احسان حسن ساحر

کسی بھی کام کی شروعات سے پہلے اس بات پر غور وفکر کیا جاتا ہے کہ یہ اجتماعی کام جن احباب کے سپردکیا جارہا ہے، کیا وہ اسے کماحقہ درست طور پر انجام دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔۔۔؟ اگر وہ باصلاحیت، باہمت اور دردِ دل رکھنے والے افراد ہیں، ان میں وہ خصائص و محاسن موجود ہیں جن کے سبب وہ اس کام کو احسن طور پر انجام دے سکیں تو اس کام کی بجا آوری میں ان کے ساتھ نصرتِ الہیٰ بھی شامل ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر یہ افراد نااہل، بددیانت، خود غرض، مفاد پرست اور شہرت و دولت کے بھوکے ہوں تو یہ قومی، ملکی، سیاسی، تنظیمی اور دینی کام بھی مؤثر و کار آمد ثابت نہیں ہوسکتا۔

ملک و قوم اور دین کی خدمت کے جذبہ کے نام میں کسی بھی عہدہ حاصل کرنے سے پہلے نہایت ایمانداری اور سنجیدگی سے اپنی ذات کا بخوبی محاسبہ کرنا چاہیے کہ کس نیت اور خیال سے اس عہدہ کا طوق اپنے گلے میں ڈالا جارہا ہے؟ کیا اس میں وہ خوبیاں ہیں جو اس نازک ذمہ داری کو پوری کرنے کے لیے ناگزیر ہیں؟

زیرِ نظر تحریر میں شریعتِ اسلامیہ نے سیاست کا صحیح مفہوم اور قیادت میں پائے جانے والے جو اوصاف وضع کیے ہیں، اگر ان کو پڑھ لیا جائے تو کافی رہنمائی اور آگاہی مل سکتی ہے اور پھر ان اصولوں کی روشنی میں ہم بخوبی یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کیاان اصولوں کے مطابق وہ اس عہدہ سے وفا کرسکیں گے؟

ہم ملک و قوم کی خدمت کے لیے لفظ ’’سیاست‘‘ کو استعمال کرتے ہیں۔ عربی لغت’’اقرب الموارد‘‘ میں لفظ ’’سیاست‘‘ کا پس منظر یوں بیان کیا گیا ہے کہ اس کا مطلب تادیب، تربیت یا رہنمائی ہے۔ یہ لفظ ان شخصیات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جواعلیٰ تعلیم یافتہ، باصلاحیت، اہلِ فکرو دانش اور قوم و ملت کی سرپرستی جیسے اوصاف و کمالات کے مالک ہوں اور جو عدل کی بنیاد پر قوم کی حالت بہتر بنانے کے لیے فکرو تدبر اور فہم و فراست سے کام لے کر عوام کی درست سمت میں رہنمائی کرتے ہوئے دنیا و آخرت کے نقصانات سے بچانے کے لیے شب و روز خدمتِ خلق میں مصروف رہیں۔

ان ذمہ داریوں کے پیشِ نظر سیاست ہمیں جو فریضہ ادا کرنے کی ہدایت کرتی ہے، اس سے عہدہ برآ ہونے کا ہر فرد تو اہل نہیں ہوسکتا۔ لہذا ایک محتاط جائزہ کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پورے معاشرے میں چند گنتی کے افراد ہی ایسے اوصاف و کمالات کے مالک ہوتے ہیں جو صحیح طور پر ملک و قوم کی حقیقی قیادت کہلاسکتے ہیں۔ ورنہ ہر کوئی قائد ہونے کا دعویٰ کرنے سے قائد و رہنما نہیں بن سکتا۔

دینِ اسلام میں سیاست کا صحیح تصور ایسی ہی قابل شخصیات سے وابستہ ہے۔ افسوس اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں سیاست کے بنیادی مفہوم کو قطعاً پامال کردیا گیا ہے اور ہر نااہل، اصل خوبیوں سے عاری خود کو عظیم سیاست دان اور قائد سمجھتا ہے۔ حالانکہ قیادت کے بنیادی اوصاف میں سے ایک وصف بھی اس میں موجود نہیں ہوتا۔ موجودہ وقت کی سیاست کا رجحان و میلان صرف باہمی جوڑ توڑ،ایک دوسرے پر الزام تراشی، گالی گلوچ، ناجائز ذرائع سے حرام دولت اکٹھی کرنا، عوام کے حقوق کا استحصال، اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ پرتعیش (Luxary) بنانا، عوام کی تکالیف اور اُن کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے جھوٹے وعدے کرکے اُن کو طفل تسلیوں سے بہلائے رکھنے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ دینِ اسلام ہمیں جو ہدایات اور تعلیمات دیتا ہے وہ اس سے قطعی مختلف ہیں۔

حدیث مبارک ہے کہ جو شخص حکومت و اقتدار کی تمنا رکھے وہ کبھی مخلص اور وفادارحکمران نہیں ہوسکتا۔ اسلامی کتب کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے قرونِ اولیٰ یا بعد کے زمانے میں ملک و قوم کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیا وہ بڑے باخبر، ہوشمند اور خوفِ الہٰی رکھنے والے احباب تھے۔ خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حسنِ سیاست کو صالح تربیت کا موثر ذریعہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح دیگر ائمہ کرام کا شمار بھی اپنے اپنے وقت کی عظیم قیادتوں میں ہوتا ہے۔ دور کوئی بھی ہو، امامِ وقت کا مقام و مرتبہ اور اس کی حیثیت ایک چمکدار ستارے کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی چمک سے تاریکی، جہالت اور گمراہی کے اندھیرے ختم ہوجاتے ہیں۔ وہ ایک ایسا ہادی (ہدایت دینے والا) اور نگران ہوتا ہے، جس کے دل میں اللہ کے خوف کے علاوہ دوسرا کوئی خوف موجود نہیں ہوتا۔ وہ اگر ڈرتا ہے تو صرف اپنے خالق و مالک سے۔ مخلوق میں سے کوئی بندہ اسے خائف نہیں کرسکتا۔ یہی وہ کمال اور اعلیٰ وصف ہے جس کے باعث وہ عوام الناس میں زہدو تقویٰ، علم و عرفان کا بے مثل نمونہ بن جاتا ہے اور اسی خوبی کی وجہ سے حقیقی قیادت و سیاست کے جملہ اسرار و رموز اس کی مٹھی میں بند ہوجاتے ہیں۔ اس کی ذات ایک انجمن بن جاتی ہے۔ وہ نہ صرف ایک قابل حکمران ہوتا ہے بلکہ ایک عظیم قائد اور سیاستدان بھی کہلاتا ہے۔

سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ عقل و خرد کے ذریعے حکمت و دانش کے اصول حاصل کیے جاتے ہیں اور حکمت کے ذریعہ ہی عقل کی گہرائیوں کو ناپا جاسکتا ہے جبکہ حسنِ سیاست کے ذریعے صالح ادب سکھایا جاتا ہے۔ کسی سلطنت، حکومت، ملک، ریاست یا قوم میں اگر سیاست کا وجود ضعیف اور کمزور ہوجائے تو اس ملک کے عوام میں سیاسی شعور اور مثبت فکرو عمل ختم ہوجاتا ہے اور یہ وہ مہلک عارضہ ہے جس کے نتیجہ میں اس ملک کی سیاسی، معاشی، اقتصادی حالت کے ساتھ ساتھ اس کی قیادت بھی زوال پذیر ہوکر رہ جاتی ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ شاد و آباد مملکت تباہی کے گڑھے میں غرق ہوکر رہ جاتی ہے۔

اصل قائد و رہنما وہ ہے جو عدل کی بنیاد پر ملک و قوم کے علمی، فکری، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی حالات بہتر بنانے کے لیے فکرو تدبر اور فہم و فراست سے کام لے اور قوم و ملت کی درست سمت راہنمائی کرتے ہوئے انہیں دنیا و آخرت کے نقصانات سے بچانے کے لیے شب و روز مصروفِ عمل رہے

قیادت و سیاست کے ان تقاضوں اور اوصاف کے سبب مملکت پاکستان کے ہر شہری، سیاست دان، بیوروکریٹ اور مزدور کا یہ ملی فریضہ ہے کہ وہ جس جس محاذ پر مصروفِ کار ہے، اپنی ملکی سیاست کو اس طرف نہ جانے دے جس طرف جانے سے اس کے وجود میں ضعف اور کمزوری پیدا ہو۔ اس کے وجود کو صحت مند اور مستحکم رکھنے کے لیے تعمیری اور فلاحی سوچوں کو اپنے اذہان میں پروان چڑھانا چاہیے تاکہ ملکی سالمیت سلامت رہ سکے۔ اہل دانش کا قول ہے کہ کسی گھر کی سالمیت و سلامتی اور چار دیواری کا تحفظ اس گھر کے باسیوں کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ جب گھر ہی سلامت نہ رہا تو باسی کہاں سلامت رہیں گے۔ مملکت پاکستان ہمارا خوبصورت اور حفاظتی گھر ہے، اس کی سلامتی ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔ یہ امر فرضِ عین اور جزوِ ایمان ہے کہ ہمیں ہر اس سیاسی روش سے بچنا ہوگا جو ملک و ملت کے لیے بربادی کا باعث بنے۔ حصولِ اقتدار کے لیے بے بنیاد ناممکن، مہمل اور بلند بانگ کھوکھلے دعوے کرکے رعایا کو یہ جعلی تاثر و یقین دلانا کہ ’’ہم ہی وہ محب وطن لیڈر اور سیاست دان ہیں جو صحیح معنیٰ میں اس ملک و ملت کے معمار اور بہی خواہ ہیں اور ہمارے ہی دم سے یہ گلشن سیاست مہک رہا ہے،‘‘ ایسے من گھڑت تاثرات و بیانات اور شعبدہ بازی سے کوئی جماعت یا تنظیم سیاست کے اس مفہوم و تصور کو جاندار نہیں بناسکتی جس کی بنیاد خود نبی آخرالزمان ﷺ نے اولین اسلامی سیکرٹریٹ یعنی مسجد نبوی میں رکھی تھی اور جس نافع سیاست کا تصور ہمیں ساڑھے چودہ سو سال پہلے عطا فرمایا گیا تھا۔

جن لوگوں نے قرونِ اولیٰ یا بعد کے زمانے میں ملک و قوم کی قیادت کا فریضہ سرانجام دیا، وہ بڑے باخبر، ہوشمند اور خوفِ الہٰی رکھنے والے احباب تھے۔ خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حسنِ سیاست کو صالح تربیت کا مؤثر ذریعہ قرار دیا ہے

سیاست کسی شعبدہ بازی یا کرامت کا نام نہیں بلکہ سیاست تو عبادالرحمن کی دنیا و آخرت کو کامیاب بنانے اور عدل و انصاف کی ٹھوس بنیادوں پر خوشحال معاشی نظام کے قیام اور مملکت میں مکمل نظم و ضبط پیدا کرنے کا نام ہے۔حقیقی سیاست اور ملک و قوم کی خدمت کوئی رنگ رنگ کے پھولوں کی نرم و گداز سیج نہیں جس پر میٹھی نیند سوجانے سے آدمی تسکین و فرحت محسوس کرے بلکہ یہ وہ خار دار بچھونا ہے جس پر لیٹنے سے انسان کروٹ کروٹ چبھن محسوس کرتا ہے۔ حقیقی قائد دن کو آرام پاتا ہے اور نہ رات کو سکون۔ وہ اسی غم و فکر میں ڈوبا رہتا ہے کہ اگر سلطنت میں کوئی بکری یا کتا بھی بھوک سے دم توڑ گیا تو یوم الحساب اس کی جواب طلبی مجھ سے ہوگی۔ عہدِ حاضر میں ملک و قوم کی رہنمائی کے فریضہ پر فائز ہر سطح کے قائدین و رہنما کا غوروفکر اور سوچ کا زاویہ اسی نوعیت کا ہو اور وہ اپنی منصبی ذمہ داریاں اسی طرح محسوس کرے تو یقیناً پھر ہی ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔

ملک و قوم کی خدمت اور قیادت کا براہِ راست تعلق ملکی فلاح، عوام کی خوشحالی اور فروغِ دین سے ہے۔ اگر کوئی نااہل اور بے علم شخص ان باتوں سے بے خبر اور عاری ہوگا تو نہ صرف وہ ریاست کی بربادی کا باعث ہوگا بلکہ اپنی دنیا و آخرت بھی برباد کرلے گا۔ سیاست کا شوق رکھنے والے سیاست دانوں کو اس کا صحیح ادراک ہونا چاہیے۔ اس پرکھ کے لیے انہیں اپنی ذات کو ضمیر کی کسوٹی پر رکھ کر خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا واقعی وہ اس قابل ہے کہ اس منصبِ جلیلہ کی ذمہ داریوں کو کماحقہ ادا کرسکے؟ اگر اس کا کوئی تسلی بخش جواب ملے، ان کا ضمیر انھیں مطمئن کردے تو بلاتاخیر وہ سیاست کے میدان میں قدم رکھے ورنہ اس خواہش اور شوق کو ذہن سے خارج کردے۔

دین اسلام جوڑ توڑ کی سیاست کو قطعی ناجائز سمجھتا ہے۔ دین تو پاک صاف سیاست کا درس دیتا ہے جس میں اللہ کی مخلوق کی فلاح اور انہیں تعلیماتِ اسلامیہ سے روشناس کرانا اور پوری ریاست کے نظام کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔ ایک سچے قائد کا فرض ہے کہ وہ خود کو ایک مثالی اور بہترین نمونہ کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرے جیسے رسول کریم ﷺ نے فاران کی چوٹی پر کھڑے ہوکر قریش مکہ سے پوچھا تھا کہ تم لوگوں نے مجھے اپنے درمیان کیسا پایا؟ سب نے بیک زبان کہا کہ بے شک آپ ﷺ صادق اور امین ہیں۔

مدینہ کی نئی اسلامی ریاست کا قیام آپ ﷺ کی سیاسی بصیرت اور حکمتِ عملی کا زندہ ثبوت ہے۔ آپ ﷺ نے اس اسلامی ریاست کے قیام کے بعد اس کے انتظام و انصرام اور نظم وضبط کو مؤثر اور اعلیٰ طریق پر چلایا۔ ایک قابل اور عظیم قائد اور سیاست دان ہونے کے ناطے آقا کریم ﷺ نے اسلامی ریاست میں جو نظام رائج فرمایا، اس کی ایک خوبی یہ تھی کہ احکام ربانی کا پیغمبرِ اسلام اور عام مسلمانوں پر یکساں اطلاق ہوتا۔ بااختیار حاکمِ وقت ہونے کے باوجود آپ ﷺ ہر طرح کے امورِ حکومت میں معتبر صائب الرائے اور عوامی شخصیات سے باقاعدہ مش اور ت فرماتے اور اس میں کسی قسم کی عار، شرم اور جھجک محسوس نہ کرتےجبکہ آج کے نام نہاد قائدین اور سیاستدان ان خوبیوں سے عاری اور محروم ہیں۔

سیدنا ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی اپنے ذاتی محاسبہ کے لیے فرمایا:

أَطيعوني ما أَطعتُ اللهَ ورسولَه فإذا عصيتُ اللهَ ورسولَه فلا طاعةَ لي عليكم.

(ابن كثير،البداية والنهاية: 5: 218)

جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہوں، تم میری اطاعت کرو؛ اور جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری کوئی اطاعت لازم نہیں۔ مزید فرمایا کہ اگر میں کوئی غلط کروں تو مجھے اس سے روک دینا اور اگر صحیح چلوں تو میرا ساتھ دینا۔

سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ اپنی منصبی ذمہ داریوں سے ہمہ وقت آگاہ رہتے تھے اور اللہ کا حق ادا کرنے میں کسی لمحہ غفلت کا شکار نہ ہوتے۔ ان کے نزدیک کسی بھی بڑے سیاستدان اور حکمران کا اپنی ذات اور وجود کا کوئی مقام اور وزن نہیں ہوتا، صرف اس منصب کا وزن اور اہمیت ہوتی ہے جس پر وہ فائز ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ اس امر سے بھی بخوبی واقف تھے کہ سیاسی عہدہ پر فائز رہنے والے سیاست دان کے کیا فرائض ہیں اور انہیں کیونکر ادا کیا جاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنی ذات کو قومی مفادات سے بالاتر نہ سمجھتے بلکہ اصولوں کی بالادستی ان کے نزدیک زیادہ اہمیت کی حامل تصور کی جاتی۔

خلافت کی گراں بار ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! ہم اب تمھارے ساتھ جو معاملات کریں گے، وہ تمھارے ظاہری حالات اور اعمال کے مطابق ہوں گے جس نے بھی بھلائی کی روش پر قدم رکھا اسے تحفظ و امن کی ضمانت فراہم کرنا حکومت کا فرض ہوگا۔ اس کے برعکس جس سے کسی قسم کا شرو فساد ظاہر ہوا تو حکومت اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھے گی۔ اگر وہ یہ کہتا بھی رہے کہ دل اور نیت سے اس کا ارادہ فتنہ انگیزی نہ تھا، حکومت اس کے ظاہری عمل کے مقابلہ میں اس کے دعویٰ کو تسلیم نہ کرے گی۔

عہد حاضرہ کے حکمران اور سیاستدان قومی خزانہ کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں مگر آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک قومی خزانہ قوم کی امانت اور اربابِ اقتدار اس کے امین ہوتے ہیں۔ فرمایا: ’’بیت المال سے میرا معاملہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے یتیم کے مال کے ساتھ اس کے سرپرست کا۔‘‘خلفائے راشدین کا دور ہمیں فلاحی ریاست کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جس سے ہم اپنی دیانت و امانت کی شمع روشن کرکے ملکی معاملات میں کئی بہتر اقدام کرسکتے ہیں۔ عہدِ حاضر کے قائدین اگر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ روزِ محشر ان کی منصبی ذمہ داریوں کی بابت بارگاہِ قدس میں ان سے باز پرس ہوگی تو کافی حد تک ہماری اصلاح ہوسکتی ہے۔

دور کوئی بھی ہو، امامِ وقت کا مقام و مرتبہ اور اس کی حیثیت ایک چمکدار ستارے کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی چمک سے تاریکی، جہالت اور گمراہی کے اندھیرے ختم ہوجاتے ہیں۔ وہ ایک ایسا ہادی (ہدایت دینے والا) اور نگران ہوتا ہے، جس کے دل میں اللہ کے خوف کے علاوہ دوسرا کوئی خوف موجود نہیں ہوتا

14 اگست کو ہم اپنا 78 واں یوم آزادی منا رہے ہیں۔ اس موقع پر ہمیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت و سیاست کو بھی اپنے پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ آپ ایک اعلیٰ پائے کے سیاست دان اور ایسے زیرک قانون دان تھے کہ جن میں قدرت نے وہ تمام محاسن و اوصاف رکھے تھے جو فطرت کا ایک عظیم عطیہ ہوتے ہیں۔ اگر ان میں یہ خوبیاں نہ ہوتیں تو آج عالمی نقشہ پر پاکستان کا نام تک نظر نہ آتا۔ یہ اُن ہی کی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہماری بہترین توقعات کا گراں قدر سرمایہ، عملی زندگی کا حاصل، شبانہ روز جہدِ مسلسل کا منتہائے مقصود اور دیرینہ سپنوں کی تعبیر یہ مملکت پاکستان آج بصد خوبی و رعنائی نہ صرف اہلِ وطن کے روبرو بلکہ اقوامِ عالم کے سامنے بھی ایک زندہ و جاوید ریاست کی شکل میں موجود ہے۔

جب ملتِ اسلامیہ اپنے دین کی حقانیت کو فراموش کرکے روبہ زوال ہوتی جارہی تھی تو مصلحین ِ امت نے اسے از سر ِنو اُسی خالص اسلام سے وابستہ و پیوستہ کرنے کی کوششیں شروع کردیں جو آقا کریم ﷺ اپنے ساتھ لائے تھے۔ ان کوششوں نے جزیرۃ العرب کی ساری حالت کو بدل کر رکھ دیا۔ یہاں کے باشندے اور جہلاء دنیا کے معزز و محترم لوگ بن گئے۔ ان کے ہاتھوں میں دینِ اسلام کی رسی تھماکر انھیں کھرا سچا مسلمان بنادیا۔ مسلمان جب تک اسی رسی کو تھام کر قدم بڑھاتے رہیں گے تو نصرتِ الہٰی ان کو اھلاً و سہلاً کہتی رہے گی۔ عہدِ حاضر میں بھی جب مسلمانوں نے اسی اصول کو اپنایا تو تحفہ کے طور پر 14اگست 1947ء کو اللہ نے پاکستان عطا فرمادیا۔ ہمیں اقوامِ عالم سے کوئی علاقہ و واسطہ نہیں لیکن جہاں تک مسلمانانِ ہند کی آزاد ریاست کا سوال ہے تو یہ کلیتاً کرشمۂ اسلام ہے۔ جب تک اہلِ اسلام اپنے دین حقہ سے وابستہ رہیں گے، اسلام کے یدِبیضاء سے ایسے کرشمات کا ظہور ہوتا رہے گا۔

کسی سلطنت، حکومت، ملک، ریاست یا قوم میں اگر سیاست کا وجود ضعیف اور کمزور ہوجائے تو اس ملک کے عوام میں سیاسی شعور اور مثبت فکرو عمل ختم ہوجاتا ہے اور یہ وہ مہلک عارضہ ہے جس کے نتیجہ میں اس ملک کی سیاسی، معاشی، اقتصادی حالت تباہ و برباد ہوکر رہ جاتی ہے

پاکستان کی صورت میں ایک نئی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے لیڈر پیدا فرمائے جن میں وہ تمام جملہ صفات اور خوبیاں موجود جو ایک عظیم قائد اور قابل سیاست دان میں ہونا چاہیں۔ قائداعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان کے دوران اگر قائدین کی کہکشاں دیکھی جائے تو ان میں موجود ہر ایک ستارہ روشنی کا ایک مینار دکھائی دیتا ہے۔ ایسے باکمال قائدین اور سیاست دانوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں لوگوں کے خیالات کو بدل کر ایسے حالات پیدا کردیئے کہ جن سےیہ حقیقت عیاں ہونے لگی کہ پاکستان کا مطالبہ تسلیم کیے بغیر اس خطہ میں امن کی فضا بحال نہ ہوسکے گی۔ بالآخر 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔

اس عظیم وطن کا خواب علامہ محمد اقبالؒ نے دیکھا جو قیادت کے اعلیٰ اوصاف سے متصف تھے۔۔۔ اس خواب کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناحؒ اور اُن کے ساتھ شریکِ کار تحریکِ پاکستان کے قائدین کے ہاتھوں ممکن ہوئی جن کی قائدانہ صلاحیتوں اور مدبرانہ سیاست کا ایک زمانہ معترف ہے۔۔۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک کی حقیقی معنیٰ میں تعمیرکی جائے اور اس تعمیر کے لیے جب ہم اپنے اردگرد موجود نام نہاد قائدین، سیاستدانوں اور مقتدر قوتوں کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی مذکورہ بالا اوصافِ قیادت و تقاضاہائے سیاست سے متصف نہیں ہے۔

ان حالات میں مگر ایک ایسی قیادت بھی ہمیں نہ صرف اس مملکتِ خداداد کے افق پر چمکتی نظر آتی ہے بلکہ افقِ عالم پر بھی اپنے علم و فکر کے چراغ روشن کرتے دکھائی دیتی ہے۔ وہ شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہے کہ جن کے پاس نہ صرف جملہ اوصافِ قیادت و سیاست، تدبر، حکمت و بصیرت، علم و حکمت اور دور اندیشی بدرجہ اتم موجود ہیں بلکہ ملک و قوم کے حقیقی مسائل کا فہم اور ان کا قابلِ عمل حل بھی موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم معاشرے کو علم و امن کا گہوارہ بنانے، نوجوان نسل میں اخلاق و تربیت کی آبیاری کرنے، ان کے ایمان کو محفوظ کرنے اور ملک کے جملہ مسائل کے حل کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دست و بازو بنیں۔