عقیدت و محبتِ رسول ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزِ فکرو عمل

ڈاکٹر حافظ محمد سعد اللہ

اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے آخری رسول اور محبوب سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کی سراپا محاسن و کمالات ذات سے دنیا و مافیہا حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ اور والہانہ عقیدت و محبت رکھنے کا مسئلہ اہلِ ایمان میں کبھی مختلف فیہ نہیں رہا۔ نبی کریم ﷺ کی ذات والا شان سے محبت ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن میں پیوست اور رچی بسی ہے اور عقلی و نقلی اعتبار سے حبِّ رسول ﷺ کے وجوب پر امتِ مسلمہ کے تمام قابلِ ذکر مکاتب فکر اور علماء و مشائخ متفق ہیں۔ مگر اس کے باوجود وطن عزیز میں بدقسمتی سے حبِّ رسول ﷺ کے اظہار کامعاملہ کچھ عرصہ سے نہ صرف ’’افراط و تفریط‘‘ کا شکار ہوکر رہ گیا ہے بلکہ اس میں ’’انتہا پسندی‘‘ کا عنصر بھی داخل ہونے لگا ہے۔

چنانچہ کچھ لوگوں کے نزدیک حبِّ رسول ﷺ صرف اطاعت و اتباع رسول ﷺ تک محدود نظر آتی ہے۔ چھوٹے بڑے تمام معاملاتِ زندگی میں اتباع کے علاوہ کسی دوسرے انداز و رنگ میں حضور ﷺ کے ساتھ عقیدت و محبت کے قلبی جذبات کا اظہار (چاہے وہ شرعی و فقہی لحاظ سے مباح ہی کیون نہ ہو) ان کے ہاں خلافِ شریعت بلکہ شرک و بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔

جبکہ دوسری طرف عوام الناس کی اکثریت اور بعض کاروباری حضرات حبِّ رسول ﷺ کا شرعی تقاضا پورا کرنے کے لیے صرف رسمی، موسمی اور نمائشی قسم کی محفلوں جلسوں اور جلوسوں کے انعقاد اور مساجد و بازاروں کی تزئین و آرائش پر اکتفا کیے بیٹھے اور اپنے معاملاتِ زندگی، طرزِ معاشرت اور بودوباش میں شریعت و سنت کی اتباع اور اسوۂ رسول ﷺ کی پیروی کو پسِ پشت ڈالے نظر آتے ہیں۔ وہ حبِّ رسول ﷺ کے زعم میں نماز جیسے بنیادی رکنِ اسلام کی پابندی اور باجماعت نماز کے اہتمام کو بھی ضروری نہیں سمجھتے۔

حبِّ رسول ﷺ کے مظاہرہ کے حوالہ سے محبتِ رسول ﷺ سے سرشار مگر ضروریاتِ دین سے بھی ناواقف سادہ لوح عوام کی اس طرح کی سوچ و مزاج اور اتباع شریعت و اطاعتِ رسول ﷺ کے معاملے میں انہیں بے خوف و نڈر بلکہ بے عمل بنانے میں بہت بڑا ہاتھ ان پیشہ ور، قصہ گو اور واہ واہ کے دلدادہ واعظوں اور خطیبوں کا بھی ہے جو علمِ دین کے اصل سرچشموں تک رسائی کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں نہ مطالعہ و تحقیق سے دلچسپی۔ اسی طرح کسی واقعہ و کرامت کی صحت سے انہیں کوئی سروکار ہے اور نہ موضوع روایات کے بیان کرنے پر وعیداتِ نبوی ﷺ کی پرواہ۔ خوفِ خد ا سے عاری، وعظ و نصیحت کے شرعی آداب سے ناواقف اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا سے زیادہ منتظمین جلسہ و مسجد کی خوشنودی کے طالب یہ واعظین اس درجہ بے عملی اور قبرو آخرت کے حساب کتاب سے لاپروائی اور غفلت کے زمانے میں بھی عموماً سامعین کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ شریعت کی پابندی اگرچہ نہ بھی ہو تب بھی محبتِ مصطفی ﷺ سے کام چل جائے گا۔

بے عملی کی رہی سہی کسر ان گلوکار ٹائپ نعت خوانوں اور قرآن و حدیث سے نابلد اور فنِ خطابت کے جوہر دکھانے اور لفاظی و داد کے خواہاں ’’نقیبانِ محفل‘‘ نے نکال دی ہے جو فقط محفل میلاد و نعت کے انعقاد پر ’’جنت کا ٹکٹ‘‘ جیب میں لیے پھرتے ہیں۔

درج بالا قسم کے غیر محتاط اور غیر محقق نام نہاد علماء اور نقیبانِ محفل کے مسندِ و عظ و خطابت اور منبر رسول ﷺ پر براجمان بلکہ قابض ہوجانے سے عامۃ المسلمین کو جو علمی، فکری اور دینی نقصان پہنچ رہا ہے، وہ ایک المیہ اور لمحۂ فکریہ ہے۔

حبِّ رسول ﷺ کے اظہار کے حوالے سے ’’افراط و تفریط‘‘ پر مبنی درج بالا صورت حال کے پیشِ نظر ضروری خیال کیا گیا کہ حبِّ رسول ﷺ کے معاملے میں کیوں نہ ان خوش نصیب حضرات کا طرزِ عمل سامنے لایا جائے جن کے مثالی و معیاری ایمان و عمل، خلوص و للہیت، زہد و تقویٰ، اسلام کے لیے ایثار و قربانی اور پیغمبرِ اسلام کے لیے حد درجہ جاں نثاری اور بے مثال عقیدت و محبت پر خود اللہ کی عالم الغیب والشہادہ اور علیم بذاتِ الصدور ذات مہرِ تصدیق ثبت کرچکی ہے اور جن کی راہ ہی ہدایت کی راہ ہے۔ یقیناً اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ و مجتہد صحابی نے اپنے اہلِ زمانہ (تابعین) کو تلقین فرمائی تھی:

’’جو آدمی (کسی معاملے میں) کسی کی سنت و طریقہ کی پیروی کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان لوگوں کے طریقہ پر چلے جو فوت ہوچکے ہیں۔ کیونکہ زندہ آدمی (عام طور پر) دین میں فتنہ سے مامون (محفوظ) نہیں ہوتا۔ وہ (قابلِ پیروی لوگ) حضرت محمد ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں جو اس امت میں سب سے افضل، دلوں کے اعتبار سے سب سے نیک، علم میں سب لوگوں سے گہرے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے۔ جنہیں اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی صحبت اور اپنے دین کے قائم رکھنے کے لیے (ساری کائنات سے) منتخب فرمایا تھا۔ اس لیے (دوسروں کے مقابلے میں) ان کی فضیلت (عظمت و بزرگی) کو پہچانو اور (علم و عمل میں) ان کے نقشِ قدم پر چلو اور مقدور بھر ان کے اخلاق اور ان کی سیرتوں کو پکڑے رہو کیونکہ وہ سیدھی راہ پر تھے۔‘‘

(مشکوٰۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)

حبِّ رسول ﷺ کے معاملے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ محبتِ رسول ﷺ کا دعویٰ خود فریبی کے مترادف ہے۔ اس لیے دین و دنیا کے دیگر معاملات کی طرح حبِّ رسول ﷺ کے مظاہرہ میں بھی حضور ﷺ کے براہِ راست فیض و تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہر قسم کے تصنع تکلف اور نمود و نمائش سے پاک طرزِ عمل پر چلنا ہی ہر طرح کے ظاہری و باطنی نقصانات و خطرات سے محفوظ و مامون اور سیدھی راہ ہے۔انھوں نے اطاعت و اتباعِ رسول ﷺ کے بھی ریکارڈ قائم کردیئے اور شریعت کی پابندی کرتے ہوئے بے ساختہ اور غیر مصنوعی فطری انداز میں حضور ﷺ کے ساتھ قلبی لگاؤ اور محبت کے اظہار میں بھی کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

حبِّ رسول ﷺ کے اظہار میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل کیا تھا؟ انھوں نے حضور ﷺ کی ظاہری زندگی اور وصال کے بعد آپ ﷺ کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کا اظہار کس کس انداز میں کیا؟ زیرِ نظر تحریر میں انہی ’’مظاہرِ محبت‘‘ کو مستند مآخذ و مراجع کی روشنی میں بیان کیا جارہا ہے:

ذاتِ رسول ﷺ : ہر شے سے محبوب

رسولِ مقبول ﷺ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ دنیاو مافیہا سے زیادہ اور والہانہ محبت رکھنا عقلی و نقلی ہر دو اعتبار سے ضروری ہے۔محبتِ رسول ﷺ کی اسی اہمیت و ضرورت کے مدِّنظر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کی ذات والا شان کے ساتھ کس طرح دنیا کی قیمتی سے قیمتی چیز اور قریبی سے قریبی رشتہ سے زیادہ والہانہ ٹوٹ ٹوٹ کر اور دل و جان سے محبت رکھتے تھے اور کس کس انداز میں عملی طور پر اس محبت کا اظہار ہوتا تھا، اس کا کچھ اندازہ درج ذیل جذبات و تاثرات اور مظاہرے سے لگایا جاسکتا ہے:

(1) جذبات و تاثراتِ محبت: چند جھلکیاں

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں (صحابہ) کی محبت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیسی تھی؟ فرمایا: اللہ کی قسم آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہمارے نزدیک ہمارے اموال، اولاد، ماں باپ اور پیاسے کے لیے ٹھنڈا پانی جتنا عزیز ہوتا ہے، اس سے بھی زیادہ محبوب تھی۔

(قاضی عیاض، الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ﷺ 2: 22)

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا، ان کی زوجہ آپ رضی اللہ عنہ کے سرہانے بیٹھی تھیں۔ شدتِ غم سے ان کی زبان سے نکلا: ’’واحزناہ‘‘۔حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ مت کہو بلکہ کہو:

’’واطرباہ ‘‘ (کتنا خوشی کا وقت ہے)

غداً القیٰ الاحبہ محمداً وصحبہ

’’کل اپنے احباب یعنی حضرت محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ سے ملاقات کروں گا۔

(قسطلانی، المواہب اللدنیہ، 3: 307)

ó حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! اللہ کی قسم میں آپ ﷺ سے محبت رکھتا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو کچھ تم کہہ (دعویٰ کر) رہے ہو، اس پر غور کرلو (یہ دعویٰ اتنا آسان نہیں)۔ اس نے دوبارہ کہا: اللہ کی قسم میں آپ ﷺ کی ذات سے محبت رکھتا ہوں اور یہ جملہ (دعویٰ) تین مرتبہ دہرایا۔ فرمایا! اگر تم میرے ساتھ محبت رکھتے ہو تو پھر فقر کےلیے اپنی کمر کس لو کیونکہ جو آدمی مجھ سے محبت رکھتا ہے تو فقر اس کی طرف (کثرتِ انفاق اور جودوسخا کے سبب) اس سیلاب سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے آتا ہے جو اپنے بہاؤ کی طرف تیزی سے بہتا ہے۔

(ترمذی، جامع، ابواب الزہد باب، ماجاء فی فضل الفقر)

(2) حضور ﷺ کے لیے معمولی تکلیف بھی پسند نہ ہونا

سچی، حقیقی اور واقعی محبت کا طبعی و فطری تقاضا ہے کہ محب اپنے محبوب کو معمولی سے معمولی تکلیف اور رنج میں بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ اس قسم کی واقعی محبتِ رسول ﷺ کا ایک روح پرور مظاہرہ ملاحظہ فرمایئے:

صحابیِ رسول ﷺ حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ چند دیگر صحابہ کے ہمراہ 4 ھ میں دو عرب قبائل کی درخواست پر حضور ﷺ کی طرف سے ان کی تبلیغ و تعلیمِ دین کے لیے تشکیل دیئے گئے ایک تبلیغی قافلہ میں شامل تھے کہ راستے میں ان قبائل کی بدعہدی کی بناء پر آپ قبیلہ بنولحیان کے کچھ لوگوں کے دھوکے میں آگئے اور گرفتاری دے دی۔ انھوں نے جناب زید رضی اللہ عنہ کو مکہ میں لاکر فروخت کردیا۔ زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو مشہور رئیس مکہ صفوان بن امیہ نے خرید لیا کہ غزوہ بدر میں جہنم رسید کیے گئے اپنے باپ امیہ کے عوض حضرت زید رضی اللہ عنہ کو قتل کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کرسکے۔

چنانچہ صفوان نے انھیں اپنے غلام نسطاس کے ہاتھ حرم کے باہر تنعیم میں لے جاکر قتل کرنے کے لیے بھیج دیا۔ اس کے ہمراہ قریش کے چندلوگ اور بھی تھے جن میں ابوسفیان بن حرب بھی شامل تھا۔ زید کے قتل کی تیاری ہوئی تو ابوسفیان نے کہا: اے زید! خدارا بتاؤ کہ کیا تمھیں پسند ہے کہ اب تیرے بجائے ہم تمھارے محمد ﷺ کو قتل کرتے اور تو اپنےگھر میں ہشاش بشاش ہوتا۔ تو حضرت زید نے کہا:

واللہ! میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ حضرت محمد ﷺ کو اپنے مکان میں کانٹا چبھ جائے اور میں اپنے اہل و عیال میں آرام سے بیٹھا رہوں (چہ جائیکہ آں جناب ﷺ کو العیاذ باللہ شہید کر دیا جائے) یہ سن کر ابوسفیان نے کہا: میں نے لوگوں میں سے کسی کو ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محمد ﷺ کے ساتھی اس سے کرتے ہیں۔ پھر نسطاس نے حسبِ منصوبہ جناب زید رضی اللہ عنہ کو جامِ شہادت نوش کرادیا۔

(ابن کثیر، سیرۃ النبی، 2: 98)

(3) آخرت میں معیتِ نبوی ﷺ کی آرزو

بارگاہِ نبوی میں حاضری کوئی معمولی سعادت نہیں تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیتِ نبوی میں ایمانی و روحانی انوار و برکات، ذہنی اطمینان و سکون، قلبی جذب و کیف اور مسلسل سرشاری کے عینی مشاہدہ کے بعد اس بات کی اکثر آرزو کرتے تھے کہ جس طرح دنیا میں انھیں حضور ﷺ کے پاس آنے جانے، حضور ﷺ کے پاس اٹھنے بیٹھنے اور آپ ﷺ کی معیت اختیار کرنے کا موقع حاصل ہے، اسی طرح آخرت اور جنت میں بھی حضور ﷺ کی معیت کی دولت حاصل رہے۔

حضرت ربیعہ بن کعب الاسلمی الانصاری (م 43ھ) بیان کرتے ہیں کہ میں رات بارگاہ نبوی میں گزارتا اور آپ ﷺ کے لیے وضو کا پانی لاتا اور دیگر خدمات سرانجام دیتا۔ (ایک رات ان کی پرخلوص اور بے لوث خدمت دیکھ کر حضور نبی اکرم ﷺ کا دریائے رحمت جوش میں آگیا) آپ ﷺ نے فرمایا: ربیعہ مانگو (جو کچھ مانگنا چاہتے ہو)۔ میں نے عرض کیا:

اسئلک مرافقتک فی الجنۃ

’’میں جنت میں بھی آپ ﷺ کی رفاقت و صحبت کی درخواست کرتا ہوں۔‘‘

فرمایا: او غیر ذالک. علاوہ ازیں کوئی سوال؟

میں نے عرض کیا بس میری یہی ایک آرزو ہے۔ فرمایا (اگر اتنے بلند مرتبے کے خواہاں ہو) تو اپنی خواہشات ِنفس کے برعکس کثرتِ سجود سے اس معاملے میں میری مدد کرنا۔

(مسلم، الصحیح، کتاب الصلوٰۃ باب فضل السجود والحث علیہ، 1: 193)

(4) حضور ﷺ کے کلماتِ ناراضگی و مزاح بھی محبوب

انسان کو اگر اس کی غلطی پر یا تنبیہ کے طور پر کوئی سخت کلمہ کہہ دیا جائے تو وہ اپنی فطرت کے مطابق عام طور پر اس سخت کلمہ کو دہرانا چاہتا ہے اور نہ دوسروں کو آگاہ کرنا چاہتا ہے۔ مگر حضور ﷺ کی ناراضگی کے سلسلے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معاملہ اس سے بالکل مختلف تھا۔ اگر حضور ﷺ نے کسی موقع پر بوجوہ کسی صحابی سے ناراضگی کا اظہار فرمایا از راہِ مزاح کوئی لفظ کہہ دیا تو وہ اسے چھپانے کی بجائے فخریہ لوگوں کو بتاتا تھا۔ اس قسم کے اندازِ محبت کی ایک ایمان افروز نظیر ملاحظہ فرمایئے:

حمزہ نامی ایک جنگجو اور بڑے بہادر صحابی اکثر غزوات میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ رہے، ان کی بہادری اور جنگی چالبازیوں کو دیکھتے ہوئے حضور ﷺ نے انہیں ایک مرتبہ کہہ دیا:

یا مثعب (اے گرگٹ)۔ یہ صحابی کہتے ہیں کہ تمام ناموں میں میرے نزدیک محبوب ترین اور پسندیدہ نام یہی ’’مثعب‘‘ تھا اور میں چاہتا تھا کہ مجھے اسی نام سے پکارا جائے۔

(ابن عبدالبر، الاستیعاب، 4: 1456)

اسی طرح ’’سفینہ‘‘ کے لقب سے معروف صحابی (جن کے اصل نام میں اختلاف ہے۔ ابوعبدالرحمن مہران، عمیر، عبس، سقبہ) ایک سفر میں جب حضور ﷺ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ چل رہے تھے تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے سامان کا بوجھ زیادہ ہونے کی وجہ سے بہت سا سامان ان کی پیٹھ پر لاد دیا۔ حضور ﷺ نے دیکھا تو ان سے فرمایا: سامان اٹھاؤ، بے شک تو ’’سفینہ‘‘ ہے۔

سفینہ کہتے ہیں کہ اس دن میرے اوپر اونٹ کا بوجھ بھی لاد دیا جاتا تو (حضور ﷺ کے سفینہ کہنے کی برکت سے) مجھے محسوس نہ ہوتا۔ مزید فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے میرا نام ’’سفینہ‘‘ رکھا ہے اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ اس کے علاوہ مجھے کسی دوسرے نام سے پکارا جائے۔

(ابن عبدالبر، الاستیعاب، 2: 658)

(5) رسول مقبول ﷺ سے قریب العہد ہونے کا اشتیاق

معروف صحابی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فخر کے طور پر یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ تمام لوگوں (صحابہ) سے بڑھ کر حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس سے ’’قریب العہد‘‘ یا ’’حدیث العہد‘‘ ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں اور اس منفرد اعزاز و اجمال کی تفصیل یوں بیان کیا کرتے تھے کہ حضور ﷺ کی جب تدفین ہوچکی تو میں نے اپنی انگوٹھی اتاری اور اسے (نظریں بچاتے ہوئے) قبرِ انور میں پھینک دیا۔ پھر میں نے (حاضرین سے) کہا کہ میری انگوٹھی مجھ سے قبرِ انور میں گر گئی ہے حالانکہ میں نے اسے عمداً پھینکا تھا اور اس لیے پھینکا تھا کہ حضور ﷺ کے جسدِ اطہر کو دنیا سے جاتے ہوئے ایک مرتبہ مس کرلوں تاکہ میں ’’احدث الناس عہداً بہ‘‘ آپ ﷺ کی ذات سے تمام لوگوں سے بڑھ کر قربِ زمانہ کا اعزاز حاصل کرلوں۔

(ہیثمی، مجمع الزوائد، باب ماجاء فی المغیرہ، 9: 361)

جبکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق حضور ﷺ سے قریب العہد ہونے کا اعزاز قثمؓ بن عباس کو حاصل تھا۔

(ابن سعد، الطبقات، 2: 302)

(6) حضور ﷺ کی خاطر مزدوری کی رقم قربان

حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ جو دنیوی مال و دولت کے اعتبار سے اگرچہ فقیر مگر ایمانی دولت کے لحاظ سے ایک ’’سرمایہ دار‘‘ اور بلند ہمت و بلند قامت صحابی بھی تھے۔ جن کا شمار السابقون الاولون میں ہوتا ہے اور جنھیں اسلام قبول کرنے اور ایمان لانے کی پاداش میں اہلِ مکہ کی طرف سے ظلم و ستم کا نشانہ بننے اور اس آزمائش و امتحان میں ثابت قدم رہنے کا ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل ہے۔ نبی رحمت ﷺ کے دامن سے اپنی کمال وابستگی کا ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

میں ایک لوہار (لوہے کاکام کرنے والا) آدمی تھا۔ میں نے (معروف دشمنِ رسول) عاص بن وائل (سہمی) کے لیے ایک کام کیا۔ جس کے بدلے میں میری کچھ مزدوری اس کے نام جمع ہوگئی۔ میں اپنی مزدوری (یا اجرت کی رقم) لینے کے لیے اس کے پاس آیا تو اس نے کہا: قسم بخدا! میں تمھیں اس وقت تک ادائیگی نہیں کروں گا، جب تک تم محمد ﷺ کا انکار نہیں کرتے ہو۔

میں نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہوگا، یہاں تک کہ تو مرے اور پھر اٹھایا جائے (یعنی قیامت تک ایسا نہیں ہوسکتا)۔ اس نے کہا: کیا میں مروں گا اور دوبارہ اٹھایا جاؤں گا؟ میں نے کہا: ہاں، ایسا ہوگا۔ تو ازراہِ مذاق کہنے لگا، پھر وہاں بھی میرے پاس مال و اولاد ہوں گے، لہذا میں تمھاری مزدوری وہاں اداکروں گا۔

اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:

اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًاؕ.

(مریم، 19: 77)

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہنے لگا: مجھے (قیامت کے روز بھی اسی طرح) مال و اولاد ضرور دیئے جائیں گے. ‘‘

(بخاری، الصحیح، کتاب البیوع باب ذکر القین والحداد، 1: 281)

(7) صحبتِ رسول ﷺ کی خاطر قطعہ زمین واپس کردینا

ابنِ سیرین کہتے ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ نے سلیط نامی ایک انصاری کو جس کے فضل و احسان کا وہ ذکر کرتے تھے، ایک قطعہ زمین دیا تھا۔ یہ شخص اپنی اس زمین پر جاکر وہاں کچھ دنوں قیام کرکے واپس آیا کرتا تو لوگ اسے بتاتے کہ تمھاری عدم موجودگی میں قرآن مجید کا فلاں فلاں حصہ نازل ہوا اور رسول اللہ ﷺ نے فلاں فلاں مسئلوں کے فیصلے فرمائے۔ چنانچہ وہ شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کے عنایت کردہ قطعہ زمین نے مجھے آپ ﷺ کی صحبت سے محروم کردیا ہے۔ لہذا میری جانب سے آپ ﷺ اسے قبول (واپس) فرمالیں۔ مجھے ایسی کوئی چیز درکار نہیں جو آپ ﷺ کی صحبت سے مجھے محروم کردے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہ قطعہ زمین ان سے واپس لے لیا ( اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ کو دے دیا)۔

(ابو عبید، کتاب الاموال، 41: 409)

(8) اجازتِ رسولؐ کے بغیر مشرکہ ماں کو گھر نہ آنے دینا

حضرت اسماء بنت ابی بکرj فرماتی ہیں کہ میری ماں (قتیلہ) جو مشرک تھیں (جنھیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زمانہ جاہلیت میں ہی طلاق دے دی تھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد) مجھ سے ملنے آئیں۔ میں نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ وہ مجھ سے کچھ توقع لے کرآئی ہیں کیا میں ان کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کرسکتی ہوں؟ حضور ﷺ نے فرمایا:اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔

(بخاری، الصحیح، کتاب الہبۃ باب الہدیۃ للمشرکین)

جبکہ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بطورِ تحفہ گوہ، پنیر اور مکھن لائی تھیں لیکن حضرت اسماءj نے انھیں اپنے گھر میں آنے کی اجازت دینے اور ان کا تحفہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور حضور ﷺ سے دریافت کرایا تو آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ وہ ان کا تحفہ قبول کرلیں اور اپنے گھر بھی آنے دیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسی موقع پر اللہ کریم نے یہ وحی نازل فرمائی تھی:

لَا یَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَ تُقْسِطُوْۤا اِلَیْهِمْ ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ.

(الممتحنۃ، 60: 8)

’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ‘‘

حبِّ رسول ﷺ سے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مذکورہ واقعات سے یہ واضح ہورہا ہے کہ جب تک آپ ﷺ کی ذات والا شان کے ساتھ اس طرح کا والہانہ اور قلبی تعلق پیدا نہ ہو، مسلمان ایمان کی حلاوت کو نہیں پاسکتا۔

(جاری ہے)