جہیز خاوند کی ذمہ داری ہے

محمد اِقبال چشتی

جہیز خاوند کی ذمہ داری ہے

پاکستانی معاشرہ مختلف تہذیبوں کے تاریخی تسلسل اور ثقافتی میل جول کا نتیجہ ہے، جہاں ہندو تہذیب، مغلیہ روایات اور نوآبادیاتی نظام نے معاشرتی ڈھانچے پر گہرے اَثرات چھوڑے، انہی اثرات میں سے ایک رسم ’’جہیز‘‘ بھی ہے، جو آج ہمارے سماجی نظام میں اس قدر رچ بس گئی ہے کہ اسے نکاح کا لازمی حصہ سمجھا جانے لگا ہے۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات میں نہ اس کا حکم ہے، نہ اس کی تاکید۔ افسوس کہ یہ غیر اسلامی تصور آج بھی مسلم معاشرے میں نہ صرف زندہ ہے بلکہ اکثر والدین کے لیے معاشی بوجھ اور بیٹیوں کے لیے ذہنی اذیت بن چکا ہے۔

جہیز کا معنی ومفہوم

لفظ جہیز عربی زبان کے لفظ ’’جهاز‘‘سے ماخوز ہے، جس کا اِطلاق بنیادی سازوسامان یا کسی چیز کو تیار کرنے پر ہوتا ہے۔یہ باب تفعیل’’جَهَّزَ يُجَهِّزُ تَجْهِيْزًا‘‘     سے ہے جس کے معنی ہیں’’ سامان تیار کرنا، مہیا کرنا‘‘ خواہ وہ کسی مسافر کے لیے، کسی دلہن کے لئے یا کسی میت کے لئے ہو۔

امام راغب اصفہانی نے ’المفردات‘ جہیز کی تعریف میں لکھا ہے:

الجهاز ما يُعَدُّ من متاع وغيره والتجهيز حمل ذلك أو بعثه۔

(راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، دار المعرفۃ، بیروت، لبنان۔ص 101)

جِھاز: اس سامان کو کہا جاتا ہے جو (کسی کے لیے) تیار کیا جائے اور اس سے ہی تجہیز ہے جس کے معنی ہیں اس سامان کو اٹھانا یا بھیجنا۔

اسلام میں جہیز کا تصور اور اس کی حقیقت

اسلامی تعلیمات میں لڑکی والوں سے جہیزکا مطالبہ کرنے کا نہ تو کوئی تصور اسلام میں ملتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی باقاعدہ شرعی حکم مذکور ہے۔اگر کتبِ اَحادیث و فقہ کا جائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں فقہاء نے کئی ابواب قائم کئے کسی میں منگنی کا ذکر(منکوحہ کو ایک نظر دیکھ لینا،کفو کا خیال رکھناوغیرہ)، نکاح کے احکام کا ذکر،حق مہر کا ذکر،ولیمہ کاذکر جیسے اہم موضوعات ملتے ہیں، لیکن جہیز کے بارے میں اسلام میں کوئی تصور دیکھنے کو نہیں ملتا۔

صحا بہ و تابعین کے زمانہ میں جہیز کا پسِ منظر

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں کہیں اس بات کا ثبوت نہیں ملتاکہ انہوں نے لڑکی والوں سے فرمائشی جہیز مانگا ہو یا اپنا حق سمجھ کر قبول کیا ہو، یا اس کو ضروری سمجھا ہو۔اسی طرح تابعین کے مبارک دور میں بھی اس طرح کی کوئی روایت یا واقعہ نہیں ملتا جس میں کسی لڑکی والے سے جہیز کی ڈیمانڈ کی ہو۔البتہ اس کے اُلٹ کئی واقعات ملتے ہیں جو جہیز نہ لینے کی رسم پر دلالت کرتے ہیں۔ امام ابو نعیم اپنی کتاب ’حلیۃ الاولیاء‘ میں مشہور تابعی سعید بن مسیب کے متعلق لکھتے ہیں۔ابن ابی وداعہ کہتے ہیں کہ:

مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیب ؒ کے پاس ایک آدمی آیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ کئی دن غائب رہا اور کافی عرصے کے بعد آیا تو حضرت سعید ؒ نے غائب رہنے کی وجہ دریافت کی ۔ اس نے بتایا کہ اس کی بیوی فوت ہو گئی تھی لہذا مصروف رہا ۔ حضرت سعید بن مسیب ؒنے پوچھا کیاتو نے کوئی دوسری شادی کر لی ہے؟ اس نے کہا کہ:میں فقیر ہوں مجھے کون رشتہ دے گا؟ حضرت سعید ؒ نے دو درہم یا تین درہم مہر کے عوض وہیں اس کا نکاح اپنی بیٹی سے کردیا۔ (ابونعیم ،حلیۃ الاولیاء، ج۲، ص 168)

اس واقعہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شادی کے موقع پر خاوند یا بیوی کی طرف سے سامان جہیز دیا جانا ضروری نہیں۔اور نہ یہ نکاح اور شادی کا لازمہ ہے ورنہ سعید بن مسیب جیسے متبع سنت تابعی اس کی خلاف ورزی نہ کرتے۔

بیوی کی تمام جائزضروریات پوری کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے

بیوی کی جملہ جائز ضروریات اور اخراجات کا شرعاً ذمہ دار خاوند ہے۔فقہ حنفی کے عظیم فقیہ علامہ مرغینانی اپنی کتاب ’’الہدایہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

النفقة واجبة للزوجة على زوجها مسلمة كانت أو كافرة اذا سلمت نفسها إلى منزله فعليه كسوتها وسكناها والأصل فى ذلك قوله تعالى لينفق ذوسعة من سعته.

(مرغنیانی، برہان الدین،الہدایہ، دارالمعرفۃ،بیروت،لبنان۔ص415)

’’بیوی مسلمان ہو یا کتابیہ اس کا ہر قسم کا خرچہ خاوند پر واجب ہے جبکہ وہ (بیوی) اپنے آپ کو خاوند کے سپرد کردے اور اس کے گھر میں منتقل ہو جائے اس خرچہ میں اس کی خوراک ، لباس اور رہائش کے لئے مکان داخل ہے۔ اور اس حکم کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وسعت والے کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے۔‘‘

صحاح ستہ معروف کتب احادیث اور چاروں فقہاء کی امہات الکتب میں "باب الجہیز" کے عنوان سے کوئی باب قائم نہیں کیا، اگر کوئی شرعی حکم ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ جہاں نکاح سے متعلق دیگر احکامات تفصیلاً بیان ہوئے وہاں جہیز کا بیان نہ ہوتا۔ لیکن جیسا کہ اسلام کا دائرہ کار وسیع ہو جانے سے اور مسلمانوں کے مختلف ممالک میں پھیل جانےا ور غیر مسلم اقوام کے ساتھ مل جل کر رہنے کی وجہ سے بعض رسومات ان میں دانستہ یا نادانستہ پیداہوگئی تھیں جن میں سے ایک جہیز ہے۔

لڑکی کے والدین سے جہیز کا مطالبہ کرنا کیسا؟

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ سامانِ جہیز خاوند کی ذمہ داری ہے اور وہ جملہ ضروری گھریلو اشیاء کے مہیا کرنے کا پابند ہے۔لہذا خاوند یا اس کے گھر والوں کو قطعاً حق حاصل نہیں کہ وہ اُس لڑکی یا اس کے والدین سے جہیز کا مطالبہ کریں یا انہیں مجبور کریں۔اسی قضیہ و مخمصہ کے پیشِ نظر علامہ ابن حزم بیان کرتے ہیں:

وَلَا يَجُوْزُ أَن تُـجْبَرَ الْـمَرْأةُ عَلَى أن تَتَجَهَّزَ إِليهِ بشيءٍ أصلًا لا صداقها الذي أصدقها، ولا من غيره من سائر مالها، والصداق كله لها، تفعل فيه كله، ما شاءت، لا إذن للزوج في ذلك ولا اعتراض

( ابن حزم، المحلى، ج9، ص 507)

’’عورت کو اس بات پر مجبور کرنا جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند کے پاس سامان جہیز لائے۔ نہ ہی اس مہر کی رقم سے جو خاوند نے اسے دی ہے اسکا اپنامال مہر جو سارے کا سارا اسکی ملکیت ہے اس میں وہ جو چاہے کرے خاوند کو اس میں کسی قسم کا دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔‘‘

کتاب الفقہ علی مذاہب الاربعہ میں ہے:

’’اگر کوئی آدمی ایک ہزار روپے مہر پر کسی عورت سے نکاح کرے اور عادت یہ ہو کہ اتنا مہر ایک بڑے جہیز کے مقابلے میں ہوتا ہو مگر وہ عورت ایسا نہ کرے (جہیز نہ لائے) تو خاوند کو اس بات کا حق نہیں کہ اس سے جہیز لانے کا مطالبہ کرے۔اگر بیوی جہیز بھی لائے تو اسکی مالک بیوی ہی ہوگی خاوند کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔آدمی پر واجب ہے کہ وہ عورت کے لیے ایسی رہائش کی جگہ تیار کرے جو ضروریات زندگی پر مشتمل ہو۔‘‘

(الجزیری،عبدالرحمٰن،کتاب الفقہ علی مذہب الاربعہ، علمااکیڈمی، شعبہ مطبوعات محکمہ اوقاف پنجاب۔ج4، ص 217)

جہیز دینا درجہ مباح میں ہے

یہ بات واضح ہوچکی کہ شادی پر لڑکی کے والدین کا جہیز دینا کوئی شرعی حکم نہیں ہے اور نہ ہی یہ لازمہ نکاح ہے اور نہ ہی سنت ہے۔جہیز کا سامان مہیا کرنے کا ذمہ دار خاوند ہے۔ لیکن آج ہمارے معاشرے میں کئی ایسی رسومات پائی جاتی ہیں جنکا شریعت اسلامی میں کوئی تصور نہیں پایا جاتایعنی شریعت اسلامی میں نہ تو ان کا درس ملتا ہے اور نہ ہی اسکی ممانعت ملتی ہے ایسے امور کو فقہ اسلامی کی روشنی میں مباح کہتے ہیں، ان میں سے ایک جہیز بھی ہےجو ہمارے معاشرے میں آگیا ہے اور جڑ پکڑ چکا ہے۔دینی، عائلی اور سماجی مسائل کے متعلق جاننے کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔