسان پر آشکار نہیں کئے گئے تھے، آپ ﷺ نے علم کے سب سے بلند اور قوی ذریعے یعنی وحی کے نور سے وہ علوم انسانیت کو عطا فرمائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۝

(آل عمران، 3: 164)

بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول )ﷺ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo

اس آیتِ کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کے علم نبوت کی وسعتوں اور جہتوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے چار چیزوں کا ذکر فرمایا:

1۔ تلاوتِ آیات 2۔ تزکیۂ نفس

3۔تعلیمِ کتاب 4۔حکمت و دانش

اللہ رب العزت معلمِ حقیقی ہے اور اس کی مخلوق میں سے حضور نبی اکرم ﷺ معلمِ اوّل ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے انسانیت اور خصوصاً مومنین کو جو علوم عطا فرمائے اس آیت کریمہ میں اس کی ترتیب نہایت قابل غور ہے۔ آئیے اِن میں سے ہر ایک کا مطالعہ کرتے ہیں:

1۔ تلاوتِ آیات

حضور نبی اکرم ﷺ قرآن کی تلاوت کے ذریعے دلوں کی تاریک کوٹھڑی اور باطن میں قرآن کا نور داخل فرماتے اس نور کی برکت سے انسان کو نظر آتا کہ اس کے من میں کیا ہے؟ دلوں، روحوں اور باطن میں کیا کیا غلاظت ہے؟ باطن میں کس قدر ریا، عجب، تکبر، دنیا پرستی اور شہوات ہیں؟ باطن میں قرآن کے نور کی روشنی نہ ہو تو یہاں رذائل اخلاق کی صورت میں موجود سانپ اور بچھو کے ہونے کا احساس بھی نہ ہو گا۔ یہ روشنی ہو گی تو پتہ چلے گا کہ من و باطن میں کیا ہے؟

2۔ تزکیہ نفوس

حضور نبی اکرم ﷺ کی تلاوتِ آیات سے سننے والوں پر ان کا باطن روشن ہو جاتا اور باطن میں موجود بد خصلتیں اور رذائل دکھائی دیتے تو ان کے اندر ایک تشویش لاحق ہوتی کہ ہمیں اپنی صفائی کرنی چاہیے۔ ان امراض کا علاج چاہیے۔ نتیجتاً اسی روشنی کے سبب انسان اندھیروں میں گرنے سے بچنے اور ان رذاہل کو ختم کرنے کی جانب متوجہ ہوگا۔ روشنی سے ادراک پیدا ہوتاہے تو تشویش لاحق ہوتی اور علاج کے لیے دل راغب ہوتا ہے۔ روشی ہی ہے جس سے ایک ہمت پیدا ہوتی ہے اور انسان اپنی اصلاح کا ارادہ کرتا ہے۔ جب ان کے اندر شوق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وَیُزَکِّیْھِمْ۔ آقا علیہ السلام ان کا تزکیہ فرماتے ان کے قلب و باطن کی صفائی فرماتے ہیں۔

3۔ تعلیمِ کتاب

جب تزکیہ ہو جائے، قلب و باطن کی طہارت مکمل ہو جائے اور دل کی زمین علوم و معرفت الٰہی کے حصول کے اہل ہو جائے تو پھر نورِ نبوت ایسے قلوب کو علوم و معرفت کے خزانے عطا کرتا ہے۔ نتیجتاً وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ۔ پاکیزہ قلوب کو کتاب کا علم عطا کرتے ہیں۔ کتاب کا علم علمِ نافع بنتا ہی تب ہے جب تزکیہ موجود ہو۔ تزکیہ نہ ہو تو خالی علم علمِ نافع نہیں بنتا اور علم برکات نہیں دیتا۔

4۔ تعلیمِ حکمت

تزکیہ نفس اور تعلیمِ کتاب کے نور کے بعد آقا علیہ السلام کا مومنین پرتیسرا بڑا احسان یہ ہے کہ آپ ﷺ انہیں حکمت و دانائی عطا فرماتے ہیں۔

ہم تزکیہ نفس، قلب و باطن کی صفائی، نورِ قرآنی اور نورِ باطن کے بغیر علم حاصل کریں گے تو وہ معلومات و ادراکات تو ضرور ہونگے مگر وہ ہمیں منزل تک نہیں پہنچاسکتے اور نہ ہی شک، وہم اور ظن کی گرد سے باہر نکال سکتے ہیں۔ تلاوتِ آیات، تزکیہ نفوس، تعلیمِ کتاب اور حکمت یہ ساری چیزیں ملیں تو تب علم کامل ہوتا ہے۔ علم حقیقت کی پہچان کرواتا ہے۔ علوم کے یہ سارے انوار حضورﷺ نے مومنین کو عطا فرمائے۔

حضورﷺ کے ان احسانات سے قبل لوگوں کی کیفیات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ۔

اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

گمراہی اندھیرے کا نام ہے اور علم نور کا نام ہے۔ علم ان چار شرائط اور تقاضوں کو مکمل کرنے سے ہی علمِ نافع بنتا ہے۔

1۔ قرآن کے نور سے باطن پر آگاہی ملی۔

2۔ تزکیہ نفوس سے قلب و باطن کی صفائی ہوئی۔

3۔ اس میں علمِ کتاب آیا۔

4۔ اور اس میں حکمت و دانائی آئی۔

یہ چاروں چیزیں ملیں تو پھر یہ گمراہی اور ضلالت ختم ہوتی ہے اور کامل خیر نصیب ہوتی ہے۔ اس موقع پر انسان کا سفرِ علم مکمل ہو جاتا ہے۔

صاحبانِ علم کی حفاظت کا اُلوہی انتظام

جب علم کی یہ دولت وسیلۂ نبوت سے حاصل ہوتی ہے تو پھر اس کی حفاظت کا انتظام بھی اللہ رب العزت خود فرماتا ہے۔ جو علماء اپنے علم پر نہیں بلکہ محض اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان کی ہر حملے سے حفاظت فرماتاہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِنْ شَيْءٍ

(النساء، 4: 113)

اور (اے حبیب!) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان (دغابازوں) میں سے ایک گروہ یہ ارادہ کر چکا تھا کہ آپ کو بہکا دیں۔جب کہ وہ محض اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور آپ کا تو کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتے۔

واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت اگر حاصل ہو تو پھر گمراہ کرنے والے عناصر و عوامل گمراہ نہیں کر سکتے۔ یہ بنیادی چیز بیان کرنے کے بعداللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا

(النساء، 4: 113)

اوراللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے۔ اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔

یعنی اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو علم کامل ہی نہیں بلکہ علمِ اکمل، علمِ اتم، علمِ اوسع اور علمِ کُل عطا کر دیا۔ ہر وہ چیز آپﷺ کو سکھا دی اور اس کا علم عطا کر دیا جو آپ نہیں جانتے تھے۔ گویا اس اعلانِ خداوندی کے بعد آپ ﷺ کی زندگی میں کسی شے سے متعلق بے خبری و لا علمی رہی ہی نہیں۔ یہ حضور نبی اکرم ﷺ کا مرتبہ علم ہے۔

وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ

کا اعلان واضح فرما رہا ہے کہ آپ ﷺ اپنے ذرائع سے جو نہیں جانتے تھے، اللہ تعالی نے نبوت و رسالت کے مرتبے کے ذریعے آپ ﷺ پر وہ تمام چشمہ ہائے علم کھول دئے اب آپ وہ سب کچھ جان گئے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے علم کو اپنا فضلِ عظیم قرار دیا۔

آیت کریمہ کے دونوں حصے آپس میں ملائیں تو مضمون واضح ہو جائے گا کہ وَکَانَ فَضْلُ اﷲِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا۔ یہ علمِ نبوت آپﷺ پر اللہ رب العزت کا فضل عظیم ہے۔ اسی آیت کے پہلے حصہ میں فرمایا:

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّتْ طَائِفَةٌ

اور (اے حبیب!) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یہ آپ ﷺ کو بہکانے کا ارادہ کر چکے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ آپ ﷺ کو بہکا دیتے بلکہ فرمایا یہ بہکانے کا ارادہ کر چکے تھے آیت مبارکہ کے اول و آخر کو جوڑیں تو مطلب یہ ہوا کہ اگر اللہ کا فضل اور رحمت ساتھ ہو تو پھر صاحبِ علم بہکتا و پھسلتا نہیں ہے۔ ٹھوکر نہیں کھاتا اور نہ گمراہ ہوتا ہے۔ گویااللہ کا فضل اور اس کی رحمت اس کی حفاظت کرتی ہے۔ اس مقام پر اللہ رب العزت نے صاحبان علم کو متوجہ فرمایا ہے کہ صاحبانِ علم اپنے علم پر بھروسہ نہ کریں بلکہ تواضع، عاجزی، اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبدیت اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے طالب رہیں۔ جب اللہ کے فضل اور رحمت کے آگے جھکے رہیں گے، اُس کی رحمت پہ بھروسہ کریں گے، اس کے فضل کی طرف رجوع رکھیں گے تب اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ان پرسایہ فگن ہو کر ان کی حفاظت کرے گی اور کوئی ان کو بہکا نہ سکے گا۔

اس مقام کو حاصل کرنے کے بعد پھر گمراہی پر مبنی کتب ہوں یا فتنہ پرور علماء، کوئی غلط بحثوں میں اُلجھائے یا غلط براہین و دلائل ہوں یہ سب کچھ مل کر بھی اس صاحبِ علم کو بہکا نہیں سکتے۔ اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر دلیل سے علمِ صحیح مل جائے۔ دلیل غلط سمت بھی لے جاسکتی ہے۔ یہ تمام گمراہ کن ذرائع انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بندہ بھٹک جاتا ہے۔ جب یہ تمام امکانات عہدِ رسالت مآب ﷺ میں موجود تھے تو آج کیوں نہیں ہوں گے؟ آج تو اس سے بھی زیادہ موجود ہیں۔ قرآن کہہ رہا ہے کہ وہ طرح طرح کے دلائل دے کر ارادہ کر چکے تھے کہ معاذ اللہ آپ کو بہکا دیں مگر بہکا نہیں سکتے تھے کیونکہ اللہ کے فضل اور رحمت سے آپ ﷺ پہلے سے ہی معصوم بنا دئیے گئے ۔

علم اگر اللہ کے فضل اوراس کی رحمت کے ساتھ جڑ جائے تو اس کی حفاظت ہوتی ہے۔ اللہ کے فضل و رحمت کا حصول تکبر و رعونت، بحث و مناظروں سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تواضع، انکساری، بندگی و عبادت، اطاعت، عملِ صالح اور سجدہ ریزی سے آتی ہے۔ اگر بندہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو اس کی مدد و نصرت اور اس کے فضل و رحمت کا سائل اور منگتا ہو، اس کی مدد و نصرت پر بھروسہ کرنے والا اور عبادت و اعمال صالحہ کے ذریعے اس کی رحمت کی طرف رجوع کرنے والا ہو تو یہ ساری چیزیں اس کے علم کو اپنی حفاظت کے حصار میں لے لیتی ہیں۔

لہٰذا علم منزل تک پہنچائے اور علمِ کامل بنے اس کے لیے لازم ہے کہ سفرِ علم میں نہ صرف طالبِ علم کی حفاظت ہو، بلکہ اس کا علم بھی محفوظ رہے۔ سفرِ علم میں علم کی حفاظت، علم خود نہیں کرسکتا بلکہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہی اس علم کی حفاظت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، بندگی، عبادت، اعمال صالحہ، اخلاق حسنہ اور تواضع و انکساری، توکل، رجوع الی اللہ اور اخلاص یہ تمام ذرائع مل کر اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا سامان مہیا کرتے ہیں جو ہماری اور ہمارے علم کی حفاظت کرتا ہے۔

پھر یہی علم، علمِ نافع بنتا ہے۔ یہی علم بندے کو خدا کی پہچان کرواتا ہے اور اُسے علم و عرفان کی اُن منزلوں تک پہنچا دیتا ہے کہ جہاں وہ مسجودِ ملائک اور محبوبِ خلائق بن جاتا ہے۔