جواب:نکاح سے پہلے طلاق ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر فقہاء کا کلام نہایت واضح اور متفقہ ہے، اور وہ یہ کہ نکاح سے پہلے طلاق کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ شریعتِ مطہرہ نے طلاق کو ایک شرعی حق اور قانونی اثر رکھنے والا حکم اس وقت قرار دیا ہے جب زوجیت کا رشتہ بالفعل قائم ہو۔ قرآن و سنت اور اجماعِ امت کی روشنی میں یہ مسلّم ہے کہ طلاق کا محل نکاح ہے، اور جب محل ہی معدوم ہو تو اس پر حکم کا جاری ہونا باطل اور لغو قرار پاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ’نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہے‘ ایک قطعی نص ہے جو اس امر کی صراحت کرتی ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق نہ معتبر ہے اور نہ ہی مؤثر ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا طَلَاقَ قَبْلَ النِّكَاحِ ’’ نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہے۔ ‘‘
(ابن ماجه، السنن، كتاب الطلاق، باب لا طلاق قبل النكاح، ج 1، ص 660، الرقم: 2049)
یعنی جب تک نکاح واقع نہ ہو، کسی عورت کو طلاق دینا شرعاً مؤثر اور معتبر نہیں کیونکہ وہ طلاق کا محل ہی نہیں ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا عِتْقَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا طَلَاقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا يَمِينَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ.
’’ابن آدم (انسان) جس چیز کا مالک نہیں، اس میں اس کے لیے نہ نذر ہے، نہ آزاد کرنا ہے، نہ ہی طلاق ہے اور نہ ہی اس کے لیے قسم ہے۔‘‘
(أحمد بن حنبل، المسند، ج 2، ص 190، الرقم: 6780)
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایسی عورت کو طلاق دینا شرعاً معتبر نہیں جس سے ابھی نکاح نہ ہوا ہو۔ یہ طلاق غیر مؤثر ہے کیونکہ نکاح طلاق کا محل ہے، اور جب نکاح ہی نہ ہو تو طلاق کا کوئی شرعی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ دیگر احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ انسان کو ایسی چیزوں کے بارے میں کوئی تصرف کا اختیار نہیں جس کا وہ مالک نہ ہو۔ چونکہ نکاح سے پہلے عورت کا شرعی تعلق مرد سے قائم نہیں ہوتا، اس لیے ایسی صورت میں دی گئی طلاق باطل اور غیر نافذ ہوتی ہے۔ علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے بھی یہی موقف اپنایا ہے:
’’ اگر کوئی شخص کسی غیر منکوحہ (اجنبیہ) عورت سے کہے: ’تو طلاق والی ہے‘ یا ’میں نے تجھے طلاق دی‘ تو یہ قول شرعاً معتبر نہیں، کیونکہ طلاق کا تعلق اس عقدِ نکاح سے ہے جس کے ذریعے حلتِ مباشرت حاصل ہوتی ہے اور قیدِ نکاح یا عدت عائد ہوتی ہے۔ جبکہ اجنبیہ عورت کے ساتھ نہ تو نکاح کا تعلق ہے، نہ ہی کوئی شرعی قید موجود ہے، لہٰذا جب کوئی ربطِ نکاح موجود ہی نہ ہو تو اس کے فسخ (خاتمہ) کا دعویٰ لغو اور غیر معتبر ہوگا۔‘‘
الكاساني، بدائع الصنائع، ج 3، ص 126
جب ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح ہی نہیں کیا تو صرف جعلی نکاح نامہ بنوا لینے سے نکاح قائم نہیں ہوا اور شرعاً اس عمل کو نکاح نہیں مانا جائے گا کیونکہ نکاح کے لیے گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کیا جاتا ہے یا وکیل کو نکاح کی اجازت دی جاتی ہے ورنہ نکاح قائم نہیں ہوتا۔ لہٰذا شرعاً یہ نکاح درست نہیں مانا جائے گا۔ جب سرے سے نکاح ہی قائم نہیں ہوا تو طلاق دینے سے اس عورت کو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی جیسا کہ اوپر یہ پہلو بڑی صراحت سے بیان کر دیا گیا ہے۔
پہلے چونکہ نکاح کیا ہی نہیں گیا، لہذا انھوں نے جو تعلق قائم کیا، وہ گناہ کیا۔ لہٰذا اب وہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو دستور کے مطابق نکاح کر سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے باقاعدہ نکاح کیا ہے تو اکٹھے رہنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس کے برعکس اگر پہلے کی طرح نکاح کئے بغیر رہ رہے ہیں تو ان کا یہ فعل قبیح زنا ہی شمار ہو گا جو کہ گناہِ کبیرہ اور قابلِ سزا جرم ہے۔
سوال: اگر شوہر کے علم میں لائے بغیر خلع کا دعویٰ دائر کیا جائے اور شوہر بعد ازاں عدالتی نوٹس کے ذریعے باخبر ہوا تو کیا عدالتی فیصلہ سے نکاح ختم ہو جاتا ہے؟خلع کے بعدکیا حق مہر اور زیورات سب کچھ شوہر کو واپس کرنا ہوں گے؟
جواب: اگر کسی نے گھریلو معاملات میں انتہائی کشیدگی اور جھگڑوں کی وجہ سے اپنے شوہر کو بتائے بغیر عدالت میں اس سے علیحدگی کا دعویٰ دائر کیا مگر بعد ازاں عدالتی نوٹس سے وہ باخبر ہو گیا تھا تو اس صورت میں عدالتی فیصلہ سے نکاح ختم ہوجاتا ہے۔ اب اگر خلع کے بعد احساس ہوا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا تو اب دوسرا نکاح کیا جاسکتا ہے۔
خلع کے بعد حق مہر اور زیورات سابق شوہر کو واپس کرنا درست فیصلہ نہیں اور نہ ہی وہ ان کا حقدار تھا کیونکہ جب سابق شوہر کی خرابی کی وجہ سے تنسیخِ نکاح کی ڈگری حاصل کی ہے تو اس صورت میں وہ حق مہر اور زیورات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی واپس کرنے چاہئیں۔ اس مسئلہ کی وضاحت درج ذیل ہے:
اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیویوں پر اس طرح کا ظلم کرتے تھے۔ نہ بیوی بناکر عزت سے ان کو بساتے، نہ طلاق دے کر ان کو قید نکاح سے آزاد کرتے۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ اپنے ساتھ بساتے کیوں نہیں تو جواب دیتے کہ ہم نے طلاق دے دی ہے۔ اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ دوسری جگہ پسند کی شادی کیوں نہیں کرنے دیتے تو جواب ہوتا، ہم نے عدت کے اندر رجوع کرلیا تھا۔ لہٰذا نکاح بحال رہا۔ عمر بھر یہی ظلم روا رکھتے۔ آج بعض مسلمان کہلانے والے ببانگ دہل کہتے ہیں، نہ رکھیں گے نہ چھوڑیں گے یہ عورت پر بدترین ظلم ہے۔
قرآن کریم نے اس ظلم کا خاتمہ کیا اور طلاق کی حد مقرر کردی۔ اگر کوئی ایک یا دو بار واضح الفاظ میں طلاق دے دے تو عدت کے اندر نیک نیتی سے یا تو رجوع کرلے اور آئندہ بیوی کو تنگ نہ کرے، بیوی بناکر پاس رکھے یا مدت گزرنے دے تاکہ نکاح ختم ہوجائے اور عورت اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرے۔
عورتوں کو تکلیف دینے کے لیے روکنا کہ ان پر زیادتی کریں تو ایسا کرنا اپنی جانوں پر ظلم اور اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق اڑانا قرار دیا گیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا.
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آ پہنچیں تو انہیں اچھے طریقے سے (اپنی زوجیّت میں) روک لو یا انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو، اور انہیں محض تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو اور جو کوئی ایسا کرے پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا، اور ﷲ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو۔‘‘
(البقرة، 2: 231)
اس لیے جب عورت کو اس کے حقوق سے محروم کیا جائے، شوہر اس پر ظلم کرے اور اُسے نہ بیوی بناکر رکھے نہ طلاق دے پھر کوئی طریقہ تو ہو جو اس کو ظلم کی چکی میں پسنے سے بچائے اور وہ طریقہ حکومت اور اس کی قائم کردہ عدلیہ ہے۔ چنانچہ مظلومہ عورت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ عدالت کا فرض ہے کہ پوری تحقیق کے بعد اگر یہ ظلم ثابت ہوجائے یعنی خاوند عدل و انصاف کا راستہ نہ اپنائے اور نہ عورت کو طلاق دے تو ایسی صورت میں قاضی یا فیملی کورٹ کا جج فوراً طلاق دلوائے یا تنسیخ نکاح کردے تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو۔ یہ اسلام ہے اور یہی عدل و انصاف ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایسا ظلم ختم کیا، جب آپ ﷺ کی بارگاہ میں کسی عورت نے اپنے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے ہمیشہ بلاتاخیر مسئلہ کا حل کرایا ہے۔ اسلام میں سب سے پہلا خلع کا واقعہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا ہے جس کے بارے میں متعدد روایات ہیں لیکن اختصار کی خاطر صرف ایک روایت درج ذیل ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئی کہ
يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَنْقِمُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ وَلاَ خُلُقٍ، إِلَّا أَنِّي أَخَافُ الكُفْرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَرَدَّتْ عَلَيْهِ، وَأَمَرَهُ فَفَارَقَهَا.
’’ یارسول ﷲ! میں ثابت کے دین یا اخلاق کی بنا پر اُن کے پاس رہنے سے انکار نہیں کرتی بلکہ مجھے کفر کا ڈر ہے۔ اس پر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: تم اُن کا باغ واپس کردو گی؟ اُس نے جواب دیا: ہاں، لہٰذا اُس نے وہ باغ واپس کردیا اور آپ ﷺ نے اُسے جدا کرنے کا حکم دیا۔‘‘
(البخاري، الصحيح، كتاب الطلاق، باب الخلع وكيف الطلاق فيه، 5: 2022، الرقم: 4973)
مذکورہ بالا حدیث مبارک اور دیگر روایات میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے اُن کے دین اور اچھے اخلاق کی تعریف کی ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ مجھے کفر کا ڈر ہے یعنی میرا دل ان کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں جس کی وجہ سے نفرت پرورش پا رہی ہے اور نتیجہ میں کوئی غلط قدم اٹھنے کا ڈر ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ انہیں قد کاٹھ اور شکل وصورت سے پسند نہیں کرتیں تھیں، اس لیے ان کا کہنا کہ مجھے کفر کا ڈر ہے۔ مراد یہ بھی ہے کہ میں کفرانِ نعمت نہیں کرنا چاہتی کہ ثابت بن قیس میرے ساتھ اچھا سلوک کریں اور میں اُن کو دل سے پسند نہ کروں۔ مختصر یہ کہ جب عورت کسی بھی وجہ سے شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو اس کو علیحدہ کر دینا چاہیے۔
حضرت خنساء بنتِ خِذام اَنصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
إِنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ فَأَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَرَدَّ نِكَاحَهَا.
’’ان کے والد ماجد نے ان کی شادی کر دی جبکہ وہ بیوہ تھیں، مگر اُنہیں یہ شادی ناپسند تھی۔ سو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئیں اور آپ ﷺ نے اُن کا نکاح منسوخ فرما دیا۔‘‘
(البخاري، الصحيح، كتاب الإكراه، باب لا يجوز نكاح المكره، 6: 2547، الرقم:6546)
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ جب بطور میاں بیوی رہنا ممکن نہ ہو تو مجاز اتھارٹی نکاح منسوخ کر سکتی ہے۔ امام محمد بن عبد الواحد المعروف ابن الہمام فرماتے ہیں:
فَإِذَا امْتَنَعَ كَانَ ظَالِمًا فَنَابَ الْقَاضِي عَنْهُ فِيهِ فَيُضَافُ فِعْلُهُ إلَيْهِ.
’’جب خاوند طلاق نہ دے تو ظالم ہے، لہٰذا قاضی اس مسئلہ میں خود خاوند کا قائم مقام ہو کر تفریق کر دے اب قاضی کا فعل خاوند کی طرف منسوب ہوگا۔‘‘
( ابن الهمام، شرح فتح القدیر، 4: 300)
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ ظلم کا خاتمہ کرنے کے لیے قاضی یکطرفہ فیصلہ دے سکتا ہے تا کہ عورت مزید ظلم کا شکار ہونے سے بچ جائے۔
اسلام کسی کو کسی پر ظلم کرنے اور اس کے حقوق پامال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے۔ اگر بیوی حقوقِ زوجیت سے خاوند کو محروم کرے تو خاوند کے پاس حقِ طلاق ہے اور دیگر حاکمانہ حقوق بھی ہیں، جنہیں بروئے کار لاکر وہ اپنے حقوق وصول کرسکتا ہے۔ بصورتِ دیگر حقِ طلاق استعمال کرکے اس سے جان چھڑا سکتا ہے۔ اگر خاوند، بیوی کے حقوق پامال کرے نان نفقہ نہ دے، حقوقِ زوجیت سے اسے محروم کرے، امساک بمعروف أو تسریح باحسان پر عمل نہ کرے اور ساری عمر بیوی بنا کر نہ رکھے، نہ آزاد کرے تو یہ بیوی پر ظلم ہوا۔ قرآن کریم نہ کسی کو ظالم بننے کی اجازت دیتا ہے۔ نہ مظلوم:
لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ’’نہ تم ظالم بنو اور نہ تم پر ظلم ہو‘‘ ۔
اس لیے عورت ہو یا مرد دونوں کے حقوق و فرائض ہیں۔ ایک فریق کے حقوق دوسرے فریق کے فرائض میں شامل ہیں، مرد کے حقوق عورت پورے کرے اور عورت کے حقوق مرد پورے کرے، پھر ہی زندگی پر سکون گزر سکتی ہے۔