بچوں کی تربیت اور اس کے تقاضے
بچوں کی تربیت کا آغاز بچوں کی ولادت سے نہیں ہوتا۔ اس کا آغاز بچوں کی ولادت سے بھی بہت پہلے جب خاتون ہو تو اپنے لیے شوہر کا انتخاب کررہی ہوتی ہے شوہر ہو تو اپنے لیے بیوی کا انتخاب کررہا ہوتا ہے یا والدین اپنے بچوں کے لیے رشتوں کا انتخاب کررہے ہوتے ہیں۔ درحقیقت آرٹ آف پیرنٹنگ کا آغاز وہیں سے ہوجاتا ہے کیونکہ اولاد والدین میں سے کسی ایک کا غالب عکس بنے گی۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اولاد تک یکسر مختلف ہو جینز کا اشو بھی ہے گھر میں ماحول کا اثر بھی ہے تربیت کا عمل دخل بھی ہے۔ اس لیے آج کل کی بیٹے اور بیٹیاں جب رشتہ کرنے جائیں تو ان کو فقط اس نگاہ سے نہ کیا جائے کہ وہ صرف اپنی لائف کے لیے کررہے ہیں بلکہ اپنی نسل کے لیے کرنا چاہیے۔ اگر آدمی ہے اپنے لیے بیوی کا انتخاب کررہا ہے وہ دیکھے کہ اپنی اگلی نسل کے لیے ایک ماں تلاش کررہا ہوں۔ اگر کوئی بیٹی ہے اپنے لیے شوہر دیکھ رہی ہے دیکھے میں اپنی اولاد کا کیسا باپ چاہتی ہوں اگر والدین ہیں تو ان کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے گرینڈ چلڈرن مڈر یا فادر کس طرح کے چاہتے ہیں۔
یہ فکر ہمیں آقا علیہ السلام کی تعلیمات کی طرف لے کر جاتی ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا جب تم رشتہ تلاش کرنے جاؤ جو خوبیاں دیکھا کرو اس میں ظاہری حسن بہت بعد میں آتا ہے باطنی حسن بہت پہلے آتا ہے۔ اس میں اچھا اخلاق اچھا کردار تربیت یافتہ ہونا کس خاندان سے اس کا آنا ہوا ہے۔ اپنے جیسوں میں کریں، ایسا تو نہیں کہ اس کو سکھانے میں بہت وقت لگ جائے خواہ شوہر ہو یا بیوی اولاد کی تربیت تو بہت بعد میں آتی ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: مشرک سے شادی نہ کرو مگر غلام سے شادی کرلو۔ وہ اس سے بہتر ہے۔ اس میں مذہبی عوامل شامل نہیں ہیں یہ ایک تضاد کو ختم کرنا سکھایا جارہا ہے۔ اگر والدین دو مذہبی، فکری طبقات سے آرہے ہوں گے تو اولاد پریشانی میں مبتلا ہوجائے گی کہ کیا اپنائیں اور کس کو چھوڑیں۔
حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک باپ اپنے بیٹے کی شکایت لے کر آیا کہ بیٹا میری سنتا نہیں ہے آپ نے اس کے بیٹے کو بلوا بھیجا اور اسے کہا کہ تمھارا باپ شکایت کرتا ہے تو اس کی بات نہیں سنتے اس کی عزت نہیں کرتے۔ اس بچے نے کہا کیا اولاد کے کچھ حقوق والدین پر ہیں۔ انھوں نے فرمایا ہاں بالکل ہیں۔ اس نے پوچھا وہ کیا حقوق ہیں؟ سیدنا عمرؓ نے فرمایا وہ سب سے پہلا حق یہ ہے کہ باپ اچھی ماں کا انتخاب کرے۔ دوسرا حق یہ ہے کہ اچھا نام دیا جائے تیسری بات قرآن میں سے سکھایا جائے۔ وہ کہنے لگا امیرالمومنین پہلے حق کی بات کریں۔ میرے باپ نے ایک آگ کی پوجا کرنے والی غلام عورت کو میری ماں بنایا وہ نہ خود کچھ جانتی تھی نہ اس نے میری تربیت کی۔ میرے باپ کے پاس وقت نہیں تھا نہ اس نے مجھے اچھا نام دیا اور نہ ہی آج تک اللہ کے قرآن میں سے کوئی تعلیم دی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے اس کے باپ سے مخاطب ہوکر کہا یہ تو تمھارا اپنا عمل ہے۔ میرے پاس شکایت کیوں لے کر آئے ہو؟
رزق حلال:
اللہ اور اس کے رسولﷺ نے جو ہمیں رہنمائی عطا فرمائی ہے وہ ہوکر رہتی ہیں۔ وہ ہے حلال ذرائع سے کمانا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جو حرام پر پلا ہوگا۔ اگر ایک بچہ ہے اس کے والدین حرام کماتے تھے۔ اس میں بچے کا اختیار عمل دخل نہیں ہے لیکن اس کی تفسیر کریں تو اس وقت تو بچے کا عمل دخل نہیں ہے۔ لیکن اس کی پرورش میں حرام داخل ہوجاتا ہے تو وہ بڑے ہوکر ایسے کام ضرور کرتاہے۔ جو اس کے اورجنت کے مانع ہوتے ہیں۔ والدین کی توجہ اس طرف مبذول کروانا مقصود ہے کہ اپنے اور اپنے اولاد پر رحم کریں۔ بھلے تھوڑا کھائیں، حرام سے اجتناب کریں، رشوت، غبن، حق تلفی کرکے نہ خود اپنی زندگی گزارنے کی جسارت کریں نہ اپنی اولاد کو دیں۔ معاشرتی پر کچھ دباؤ ہوتے ہیں بالخصوص جو کما رہا ہوتا ہے جو مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ حرام کمانے کی طرف جاتا ہے نتیجتاً اپنے بچوں کا مستقبل برباد کردیتا ہے۔ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ کس سکول میں داخل کروائیں تو میں ان کو کہتا ہوں جو آپ کی جیب اجازت دیتی ہے۔ اگر آپ کی کمائی 70 ہزار روپے ہے آپ اس سکول میں داخل کروادیں جب کے والدین 4 سے 5 لاکھ کمانے والے ہیں تو نفسیاتی دباؤاس بچے پر بھی ہوگا۔ ان کے کلاس فیلو کا رہن سہن بھی میچ نہیں کرسکیں گے پھر میاں بیوی کے جھگڑے ہوں گے۔ وہ جھگڑے بڑھتے چلے جائیں گے یا باپ حرام کمانے کی طرف جائے گا کیونکہ جائز حلال کے ذرائع اس کو اجازت نہیں دیتے۔ لہذا بہتر ہے انسان اس سکول میں داخل کروائے جو وہ برداشت کرسکتا ہے۔ پھر وہ تمام امور سرانجام دے جو اس کی تربیت کے لیے ضروری ہیں۔
نافرمانی:
جب بچے کو نافرمان دیکھیں تو اپنے آپ کو دیکھیں ہم اپنے والدین کے ساتھ کیسے تھے۔ یہ بھی اللہ پاک کا نظام ہے اس سے آپ آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ اگر آپ والدین کے ساتھ ٹھیک تھے تو اپنا معاملہ اپنے رب کے ساتھ دیکھیں ہم اللہ کے کتنے نافرمان ہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ پاک ہماری نافرمانی کا منظر ہمیں ہماری اولاد کے ذریعے سے دکھادے۔ معروف بزرگ فرماتے ہیں جب کبھی میری اولاد میرا کہنا نہ مانے یا اپنے ماتحتوں میں اپنی عزت کرنا نہ دیکھوں ان کے ساتھ غصہ نہیں کرتا کچھ لمحے تنہائی میں بیٹھ کر یہ سوچتا ہوں میں نے کب، کس لمحے کہاں غلطی کی ہے جب مجھے یاد آجائے تو مسئلہ سمجھ آجاتا ہے۔ پہلے میں توبہ کرتا ہوں تو دوسرے کو بہتر طور پر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
تربیت:
تربیتِ اولاد فقط سمجھانے کا کام نہیں ہے جو کچھ صبح و شام اس کے گھر میں ہوتا رہتا ہے۔ اس کے سیکھنے میں اضافہ کررہا ہے۔ مثال کے طور پر والدین کا آپس میں رویہ اگر والدین چیخ کر بات کرتے ہیں وہ چاہیں کہ ہماری اولاد سوفٹ سپوکن بن جائے تو وہ نہیں بنے گی۔ اگر گالی گلوچ کا رویہ ہے تو انھوں نے وہی سے لینی ہے اگر گھر میں ٹی وی پر ڈرامہ دیکھتے ہیں وہ بھی دیکھتا ہے۔ ڈرامے میں الزام تراشی، شورو غل یہ سارا ماحول دیکھا ہے اس عمر میں بچے کو لامحدود معلومات کےا ٓگے بٹھادیا ہے وہ بری چیز اپنے اندر لکھتا جارہا ہے۔ ہم نفسیاتی طور پر تو بات کرتے ہیں مگر اس پر بات نہیں کرتے جس نے بچے کی فطرت کو سنوارنا ہے۔ اس طرح کتب، رسالے ہیں ای پیڈ ہیں۔ بچے والدین سے زیادہ ای پیڈ سے سیکھتا ہے، چینل ویڈیو گیم ہمارے بچوں کی شخصیت سازی کررہے ہیں۔ اس میں غصہ ہے۔ آپ اس سے بچے کو غصہ سکھا رہے ہیں، بچوں کے اندر صبرو تحمل نہیں ہے جلد بازی ہے، ویڈیو گیم اور اشتعال اور بے چینی پیدا کررہی ہے۔ اب کیا دواؤں سے علاج شروع کردیں گے نہیں پہلے اس ذرائع کو کنٹرول کریں جہاں سے بے چینی آرہی ہے مگر ہم اپنی آسانی کے لیے ہمیں تنگ نہ کریں ای پیڈ دے دیتے ہیں لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگلی نسل کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔
بعض والدین اپنے بچوں کونوکروں کے سپرد کردیتے ہیں تو جیسی تربیت نوکروں کی ہے ویسی ہی تربیت کریں گے۔ بچوں کا مستقبل وہ لکھ رہے ہیں پھر وہ تعلق و محبت بھی پیدا نہیں ہوتا مگر ہم یہ سارا کچھ اپنی آسانی کے لیے کرتے ہیں۔ درحقیقت ہم اپنا فرض ادا نہیں کررہے۔ جب قیامت کے دن ہر ایک نے اللہ رب العزت کے حضور پیش ہونا ہے تو نامہ اعمال ہوگا۔ اس میں ایک سیکشن پیرنٹنگ کا بھی ہے وہ ہمارے فرائض میں سے ہے۔ وہاں صفر لکھا ہوگا کہ یہ والدینیت کے اعتبار سے انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ اس کے برعکس 100 فیصد نمبر لکھیں ہوں کہ انھوں نے پیرنٹنگ کا حق ادا کیا یہی عمل آپ کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتا ہے کہ آپ کے مرنے کے بعد بھی جو نیک اولادچھوڑی ہوگی وہاں بیٹھے بھی آپ کو راحتیں پہنچارہی ہوگی۔ اگر بری اولاد چھوڑ کر گئے ہوں وہاں بیٹھے بھی دل جل رہا ہوگا۔ یہ فیصلے آج ہم اپنے ہاتھ سے کرسکتے ہیں۔
تربیت کا آغاز شروع سے ہوتا ہے ہم کہتے ہیں کہ بچہ ابھی چھوٹا ہے سال کا یا دو سال کا ہے۔ ابھی اسے کھیلنے دیں بچہ بدتمیزی کرتا ہے ہم ہنستے ہیں۔ اگر ہم اس کی تربیت نہیں کریں گے تو اگلے چند سالوں میں اس کی شخصیت پختہ ہوجائے گی۔ آغاز سے اس کی تربیت پر توجہ دینا شروع کردینی چاہیے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں اگر بچے کے کھانے کی عادت پوری ہوگی اگر وہ زیادہ کھاتا ہے توبچپن میں اس کو اسی کام سے روک دیں یعنی جائز ضرورت سے بڑھ کر طلب باقی رہے گی۔
آقا علیہ السلام جب بچہ بولنا شروع ہوتا ہے تو اس کو پہلی چیز جو سکھائی جاتی ہے وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سکھاتے۔ جب بچے کے دودھ کے دانت گرنا شروع ہوجائیں تو بچے کو نماز کی عادت ڈال دو بعض میں عادت اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ تیس و چالیس سال میں بھی نماز کی عادت پختہ نہیں ہوتی۔ اگر ابتدائی سالوں میں ڈال دی جائے تو ان کی عادت کبھی چھوٹتی نہیں۔ اسی طرح ہر چیز کا اطلاق ہے اس طرح آداب ہیں۔ والد والدہ کا الفاظ کا انتخاب ہے وہیں ٹوکا لوگ جائے اچھے انداز میں تاکہ شخصیت سازی ہوجائے۔ تربیت صرف ماں کا کام نہیں ہے والد کے رول کو کبھی ماں ادا نہیں کرسکتی۔ اگر وہ اپنے حصے کا رول ادا نہیں کرے گا ہر کسی کا نامہ اعمال اپنا اپنا ہے ماں کا پُر ہوگا والد کا خالی ہوگا۔ قرآن جب انبیاء علیہ السلام کی اولاد کا تذکرہ کرتا ہے خاص قسم کے تعلق کا اظہار کرتا ہے۔
یہ ہمارے لیے ایک پیغام ہے کہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی خاص قسم کی بونڈنگ ہے۔ کہیں سوالات ہے کہیں پر وہ اپنے خواب بھی اپنے بیٹے سے شیئر کررہے ہیں۔ کوالٹی ٹائم گزار رہے ہیں۔ کہیں وہ رائے مانگ رہے ہیں۔ بیٹا رائے دے رہا ہے بیٹے کی رائے کو عزت دے رہے ہیں۔ یہ اعتبار، محبت اور خود اعتماد کو ظاہر کرتا ہے کہیں یوسف علیہ السلام چھوٹے ہیں اپنے والد کے ساتھ اپنا خواب شیئر کررہے ہیں۔ اگر قرآن کو رویے کے انداز میں دیکھیں کہ قرآن نے ان کہانیوں کو اس لیے بیان کیا کہ وہ دکھا رہے ہیں جہاں پر اپنے خواب سنائے جارہے ہیں اس پر مشورہ کیا جارہا ہے۔
سمارٹ:
تربیت صرف مخلص وفادار والدین ہوجانے سے نہیں ہوتی اس کے ساتھ ضروری ہے کہ سمارٹ بھی ہوں مخلص ہوں لیکن سمارٹ نہ ہوں تو بچے کی ضروریات کو ایڈریس نہیں کریں گے عین ممکن ہے آپ کی سختی بچوں کو آپ کے خلاف آمادہ جنگ کردے۔ اگر بچے کہیں کہ اس کو کرنے کا ایک سمارٹ طریقہ بھی ہے لیکن آپ کہیں کہ میں نے کہہ دیا اس پر قائم ہوجاؤ۔ اگر بچہ سمجھدار ہوگا تو وہ ذہن میں ضرور رکھ لے گا کہ ہمارے والدین کو سمجھ نہیں آتی۔ اسی فکر کے ساتھ بڑا ہوجائے گا۔ جوں جوں عمر بڑھتی چلی جائے گی اس کی سمجھداری پر شک بھی بڑھتا چلا جائے گا۔ وہ بڑا ہوکر آپ کی باتوں کو سنجیدہ لینا چھوڑ دے گا۔ شروع سے اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ ان کو دنیا کا پتہ نہیں۔ وہ ادب سے آپ سے کچھ نہیں کہے گا مگر مشورہ جاکر دوستوں سے ہی کرے گا۔ اس لیے جب بچوں کے ساتھ سختی بھی کریں سمجھائیں بھی والدین آپس میں مشورہ کریں اور سمجھداری سے سمارٹ اعتبار سے چیزوں کو ڈیل کریں۔ بچے کے ذہن میں یہ پیدا نہ ہوجائے کہ ہمارے والدین کو سمجھ نہیں ہے۔
بچوں کی تربیت کا مرحلہ بچوں کی پیدائش سے بھی پہلے شروع ہوجاتاہے۔ دراصل ہم اپنے بچوں کو بتانا کیا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کو خود نہیں پتہ کہ آپ بچے کو کیا بنانا چاہتے ہیں کس جگہ اور کس کام پر محنت کروانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اولاد کی پیدائش سے پہلے اپنے تصور کو واضح کرنے کی قرآن تعلیم دیتا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپا آگیا ہے۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کی دعا مانگ رہے ہیں۔ وہ دعا مانگتے ہی یہ کہہ دیتے تھے ہمیں دراصل کیسا بچہ چاہیے تیرے نیکو کار لوگوں میں سے ہو۔ اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام ، سیدنا یحییٰ علیہ السلام کے لیے دعا مانگ رہے ہیں۔
تو ذرا غور کیجئے جب پیدائش کا ابھی وجود بھی نہ ہوا ہو اس سے پہلے وہ کلیئر ہیں کہ مجھے اللہ سے کیا چاہیے۔ اگر اتنی کلیئر ہو کہ آپ نے اپنی اولاد کو بنانا کیا ہے تب آپ سمجھدار والدین کی طرح ان کو مناسب طور پر ایک ایک دن رہنمائی کرتے چلے جائیں گے۔ یہ صرف انبیاء علیہ السلام کا طریقہ نہیں ہے آپ اولیاء کی زندگی میں بھی دیکھ لیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے والد نے دعا کی مولا تو دنیا میں جن کو ولی بناتا ہے مجھے ان میں سے بیٹا دے۔ جو مسلمانوں کی زبوں حالی کے اندر ان کو طاقتور کردے۔ تو جس دن سے وہ پیدا ہوگا تووالدین اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے کوشش کررہے ہوں گے جو بے خیالی اور بے دھیانی میں پیدا کرتے چلے جاتے ہی ں نہ مقصد کا پتہ یا خیال واضح ہے کہ ہم نے اس اولاد سے آگے لینا کیا ہے۔ پھر ویسا ہی نتیجہ نکلتا ہے۔
یہ ہی کچھ ہم شیخ الاسلام کے بچپن کے احوال میں سنتے اور پڑھتے ہیں۔ دادا ابو قبلہ حرم پاک میں مانگ رہے ہیں مجھے مجدد بیٹا دے جب اللہ پاک دے دیتا ہے تو ایک دن ضائع کیے بغیر تربیت کرتے چلے جاتے ہیں۔ بابا فرید گنج شکرؒ کی والدہ کو پتہ ہے کہ میں مرد کامل تیار کررہی ہوں۔ اس کو پتہ ہے کہ اس کو شکر پسند ہے تو میں اس کو مصلے کے نیچے شکر بھی رکھوں۔ ایک مشن پر کام کرنا یہ اس کی زندگی کا پراجیکٹ ہے۔ موٹیویشن ڈویلپ کی جارہی ہے۔ ان کا مقصد تھا انھوں نے اپنی اولاد کو کامل بندہ بنانا ہے۔ ایک انسان کسی بچے کو بڑا ڈاکٹر بناتا ہے۔
اگر بے ہنگم طریقے سے سفر کرتے چلے جائیں گے اولاد ہے 4، 5 کچھ پتہ نہیں کیا کرتے ہیں۔ ہم اولاد کو ترجیح نہیں دیتے ہم سمجھتے ہیں ہم بھی پل گئے ہیں یہ بھی پل جائیں گے۔ جیسے ہم اپنے مقصد جاب کو لیتے ہیں اپنی تعلیم کو لیتے ہیں اولاد رومزہ کی چیزوں میں سے چیز بن جاتی ہے جو پراجیکٹ لے کر چلتے ہیں ان کی اولادیں پھر تاریخ رقم کرتی ہے۔ اللہ پاک ان کو خاص بنادیتا ہے جنھوں نے اپنی زندگی کے مقصد میں سے ایک بڑا شیئر اپنی اولاد کو دیا ہو۔ پھروہ غیر معمولی بنتے ہیں۔ اس بچوں کی تربیت کے پراجیکٹ کو سنجیدہ لینے کی ضررورت ہے۔
ترجیحات بچوں کے ساتھ ڈیل کرتے ہوئے بھی بہت ناگزیر ہوتی ہیں جیسے ہم نے ایک دلیل کو حاصل کرنا ہے ہمیں بھی دل میں پتہ ہوتا ہے کہ یہ بات غلط ہے لیکن بچوں کے ساتھ ایک انا کا مسئلہ آگیا ہے۔ اپنی بات ثابت کرنے کے لیے ڈٹ جاتے ہیں۔ اس چیز کو سوچے بغیر کہ بچہ جب سمجھدار ہوگا یہ دلیل یاد آئے گی۔ یہ میرے بارے میں کیا سوچے گا یہ آگے اپنے بچوں کے ساتھ کیا کرے گا۔ اس تھوڑے سے لمحہ کے اندر ایک جنگ جیتنے کے لیے کیونکہ ترجیح تربیت نہیں ہے، ترجیح ایک لمحہ ہے ایسے بہت ساری ڈیلنگ اندر رویے اختیار کرلیتے ہیں۔ جس کا بڑا تکلیف دہ نتیجہ ہوا کرتاہے۔ ایک سروے تھا جس میں 105 ماؤں نے حصہ لیا۔ 25 ماں می ں سے بعض نے کہا ہم اپنے چے کو اچھا مسلمان بننا چاہتے ہیں۔ 23 اچھا انسان، 22 نے کہا جو چاہیں بن جائیں۔ 9 نے کہا ڈاکٹر، انجینئر، 5 نے کہا بچوں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں، 4 نے کہا ہم بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہمارے بچے اعتدال شخصیت کے حامل ہوں۔ والدین کے مقاصد ہی واضح نہیں ہیں۔ ایک معتدل انسان بنانا چاہ رہے ہیں۔ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بچہ ڈاکٹر بن جائے لیکن جھوٹ بولتا ہو، ہمیں مسئلہ نہیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں دین سمجھ لے لوگوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچاتا ہو، کیرئر بہت شاندار ہو، لیکن اپنی بیوی بچوں کو دھوکا دیتا ہو، کرپشن کرتا ہو، لوگوں کے مال کھاتا ہو، پاکستان کا سیاستدان بن جائے۔ کیا ایسی کامیابی قبول ہے۔ جس کے پیچھے بہت ساری بے عزتی آئے۔ لہذا واضح ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سٹپ کے ساتھ بچے کو موٹیویٹ کرکے چلاتے ہیں مسلمان بنایا جائے آپ کیا چاہتے ہیں اللہ کا نیک بندہ بن جائے۔ اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچائے۔
پہلے دن سے ہی اس کو لے کر چلیں جبکہ ہم بچے کو دو کشتیوں کا مسافر بنادیتے ہیں۔ جو بچے کی ذہنی نشوونما کے لیے زہر قاتل ہے ہم خود اس پر توجہ نہیں دیتے، یہ بھی ذہنی طور پر ۔۔ ہوتے ہیں۔ اگر قرآن کلاس کے لیے جاتے ہیں حجاب لیتی ہے اگر ہوٹل میں جاتی ہے تو حجاب اتار سکتی ہے۔ اب ایک شخصیت میں دو شخصیتیں پیدا کردی۔ آپ نے شروع سے پریشان کردیا وہ بھی پوچھے گی کہ ایک لمحے پہن لیں دوسرے لمحے نہ پہنے یہ کیا ہے ہمارا کلچر ہے جب اذان ہوتی ہے دوپٹہ لے لیتی ہیں آگے پیچھے نہیں لیتی۔ ہم نے اپنی پوری سوسائٹی کو منافقت پر قائم کردیا ہے۔ ہم نہیں سوچتے ہم دو طرح کی شخصیت ایک شخص میں پیدا کررہے ہیں۔ اگر حجاب کی عادت ڈالی ہے تو آپ اس کی تعریف نہیں کریں گے آپ اس میں خوبصورت لگ رہی ہیں۔ اس میں اعتبار نہیں آئے گا۔ وہ شرم محسوس کرتی رہے گی۔ اگر ڈالی ہے تو اس کا اطلاق بار بار کریں۔ جو وہ ہے اس کے بارے میں پراعتماد ہوجائے۔
یہود ساری دنیا کو ٹی وی چینل بنا کردیتا ہے لیکن وہ چینل اپنے گھروں میں دیکھنے کی اجازت نہیں۔ 70 فیصد چینل یہودیوں نے بنائے ہیں۔ یہود اپنے بچوں 90 فیصد اپنے سکول میں بھیجتے ہیں۔ پھر وہ اپنے سکولوں سے پختگی لے کر پوری دنیا میں حکومت بھی کررہا ہے۔ ہمیں اپنی شناخت پر خود اعتماد نہیں ہے ہم منافقت کا مجموعہ بن گئے ہیں۔ صبح دیندار ہیں شام کو دنیا دار ہیں۔ اس طرح بچے کے ساتھ گیم کھیلنا انتہائی نقصان دہ ہوسکتا ہے ایک سمت پر ڈال دیا ہے اس کو on کریں اگر دنیا دار بنادیا ہے تو بڑھاپے میں شکوے نہ کریں پھر خود بھی احساس کے ساتھ واپس آنا ہے کاش میں ہدایت پاگیا ہوں یہ بھی واپس آجاتا ہے۔ وہ اس وقت آئے گا جب اللہ پاک اس کے لیے لکھے گا۔ کیونکہ بچپن میں اپنا فریضہ ادا نہیں کیا۔ اس لیے یورپ کی سوسائٹی بہت جگہ بہت بہتر ہے۔ وہاں پر غلط ہے غلط ہے صحیح ہے تو صحیح ہے۔ منافقانہ رویہ نہیں ہے۔ تربیت خواہشات سے نہیں بلکہ اس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ ایک ایک لمحہ صرف کرتے تو اللہ پاک نتیجہ دیتا ہے۔ ایک واضح ترجیح سلیکٹ کریں اپنی اولاد کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں ہم کہتے ہیں بچہ نیک بھی بن جائے مگر مولوی نہ بن جائے وہ خوف آتا ہے۔ بالکل دنیا کے کام سے نہ چلا جائے کل کو کاروبار ہی نہ کرے۔
جو کچھ بھی اولاد بنانا ہے اس میں واضح ہونا چاہیے غلط صرف تب غلط نہیں ہوتا جب بچے کریں تو غلط ہے والدین کریں تو صحیح ہے جب بچے اس طرح کا ماحول دیکھتے ہیں تو متنفر ہوتے ہیں۔ اگر بچوں کو کسی کاموں سے روکنا مقصود ہے تو خود بھی اس کاموں سے رک جائیں والدین کبھی بھی بچوں کے سامنے جھگڑا نہ کریں۔ بچوں کی خاطر جھگڑا نہ کریں اس پر ایک سروے ہے جس میں نفسیاتی صحت جاننے کی کوشش کی۔ جن کےو الدین آپس میں لڑتے تھے ان کی زندگی میں فوکس نہیں تھا۔ لرننگ معذوری تھی ہم جھگڑا کرکے بچوں کو ذہنی معذوری کا تحفہ دیتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کا عمل ایسا ہے جسے ایک باغ۔ اس کے ایک ایک دن کو مینج کیا تو بڑا ہوکر خوبصورت باغ بن جاتا ہے۔ باغ محفوظ مقام ہوتے ہیں اس کے برعکس جنگل بے غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ اس سروے میں کتنے بچوں نے یہ کہا کہ ہمارا شادی سے ہی احتمال اٹھ گیا ہے۔ بچی نے ساری زندگی والدین کو لڑتے دیکھا تو ذہن میں بٹھا لیا کہ شادی کی صورت میں سکون میسر آہی نہیں سکتا۔ مسلم بچہ نے دوسرا مذہب اختیار کرلیا۔ اب وہ روزانہ دعا کرتا والدین اپنے آپ کو صحیح نہیں کررہے تھے یہاں تک بچے نے اپنا ایمان کھودیا۔ میرے گھر کا اذیت والا ماحول ہے اللہ پاک مجھے اس سے نجات نہیں دے رہا۔ اس کو سمجھانے والا کوئی نہیں تھا اس نے عقیدہ ہی چھوڑ دیا۔ ہم اس قدر نقصان بچوں کے اذہان کا کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو امت محمدیﷺ کے کچھ ارکان دیئے گئےہیں۔ تربیت کے لیے اگر ان کو تباہ کردیا تو حضور علیہ السلام کو کیا چہرہ دکھائیں گے۔ جھگڑے کا بعد اگلا سٹیپ بچوں کو استعمال کرتے ہیں۔ میسج کے طور پر ماں کو یہ بتادو باپ نے منع کیا ماں کہتی ہے بیٹا جاؤ میں تمھیں اجازت دیتی ہوں لیکن وہ اس عمل سے اذیت دینا چاہ رہی ہے باپ کو۔ مگر اتنی کم عقل ہے کہ ان کی اس حرکت سے وہ بچے کو تباہ کررہے ہیں بچے دیکھتے ہیں کہ گھر کا ماحول ساز گارنہیں ہے تو باپ سے الگ کی بات کریں گے اور ماں سے الگ طرح کی بات کریں گے ۔ کچھ اجازتیں ماں سے لے لیں کچھ اجازت باپ لے لیں گے لہذا بچوں کے معاملہ میں اس طرح کا کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ بچوں کو ایک پراجیکٹ سمجھ کر چلنا چاہیے۔
باپ کو جلاد بناکر پیش کرنا کہ میں ان کے رعب سے کام لینا ہے یہ بھی بیوقوفی ہے، بچوں کے لیے ایک نفرت پیدا کردی جائے وہ اپنے لیے آسانی کررہی ہے۔ باپ آئے گا تو ڈانٹ پلواؤں گی دراصل آپ نے باپ کی شخصیت کو بچے کے سامنے جلاد بنادیا ہے۔ وہ کبھی دل سے محبت نہیں کرسکے گی۔ جب تک دونوں رول مل کر کام نہیں کرے گے بچے کی کامل شخصیت فروغ نہیں پائے گی۔
بچہ ٹریپ پر جانا چاہتا ہے ماں یا باپ سمجھتا ہے کہ اس کے دوست اچھے نہیں میں اس کو نہیں دینا چاہتا تو اس کو نفسیاتی طور پر سمجھائیں سختی سے یہ کہنا کہ میں نے کہہ دیا یہ نہیں کرنا یہ بھی بچوں کے لیے عقلمند طریقہ نہیں ہے۔ اگر ماں سے بات ہوئی ہے تو وہ کہے باپ سے بات کرکے بتاتے ہیں۔ اس سے بچے کو پتہ چل جائے گا کہ میرے گھر کا ماحول ایک ہے لہذا بچوں کے معاملے میں آپس میں مشاورت نہایت ضروری ہے۔
بچوں کو عزت، محبت اور ا عتماد سے ڈیل کیا جائے، بچہ نہ سمجھیں۔ اس کو اتنا ہی وقت دے کر سمجھائیں جتنا بڑے کو وقت دے کر سمجھاتے ہیں۔ وہ پراعتماد ہوگا اور تھوڑی عمر میں میچور ہوکر اچھے مشورے بھی دیتا ہے۔ اگر بچے کو بچہ سمجھ کر ڈیل کریں گے وہ لیٹ بڑھے ہوں گے اور اتنی ہی سیٹ معاشرے سے پروڈکٹو شہری بنیں گے۔ بچوں کو کوالٹی ٹائم دیں۔ آپ کے ہاتھ میں موبائل بھی ہے اور بھی چیزیں ذہن میں ہیں اس کو کوالٹی ٹائم نہیں کہتے جو وکیشن کا نظام ہو جو کوالٹی ٹائم ہو لگن سے دیں کبھی کبھار ان کے فرینڈ کو گھر بلائیں۔ ان کے فرینڈ کے ساتھ بات چیت کریں۔ یہ بچوں کی خود اعتمادی میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ موقع پر ان کو سرپرائز بھی دیں وہ خوش ہوتے ہیں۔ کام میں ان کی مدد کرنا۔ موٹیویشن کا باعث بنتی ہے۔ بچوں کے پسند کی گیم کھیلیں۔ فیملی ٹائم گزاریں بچوں میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہیپی فیملی ہیں۔ پیرینٹنگ کا سٹائل کیا ہونا چاہیے؟ اسکی بہت ساری ٹرم ہیں۔ اس میں سے پیرینٹنگ فورم سب سے اچھی ہے نہ بہت نرمی اور نا بہت سختی ہو۔ اس میں ہداہت دیتے ہیں لیکن وجوہات کے ساتھ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح سمجھتے ہیں۔ حضرت امیر معاویہؓ کا بیان ہے اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں بہت ساری لیڈر ہوتے ہیں لیکن آپ نے 20، 22 سال حکمرانی کی ہے۔ اتنا عرصہ کیسے گزار لیا۔ 8، 10 سال میں لوگ بور ہوجاتے ہیں راز کیا تھا تو انھوں نے کہا جب میں دیکھتا ہوں کہ میری قوم بہت سارے کاموں میں سست ہ وگئی تو میں رسہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہوں اورمیں دیکھتا ہوں کہ میری سختی سے بہت تنگ ہوگئے ہیں۔ محسوس کرتا ہوں کہ وہ مل کر اپنی طرف رسہ زور سے کھینچتے ہیں تومیں اس کو ڈھیلا کردیتا ہوں تاکہ وہ امن و آسانی میں چلے جائیں۔ جب محسوس کرتا ہوں کہ اپنی عادات کو چھوڑ گئے ہیں پھر سختی کرتاہوں یہی اسلوب بچوں کی تربیت میں ہونا چاہیے نہ 24 گھنٹے ہمیشہ سخت رہنا ہے۔
جب محسوس کریں کہ بہت نرمی ہوگئی ہے پھر سختی کریں جب دیکھیں کہ سسٹم سے واپس آگئے ہیں پھر نرمی دے دیں اس طرح مسلسل تربیت کا عمل جاری رہتا ہے۔