اداریہ : اسلام میں امن کی اہمیت

چیف ایڈیٹر

اداریہ:

اسلام میں امن و امان کی اہمیت

اسلام میں انسانی جان کی حفاظت و حرمت اور لاء اینڈ آرڈر کو اولیت دی گئی ہے۔ امن، محبت اور عدم تشدد کا موضوع پاکستان ہی نہیں اقوام عالم کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور آج کل تو اس کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ کی سیرت مبارکہ میں ہمیں جا بجا انسانوں سے محبت ، قیام امن اور عدم تشدد کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ ہجرت مدینہ کے بعد آپ ﷺ نے نوزائیدہ ریاست مدینہ کے اندر سب سے پہلے لاء اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے پر توجہ دی تاکہ ریاست کے تمام طبقات اپنی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کر سکیں۔آپ ﷺ نے قیام امن کے لئے غیر مسلموں سے معاہدات کئے، ان معاہدوں میں انسانی جان و مال اور مختلف مذاہب کے عقائد کو نظریات کے تحفظ کو اولیت حاصل تھی۔ قرآن مجید میں آپ ﷺ کی فضیلت میں یہ اعلان کیا گیا کہ ’’ اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیکر امن و سلامتی اور رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ تمام کائنات کے لئے سراپا رحمت ہیں۔ اپنی اسی صفت کا اظہار خود آپ ﷺ نے متعدد مواقع پر ارشاد فرمایا ۔ مشرکین اور کفار مکہ کی طرف سے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جاتے رہے۔ جب صحابہ کرام ؓ آپ ﷺ سے یہ عرض کرنے پر مجبور ہو جاتے یا رسول ! آپ ان ظالموں اور مشرکوں کے لئے بددعا کیجیے تو آپ ﷺ اپنے اصحابؓ کے اس تقاضے پر جواباً ارشاد فرماتے ’’مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا، مجھے تو سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’وہ شخص ہماری اُمت میں سے نہیں جو ہماری اُمت میں چھوٹے بچوں پر رحمت و شفقت نہ کرے اور بڑے لوگوں کے حق ادب کو نہ پہچانے‘‘۔ نرمی، آسانی، شیریں بیانی اور اعلیٰ حُسنِ سلوک اسلام کی تربیتی تعلیمات کا طرۂ امتیاز اور مرکز و محور ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ اس امر کو واضح کرتا ہے کہ آپ ﷺ نے کسی بھی معاملہ میں انتہا پسندانہ رویہ و مزاج اختیار نہیں فرمایا بلکہ مشکل ترین حالات میں بھی ہمیشہ معتدل اور متوازن رویہ اپنایا ۔ آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ پوری اُمت کے لئے رول ماڈل ہے مگر آپ ﷺ کی تعلیمات کے برعکس ہمارے رویوں میں تشدد اور عدم برداشت در آیا ہے۔ ہم معمولی، معمولی باتوں پر دوسروں کو نقصان پہنچانے کے در پے رہتے ہیں حتیٰ کہ جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ زندگی کے عام معاملات سے لے کر دینی، شرعی، فقہی اُمور میں بھی علمی اختلافات کو کفر و اسلام کا جھگڑا بنا لیتے ہیں اور الزام و دشنام طرازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے یہاں تک کہ وہ منبر و محراب جو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی تعلیمات اور دینِ حنیف کے فروغ کے لئے بروئے کارآنا چاہیے وہاں سے بھی نفرت اور عدم برداشت کا پرچار کیا جارہا ہے۔ مسلکی اختلافات کو اتنا بڑھا دیا گیا ہے کہ انسانیت کی تکریم اور عزت و مال کی حرمت کے شرعی تقاضے پیچھے رہ گئے ہیں ۔ جب کبھی محرم الحرام کے ایام آئیں یا عید میلاد النبی ﷺ منانے کا مہینہ آئے یا اس جیسے دیگر مقدس تہوار آتے ہیں تو امن پسند عوام یہاں تک کہ حکومتوں کی جان پر بنی ہوتی ہے، لاء اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے کے لئے بعض علماء اور مبلغین پر تحریر و تقریر اور نقل و حمل کی پابندیاں لگ جاتی ہیں یہ پابندیاں لگانے والوں سے زیادہ جن پر لگتی ہیں اُن کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ قرآنِ مجید کا یہ دو ٹوک حکم ہے کہ ’’لا تفرقو‘‘ یعنی باہمی انتشار و فساد سے بچو اورزمین پر فساد نہ کرو۔ قرآن نے فساد فی الارض کو ایک بہت بڑا جرم اور گناہ قرار دیا ہے ۔ علماء و مشائخ کرام ، مدارس دینیہ کے اساتذہ، مبلغین ،والدین یہاں تک کہ صحافی حضرات کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اعتدال اور رواداری کی انسانی قدروں کے فروغ کے لئے لسان اور قلم کو بروئے کار لائیں۔ اللہ رب العزت ہمیں پیغمبر اسلام کی تعلیمات کے مطابق فروغ علم و امن کیلئے مقدور بھر خدمت انجام دینے کی توفیقات سے نوازے۔