صلح جوئی اور باہمی تعلقات

فجر نعمان

صلح جوئی اور باہمی تعلقات

تنگ نظری اور عدم برداشت نے ہماری سماجی زندگی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم ایک جھگڑالو معاشرہ بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم سے ہماری طبیعت کے مخالف کوئی بات برداشت نہیں ہوتی۔ غور کئے بغیر فوراً شدید ردعمل دیتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہم ایک جھگڑالو قوم کے طور پر مشہور ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہمارے ایک عرب بھائی ملک کے سفیر نے بھی دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ پاکستان شہری جس ملک میں رہیں اس ملک کے قوانین اور سماجی روایات کا احترام کریں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ۔ بچپن میں تعلیم و تربیت کا جو تھوڑا بہت نظام موجود تھا وہ آج ختم ہو گیا ہے۔ ہم اسلامی ملک ہیں مگر روحانیت کی جگہ مادیت نے لے لی ہے ۔ ہمارے خراب معاشی حالات نے ہمارے اندر تشدد اور غصہ بھر دیا ہے۔ صلح کی جگہ جھگڑے نے لے لی ہے۔ باہمی تعلقات کی یہ صورت حال ہے کہ فیملی کورٹس میں سب سے زیادہ کیسز خلع اور طلاق کے آرہے ہیں ماں، بیٹے کے خلاف تحفظ کے لئے پولیس سے درخواستیں کررہی ہے۔ بھائی ،بھائی کا قتل کررہا ہے ۔ ہم جس پیغمبر اسلام کے اُمتی ہیں انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے انسان کی عزت میں اضافہ فرما دیتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ خود نرمی فرمانے والا ہے اور ہر چیز میں نرمی پسند فرماتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اُسے نرمی کی صفت سے نواز دیتا ہے،جو لوگوں پر رحم نہ کرے اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔

ہم نے معاف نہ کرنے والی بری صفت کو اپنی طبیعت کا حصہ بنا کر اپنے اوپر خیر کے سارے دروازے بند کر دئیے ہیں۔ اس وقت جاپان ایک ایسا ملک ہے جس کی ترقی ،خوشحالی اور امن کا راز ان کی سادگی اور مسکراتے چہروں میں ہے۔پچھلی دو دہائیوں سے جاپان میں قتل کی کوئی واردات نہیں ہوئی، چوری کی کوئی واردات نہیں ہوئی لوگ گاڑی کے اندر چابی چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے گھر کے دروازوں کو کھلا رکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی قوم نے اسلام کی تعلیمات کو اپنایا ہے تو وہ جاپانی قوم ہے۔

جاپان کے معنی ہیں خوش و خرم لوگوں کا جزیرہ۔ جاپانیوں کا یہ اعتقاد ہے کہ دوسروں کو خوش رکھنے سے خوشی ملتی ہے۔ یہ تعلیمات تو پیغمبر اسلام کی ہیں، یہ ہماری علمی وراثت ہے، یہ تو ہمارا دین کہتا ہے کہ مسکرا کر بات کرنا بھی صدقہ ہے مگر ہم نے ان تعلیمات کو پس پشت ڈال کر اپنے روز و شب کو جہنم زار بنا لیا ہے۔ جاپانی آج دنیا کا پرامن معاشرہ کیوں ہیں؟ انہوں نے صرف دو کام کئے ہیں۔ (1)ہوش سنبھالتے ہی انہوں نے اپنے بچوں کو اخلاق سکھایا ہے، ان کی تربیت کی۔ جماعت اول سے لیکر چھٹی جماعت تک بچوں کو صرف ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے اُس کا نام ہے اخلاقیات کہ گھر میں کیسے رہنا ہے۔ محلے میں کیسے رہنا ہے۔ سکول میں کیسے رہنا ہے؟ شہر میں کیسے رہنا ہے اور اپنے ملک کے ساتھ محبت کیسے کرنی ہے؟ دوسرں کے لئے آسانیاں کیسے پیدا کرنی ہیں؟ جاپان دنیا کا خوشحال ترین ملک یہاں ارب پتیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر کوئی ارب پتی اپنے بچوں کی نگہداشت کے لئے نوکر نہیں رکھتا۔ وہ اپنے بچوں کی خود تربیت کرتا ہے۔ دوسرا جاپانیوں نے سادگی اختیار کی ہے اور تیسرا انہوں نے سخت محنت کو اپنا شعار بنایا ہے۔ بچوں کی تربیت ، سادگی اور سخت محنت اور مسکراتے چہرے کے ساتھ ہر ملنے والے کو خوش آمدید کہنا ان کی پرسکون زندگی کا راز ہے۔ یہی تعلیمات پیغمبر اسلام نے ہمیں دیں جنہیں چھوڑ کر ہم اس وقت کرۂ ارض کی مفلوک الحال قوم بن گئے ہیں۔

ہم جانے انجانے میں ہونے والی کسی کی کوتاہی کو برداشت نہیں کرتے۔ دل میں دشمنی پال لیتے ہیں، عمل کا شدید ردعمل دیتے ہیں، نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ذہن تخریب کاری کا مرکز بن جاتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کی عفو و درگزر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان پر عمل کر کے ہم باہمی تعلقات کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ غزوہ حنین کے موقع پر آپ ﷺ نے تالیف قلب کے لئے نو مسلموں کو مال غنیمت سے زیادہ حصہ دیا۔ کسی نے کہا ’’یہ تقسیم عادلانہ نہیں ہے‘‘ ذرا چشم تصور میں لائیں ایک فاتح سپہ سالار پر اس کا کوئی سپاہی انگلی اٹھا دے؟تو وہ کیا حشر کرے گا مگر یہ سپہ سالار کوئی دنیا دار سالار اعلیٰ نہیں آپ ﷺ نے اس گستاخی پر فقط اتنا کہا اگر اللہ کا رسول انصاف نہیں کرے گا تو پھر انصاف کرنے والا کون ہے؟ ایسا ہی حلم اور بردباری اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا آدمی اپنے حلم اور بردباری کے ذریعے دن کے روزہ دار اور رات کے عبادت گزار کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ جو شخص غصہ دلائے جانے پر بھی غصہ میں نہ آئے اس کے لئے اللہ کی محبت ضروری ہو جاتی ہےجو اللہ کی رضا کے لئے عاجزی اور کمتری اختیار کرتا ہے اللہ اُسے سربلند کر دیتا ہے۔

برداشت، کی ایک مثال امام اعظم ابوحنیفہ ؒ سے متعلق ہے۔ آپ مسجد میں اپنے تلامذہ کے ہمراہ موجود تھے کہ ایک شخص نے آپ کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ مسلسل گالیاں دیتا چلا گیا، آپ نشست ختم کر کے گھر کی طرف روانہ ہوئے وہ شخص پیچھے پیچھے گالیاں دیتے ہوئے چلتا رہا۔جب آپ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے تو رکے اور کہا میرے پاس وقت کم ہے جتنی گالیاں دینی ہے دے لیں اس غیر متوقع جواب پر وہ شخص شرمندہ ہوا اور سر جھکا کر پلٹ گیا۔اگر ہم اپنی زندگیوں کو پرسکون اور تعلقات کو خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں، انہیں برداشت کرنا سیکھیں۔ اُن سے مکالمہ کرنا سیکھیں۔

فی زمانہ جاپانی قوم سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کلمہ نہیں پڑھا مگر ان کے اندر سارے اوصاف پیغمبر اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ جاپانی گالی نہیں دیتے ان کی زبان میں گالی ہے ہی نہیں۔ جب کوئی جاپانی کسی شخص سے ناراض ہوتا ہے تو وہ اُسے ’’باکا‘‘ کہتا ہے جس کا مطلب ہے بیوقوف اور یہ لفظ کوئی جاپانی نہیں سننا چاہتا۔ جب والدین اپنے بچوں سے ناراض ہوتے ہیں تو وہ انہیں کہتے ہیں ’’تم جاپانی نہیں ہو‘‘ ۔ بچوں کی اس لفظ سے عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔ جاپان کی 50فیصد صنعتی ترقی خواتین کی وجہ سے ہے۔ جاپان کے والدین بیٹیوں کو نعمت سمجھتے ہیں کیونکہ لڑکیاں لڑکوں کی نسبت والدین سے حیرت انگیز تک زیادہ محبت کرتی ہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا بیٹیوں کو برا مت سمجھو یہ بہت محبت کرنے والیاں ہوتی ہیں۔ لگتا ہے اللہ کے رسولﷺ کے اس پیغام کو جاپانی قوم نے درست طریقے سے سمجھا ہے۔ جاپان کی ترقی کا راز جاپان کی مائیں ہیں۔

جاپان 500مذاہب کی سرزمین ہے مگر آج تک وہاں کوئی مذہبی جھگڑا نہیں ہوا۔ صلح جوئی وہ راستہ ہے جو دلوں کو جوڑتا ہے اور اختلافات کودور کرتا ہے۔ باہمی تعلقات کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھیں اور ان کی قدر کریں۔ صلح کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، کیونکہ امن ہی خوشحالی کی بنیاد ہے۔ باہمی تعلقات کی اصلاح کا آغاز خود احتسابی اور برداشت سے ہوتا ہے۔ صلح جوئی کا راستہ ہمیشہ مشکل ہوتا ہے لیکن اس کے نتائج ہمیشہ پائیدار ہوتے ہیں۔ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو بھول کر مشترکہ مفادات پر توجہ دیں۔ صلح کے لیے پہلا قدم دوسروں کو معاف کرنا ہے، کیونکہ معافی دلوں کو نرم کرتی ہے۔ صلح جوئی کی طاقت وہ ہے جو دنیا کو بدل سکتی ہے، کیونکہ یہ نفرت کو محبت میں تبدیل کرتی ہے۔ باہمی تعلقات کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا انا کو پیچھے چھوڑ دیں اور دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ صلح کا راستہ وہی لوگ اپناتے ہیں جو دوسروں کی خوشی میں اپنا خوشی دیکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بہت بڑھ گیا ہے۔ہم کسی کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دوسروں کی نیتوں پر شک کرتے ہیں جبکہ نیتیں اور دلوں کے بھید اللہ جانتا ہے۔ عدم برداشت نے ناانصافی کی کوکھ سے جنم لیا۔ہم سزا اور جزا کے فیصلے اسی دنیا میں کرنا چاہتے ہیں۔تھانے، عدالتیں، چھوٹے چھوٹے جھگڑوں اور مقدمات سے بھری ہوئی ہیں۔ ماں، بیٹے کے ظلم کا شکار ہے، باپ بیٹے سے ڈرتا اور چھتا پھررہا ہے۔ بھائی بھائی کا قاتل بن جاتا ہے۔ بیویاں شوہروں سے تنگ ہیں اور شوہر بیویوں سے۔ فیملی کورٹس میں 80فیصد مقدمات خلع اور طلاق کے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟

صلح حدیبیہ

صلح حدیبیہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے جو 6 ہجری میں پیش آیا۔ حضرت محمد ﷺاپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے ارادے سے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئے ،لیکن قریش نے مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ اس موقع پر ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دس سال کی جنگ بندی طے پائی اور مسلمانوں کو اگلے سال عمرہ ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ بظاہر یہ معاہدہ مسلمانوں کے لیے خسارے کا لگ رہاتھا لیکن یہ دراصل اسلام کے پھیلاؤ کا باعث بنا اور صلح کی ایک بہترین مثال قائم ہوئی۔

فتح مکہ

فتح مکہ 8 ہجری میں پیش آیا جب مسلمانوں نے مکہ کو بغیر کسی جنگ کے فتح کیا۔ حضرت محمدﷺنے مکہ میں داخل ہونے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا اور ان لوگوں کو بھی معاف کر دیا جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید ظلم وستم روا رکھا تھا۔ اس موقع پر آپﷺ نے فرمایا:آج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو،یہ واقعہ نبوی اخلاقیات اور صلح جوئی کی عظیم مثال ہے۔

میثاق مدینہ

جب حضرت محمد ﷺنے مدینہ منورہ ہجرت کی تو وہاں مختلف قبائل اور مذاہب کے لوگ آباد تھے۔ ان کے درمیان امن و امان اور و تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک معاہدہ کیا گیا جسے میثاق مدینہ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر قبائل کے حقوق و فرائض کو متعین کیا گیا اور اس کے نتیجے میں مدینہ ایک پر امن شہر بن گیا۔ یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی بنیادوں میں صلح اور حسن معاملات کا ایک اہم ستون تھا۔

یہودیوں کے ساتھ معاملات

مدینہ میں موجود یہودی قبائل کے ساتھ حسن سلوک اور صل کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت محمدﷺنے ہمیشہ ان کے ساتھ انصاف اور حسن معاملات کا مظاہرہ کیا، چاہے وہ معاہدات کی پابندی ہو یا تجارتی معاملات ۔ جب یہودی قبائل نے معاہدوں کی خلاف ورزی کی ، تب بھی آپﷺ نے ان کے ساتھ صلح کی راہیں تلاش کیں اور جنگ کو آخری حربہ کے طور پر اپنایا۔

عیسائیوں کے ساتھ صلح

حضرت محمد ﷺ نجران کے عیسائیوں کے ساتھ بھی صلح کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت عیسائیوں کو اپنی عبادت اور مذہبی رسومات کی آزادی دی گئی اور ان کے جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دی گئی۔ یہ معاہدہ مختلف مذاہب کے درمیان صلح اور بقائے باہمی کی ایک شاندار مثال ہے۔