ربیع الاوّل اور نسبتِ محمدی ﷺ حقیقی محبت سے حقیقی متابعت تک کا سفر

ڈاکٹر زہیر صدیقی

جب کائنات کے افق پر اندھیروں نے بسیرا کر رکھا تھا اور انسانیت جہالت، ظلمت وضلالت اور تنگ نظری کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی،اللہ رب العزت نے انسانیت پر رحم فرماتے ہوئے اسے ایک ایسا لمحہ بھی عطا فرمایا جس نے انسانیت کو سنوار دیا اور انسان کو اس کی اصل پہچان عطا کی۔ یہی وہ ساعتِ مسعود ہے جو ماہِ ربیع الاول میں طلوع ہوئی، جب سید المرسلین، رحمت للعالمین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی اور آپ ﷺ اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔

ولادتِ محمدی، انسانیت پر اللہ رب العزت کا ایک بڑا احسان تھا، اسی لیے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ایک جگہ فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ.

(آل عمران،3: 164)

بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے عظمت والا رسول ( ﷺ ) بھیجا‘‘۔

لہذا دقت وگہرائی سے کیا گیا مطالعہ ہمیں اس نتیجہ پر لے جائے گا کہ ربیع الاول اسلامی تقویم کا صرف ایک مہینہ ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے بہت بڑھ کرشعور، نسبت، محبت، اطاعت اور روحانی بیداری کا موسم ہے۔ یہ مہینہ امتِ مسلمہ کے لیے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ اپنے تعلق کو ازسرِنو استوار کرنے، رسول مکرم ﷺ کی زندگی کی ہر جہت کو اپنی عملی زندگی میں داخل کرنے کا ایک نایاب موقع فراہم کرتا ہے۔ زیرِ نظر تحریر میں ہم اس تصور کو واضح کریں گے کہ کس طرح سے یہ مہینہ اہلِ اسلام کے جملہ طبقات کے لیے نسبتِ محمدی کو حقیقی معنی میں مضبوط کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے:

ربیع الاوّل: وحدت واتحاد کا موسم

قارئین کرام! جیسے ہی ماہ ربیع الاول آتا ہے، لوگ اپنی توجہات نسبتِ محمدی کی جملہ صورتوں کو مضبوط ومستحکم بنانے پر مرکوز کرنے کے بجائے میلاد پر فرحت و انبساط کے اظہار کی مروجہ صورتوں کے جواز وعدم جواز کی بحث میں الجھ جاتے ہیں اور پھر یہ معاملہ یہاں پر رکتا نہیں بلکہ لوگ بالعموم دو گروہوں میں بٹ کر اس معاملہ میں افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یوں اکثرو بیشتر یہ مبارک مہینہ جواز وعدم جواز کی اسی ذہنی کشمکش میں گزر جاتا ہے جہاں دونوں اطراف اعتدال و توازن سے خالی نظر آتے ہیں۔بظاہر مقابلہ کی اس فضا میں ہر ایک فریق دوسرے کو گمراہ و گستاخ اور خود کو محب وعاشق ثابت کرنے میں سرگرداں رہتا ہے۔ نتیجتاً معاشرے میں بسنے والے افراد محض ایک فرعی مسئلہ پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہو رہے ہیں۔ کوئی محبتِ رسول ﷺ کا نعرہ بلند کر کے تو کوئی اطاعتِ رسول ﷺ کا علم تھامے ایک دوسرے کی نیتوں اور خلوص پر شک کرتا نظر آتا ہے۔وہ ماہِ نور جسے امت کی وحدت و محبت کا عنوان بننا تھا، وہ اختلاف و افتراق کی علامت بنتا جا رہا ہے۔

تاہم یہاں ہمارا مقصود نہ تو میلادِ نبوی ﷺ کے جواز پر دلائل کا انبار لگانا ہے اور نہ ہی عدمِ جواز کی آرا نقل کرنا۔ ہمارا اصل مدعا اس اعتقادی اور فقہی نزاع کے گرد کوئی نیا دائرہ کھینچنا نہیں، بلکہ ایک ایسی فکری جہت کی طرف متوجہ کرنا ہے جو امتِ مسلمہ کو متفق علیہ، مسلّمہ اصولوں کے محور پر مجتمع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ امت کے ہر طبقے میں موجود اہلِ علم، جو فہم و فراست، تدبر و توازن اور دینی درد سے آراستہ ہیں، خواہ وہ محبتِ رسول ﷺ کے جذبے سے سرشار ہوں یا اطاعتِ رسول ﷺ کے داعی، انہیں چاہیے کہ وہ امت کو ان غیر ضروری فرعی موشگافیوں میں الجھانے کی بجائے، اپنے اپنے دائرۂ اثر میں اس مبارک مہینے اور رسولِ رحمت ﷺ کی ذاتِ اقدس سے متعلق وہ مسلّمہ اعتقادی حقائق اجاگر کرنا شروع کر دیں جو امت کو جوڑنے والے ہیں، توڑنے والے نہیں؛ جو ایمان کو تقویت دینے والے ہیں، افتراق کو ہوا دینے والے نہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اس ماہِ مبارک کو، جس کی عمر صدیوں پر محیط ہے، بحث و مباحثہ کا میدان نہ بنائیں بلکہ اہلِ علم، صاحبانِ عقل وخردمل بیٹھیں اور اس ماہ مبارک کو فکر، کردار اور تزکیہ کا موسم بنانے میں اپنی توانائیاں صرف کریں۔ ایسی روش اپنائی جائے جو عشق و اطاعت کو باہم پیوست کر کے امت کو وحدت کی لڑی میں پرو دے۔

امت کو وحدت کے دھارے میں سمونے کے لیے ہمیں ان مسلّمہ و متفقہ اعتقادی اصولوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے، جو کسی فقہی تعبیر یا گروہی وابستگی کے محتاج نہیں، بلکہ ایمانِ کامل اور عقلِ سلیم دونوں کی یکساں آواز ہیں۔ اس بات کا انکار کون کر سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا اس کائنات میں مبعوث فرمایا جانا، عام فرد کی ولادت کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ اللہ رب العزت کا احسانِ عظیم ہے جس کا اظہار ’’لَقَدْ مَنَّ اللہ‘‘ کے الفاظ سے ہو رہا ہے۔۔۔؟مستزاد یہ کہ کیا یہ انکار ممکن ہے کہ نبی مکرم ﷺ کی ولادت، نہ صرف یہ کہ احسان ہے، بلکہ ایک ایسی نعمتِ عظمیٰ ہے جس کے توسط سے باقی تمام نعمتیں،بالخصوص توحید کی دولت اور قرآن مجید کی نعمت میسر آئی۔۔۔؟اس بات کا انکار کیوں کر ممکن ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی ولادت سب سے بڑھ کر باعثِ مسرت وفرحت ہے اور خود نفسِ فرحت کا حکم اللہ رب العزت قرآن مجید میں؛ ’’فَبِذَلِكَ فَالْيَفْرَحُوْا ‘‘ (یونس، 10: 58) کے الفاظ سے فرما رہا ہے۔۔۔؟

اگر ہم اپنی فکر کا مرکز میلاد کی غرض وغایت بعثتِ محمدی کے اہداف کی ترویج بنا لیں تو یقیناً اس کے مثبت اثرات معاشرے میں برکتیں بکھیریں گے اور ہم نسبتِ محمدی میں محض رسمی محبت واطاعت سے بڑھ کر حقیقی محبت ومتابعت کا سفر شروع کر سکیں گے

بعثتِ نبوی ﷺ بلاشبہ فخرِ انسانیت ہے، مگر بعثت سے قبل ولادت کا مرحلہ ہے، جس کا ذکر قرآن وحدیث میں بیشتر مقامات میں واضح ہے۔ تو کیا یہ مناسب ہے کہ ہم بعثت کا تذکرہ تو فخر سے کریں مگر میلاد کا ذکر کرنا باعثِ نزاع بنا دیں؟ جبکہ اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ حضور ﷺ سے ظاہر ہونے والے معجزات حِسّی بھی ہیں، اور معنوی بھی۔پھر حِسّی معجزات میں سے ولادت مبارکہ کے وقت، قبل از ولادت وبعد از ولادت ظاہر ہونے والے معجزات بھی ہیں، جن کے ذکر سے سیرتِ نبوی کی اکثر و بیشتر کتابیں، خواہ قدیم ہوں یا جدید،بھری ہوئی ہیں۔

قارئین محترم! پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ محبت اور اتباعِ رسول ہر شخص کے ہاں اصل ایمانی تقاضا ہے، تو پھر علمی دیانت اور دین سے وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم فرحت کی مروجہ صورت کے جواز وعدم جواز کی بحث میں الجھنے کی بجائے، اعتدال پر رہتے ہوئے، ماہِ ربیع الاول میں حضور نبی اکرم ﷺ کے حوالے سے مسلّمہ معتقدات کی ترویج میں محنت کریں۔ ہر خاص وعام پر واضح کریں کہ یہ وہ مبارک ماہ ہے جس میں خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی ولادتِ با سعادت کا عظیم الشان واقعہ رونما ہوا، جس کا کسی کو انکار نہیں۔۔۔ غیر جانبدار رہتے ہوئے یہ واضح کیا جائے کہ یہ وہ مہینہ ہے جو امت کو اس مقام کی یاد دلاتا ہے جہاں سے اس کی روحانی، فکری اور تہذیبی شناخت کا آغاز ہوتا ہے۔ ہمیں امیدِ قوی ہے کہ اگر یہ طرزِ فکر اپنایا جائے، تو اس کی برکت سے نہ صرف امت کا افتراق ختم ہو گا، بلکہ معاشرے میں توازن، ہم آہنگی، اور خیر کی فضا عام ہو گی۔

تاریخ گواہ ہے کہ ربیع الاول کی ساعتیں ہمیشہ امت کے لیے تازہ ولولوں اور زندہ امیدوں کی علامت رہی ہیں۔ اسی مہینے میں مکہ سے ہجرت کے بعد مدینہ میں سیرتِ طیبہ کا اجتماعی نقش قائم ہوا۔۔۔ اسی مہینے میں معاشرتی نظام کی بنیادیں پڑیں۔۔۔ اور اسی میں دنیا نے پہلی مرتبہ عملی توحید، عدلِ کامل اور اخلاقِ مصطفوی کی جھلک دیکھی۔ اگر ہم اپنی فکر کا مرکز میلاد کی غرض وغایت بعثتِ محمدی کے اہداف کی ترویج بنا لیں تو یقینا اس کے مثبت اثرات معاشرے میں برکتیں بکھیریں گے اور ہم نسبتِ محمدی میں محض رسمی محبت واطاعت سے بڑھ کر حقیقی محبت ومتابعت کا سفر شروع کر سکیں گے۔

محبتِ رسول ﷺ : ایمان کی بنیاد اور روح

حضور سرور دوعالم ﷺ سے محبت فقط ایک فطری یا جذباتی جذبہ ہی نہیں، بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ عینِ ایمان ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں امت کے اپنے نبی سے اس تعلق کو ان الفاظ کے ساتھ اظہار فرمایا:

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ.

(احزاب، 33: 6)

یعنی یہ نبی مکرم ﷺ مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔

لہذا وہی ایمان ثمربار ہے، جہاں نبی کو روایتی پیامبر کی حیثیت میں نہ رکھا جائے، بلکہ الوہی احکامات کا نمائندہ ہونے اور خلق وخالق کے درمیان واسطۂ عظمی ہونے کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ مزید یہ کہ کامل مومن کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ نبی کا مقام ومرتبہ اور نبی سے نسبت وتعلق میں اس درجہ مضبوط ہو کہ اپنی جان پر نبی کی ذات کو فوقیت دے۔ اسی طرح کے مفہوم کی صراحت احادیث مبارکہ میں جا بجا کی گئی ہے۔ حضور سرور دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ، وَوَلَدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ.

(صحیح بخاری، کتاب: ایمان، باب: حب الرسول من الایمان، 1: 14، رقم: 15)

تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگرچہ یہ محبت جزوِ ایمان ہے، مگر یہ صرف زبان کی لذت یا آنکھ کے آنسو نہیں، بلکہ ایک شعوری نسبت ہے جو انسانی حیات کے ہر پہلو پر گہرے اثرات مرتب کرنا چاہتی ہے۔ وہ محبت جو اطاعت میں ڈھل جائے، وہ عشق جو متابعت کا رنگ لے لے اور وہ عقیدت جو کردار میں ظاہر ہو، وہی سچا عشق اور سچی نسبتِ رسول ﷺ ہے۔

استقبالِ ربیع الاوّل: روایتی جوش یا شعوری اطاعت؟

ہر سال جب ربیع الاوّل کے مبارک مہینے کی آمد ہوتی ہے تو امت کا مزاج ایک مخصوص انداز میں بیدار ہو جاتا ہے۔ شہر کی گلیاں جگمگا اُٹھتی ہیں، نعتیہ مشاعرے، محافلِ میلاد، جلوس اور چراغاں کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ سب من جہت اپنے دائرے میں محبت کی علامت ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے صرف جشن منانا ہے یا اس مہینے کو اپنے دل و دماغ کی تطہیر کا وسیلہ بھی بنانا ہے؟ نبی اکرم ﷺ کی آمد انسانیت کی بیداری تھی مگر ہم نے اس بیداری کو مخصوص تقریبات، رسمی تقریروں اور جز وقتی نعروں تک محدود کر دیا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ جب ہم پیارے نبی ﷺ سے عقیدت کے اظہار کے لیے اتنا اہتمام کرتے ہیں تو کیا ان کی اتباع اور متابعت کو بھی اسی درجے میں اپنی زندگی کا حصہ بنا سکے ہیں؟حضرت عبد اللہ بن مغفلg فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ. فَقَالَ لَهُ: انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ؟ قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ تُحِبُّنِي فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا، فَإِنَّ الفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَى مَنْ يُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلَى مُنْتَهَاهُ.

(سنن الترمذي، 4: 576، رقم: 2350)

اے اللہ کے رسول، خدا کی قسم مجھے آپ سے محبت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا، دیکھو، کیا کہ رہے ہو؟ قارئین کرام! ان صحابی کی اللہ کے رسول سے محبت اور اس میں وارفتگی کا اندازہ لگائیں، انہوں نے تین بار اللہ کے رسول کے سامنے ان ہی الفاظ وانداز میں اپنی محبت کا اظہار فرمایا۔ اب کی بار اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم مجھ سے حقیقتا محبت کا تعلق رکھتے ہو تو اپنے آپ کو فقر وفاقہ کے لیے تیار کر لو، کیوں کہ مجھ سے محبت کرنے والوں کی طرف فقر اس سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے جتنی تیزی سے سیلاب اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔

گویا آقائے نامدار ﷺ نے سمجھا دیا کہ میری محبت اگرچہ اصلاً دل کے خلوص پر مبنی جذبات واحساسات سے شروع ہو گی، مگر اس کی برکات انسان کو ایسے گھیر لیں گی کہ اس کی فکر ونظر میں اب دنیا وما فیہا کی کسی درجہ کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی بلکہ اللہ کے رسول کی محبت میں گرفتار شخص سے ہر فانی شے دور ہوتی جائے گی۔ محبت رسول کی لذت اس سے دنیا اور اس کا مال ومتاع کا حرص مٹا کر رکھ دے گی۔ اب وہ مالدار ہو کر بھی اپنی ذات کے لیے فقر پسند کرے گا، اور مال جس مُنعِم برحق نے عطا فرمایا، اسی کی راہ میں انفاق کرنا پسند کرے گا۔

محترم قارئین! دیکھیے تو ذرا! اسلام جس محبت کی بات کرتا ہے، وہ محض افسانوی،رومانوی اور حسین تصورات پر مبنی نہیں بلکہ وہ محبت ایک ایسا شعوری احساس پیدا کر دیتی ہے جہاں انسان محض وقتی جذباتی تعلق میں نہیں رہتا، بلکہ اپنے اخلاق وکردار تک کو بدل دیتا ہے۔ یہ محبت انسان کو انفرادیت سے نکال کر اجتماعیت کے دھارے میں باندھ دیتی ہے۔ ہمیں کچھ لمحے رک کر ضرور اس بات پر غور کرنا ہے کہ ہم جب محبت رسول ﷺ کا دم بھرتے ہیں، تو کیا واقعی اس محبت کے لازمی تقاضے کے طور پر ہم سب اپنی زندگیوں میں ایسی فکری، اخلاقی، روحانی اور انقلابی تبدیلیوں کو جگہ دے سکے ہیں؟

ہم سمجھتے ہیں ربیع الاول کا اصل استقبال وہ ہے جہاں دل کی دنیا بدل جائے، اخلاق کے قرینے سدھر جائیں، عبادات میں خضوع پیدا ہو، زبان میں سچائی وصداقت، تجارت میں امانت ودیانت، باہمی تعلقات میں وفا اور خلوص اور دل میں اللہ و رسول ﷺ کی یاد کا بسیرا ہو۔

نسبتِ محمدی کا اصل معیار: متابعت مصطفی ﷺ

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ.

(آل عمران، 3: 31)

کہہ دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تمہیں محبوب رکھے گا۔

یہ آیت عشق کو اطاعت کے ترازو میں تولتی ہے۔ جو محبت، متابعت سے خالی ہو، وہ محبت بظاہر ایک دعوی ہے، جس کی برکات کما حقہ ظاہر نہیں ہو سکیں گی۔ نبی معظم ﷺ کی متابعت کا مطلب ہے کہ انسان اپنی انفرادی، عائلی، معاشرتی، قومی اور بین الاقوامی، الغرض زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی حضور اکرم ﷺ کی ذات سے لے۔ چاہے وہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ہو، یا بچوں کی تربیت، چاہے معیشت کی دیانت ہو یا عدلِ اجتماعی، چاہے غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ ہو یا دشمنوں کے ساتھ صلح، مضبوط و مستحکم نسبتِ محمدی انسان کو ایک ہمہ جہتی نظامِ حیات سے مربوط کر دیتی ہے، جس میں انسان کے خیال وتصورات سے لے کر مزاج وطبیعت کے جملہ پہلو وحی الہی کے تابع ہو جاتے ہیں۔اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ.

(الاحزاب، 33: 21)

تمہارے لیے رسول ﷺ کی ذات میں نہایت ہی حسین نمونہ حیات ہےہر شخص کے لیے جو اللہ تعالی سے ملنے کی اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہےاور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔

مستزاد یہ کہ رسول بھیجے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالی نے اس بعثت کے بنیادی تصور کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ.

(النساء، 4: 64)

اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔

ایک اور مقام پر اطاعتِ نبی کو ایمان کی لازمی شرط کے طور پر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.

(الانفال، 8: 1)

اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو۔

گویا متابعتِ رسول کو ایمان کا لازمی جزو قرار دے دیا۔لہٰذا محبتِ رسول ﷺ کا عملی تقاضا ہے کہ ہم جملہ عبادات میں خشوع پیدا کریں۔۔۔جملہ معاملات میں دیانت اپنائیں۔۔۔ زبان کو غیبت، بہتان، اور طعن سے پاک کریں۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر دل کو انسانوں کے لیے نرم، معاف کرنے والا اور مخلص بنائیں۔ حضرت ابو ہریرہgفرماتے ہیں کہ ایک روز اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ يَأْبَى؟ قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى.

(صحیح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بالسنن رسول اللہ، 6: 2655، رقم: 6851)

میری امت کے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے مگر جو انکارکرے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! وہ کون ہے جو انکار کرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی، پس اس نے انکار کیا۔

گویا کہاں ایک طرف اطاعت سے دوری، جنت سے دوری قرار دی جا رہی ہے اور کہاں ہم نیکی، تقوی پرہیزگاری، اخلاص کے بغیر بیڑے پار کروا رہے ہیں۔ ہمیں اگر نسبتِ محمدی میں مضبوطی لانی ہے تو نہایت سنجیدہ ہو کر جہالت پر مبنی جملہ تصورات کو اپنی زندگیوں سے خارج کرنا ہو گا۔

ماہِ نور : ایک نئی بہار، ایک تازہ عہد

ربیع الاول صرف ایک یادگاری موقع نہیں، بلکہ یہ ایک دعوتِ تجدیدِ عہد ہے، ایک بار پھر دل کو عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے بھر لینے، زبان کو درود سے معطر کرنے اور زندگی کو اسوۂ محمدی ﷺ کے رنگ میں رنگ لینے کی دعوت۔ آج ہمیں ضرورت ہے اس شعوری انقلاب کی جو مدینہ میں برپا ہوا تھا۔ ربیع الاول کو محض دعووں کی محبت پر نہ گزاریں، اسے امت کی اصلاح، نوجوانوں کی بیداری اور سیرت کی عملی ترویج کا نقطہ ٔ آغاز بنائیں۔

وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ربیع الاول کو اختلافات کے ہجوم سے نکال کر وحدت کے آفاق تک لے آئیں۔ میلاد پر خوشیاں منانے کے اصول پر قائم رہیں مگر ان خوشیوں کو منانے کی مروجہ صورتوں پر فتوے لگانے اور باہم الجھنے کے بجائے، اس ماہِ مبارک کو اس کی اصل معنویت کے ساتھ زندہ کریں۔ یعنی اُس پیغامِ نبوت کی تجدید کریں، جو انسانیت کے لیے ہدایت، تہذیب، انصاف اور روشنی کی آخری شعاع ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جو امت کو یاد دلاتا ہے کہ اس کا سرچشمہ کہاں ہے، اس کی اصل کیا ہے اور اس کی منزل کیسی ہونی چاہیے۔۔۔؟ اگر ہم اس مہینہ میں فکری و روحانی احتساب، اخلاقی تطہیر اور حضور اقدس ﷺ کی سیرت کے ہمہ گیر پیغام کی روشنی کے مطابق عمل کریں تو یہی ربیع الاول ہمارے لیے ایک تازہ ربیع، ایک نئی بہار بن سکتا ہے۔

آئیے! ہم سب مل کر ایک ایسے فکری میلاد کی بنیاد رکھیں، جو نہ صرف جشنِ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ ہو، بلکہ جشنِ حیاتِ مصطفیٰ ﷺ بھی ہو۔۔۔ جو محض جذبات کی حد تک نہ رکے، بلکہ شعور، کردار اور دعوت کی سطح پر جلوہ گر ہو۔۔۔ جس میں سیرتِ رسول ﷺ صرف بیان نہ ہو، بلکہ معاشرے میں نافذ ہو۔۔۔ ایسا میلاد، جو رسم کے بجائے نسبت کا مظہر ہو۔۔۔ جشن کے ساتھ جدوجہد کا آغاز ہو۔۔۔ جو امت کو مستقبل کی تعمیر پر آمادہ کرے۔ اس بات کو ذہن نشیں رکھتے ہوئے کہ جیسے حقیقی محبت؛متابعت کے بغیر کچھ نہیں، ایسے ہی حقیقی متابعت؛ محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ہم نے یہ زاویۂ نگاہ بنا لیا تو حقیقت میں ربیع الاوّل کا یہ مہینہ ہمارے باطن میں نئی روح اور ہمارے ماحول میں نئی زندگی پھونک دے گا۔