لبرل ازم کے مقاصد: الحادی فکر کی ترویج اور خاندانی نظام کا خاتمہ

ڈاکٹر شبیر احمد جامی

لبرل ازم کے مقاصد: الحادی فکر کی ترویج اور خاندانی نظام کا خاتمہ

ڈاکٹر شبیر احمد جامی

لبرل ازم (Liberalism) ایک ایسی سوچ ہے جس میں ہر فرد اپنے نظامِ زندگی کو وضع کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس سوچ کے حامل افراد میں بحیثیت فرد انسان کی آزادی، ذاتی مصروفیات کے اظہار اور ترقی میں کسی بیرونی مداخلت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ خواہ یہ مداخلت مذہب کی طرف سے ہو یا ریاست کی طرف سے ہو۔ یعنی فرد اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں بالکل آزاد ہے۔ مذہب کےنام پر بے جا پابندیوں کے خلاف ردعمل کے طور پر اٹھنے والی تحاریک میں لبرل ازم بھی شامل ہے۔ جس کا بنیادی فلسفہ ہی انسان کی ہر طرح سے کلی آزادی ہے۔ بنیادی طور پر لبرل ازم کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کا جو جی چاہے کرے لیکن اس حد تک جہاں آپ دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہوں۔

روشن خیال یالبرلز کا ہدف اسلام کا مذہبی نظام ہی نہیں بلکہ وہ پاکستان میں ہر ایسے نظام کے خواہاں ہیں جو روز بروز مسلمانوں کو مذہب سے دور کرتا جائے۔ اگر ہم یوں کہیں کہ اس خیال کی حامی طاقتیں مسلمانوں کو مذہبی آزادی تو دے سکتی ہیں مگر مسلم ممالک کی باگ ڈور مکمل طور پر اپنے دیدہ و نادیدہ ہاتھوں میں رکھ کر اپنے مطلب کے قوانین کا نفاذ کروانا چاہتی ہیں تو بالکل بجا ہے جبکہ اہل اسلام کے جملہ نظام کے متعلق مفکر اسلام حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں:

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

لبرل ازم کے باقاعدہ وسیع اغراض و مقاصد ہیں، جن کو اس کے پیروکار بہر صورت نافذ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور موجودہ دور میں ان کے عزائم کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ مسلم ممالک میں اپنے سیاسی اور معاشی غلبہ کے ساتھ ساتھ مذہبی غلبہ کے بھی خواہاں ہیں۔ بالادست اور طاقتور عوام جب کسی قوم پر سیاسی و معاشی غلبہ پالیتی ہیں تو محکوم لوگوں کے اذہان کو متاثر کرنے اور ان کے اکابر اور ہیروز کی طرف سے ان کے اندر بدگمانی پیدا کرنے کے لیے ان کی تاریخ کو مسخ کردیتی ہیں۔ ان کے پیغمبروں، اولیاء، سلاطین، حکماء اور ان کے مذہب کو خود ساختہ قرار دیتے ہوئے، ان ہی کو ان کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیتی ہیں اور دوسری طرف اپنے بڑے بڑے ظالموں کو ہیروز بناکر پیش کرتی ہیں اور اپنے فاسد نظریات کے پرچار کے لیے ہر سطح پر کاوشیں کرتے ہیں تاکہ ان کے ایجنڈے کی تکمیل ممکن ہو۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری لکھتے ہیں: ’’دنیا کے تمام مسلم ممالک پر مغربی دنیا کی نظر ہے کہ کسی ملک میں بھی اسلام بطورِ نظام نہ ابھر سکے، جب یہ بطورِ نظام دنیا سے ختم ہوجائے گا تو عقیدہ و مذہب بھی ایک دو نسلوں بعد ختم ہوتا چلا جائے گا۔ دین اور سیاست کو جدا کرنے کے لیے یہ ایک بہت بڑی بین الاقوامی سازش تیار کی گئی ہے اور پاکستان میں یہی سب کچھ نہایت تیز رفتاری سے شروع ہوچکا ہے۔ قوم کو ذہنی طور پر بے دین بننے کی طرف لگایا جارہا ہے۔‘‘ (فکری مسائل کا اسلامی حل، لاہور، منہاج القرآن پبلی کیشنز، 2016ء، ص: 88)

لبرل ازم ایک ایسا عقیدہ، ایک ایسا نظریہ اور ایسی سوچ کا نام ہے جس کے اہداف کا صحیح اندازہ خود لبرلز بھی نہیں لگاسکتے۔ درحقیقت لبرلز ایسی ریاست کا قیام چاہتے ہیں جس میں حاکمیت اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ کی ذات نہیں بلکہ انسان ہو۔ خواہ وہ ایک شخص، ایک خاندان یا ایک طبقے کی حاکمیت ہو یا عوام کی حاکمیت۔ اس ریاست میں قانون ساز انسان ہوں گے اور تمام قوانین انسانوں ہی کی خواہشات اور تجرباتی مصلحت کی بنا پر بنائے جائیں گے اور مفادات، نفع اور مصلحت ہی کے لحاظ سے اس ملک و ریاست کی پالیسیاں بھی بنائی جائیں گی۔

لبرل ازم کے ذریعے امتِ مسلمہ کے اندر درج ذیل مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کاوشیں بروئے کار لائی جارہی ہیں:

1۔ الحادی فکر کی ترویج

لبرل ازم کا پہلا مقصد الحادی فکر کو فروغ دینا ہے۔اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کو مکمل ضابطۂ حیات دینے کے ساتھ ساتھ ہر ذی شعور کو یہ دعوتِ فکر دیتا ہے کہ جس نہج کی آزادی؛ فکرو عمل اور اظہارِ رائے میں اسلام نے انسانیت کو دی ہے، وہ کوئی اور الہامی و غیر الہامی مذہب عطا کرنے سے قاصر ہے۔ مقامِ افسوس یہ ہے کہ پاکستان جیسا نظریاتی بنیادوں پر معرض وجود میں آنے والا وطن چہار جانب سے ایسے اندرونی و بیرونی خطرات میں گھر کر چکا ہے جہاں مسلمانوں کے دینی اور ملی تشخص کو نہ صرف مجروح کرنے بلکہ مسخ کرنے کی مذموم کاوشیں کی جارہی ہیں۔ دراصل آزاد خیالی ہی وہ پہلا زینہ ہے جو الحاد کی راہ ہموار کرتا ہے۔ چنانچہ جب لبرلز اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی محسوس کرنے لگتے ہیں تو کبھی ترقی پسندیت کا اور کبھی روشن خیالی کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ ملحد نظامِ فکر کا بنیادی خاصہ فرد کی بے لگام آزادی ہے۔ یعنی ایک شخص اپنی انفرادی زندگی میں بھی ہر طرح سے مکمل آزاد ہو اور اپنی داخلی اور خارجی زندگی میں بھی وہ مذہب کے تابع نہ ہو۔ مذہب جو دراصل سماجی اصول، عبادات اور اقدار کا ضابطہ فراہم کرتا ہے، ملحدین کے نزدیک یہ نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ عملی زندگی میں غیر حقیقی بھی ہے۔

آزادیِ فکر کے داعی دراصل انسان کو اس نہج پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں انسان کفر و الحاد کی گود میں جا گرتا ہے۔ ان کے نزدیک آزادی فکر کا مطلب اپنے معبودِ حقیقی سے منہ موڑ لینا ہے۔ دراصل یہ دہریہ پن ہے، اسے آزادی فکر کا نام ہرگز نہیں دیا جاسکتا۔ یہ لوگ اسلام کو محض اس لیے طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں کہ یہ انسان کو وہ آزادی فکر نہیں دیتا جو انسان کو کفرو الحاد کی طرف لے جائے۔

یہ دراصل ایک سراب اور اصطلاحی دھوکہ ہے، جس کا مقصد صرف بے دینی کو فروغ دینا ہے اور معاشرے میں بے حیائی پھیلاکر لوگوں کو اسلام سے دور کرتے ہوئے بالآخر انہیں بے دین بنانا ہے۔ آج روشن خیالی کے سیلاب میں انسان اور انسانیت کی حفاظت و بقا ایک مشکل ترین کام بنتا جارہا ہے۔ ملحدانہ افکار کو پروان چڑھانے میں معاشی اور معاشرتی تقاضوں کو پورا کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں کبھی مذہبی طبقے کا نام لے کر اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا ہے، کبھی معاشی اور معاشرتی تقاضوں کا تذکرہ کرکے اسلام کے اصول و ضوابط کو پسِ پشت ڈالنے کی تلقین کی جاتی ہے اور کبھی عقلیت اور روشن خیالی کے پردے میں ملحدانہ خیالات کی ترویج کی جاتی ہے۔

2۔ مذہبی سیاست کو پنپنے نہ دینا

لبرل ازم کا دوسرا بڑا مقصد دین اور سیاست میں جدائی ڈالنا ہے۔ یورپ نے چونکہ مذہب کو اپنے پاؤں کی بیڑیاں سمجھ کر اتار پھینکا ہے، اس لیے ان کی کوشش یہی ہے کہ کسی طور اسلامی ممالک میں مذہبی سیاست کو پروان چڑھنے نہ دیا جائے۔ ’’لبرلزم‘‘ نئے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر میدانِ عمل میں ہے اور اس نے سیاست، تمدن و معاشرت، ادب و اخلاق اور معاشیات میں ہر طرح کی قیود سے آزاد ہونے کا نعرہ لگایا ہے۔ وہ مذہب یا ریاست کو یہ حق نہیں دیتے کہ کوئی بھی فرد کے ذاتی ارتقاء اور معاشرے میں اس کے حصولِ نفع کی راہ میں رکاوٹیں عائد کرے۔

3۔ معاشی استحصال

لبرل ازم کا تیسرا بڑا مقصد اپنے نظریات کو قبول کروانے کے لیے معاشی استحصال کو بطورِ ہتھیار استعمال کرنا ہے۔ انسان فطرتاً ہوس پرست واقع نہیں ہوا بلکہ مادیت پرستی اور روحانیت کی جستجو، ان دونوں اقدار کا شعور انسان کو ودیعت کیا گیا ہے۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ انسانی حواس پرنفس پرستی کا غلبہ رہا ہے۔ انبیائے کرامf اور اولیائے کرام رحمھم اللہ کی ذواتِ مقدسات نفس پرستی کے عیب سے مبرا ہیں۔ عصرِ حاضر میں جہاں مذاہب کی کشمکش اور تہذیبوں کا تصادم بامِ عروج پر ہے، وہاں اس میں پنہاں عزائم بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آج دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقاصد میں جہاں اپنی تہذیب کو دوسرے ممالک پر بالجبر نافذ کرانا شامل ہے، وہاں ان کے مقاصد میں اقتصادیات یعنی معاشی اجارہ داری کا حصول بھی شامل ہے۔ آج ساری دنیا میں معیشت کا مقابلہ جاری ہے۔ معیشت میں کمزوری کا مطلب ہر شعبہ زندگی میں کمزوری ہے۔ جو ملک یہ مقابلہ ہار جاتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ سب کچھ ہار جاتا ہے۔

گذشتہ تین سو سال کے دوران ایک خاص ذہنیت کے طبقہ نے عالمی سطح پر اپنی اجارہ داری اور تسلط قائم کرلیا ہے۔ چنانچہ اب ممالک کے اقتصادی،مذہبی،سیاسی اور تشہیری ذرائع یعنی میڈیا پر بھی اسی گروہ کو مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ اس گروہ نے سب سے پہلے معیشت کو اپنے قبضہ میں لیا اور پھر اس قوت کو سیاست میں غلبہ پانے کے لیے استعمال کیا۔ جب سیاست پر بھی غلبہ حاصل کرلیا تو اب مذہب کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ مذہب کا زندگی کے کسی دوسرے شعبے سے کوئی تعلق نہیں۔

4۔ ہیومن ازم کو مذہب پر ترجیح دینا

لبرل ازم کا چوتھا بڑا مقصد ہیومن ازم کو مذہب پر ترجیح دینا ہے۔ ہیومن ازم کا ظاہری معنی انسان دوستی جبکہ باطنی معنی انسان پرستی ہے۔ اس ٹائٹل کی آڑ میں دراصل لامذہبیت کا سبق دیا جارہا ہے۔ اس نظریہ کے پرچار کرنے والوں کے نزدیک مذہب کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہودیت، نصرانیت، اسلام، سب ایک جیسے ہیں۔ دین اور مذہب کچھ نہیں، بس انسان، انسان کا بھائی ہے۔ ہیومن ازم کے پرستاروں نے مذہب کو ثانوی اور انسانیت پرستی کو اولین حیثیت دے رکھی ہے۔

جدید ہیومن ازم ایک فلسفیانہ اور فکری تحریک ہے جو انسان کوکائنات کا مرکز قرار دیتی ہے اور اخلاقیات و اقدار کی بنیاد خالصتاً انسانی عقل، تجربہ اور سائنسی منطق پر رکھتی ہے۔ یہ تحریک مذہب کی بالادستی کو مسترد کرتے ہوئے انسان کو اس کے اعمال کا خودمختار اور ذمہ دار سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس، اسلامی تعلیمات میں انسان کے کردار اور مقام کو الہامی اصولوں کے تحت دیکھا جاتا ہے، جہاں اخلاقیات اور اقدار کی بنیاد؛ وحی، اللہ کی رضا اور آخرت کے تصورپر رکھی گئی ہے۔ ہیومنزم کا دعویٰ ہے کہ انسان خود اپنے اخلاقی اصول وضع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اسلام کا نظریہ ہے کہ اخلاقیات الہامی اصولوں پر مبنی ہیں اور ان کا مقصد صرف دنیاوی کامیابی نہیں بلکہ روحانی پاکیزگی اور آخرت کی کامیابی بھی ہے۔

ہیومنزم اور اسلامی تعلیمات میں بعض مشترک پہلو بھی موجود ہیں، مثلاً انسان کی عزت و تکریم اور انصاف کا فروغ۔ تاہم، دونوں نظاموں میں بنیادی اختلاف اس بات پر ہے کہ اخلاقیات کی حتمی بنیاد کیا ہونی چاہیے۔ ہیومنزم انسانی عقل کو ہر چیز کا مرکز قرار دیتا ہے، جبکہ اسلام اللہ کی حاکمیت کو اصل مرکز مانتا ہے۔ انسان کی آزادی اور انفرادی حقوق کا جدید ہیومنزم کی جانب سے پیش کردہ نظریہ بظاہر بہت پرکشش ہے لیکن اس کا نتیجہ بعض اوقات اجتماعی اقدار کے زوال اور روحانی خلا کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کے برعکس، اسلامی تعلیمات ایک متوازن نظام پیش کرتی ہیں، جہاں فرد کی آزادی کو اجتماعی فلاح کے اصولوں اور اللہ کی مرضی کے تحت محدود کیا گیا ہے، جس سے ایک منظم اور پرامن معاشرے کی تشکیل ممکن ہوتی ہے۔

ہیومنزم اور اخلاقیات

کوئی بھی فلسفہ یا نظامِ حیات سب سے پہلے معاشرے کے ذہین ترین لوگ تشکیل دیتے ہیں اور پھر اسے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعے معاشرے کے ذہین طبقے میں پھیلاتے ہیں جسے عام الفاط میں اشرافیہ کہا جاتا ہے۔ اس طبقہ کا معاشرے میں تعلیم و اشاعت کے تمام ذرائع پر قبضہ ہے۔ یہ طبقہ پہلے اس فلسفہ یا نظام کو دل و جان سے قبول کرتا اور پھر اسے عام لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ عوام تو ویسے بھی ہر معاملے میں اسی اعلیٰ طبقہ کے تابع ہوتے ہیں، اس لیے وہ اسے قبول کرلیتے ہیں۔ اہلِ مغرب میں ہیومنزم کے نظریات کی نشرو اشاعت اور ترقی میں جن ذہین افراد نے حصہ لیا انھوں نے خود کو انسانی اقدار اور اخلاق اقدار کا حقیقی علمبردار کہا۔ ہیومنزم کے داعی یہ سمجھتے ہیں کہ ہیومنزم کے علاوہ اخلاقیات کا تصور کہیں نہیں۔ Council for secular Humanism کے بانی پال کر ٹز لکھتے ہیں:

’’ہمیں انسانی اخلاقیات کی جنگ کا سامنا بھی ہے۔ ہمارے خیال میں اخلاقی انقلاب انسان کے مستقبل کی ضمانت ہے اور اہم بات یہ ہے کہ آخرت اور جنت کے عقیدے کے بغیر یہ انسانی زندگی کو بہتری کی طرف لے جاتا ہے۔ ہماری بڑی خواہش ہے کہ ہم پہلے اخلاقی اقدار کو تجربے، مشاہدات کی بنیاد پر پرکھیں اور حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں اخلاقی قدروں کا تعین کریں۔ ہمارا طریقہ عالمی ہے، جس طرح کہ Humanist Manifesto 2000 میں کہا گیا ہے۔ ایک اور نقطہ ہے کہ روئے زمین پر تمام انسان برابری کے حقوق رکھتے ہیں اور اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ ہر فرد کو برابری کے حقوق ملیں۔ اخلاقی اقدار ایک فرد کی مکمل آزادی، ذاتی حقوق اور معاشرتی انصاف کی کلی ضمانت دیتے ہیں اور یہ صرف ایک انسان تک محدود نہیں بلکہ اس کا تعلق پوری بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود اور ترقی سے ہے۔‘‘

(The evolution of thought and knowledge, 1965, pp99,336)

ہیومنزم کے اس نظریے نے مغربی معاشرے میں کافی ترقی کی۔ بیسویں صدی سے پہلے مسلم دنیا میں ان کے اثرات نظر نہیں آتے لیکن بیسویں صدی کے آخر میں میڈیا کی ترقی کے ساتھ ہی یہ اثرات مسلم معاشرے میں پھیلتے جارہے ہیں۔ جہاں اخلاقیات سے گری حرکات، فحاشی اور عریانی کو فروغ مل رہا ہے، وہاں ایڈز جیسی ناقابلِ علاج بیماریاں پھیل رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خاندانی نظام کا خاتمہ بھی ہوتا جارہا ہے۔ اس کا اثر یہ ہورہا ہے کہ کوئی بچوں کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے اور نہ کوئی بڑے بوڑھوں کی خبر گیری کرنے والا ہے۔ بچوں کے لیے کڈز ہومز اور بوڑھوں کے اولڈ ہومز بنائے گئے ہیں جہاں نہ بچوں کی تربیت ہے اور نہ بوڑھوں کی خبر گیری کرنے والا کوئی۔ یہ اخلاقی معیار ہے کہ جن مراحل اور ادوار میں انسان کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ وقت گھر سے دور کڈز اور اولڈ ہومز میں گزرتا ہے۔ یعنی ان کی زندگی اب کڈز ہوم سے شروع ہوتی ہے اور اولڈ ہوم پر ختم ہوجاتی ہے۔

ہیومنزم نے دنیا پرستی کو فروغ دیا جس نے سماجی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے مسلم معاشروں کو متاثر کیا ہے۔ مغربی اور مسلم دونوں معاشرے اس کی زد میں ہیں۔ جب انسان کی دنیاوی زندگی اس کی سرگرمیوں کا مطمع نظر بن جائے تو عملی اعتبار سے وہ آخرت کی زندگی کا انکار کرتا ہے اور اخروی تقاضوں کو مکمل طو رپر فراموش کردیتا ہے۔ نتیجے کے طور پر پستی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔

5۔ اسلامی عائلی اورخاندانی نظام کا خاتمہ کرنا

لبرل ازم کا پانچواں بڑا مقصد اسلامی عائلی اور خاندانی نظام کو ختم کرنا ہے۔ معاشرہ افراد کے مجموعے کا نام ہے جہاں لوگ اپنے مذہب، تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کے مطابق آزادنہ طور پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسلام نے جہاں عبادات کا حکم دیا ہے، وہاں معاملات کو بالخصوس پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس کے معاشرتی نظام میں خاندان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ افراد کی عائلی زندگی ہی مضبوط معاشرے کی بنیاد ہے۔ لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اسلام میں بڑائی کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ.

(الحجرات،49: 13)

’’اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکوبے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ صاحب لکھتے ہیں کہ گمراہیاں صرف اس زمانے ہی میں موجودنہ تھیں جنھیں ازمنہ مظلمہ کہا جاتا ہے بلکہ آج بھی ان ہلاکت آفرینیوں سے انسانیت کی جبیں شرم کے مارے غرق آلود ہوتی رہتی ہے۔ (تفسیر ضیاء القرآن، لاہور، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، 2015ء، ص: 600)

یورپ کے معاشرتی نظام میں خاندان کا تصور ہی محال ہے۔ ہم جنس پرستی، زنا بالرضا، سود، شراب کا استعمال، فحاشی و عریانی جیسے قبیح افعال کو ذاتی زندگی کی آزادی کہہ کر شدت سے اپنایا جاچکا ہے۔ جب سے مغرب نے مرد و عورت کے نکاح کو اس کا ذاتی معاملہ قرار دیا ہے، تب سے وہ سوسائٹی حیوانیت زدہ معاشرے کا منظر پیش کرتی ہے۔ آج مغربی معاشرہ خاندانی زندگی کے نظام اور رشتوں کے تقدس سے محروم ہوچکا ہے اور مغرب کا خاندانی نظام انارکی کی حدوں کو چھو رہا ہے۔

یورپ یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ اسلام کا عائلی نظام انتہائی منظم اور مضبوط ہے اور اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے جبکہ اس کے برعکس یورپ نے اپنے خاندانی نظام کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ چنانچہ وہ اسلام کے اس خاندانی نظام کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ آج وہ ہمارے اندر اُن خیالات کو مختلف طریقوں سے راسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ’’مذہبی،معاشرتی، اخلاقی اور خاندانی پابندیاں ایک وبال ہیں۔‘‘ اس سے ان کا مقصود ان خاندانی رسوم و رواج اور اخلاق و ضابطہ کی زنجیروں کو توڑ پھینکنے کا ایک رجحان پیدا کرنا ہے تاکہ نفسانی خواہشات کی آزادانہ تسکین کے راستے میں آنے والے اصولوں کے خلاف ایک بغاوت جنم لے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ ان خواہشات کے آگے قائم کی جانے والی رکاوٹوں کے سبب انسانی شخصیت کی نشوونما اور ترقی کا سفر رکا ہوا ہے۔

6۔ اسلامی ثقافتی اور تہذیبی اثرات کا خاتمہ

لبرل ازم کا ایک بڑا مقصد اسلامی ثقافتی اور تہذیبی اثرات کا خاتمہ ہے۔ یورپ کا یہ طرزِ عمل کہ وہ مسلمانوں کو ایمانی، ذہنی اور اخلاقی خلفشار سے دوچارکریں، آج کا نہیں ہے بلکہ صدیوں پرانا ہے۔ یورپ نے مسلم ممالک میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے ساتھ وہاں اپنی تہذیب و ثقافت کو بھی نافذ کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ سازی کی۔ اب جنگیں صرف فوجی میدان میں نہیں ہوتیں بلکہ ثقافتی اور تہذیبی میدان میں بھی ہوتی ہیں۔ معاشرے کو سیکولر و لبرل بنانے کے لیے ایسی روایات اور اقدار کی حوصلہ افزائی سرکاری سطح پر بھی کی جارہی ہے، جس کے نتیجہ میں فحاشی عام ہو۔ المیہ یہ ہے کہ ایسی روایات معاشرے کے لیے کوئی صحت مند سرگرمیاں ہر گز نہیں ہیں بلکہ فکری لحاظ سے حیوانیت اور جنسی بے راہ روی کی طرف مائل کرنے کے اقدام ہیں۔ دراصل ’’روشن خیالی‘‘ کا وہ پورا خاکہ جو ہم نے اغیار سے مستعار لے رکھا ہے اس میں رنگ بھرنے کے لیے بھی اسی کی دی ہوئی ثقافتی اقدار کو استعمال کیا جارہا ہے۔

ذرائع ابلاغ، ریڈیو، ٹی وی، اخبارات و جرائد اور فلموں کو ایک منصوبہ بندی کے تحت فکر و نظر کی گمراہیاں پھیلانے اور اسلامی اقدار کو مٹانے اور ان کا مذاق اڑانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور ان تمام کو لبرل ازم کا لازمی تقاضا قرار دیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے دینی اقدار اور پختہ عقائد کو بنیاد پرستی قرار دے کر نئی نسلوں کو اپنی پرانی نسل کے عقیدے اور ایمان سے بدظن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے فکری جذبۂ تجسس سے فائدہ اٹھا کر فلمی کہانیاں اور ان کے کردار انہیں ایک ایسی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان میں اچھے اور برے اعمال کی تمیز اور احساس ہی ختم ہوجائے۔ جب روح کی پاکیزگی اور حیا جو ایمان کا خاصہ ہے، متزلزل ہوجائے تو انسان اور جانور کا فرق و امتیاز ہی مٹ جاتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ثقافت کے نام پر بپا ہونے والا طوفان ہمارے معاشرے پر انتہائی زہریلے اثرات مرتب کررہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے تعلیمی اور دینی و اصلاحی اداروں کو مؤثر کردار ادا کرتے ہوئے ان عوامل کو امتِ مسلمہ سے نکالنا ہوگا تاکہ معاشرے کو تباہ و برباد ہونے سے روکا جاسکے۔