اللہ رب العزت کی خاص توفیق سے ہم اس سلسلہ وار تحریر میں عقیدۂ صحیحہ کے موضوع پر حجیتِ حدیث و سنت پر قرآن و حدیث سے دلائل کا مطالعہ کررہے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت و اتباع کرنے اور آپ ﷺ کی سنت و حدیث اور ہر فرمان کو امت پر فرض، واجب اور لازم کرنے کے لیے قرآن مجید کی بیسیوں آیات میں آپ ﷺ کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیا ہے۔ ایسی بھی کئی آیات ہیں جہاں اللہ نے اپنا اور اپنے حبیب ﷺ کا ذکر واؤ عاطفہ کے ساتھ ملا کر کیا مگر اس کے لیے ضمیر واحد کی استعمال کی۔ مثلاً: اطاعت کے باب میں اپنا اور اپنے حبیب ﷺ یعنی دو ذاتوں کو بیان کیا مگر ان دونوں کے حکم کے بیان کے لیے ضمیر واحد کی استعمال کی تاکہ لوگ حضور علیہ السلام کی اطاعت اور اللہ کی اطاعت کو جدا نہ سمجھیں اور دونوں کو ایک ہی حیثیت میں لازم اور فرض سمجھیں۔ آیئے! حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث و سنت کی حجیت و اتھارٹی کا ایک اور زاویۂ نگاہ سے مطالعہ کرتے ہیں:
اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ
(انشراح، 94: 4)
’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔ ‘‘
اس آیت مبارکہ کی تفسیر خود اللہ رب العزت نے فرمائی ہے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے آقا علیہ السلام کو اس سے آگاہ فرمایا۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو سیدنا جبرائیل علیہ السلام آقا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
إن ربی وربک یقول: کیف رفعت ذکرک؟
یارسول اللہ ﷺ ! آپ کے رب اور میرے رب نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ میں آپ سے پوچھوں کہ اے میرے حبیب مکرم ﷺ ! آپ کو معلوم ہے کہ میں نے آپ کا ذکر کس طرح بلند کیا ہے؟
یہ اللہ تعالیٰ کا آپ ﷺ کے ساتھ ہمکلامی کا ایک بڑا محبت بھرا طریقہ ہے۔ آقا علیہ السلام فرمایا: قلت: اللہ و رسولہ أعلم.
میں نے جبرائیل سے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔
یعنی آپ ﷺ اس آیت کی تفسیر اللہ سے ہی سننا چاہتے ہیں کہ آیت بھیجنے والے رب نے اس کی جو تفسیر فرمائی ہے جبرائیل مجھے اس سے آگاہ کرو۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے: إذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِیْ.
(ابو یعلی، المسند، 2: 522، رقم: 1380)
آپ ﷺ کا ذکر بلند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی میرا ذکر کیا جائے وہاں آپ ﷺ کا ذکر ضرور کیا جائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام میں یہ اصول قائم کر دیا، اسے شرطِ ایمان اور شرطِ قبولیتِ اعمال بنا دیا ہے کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، الغرض ہر عبادت کے قبول ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ جب جب اور جہاں جہاں اللہ کا ذکر کیا جائے گا، وہاں آپ ﷺ کا ذکر بھی کیا جائے گا۔
اس موقع پر میں موضوع کی مناسبت سے اس آیتِ کریمہ کی وضاحت میں ایک خاص نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ جو رب، رسول اللہ ﷺ کے ذکر کو اپنے ذکر سے جدا کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اپنا ذکر رسول اللہ ﷺ کے بغیر کئے جانے کی اجازت نہیں دیتا، وہ رب اپنی اطاعت کو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے بغیر کس طرح قبول کر سکتا ہے۔ وہ رب تو یہ فرماتا ہے کہ میرا نام بھی میرے محبوب ﷺ کے ذکر کے بغیر نہ لیا جائے تو وہ سنتِ رسول کی حجیت کے بغیر صرف قرآن کو حجت ماننے کو کیسے قبول کر سکتا ہے۔
ورفعنالک ذکرک کی تفسیر
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ کا معنی یہ ہے:
لا ذکرت الا ذکرت معی.
(قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 20: 106)
یعنی میرا ذکر کرنے کی اجازت نہیں ہے، اگر میرے محبوب کا ذکر ساتھ نہ کیا جائے۔ مثلاً: ہم اذان نہیں دے سکتے جب تک أشھد أن لا إلہ إلا اللہ کے بعد اشھد أن محمد رسول اللہ نہ کہیں گے۔ ۔ ۔ اقامت میں جتنی بار أشھد أن لا إلہ إلا اللہ کہیں گے متصلاً اتنی بار أشھد أن محمد رسول اللہ کہیں گے۔ ۔ ۔ حالتِ نماز میں جو منبع اور سرچشمۂ توحید ہے، اس کے تشہدِ اُولیٰ اور تشہدِ اُخریٰ میں درج ذیل چار مقامات میں اللہ رب العزت نے حضور علیہ السلام کا ذکر داخل فرمایا ہے:
1۔ تشہد میں التَّحِیَّاتُ ﷲِ وَالصَّلَوَاۃُ وَالطَّیِّبَاتُ پیش کر کے ارادتاً اور شعوری طور پر حضور علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر سلام پیش کرتے ہیں: السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللهِ وَبَرَکَاتُہٗ گویا حضور علیہ السلام کی طرف ملتفت ہوتے ہیں، متوجہ ہوتے ہیں، اپنی توجہ آقا علیہ السلام کی طرف مرکوز کرتے ہیں، آقا علیہ السلام کو قلبی، روحانی اور ذہنی تصور میں مخاطب ٹھہراتے ہیں اور خطاب کر کے عرض کرتے ہیں: اے نبی ﷺ ! آپ پر سلام ہو۔
2۔ تشہد کے اندر أشْھَدُ أنْ لَا إلٰہَ إلَّا اﷲ بیان کرکے پھر وَأشْھَدُ أنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ پڑھتے ہیں۔
3۔ اُس کے بعد تشہد کے اگلے حصے میں درودِ ابراہیمی میں آقا علیہ السلام کا ذکر کرتے ہیں اور اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مَحَمَّدٍ کے الفاظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے حضور علیہ السلام پر درود بھیجنے کی دعا کرتے ہیں۔
4۔ پھر اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کے الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے حالتِ نماز میں چوتھی مرتبہ حضور علیہ السلام پر برکتوں کے نزول کی دعا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح نماز میں اپنے محبوب کا چار بار ذکر کرنے کا حکم دیا ہے اس سے إذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِیْ کا کاملاً مفہوم سمجھ میں آجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ اگر لوگ میری بارگاہ میں اپنے ہدیۂ نماز، ہدیۂ عبادت، بدنی، مالی، قولی عبادتیں پیش کریں اور میری توحید کا اقرار کریں تو میرے اس ذکر کے ساتھ چار مرتبہ آپ ﷺ کا ذکر کریں۔
اسی طرح یوم جمعہ، عیدالفطر اور عیدالاضحٰی کے مواقع پر منابر پر خطبۂ جائز نہیں ہے اگر آقا علیہ السلام کا ذکر ساتھ نہ ہو۔ حتی کہ حج جیسی عبادت میں بھی مختلف ایام؛ یوم ترویہ، یوم عرفہ، یوم النحر اور مقامات؛ منی، عرفات، مزدلفہ، مسجد الحرام، صفا ومروہ، جہاں جہاں اللہ کا ذکر کیا جائے گا وہاں وہاں آقا علیہ السلام کا ذکر بھی ہوگا۔ حتی کہ اگر مسلمان آپس میں ملیں تو اس وقت بھی رسول اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما من عبدين متحابين في الله يستقبل أحدهما صاحبه فيصافحه ويصليان على النبي ﷺ إلا لم يفترقا حتى تغفر ذنوبهما ما تقدم منهما وما تأخر۔
(مسند أبی يعلى الموصلی، الرقم: 29)
’’ دو ایسے مسلمان بندے جو صرف اللہ تعالیٰ کے واسطے آپس میں محبّت کرتے ہیں، جب وہ ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں تو وہ مصافحہ کرتے ہیں اور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں، تو وہ دونوں علیحدہ بھی نہیں ہوتے ہیں کہ ان کے اگلے پچھلے (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ ‘‘
اسی طرح مسجد میں داخل اور خارج ہوتے ہوئے بھی حضور نبی اکرم ﷺ پر صلوۃ و سلام پڑھا جائے گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیُسَلِّمْ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ لِیَقُلْ: اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ فَإِذَا خَرَجَ فَلْیَقُلْ: اَللّٰھُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ.
(السنن أبو داود، کتاب الصلاۃ، باب ما یقول الرجل عند دخولہ المسجد، 1: 126، الرقم: 465)
’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اُسے چاہئے کہ نبی ﷺ پر سلام بھیجے پھر کہے: اے اللہ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور جب مسجد سے باہر نکلے تو کہے: اے الله! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں۔ ‘‘
حتیٰ کہ اپنے گھروں میں داخل ہوں تو تب بھی حضور علیہ السلام پر سلام بھیجیں گے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے پاس آکر فقر وفاقہ اور تنگی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا:
إذا دخلتَ بيتَك فسَلِّم إن كان فيه أحدٌ، وان لم يكن فيه أحد فسلّم عليّ، وأقرأ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ مرة واحدة.
( الثعلبي في تفسيره "الكشف والبيان": 10: 330)
’’جب تم اپنے گھر میں داخل ہو تو اگر کوئی وہاں موجود ہو تو سلام کرو اور اگر وہاں کوئی موجود نہ ہو، پھر مجھ پرسلام پیش کرو اور ایک بار (سورہ) قل ھو اللہ احد پڑھو۔ ‘‘
ملا علی قاری نے ’’شرح الشفاء‘‘ میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ جب گھروں میں داخل ہوں اور اس وقت گھر میں کوئی بھی نہ ہو تو حضور علیہ السلام پر سلام پڑھا جائے۔ اس لیے کہ:
ان روح النبی ﷺ حاضرۃ فی بیوت اھل الاسلام.
(شرح الشفاء، ملاّ علی قاری، فصل فی المواطن التی تستحب فیہا الصلوۃ والسلام، 2/ 118)
نبی ﷺ کی روحِ کریم تمام جہان میں ہر مسلمان کے گھر میں تشریف فرما ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں احکامِ دین، عقائد، اعمال، معاملات اور زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط موضوعات میں اپنے اور اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کا نام اکٹھا ذکر کیا ہے
اس کا معنی یہ ہے کہ آپ ﷺ کی روحانیت کا فیض ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کا فیض، آپ ﷺ کے انوار، توجہات اور روح مبارکہ کے فیوضات ہر اہلِ ایمان کے گھر موجود ہوتے ہیں۔ حضور علیہ السلام پر سلام پڑھنے کے لیے یہ لازمی نہیں کہ گنبد خصریٰ کے پاس مواجہ شریف کے قریب جالی مبارک کے سامنے جائیں تو سلام کہیں۔ نہیں بلکہ شرق تا غرب جہاں بھی ہوں، حضور علیہ السلام پر سلام پڑھیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث قدسی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي مَجْلِسٍ فَتَفَرَّقُوْا مِنْ غَيْرِ ذِکْرِ اللهِ وَالصَّـلَاةِ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ إِلَّا کَانَ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
(صحيح ابن حبان، کتاب البر والإحسان، باب الصحبة والمجالسة، ذکر البيان بأن تفرق القوم عن المجلس عن غير ذکر اللہ، 2/ 351، الرقم: 590)
جو لوگ کسی مجلس میں اکٹھے ہوئے اور پھر وہ (اس مجلس میں) اللہ تعالیٰ کا ذکر اور نبی مکرم ( ﷺ ) پر درود پڑھے بغیر منتشر ہو گے تو وہ مجلس ان کے لیے قیامت کے روز باعث حسرت (وخسارہ) بننے کے سوا اور کچھ نہ ہو گی۔ ‘‘
گویا وہ مجلس بے کار ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں اور حضور نبی اکرم ﷺ پر سلام نہ بھیجیں۔ وہ مجلس بے برکت ہوگی اور ایسا بندہ جو آقا علیہ السلام پر درود سلام پڑھے بغیر مجلس سے اُٹھ جائے، قیامت کے دن حسرت یا فتہ ہوگا اور اللہ کی رحمتوں سے محروم ہوگا۔
ان تمام احادیث سے یہ تصور واضح کرنا مقصود ہے کہ دینِ سلام میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضور علیہ السلام کے ذکر کو اس قدر واجب و ناگزیر اور اپنے ذکر کے ساتھ حضور علیہ السلام کے ذکر کو ایسے جوڑ دیا ہے کہ انہیں جدا کر ہی نہیں سکتے۔ اگر ایسا کیا تو ایسا کرنا اپنے ایمان کا جسد کاٹ ڈالنا ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر ذکرِ مصطفی کو ذکرِ الہٰی سے جدا نہیں کرسکتے تو پھر حضور علیہ السلام کی اطاعت کو اطاعتِ الٰہی سے اور سنت و حدیثِ مصطفی کی حجیت کو قرآن مجید کی حجیت سے کس طرح جدا کر سکتے ہیں۔ تمام ائمہ مفسرین و محدثین کا کسی رد، طعن، قید، انکار اور اختلاف کے بغیر پندرہ صدیوں سے اس بات پر اجماع ہے اور ہر ایک نے اس اعتماد کیا ہے۔ کسی بھی امامِ حدیث اور امامِ تفسیر نے اس بات سے اختلاف نہیں کیا۔
یہ بات اس لئے واضح کرنا مقصود ہے کہ آج کئی لوگ کتب کے مطالعہ کے بغیر کہہ دیتے ہیں کہ نہیں، ایسی بات نہیں۔ یاد رکھیں! ورفعنالک ذکرک کی تفسیر میں بیان کردہ حدیث مبارک؛ اذا ذکرت ذکرت معی کو قرونِ اولیٰ کے ائمہ تفسیر اور ائمہ حدیث نے اپنی کتب میں روایت کیا ہے اور اس کے معانی پر اعتماد کیا ہے۔ اس حدیث کو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت مجاہدؓ (تابعی)، حضرت قتادہؓ (تابعی)، حضرت ضحاکؓ، حضرت امام جعفر صادقؓ، حضرت ابو الہیشمؒ، ابن ابی حاتمؒ، امام عبدالرازقؒ (المصنف)، امام سعید بن منصورؒ، امام ابن المنذرؒ، امام بیہقیؒ (دلائل)، امام احمد ابن حنبلؒ، امام شافعیؒ، امام طبریؒ (جامع البیان)، حافظ ابن کثیرؒ (تفسیر القران)، علامہ ہیثمیؒ (مخارج البیان، مجمع الزوائد)، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (فتح الباری) اور دیگر ائمہ نے اپنی اپنی کتب میں اسے بیان کر کے اس پر دلائل دئیے ہیں اور بنیادی احکام وضع کئے ہیں۔ الغرض متقدمین سے متاخرین تک ائمہ کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے بلا تفریق مسلک و عقیدہ صحیح، حسن اور جید اسناد کے ساتھ اس امر کو بیان کیا ہے، اس سے احکام وضع کیے ہیں اور اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ حضور علیہ السلام کا ذکر اللہ کے ذکر کے ساتھ ملانا واجب ہے اور اللہ رب العزت اپنے نام کا ذکر رسول اکرم ﷺ کے نام کے ساتھ جوڑے بغیرقبول ہی نہیں کرتا۔
قرآن مجید میں مذکور وہ احکام، عقائد اور معاملات جہاں اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے اسماء اکٹھے موجود ہیں
میں نے اس حدیث مبارکہ؛ اذا ذکرت ذکرت معی پر قرآن مجید کے ایک طالب علم کے طور پر ایک منفرد کام کیا ہے۔ میں نے قرآن مجید کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے قرآن مجید سے احکامِ دین، عقائد اور اعمال کے ان پہلوؤں کو تلاش کرکے جمع کیا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر اور حضور علیہ السلام کے ذکر کو جمع کر دیا ہے۔ یہ قرآن مجید کا اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور خصوصی مطالعہ ہے۔ قرآن مجید کی یہ آیات اس امر کا اعلان ہیں کہ ان دونوں کو اب جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے غلط مؤقف رکھنے والے کیا اب ان آیات کو قرآن مجید سے نکال دیں گے؟
آیئے قرآن مجید کی ان آیات کریمہ اور موضوعات کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے احکام، معاملات اور دیگر امور میں اپنے ساتھ اپنے حبیبِ مکرم حضور نبی اکرم ﷺ کے نام کو جوڑا ہے:
1۔ ایمان:
اس موضوع پر ہم کچھ آیات کا مطالعہ اپنی اس سلسلہ وار تحریر کے گزشتہ حصوں میں کر چکے ہیں۔ جہاں اللہ رب العزت نے اپنے ذکر اور حضور علیہ السلام کے ذکر کو ایمان کے باب میں اکٹھا کیا ہے۔
2۔ اطاعت:
اس موضوع پر بھی ہم اپنی اس سلسلہ وار تحریر کے گزشتہ حصوں میں 38 آیات کا مطالعہ کرچکے ہیں کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ایک جگہ پر بھی تنہا اپنی اطاعت کا ذکر نہیں کیا بلکہ جہاں بھی اطاعت کی بات کی، وہاں حضور علیہ السلام کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ بیان کیا ہے یا تنہا صرف حضور علیہ السلام کی اطاعت کی بات کی ہے۔ 20 آیات کریمہ ایسی ہیں جہاں اللہ نے اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی اطاعت کو جوڑ دیا ہے اور 18 آیات ایسی ہیں جہاں فقط اطاعتِ رسول کا ذکر کیا ہے اور وہاں اللہ نے اپنی اطاعت کا ذکر نہیں کیا۔ اس لیے کہ اگر اطاعتِ رسول ہوگئی تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت از خود اُس میں شامل ہے۔
3۔ معصیت:
کوئی آدمی اگر رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی قرار دیا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر وعید کو اکٹھا بیان کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا.
(النساء، 4: 14)
’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی نافرمانی کرے اور اس کی حدود سے تجاوز کرے، اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا۔ ‘‘
قرآن مجید کے 38 مقامات میں سے اللہ تعالیٰ نے کسی ایک جگہ بھی تنہا صرف اپنی اطاعت کا ذکر نہیں کیا بلکہ ہر جگہ حضور علیہ السلام کی اطاعت کو ساتھ بیان فرمایا۔ ان 38 میں سے 18 آیات وہ ہیں جہاں صرف رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو بیان فرماکر اپنی اطاعت بھی رسول کی اطاعت ہی کو قرار دیا
4۔ کذب: تکذیب (جھٹلانا) کا ذکر آیا تو اللہ اور اس کے رسول کا اکٹھا بیان آیا ہے کہ دونوں کو جھٹلانے کی سزا اور عقوبت ایک ہوگی۔ ارشاد فرمایا:
وَ جَآءَ الْمُعَذِّرُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَ قَعَدَ الَّذِیْنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ.
(التوبۃ، 9: 90)
’’وہ لوگ جنہوں نے (اپنے دعویٰ ایمان میں) اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) سے جھوٹ بولا تھا (جہاد چھوڑ کر پیچھے) بیٹھے رہے۔ ‘‘
5۔ تحریم اور تحلیل:
تحریم (کسی شے کو حرام قرار دینا) اور تحلیل (کسی شے کو حلال قرار دینا) کی بات آئی تو اللہ اور رسول کا ذکر اکٹھا آیا ہے۔ لوگوں کو یہ بھی التباس رہتا ہے کہ حرام کرنے کا اختیار (معاذ اللہ) رسول کو نہیں ہے جبکہ قرآن ارشاد فرمارہا ہے:
وَ لَا یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ.
(التوبۃ، 9: 29)
’’اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) نے حرام قرار دیا ہے۔ ‘‘
سوال یہ ہے کہ جو اشیاء اللہ نے حرام قرار دیں وہ تو قرآن مجید سے معلوم ہوں گی مگر جو اشیاء رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیں، وہ کہاں سے معلوم ہوں گی؟ اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ ﷺ کی حرام کردہ چیزیں بھی وہی چیزیں ہیں جن کو قرآن نے حرام قرار دیا ہے تو یاد رکھ لیں کہ وہ تو اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ وہ تو اللہ کے ارشاد؛ مَا حَرَّمَ اَللهُ کے تحت آ گئیں مگر وَرَسُوْلُہٗ کے تحت جو چیزیں رسول ﷺ نے حرام کیں، ان حرام کردہ اشیاء کے حکم کا مصدر کیا ہے؟ اس کا بالکل واضح جواب یہ ہے کہ صاف ظاہر ہے اُس کا مصدر حدیثِ رسول ﷺ ہے، ہمیں سنتِ رسول ﷺ کے ذریعے ان کی حرمت کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں مذکور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے گدھا حرام قرار دیا۔ اسی طرح کی بے شمار چیزیں ہیں جنھیں رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا۔ (اس کے لیے گزشتہ مضامین کا مطالعہ کریں)
6۔ برأت:
یعنی بری ہونا، ذمہ داری کا اُٹھ جانا، اس کا ذکر آیا تو اللہ اور رسول کا ذکر اکٹھا کرتے ہوئے فرمایا:
بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِہٖٓ.
(التوبۃ، 9: 1)
’’اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی طرف سے بیزاری (و دست برداری) کا اعلان ہے۔ ‘‘
لا تعلقی اور برأت کا اعلان ان کفار و مشرکین سے کیا جاتا ہے جن سے اللہ اور رسول کی طرف سے پہلے وعدہ کیا گیا تھا۔ اللہ کسی کے ساتھ تعلق جوڑے تب بھی کہتا ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول نے یہ تعلق قائم کر دیا، کسی کو اپنی ذمہ داری میں لے لے، تب بھی کہا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی امان اور ذمہ میں آگئے اور اگر اُن کی وعدہ خلافی کی وجہ سے وہ ذمہ داری اٹھا لے اور ان سے لاتعلقی ور برأت کا اعلان کر دے، تب بھی قرآن اعلان کرتا ہے کہ ’’اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی طرف سے بیزاری و دست برداری کا اعلان ہے۔ ‘‘یعنی اللہ کسی ایک جگہ بھی اپنے محبوب کے بغیر نہ اپنا ذکر تنہا کرتا ہے اور نہ کبھی محبوب کے ذکر کو اپنے ذکر کے بغیر تنہا رہنے دیتا ہے۔ یہ قرآنی اسلوب ہمیں اس امر کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ہم کون سا قرآن اور کون سا دینِ اسلام لیے پھرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے نام کو اپنے نام سے جدا نہیں ہونے دیتا اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے بغیر اپنی اطاعت کو قبول کرتا ہے تو وہ کیسے سنت و حدیث کی حجیت کو قبول کیے بغیر صرف قرآن کو حجت ماننا قبول کرسکتا ہے
7۔ محاربت:
یعنی (جنگ) کا بیان آیا ہے تو اللہ اور رسول کا ذکر اکٹھا کیا ہے۔ فرمایا:
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ.
(المائدۃ، 5: 33)
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے۔ ‘‘
سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اللہ کے ساتھ مسلح ہو کر جنگ کرتا ہے؟ نہیں بلکہ جنگیں تو اللہ کے احکام کے نفاذ کی جدوجہد کرنے پر کفار آقا علیہ السلام سے کرتے رہے مگر اللہ رب العزت نے بہر صورت ہر جنگ کو جو دینِ اسلام کے خلاف ہوگی، اس کو اللہ اور رسول کے خلاف جنگ قرار دے دیا۔
8۔ رمی:
یعنی پھینکنے کا بیان آیا تو اللہ اور رسول کا ذکر اکٹھا کیا۔ ارشادفرمایا:
وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ
رَمٰی.
(الانفال، 8: 17)
’’اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ یہاں آقا علیہ السلام کے فعل کو اللہ اپنا فعل قرار دے کے اکٹھا بیان کر رہا ہے۔
9۔ استجابت:
حکم کی تعمیل میں کسی کے حکم کو حجت مانتے ہوئے لبیک کہہ کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا استجابت ہے۔ اس کے لیے فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ.
(الانفال، 8: 24)
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول ( ﷺ ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول ( ﷺ ، دونوں) کی طرف فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو۔ ‘‘
اس آیت میں بھی اللہ اور رسول کی طرف لبیک کہنے کے عمل کو ایک عمل قرار دیا ہے۔
10۔ حد:
حد کا ذکر کیا تو اللہ اور رسول دونوں کو اکٹھا بیان کیا۔ ارشاد فرمایا:
تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ.
(النساء، 4: 13)
’’یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی نافرمانی کرے۔ ‘‘
یعنی بات اللہ کی حدود کے توڑنے کی ہورہی ہے مگر اسے رسول کی نافرمانی بھی قرار دیا جارہا ہے۔
11۔ محبت:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ ِ۟اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ.
(التوبۃ، 9: 24)
’’ (اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں۔ ‘‘
12۔ دعوت:
وَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ.
(النور، 24: 48)
’’اور جب ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی طرف بلایا جاتا ہے۔ ‘‘ایک اور مقام پر فرمایا:
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ.
(النساء، 4: 61)
’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول ( ﷺ ) کی طرف آجاؤ۔ ‘‘
13۔ قضا:
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا.
(الاحزاب، 33: 36)
’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول ( ﷺ ) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں۔ ‘‘
14۔ ہجرت:
مُهَاجِرًا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ.
(النساء، 4: 100)
’’اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے۔ ‘‘
15۔ ولایہ:
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ.
(المائدۃ، 5: 55)
’’بے شک تمہارا (حقیقی مددگار اور) دوست تواللہ اور اس کا رسول ( ﷺ ) ہی ہے۔ ‘‘
16۔ اذان:
وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ.
(التوبۃ، 9: 3)
’’ (یہ بلاوا) اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی جانب سے۔ ‘‘
17۔ غنائم:
یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ.
(الانفال، 8: 1)
’’ (اے نبیٔ مکرّم!) آپ سے اَموالِ غنیمت کی نسبت سوال کرتے ہیں۔ فرما دیجیے: اموالِ غنیمت کے مالک اللہ اور رسول ( ﷺ ) ہیں۔ ‘‘
18۔ مشاقۃ:
ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ۚ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.
(الانفال، 8: 13)
’’یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی مخالفت کی اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ )کی مخالفت کرے تو بے شک اللہ (اسے) سخت عذاب دینے والا ہے۔ ‘‘
19۔ محادّۃ:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ.
(المجادلۃ، 58: 5)
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) سے عداوت رکھتے ہیں۔ ‘‘ایک اور مقام پر فرمایا:
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ.
(التوبۃ، 9: 63)
’’کیا وہ نہیں جانتے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی مخالفت کرتا ہے۔ ‘‘
20۔ رضا:
وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ.
(التوبۃ، 9: 62)
’’حالاںکہ اللہ اور اس کا رسول ( ﷺ ) زیادہ حقدار ہے کہ وہ اسے راضی کریں۔ ‘‘
21۔ غنا:
وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ.
(التوبۃ، 9: 74)
’’اور کسی چیز کو ناپسند نہ کر سکے سوائے اس کے کہ انہیں اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) نے اپنے فضل سے غنی کر دیا تھا۔ ‘‘
22۔ فضل:
وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَ رَسُوْلُهٗۤ.
(التوبۃ، 9: 59)
’’اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( ﷺ مزید) عطا فرمائے گا۔ ‘‘
آپ ﷺ کی نبوت ور سالت کا فیض، آپ ﷺ کے انوار، توجہات اور روح مبارکہ کے فیوضات ہر اہلِ ایمان کے گھر موجود ہوتے ہیں، اس لیے شرق تا غرب جہاں بھی ہوں، حضور علیہ السلام پر سلام کا نذرانہ بھیجیں
23۔ انعام:
اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ.
(الاحزاب، 33: 37)
’’جس پر اللہ نے انعام فرمایا تھا اور اس پر آپ نے (بھی) اِنعام فرمایا تھا۔ ‘‘
24۔ ادب:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ.
(الحجرات، 49: 1)
’’اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) سے آگے نہ بڑھا کرو۔ ‘‘
25۔ اذیت:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا.
(الاحزاب، 33: 57)
’’ بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لیے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
26۔ عزت:
وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ.
(المنافقون، 63: 8)
’’حالاںکہ عزّت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول ( ﷺ ) کے لیے۔ ‘‘
27۔ رجوع:
کسی مسئلہ پر باہمی اختلاف پر رجوع کی بات آئی تو اللہ اور رسول کا اکٹھا ذکر کیا۔ ارشاد فرمایا:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ.
(النساء، 4: 59)
’’پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اور رسول ( ﷺ ) کی طرف لوٹا دو۔ ‘‘
28۔ رازدار:
جب محرمِ راز بنانے کی بات آئی تو اللہ اور اس کے رسول کا ذکر اکٹھا بیان کیا۔ ارشاد فرمایا:
وَ لَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لَا رَسُوْلِهٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةً.
(التوبۃ، 9: 16)
’’اور (جنہوں نے) اللہ کے سوا اور اس کے رسول ( ﷺ ) کے سوا اور اہلِ ایمان کے سوا (کسی کو) محرمِ راز نہیں بنایا۔ ‘‘
29۔ عطا:
وَ لَوْ اَنَّهُمْ رَضُوْا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ.
(التوبۃ، 9: 59)
’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) نے عطا فرمایا تھا۔ ‘‘
30۔ بیعت:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ.
(الفتح، 48: 10)
’’ (اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔ ‘‘
مذکورہ موضوعات کے علاوہ درج ذیل موضوعات پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا اور اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کا ذکر اکٹھا بیان فرمایا کہ اس حوالے سے بھی میرے حبیب ﷺ کا فرمان، عمل یا نافرمانی پر سزا دینے کا فعل یا حضور علیہ السلام کی نافرمانی، یہ آپ ﷺ ہی کا فرمان یا فعل یا نافرمانی نہیں ہوگی بلکہ میرا بھی اس معاملہ میں یہی حکم ہے:
1۔ تصدیق 2۔ انکار 3۔ انحراف
4۔ حکم 5۔ رجوع 6۔ انقیاد
7۔ بیع 8۔ عہد 9۔ جہاد
10۔ نطق (بولنا) 11۔ بلانا 12۔ اذن (اجازت)
13۔ امانت 14۔ خیانت 15۔ اہانت
16۔ استہزاء 17۔ رفاقت 18۔ اجازت
19۔ نصیحت 20۔ معذرت 21۔ علم
22۔ رؤیت 23۔ صلٰوۃ 24۔ قربت
25۔ معیت 26۔ ہدایہ 27۔ تسلیم
28۔ ارادہ 29۔ اختیار 30۔ ارتعاب
31۔ رحمت 32۔ لعن 33۔ تقدیم
34۔ تعذیر 35۔ توقیر واحترام 36۔ نصرت
37۔ ابلاغ 38۔ الرسالۃ 39۔ امر و نہی
40۔ احکام 41۔ وعدہ و وعید 42۔ اخبار و بیان
اللہ تعالیٰ نے ایمان، اطاعت، معصیت، محبت، فضل، انعام، عطا، رضا، غنا، قضا، ولایت، مخالفت، عداوت، استجابت، تسلیم، تعذیر، احکام، اہانت، استہزا، رفاقت، امانت، خیانت اور اس طرح کے متعدد موضوعات کے ذیل میں اپنے اور اپنے رسول کے ذکر کو اکٹھا بیان فرمایا
متعلقہ بحث کے تناظر میں قرآن مجید کے الحمد سے والناس تک یہ میرے مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ ان موضوعات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اب دینِ اسلام کی تعلیمات میں کوئی بھی شعبہ، شق اور آرٹیکل باقی نہیں رہ جاتا جس میں اللہ نے رسول اکرم ﷺ کو اپنے ساتھ نہیں جوڑا۔ احکامِ دین و دنیا، عقائد، اعمال، اعتقادات، معاشرت، سیاست، جنگ، امن، کلچر، روحانیت، مالیات، حدود کے معاملات الغرض دین، شریعت، احکام اور نظام کے جملہ معاملات جو ہماری انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی تک آتے ہیں۔
مذکورہ عنوانات میں تمام احکام سمو جاتے ہیں۔ ان سارے احکام کے ذکر میں اللہ نے اپنے اور اپنے حبیب ﷺ کے ذکر کو جوڑ دیا ہے۔ اللہ رب العزت نے ان تمام میں حضور علیہ السلام کے ذکر اور اپنے ذکر کا اکٹھا ہونا ناگزیر قرار دیا ہے اور اسے مومن و مسلم ہونے کی شرط قرار دیا ہے۔ لہٰذا اب یہ کہنا کہ قرآن مجید کو حجت مانتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی حجیت و اتھارٹی کو نہیں مانتے تو یہ طرزِ عمل و فکر مکمل قرآن مجید کی نفی کر دینے اور اسے رد کر دینے کے مترادف ہے اور ایسا عقیدہ رکھ کر انسان مسلمان نہیں رہ سکتا اور اس کا کوئی تعلق قرآن مجید کے ساتھ باقی نہیں بچتا۔
(جاری ہے)