آزادی اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے جو انسان کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے عقائد، اقدار اور خیالات کے مطابق گزار سکے۔ یہ انسان کا فطری حق بھی ہے۔ جس طرح ایک پرندہ قفس میں قید ہو کر خوش نہیں رہ سکتا، اسی طرح انسان غلامی میں نہ تو سچی خوشی محسوس کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنی صلاحیتوں، توانائیوں اور استعدا د کو بھرپور طریقے سے استعمال میں لا سکتا ہے۔ آزادی کے بغیر نہ اپنے دین و مذہب پر عمل کیا جا سکتا ہے، نہ تعلیم و تربیت کا فروغ ممکن ہے اور نہ ہی تہذیب و تمدن کی ترقی ہو سکتی ہے۔ آزادی انسان کو سوچنے، بولنے، لکھنے اور عمل کرنے کا حوصلہ دیتی ہے جس قوم کو آزادی کی نعمت حاصل ہو جاتی ہے، اس کے لیے ترقی، خوشحالی اور خودداری کے راستے پر گامزن ہونا آسان ہو جاتا ہے۔
برصغیر کے مسلمان ایک عرصے سے انگریزوں کی اعلانیہ اور ہندوؤں کی درپردہ غلامی میں ذلت آمیز زندگی بسر کر رہے تھے جس نے ایک طرف ان کی سوچنے، سمجھنے اور عمل کی صلاحیتوں کو سلب کر لیا تھا اور دوسری طرف ہر شعبۂ حیات میں انہیں پسماندہ رکھا جا رہا تھا۔ ان حالات میں سر سید احمد خان نے تعلیمی شعور کی بنیاد رکھی، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی بے لوث، ولولہ انگیز اور بصیرت افروز قیادت میں بر صغیر کے مسلمانوں کی ایک طویل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو پاکستان کے نام سے ایک نئی ریاست دنیا کے نقشہ پر معرض وجود میں آئی۔ یہ محض جغرافیائی سطح پر زمین کا ایک قطعہ حاصل کرنےوالا معاملہ نہیں تھا بلکہ اپنے عقائد، کلچر، زبان، روایات اور آزادانہ طرزِ زندگی کو محفوظ بنانے کی کوشش تھی۔ یہ آزادی ہمیں پلیٹ میں رکھ کر یا تحفہ کے طور پر نہیں ملی بلکہ اس کی تہہ میں جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیوں کی ایک لازوال اور ناقابلِ فراموش داستان ہے جس میں لاکھوں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں،جوانوں اور بزرگوں کا عزم و استقلال شامل ہے۔
یقیناً آزادی کا دن قوموں کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کا یوم آزادی ایک طرف تو ماضی کی درخشندہ جدوجہد اور مقاصد کی یاد دلاتا ہے اور دوسری طرف مستقبل کے حوالے سے تجدیدِ عزم کا دن ہوتا ہے کہ حصولِ مقصد کے حوالے سے جذبوں اور ولولوں کو تازہ کیا جائے اور ایک نئے عزم اور جوش و خروش کے ساتھ جدوجہد کو تیز کیا جائے۔ چنانچہ مملکتِ خدادادِ پاکستان میں بھی ہر سال 14 اگست کو نہایت جوش و خروش سے یوم آزادی منایا جاتا ہے۔ انفرادی و اجتماعی سطح پر ہر کوئی اپنے انداز میں یوم آزادی کا جشن مناتا اور اس پر خوشی کا اظہار کرتا ہے۔
اقوام جب اپنے عروج کے زمانہ میں ہوتی ہیں اور ان کا اجتماعی شعور زندہ و بیدار ہوتا ہے تو اس طرح کے ایام کو مناتے ہوئے ایک طرف تو وہ اپنے ماضی کا جائزہ لیتی ہیں کہ اب تک کے سفر میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ کیا کیا غلطیاں کیں اور ان کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑا ؟کہاں سے چلے، کہاں پہنچنا تھا اور کہاں کھڑے ہیں؟ دوسری طرف آئندہ کے حوالے سے لائحہ عمل بناتی ہیں کہ ماضی کے نقصانات کا ازالہ کیسے کرنا ہے اور مستقبل میں تعمیرو ترقی کے سفر کو تیز کرنے اور منزل کی طرف رواں دواں رہنے کے لیے کیا اقدامات کرنے ہیں؟ مگر جب اقوام زوال کا شکار ہو جاتی ہیں اور ان کا اجتماعی ضمیر سو جاتا ہےتوپھر ؎
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
اذان تو ہر جگہ ہو رہی ہوتی ہے مگر بلالg والا سوز و گداز اور تڑپ موجود نہیں ہوتی۔ فلسفہ کی گتھیاں تو سلجھائی جا رہی ہوتی ہیں اور درسگاہوں میں فلسفہ پڑھایا جا رہا ہوتا ہے مگر غزالیؒ والا ناصحانہ انداز مفقود ہوتا ہے۔ اسی طرح یوم آزادی کے نام پر شورشرابہ، ہلہ گُلہ،آتش بازی، ہوائی فائرنگ، ون ویلنگ اور طرح طرح کی خرافات تو ہو رہی ہوتی ہیں مگر مقصد کسی کے ذہن میں نہیں ہوتا۔ یہی سب کچھ آج اس بد نصیب اور عقل و شعور سے عاری قوم کے ساتھ ہو رہا ہے اور کسی کو احساس تک نہیں ہے ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
حکمران طبقات اور ان تمام مافیاز کو جو اس ملک کو گِدھوں کی طرح نوچ رہے ہیں ان کے لیے یہ صورتحال بہت ہی زیادہ پسندیدہ ہے کہ عوام جشنِ آزادی کے نام پر اس طرح کے تماشوں میں مشغول رہیں اور ان کے خونی جبڑے ملک و قوم کا خون نچوڑتے رہیں اور پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔
ہم سے دو سال بعد آزاد ہونے والا چین دنیا کی سپر پاور بننے جا رہا ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کئی مرتبہ دیوالیہ ہوتے بچے ہیں۔ ایک بجلی کا مسئلہ ہی وبالِ جان بنا ہوا ہے اور جنہوں نے یہ مسئلہ پیدا کیا وہ دیہاڑیاں نہیں بلکہ دیہاڑے لگا رہے ہیں اور مسلسل لگا رہے ہیں اور آج بھی آرام و سکون کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہیں۔
آج یہ ملک زخموں سے چور چور ہے۔ یہ زخم بیگانوں نے نہیں بلکہ اپنوں نے ہی لگائے ہیں۔ ملک پر حکومت کرنے والے اربوں اور کھربوں پتی بنتے چلے گئے جب کہ ملک مقروض ہوتا چلا گیا اور آج اس کا بال بال قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ آج قائدا عظمؒ کی روح زبانِ حال سے پکار رہی ہو گی ؎
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
قائد اعظمؒ کی خدمت میں بصد احترام گزارش کی جا سکتی ہے ؎
نشیمن ہی کے بک جانے کا غم ہوتا تو کیا غم تھا
یہاں تو بیچنےوالوں نے گلشن بیچ ڈالا ہے
یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے ایک پاؤگوشت کی خاطر پورا اونٹ ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ جنہیں اپنے مفادات اتنے زیادہ عزیز ہیں کہ ان کی خاطر ملک و قوم کے مفاد کو داؤ پر لگا دینا ان کے نزدیک بہت معمولی بات ہے۔ اُونچی مسندوں اور بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے دیمک کے ان کیڑوں نے اس ملک کو اس طرح چاٹا ہے کہ اس کےپورے وجود کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ قومی زندگی کا ہر شعبہ زوال و انحطاط کا شکار ہے اور اپنی زبوں حالی پر رہنماؤں کے روپ میں موجود رہزنوں کی حرص وہوس، لوٹ مار اور جبر و بربریت کی نوحہ گری کر رہا ہے۔
پاکستان کے موجودہ مسائل
اردو زبان میں ایک کہاوت ہے: ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘یہ بات آج کے پاکستان پر بالکل صادق دکھائی دیتی ہے۔ لا تعداد قربانیوں اور طویل جدوجہد کے بعد معرض وجود میں آنے والا ملک جس کا نام پاکستان ہے آج اپنے قیام کے 78 سال بعد’’مسائلستان‘‘ بنا ہوا ہے۔ اُوپر سے لے کر نیچے تک ہر شعبہ بگاڑ اور ابتری کا شکار ہے۔ وطنِ عزیز کو مختلف سیاسی، معاشی، سماجی اور اخلاقی چیلنجز درپیش ہیں جن پر قابو پائے بغیر ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ چند نمایاں مسائل درج ذیل ہیں:
(1) سیاسی عدمِ استحکام
پاکستان میں سیاسی قیادت کا فقدان، اداروں کے درمیان عدم ہم آہنگی، بار بار حکومتوں کی تبدیلی، اور الزام تراشی کی سیاست نے ملک کو کمزور کر دیا ہے۔ عوام کا اعتماد سیاستدانوں سے اُٹھ چکا ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر کوئی بھی ملک معاشی اور سماجی ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔
(2) معاشی بحران
پاکستان کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور بیرونی قرضوں میں اضافہ نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ، روزمرہ اشیاء کو عام آدمی کی پہنچ سے دور کر رہا ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور سرمایہ کار ملک چھوڑ رہے ہیں۔
(3) تعلیمی نظام کی زبوں حالی
پاکستان کا تعلیمی نظام یکساں اور موثر نہیں۔ پرائیویٹ اسکولوں اور سرکاری اداروں میں معیارِ تعلیم کا شدید فرق ہے۔ شرح خواندگی میں بہتری کی رفتار سست ہے، جب کہ دورِ جدید میں تعلیم ہی ترقی کی کنجی ہے۔ فنی اور سائنسی تعلیم کا فقدان نوجوانوں کو بے روزگاری کی طرف دھکیل رہا ہے۔
(4) صحت کے مسائل
صحت کی سہولیات ناکافی اور ناقص ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت خراب ہے اور نجی ہسپتال غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو صحت کا کوئی نظام موجود ہی نہیں۔ وبائی امراض کے دوران بھی حکومت کی کارکردگی بہت زیادہ قابلِ رشک نہیں ہے۔
(5) عدل وانصاف کا فقدان
پاکستان میں عدالتی نظام سست، پیچیدہ اور مہنگا ہے۔ عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول ایک خواب بن چکا ہے۔ پولیس نظام میں کرپشن، اقربا پروری اور سیاسی مداخلت انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ طاقتور لوگ قانون سے بالاتر دکھائی دیتے ہیں، جب کہ غریب انصاف کے لیے ترستا ہے۔
(6) اخلاقی و سماجی بحران
بدعنوانی، جھوٹ، منافقت، خودغرضی، فحاشی، عدمِ برداشت اور بےحسی جیسی اخلاقی برائیاں عام ہو چکی ہیں۔ نوجوان طبقہ بے راہ روی کا شکار ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر غلط رجحانات کو فروغ مل رہا ہے، جس سے معاشرتی اقدار متاثر ہو رہی ہیں۔
(7) کرپشن کا ناسور
کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا ناسور بن چکی ہے۔ قومی دولت لوٹنے والے سیاسی اور سرکاری افراد بے خوف نظر آتے ہیں۔ نیب جیسے ادارے بھی سیاسی دباؤ کا شکار ہیں۔ کرپشن نہ صرف معیشت کو کھوکھلا کر رہی ہے بلکہ عوام میں مایوسی کو جنم دے رہی ہے۔
(8) عوامی شعور کی کمی
پاکستانی عوام میں سیاسی و سماجی شعور کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ووٹ کی طاقت کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کیا جاتا۔ عوام جذباتی نعروں، فرقہ واریت، ذات پات اور لسانی تعصبات میں الجھ کر اپنے ہی مفادات کے خلاف فیصلے کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک جس کی سرزمین، آب و ہوا، معدنیات، آبی وسائل، زرعی زمینیں، انسانی وسائل اور جغرافیائی محل وقوع اسے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے کی بھرپور صلاحیت فراہم کرتے ہیں، آج اس زبوں حالی کا شکار کیوں ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے بہت زیادہ تردّدکی ضرورت نہیں ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ سالہا سال سے جو لوگ اقتدار کے مراکز پر فائز ہیں، ان کی نا اہلی، بددیانتی، لوٹ کھسوٹ، اقربا پروری، حرص و ہوس،انانیت، حد سے بڑی ہوئی خواہش پرستی اور قومی وسائل کی بے دردی و بے رحمی کے ساتھ بندر بانٹ نے ملکی حالات کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ دیانت وکردار کے حامل چند لوگوں کو چھوڑ کر اکثریت کا حال یہ ہے کہ جس کو جہاں موقع ملا اور جتنا موقع ملا، اس نے بہتی گنگا سے جی بھر کر ہاتھ دھوئے اور اندرون و بیرون ملک اثاثہ جات بنانے کی دوڑ میں ملک کو کنگال کر دیا۔ نوبت یہا ں تک پہنچ گئی ہے کہ آج ہماری معیشت بیرونی امداد اور قرضہ جات کی بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک کو اس حال تک پہنچانے میں اس کو لوٹنے والے مافیاز نے دن رات بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ محنت کی ہے اور آج بھی یہ سلسلہ بہت زور و شور سے جاری ہے۔ چنانچہ یہ مسائل ایک دن میں پیدانہیں ہوئے اور نہ ہی انہیں ایک دن میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے دردِ دل رکھنے والے باکردار لوگوں کو مل بیٹھنا ہوگا اور اخلاص وللھیت کے ساتھ غور و فکر کر کے کوئی مستقل اور قابل عمل حل تلاش کرنا ہوگا۔
خود احتسابی کی ضرورت
کسی بھی خرابی کو دور کرنے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہے خود احتسابی۔ خود احتسابی کا مطلب ہے کہ ہر شخص دیانت داری کے ساتھ اپنا جائزہ لے اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ جو مسئلہ پیدا ہوا ہے اس کے پیدا ہونے میں میرا کتنا ہاتھ ہے اور اس کے حل کے لیے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہوں؟ بعض اوقات کسی خرابی کے پیدا ہونے میں ایک شخص کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہوتا مگر اس کی خاموشی ہی اسے اس جرم میں کسی نہ کسی درجہ میں حصہ دار بنا دیتی ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص دوسروں کی غلطیوں کا بہترین جج اور اپنی غلطیوں کے معاملے میں بہترین وکیل بنا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بہرحال اگر ہم واقعی اپنی حالت کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں یوم آزادی کا جشن منانے کے ساتھ اپنی خود احتسابی بھی کرنا ہوگی۔ خود احتسابی کے تین دائرے ہیں:
(1) ذاتی خود احتسابی
اس کا مطلب ہے کہ ہرشخص اپنا جائزہ لے کہ اس نے اپنے وجود پر اللہ کے احکامات کو کس حد تک نافذ کیا ہے۔ خود کو اخلاقی قدروں کے سانچے میں کتنا ڈھالا ہے۔ اپنی ذاتی صلاحیتوں اور خوبیوں کو نکھارنے، سنوارنے اور پروان چڑھانے میں کتنی محنت کی ہے۔ انسان کا کہیں اور بس چلے یا نہ چلے، اپنے وجود پر تو مکمل اختیار اسے اللہ تعالی نے دیا ہے۔ چنانچہ اپنی ذاتی اصلاح کے معاملے میں تو وہ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے اور یہ اس کی اولین ذمہ داری ہے۔
(2) انفرادی خود احتسابی
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر معاشرہ کا ہر فرد اِس بات پر غور کرے کہ جس ماحول میں وہ رہ رہا ہے، اس کے حوالے سے اس کی جو ذمہ داریاں ہیں، انہیں کس حد تک پورا کر رہا ہے اور کس حد تک کوتاہی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس کے عزیز و اقارب، دوست احباب اوراردگرد موجود دیگر لوگوں کے جو حقوق ہیں نیز جن معاشی سرگرمیوں اور سماجی ذمہ داریوں کا بوجھ اس پر ہے، انہیں کس حد تک خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہا ہے۔
(3) اجتماعی خود احتسابی
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بطورِ پاکستانی اس بات کا جائزہ لیں کہ ملک و قوم کی اصلاح و فلاح کے حوالے سے ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ کام کسی فردِ واحد کے بس میں نہیں ہے۔ اس کے لیے سب لوگوں کو مل جل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ تاہم ہر شخص بقدر استطاعت ہی مکلف ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ بہرحال حالات کا رونا روتے رہنے اور دوسروں کو الزام دیتے چلے جانے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے حصہ کا کردار ادا کیا جائے۔
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
مسائل کا حل کیا ہے؟
ملکی حالات کو شعوری اور ارادی طور پر الجھایا گیا ہے تاکہ یہ قوم اور اس کے افراد کسی صراطِ مستقیم پر صحیح معنی میں گامزن نہ ہوسکیں۔
غیر ممکن ہے حالات کی گتھی سلجھے
اہلِ دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
مسئلہ الجھانے والوں کا نہیں، ان کا تو کام ہی الجھانا ہے۔ مسئلہ تو سلجھانے والوں کا ہے کہ ان کی فراست کہاں چلی گئی ہے؟ کیا ان کے حصے میں صرف جلنا کُڑھنا اور رونا دھونا ہی رہ گیا ہے یا اس سے آگے بڑھ کر بھی کوئی کردار انہیں ادا کرنا ہے۔ اُلجھانے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ زمینی حقائق کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے بوقتِ ضرورت آپس میں شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سب متحد ہیں اور ایک دوسرے کو تعاون دینے اور لینے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ دوسری طرف سلجھانے کی خواہش رکھنے والے تعداد میں کم نہیں ہیں، بہت زیادہ ہیں مگر ان کا آپس میں کوئی اتفاق اور اتحاد نہیں ہے۔ انہیں آج کے دن تک وہ متفقہ نکات ہی نہیں مل سکے جن پر چلتے ہوئے وہ کوئی مشترکہ جدوجہد کر سکیں۔ اس روش کو بدلنا ہوگا۔ اس حوالے سے دو باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے:
1۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ ایلیٹ کلاس جو کسی نہ کسی رنگ میں اقتدار کی لذتوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے اور اس ظلم و جبر، لوٹ کھسوٹ اور استحصالی نظام سے فائدہ اٹھانے والی (Beneficiary) ہے اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کسی قسم کی تبدیلی کے عمل میں قائدانہ کردار ادا کرے گی یا کسی بھی سطح پر معاون و مددگار بنے گی، یہ خام خیالی ہے اور بالکل وہی بات ہے جو میرؔنے کہی تھی ؎
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
2۔ دوسری بات یہ ہے کہ عوام سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اس طرح کے معاملے میں پیش قدمی کریں گے اور حالات کو بدلنے کے لیے کارواں کی قیادت کریں گے، یہ بھی خوش گمانی ہوگی۔ وجہ یہ ہے کہ عوام (جنہیں دانش مندوں کی زبان میں کالانعام کہا جاتا ہے یعنی جانوروں کی مانند) کی حیثیت صفر کے ہندسہ کی ہوتی ہے اور لیڈر کی حیثیت ایک کے ہندسہ کی۔ صفر جتنی مرضی جمع ہوجائیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی مگر جب وہ ایک کے ہندسہ کے دائیں طرف لگتی چلی جاتی ہیں تو پھر قدر و قیمت اور طاقت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ دوسری طرف ایک کا ہندسہ بھی، جب تک اس کے ساتھ صفر نہ ملیں، کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا قول ہے:
’’دو طبقے اعلی اخلاق کے متعلق غور و فکر نہیں کر سکتے: ایک وہ جو بہت زیادہ امیر ہے اور دوسرا وہ جو بہت زیادہ غریب ہے۔ ‘‘
اس انتہائی بامعنی قول میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے، وہ یہی ہے کہ جو بہت زیادہ امیر طبقہ ہوتا ہے جسے بالعموم ایلیٹ کلاس کا نام دیا جاتا ہے وہ عیش و عشرت میں اتنا ڈوبا ہوتا ہے کہ اس کے اندر سے نازک جذبات اور لطیف احساسات مر جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کی بے حسی و سنگدلی انہیں اس قابل نہیں چھوڑتی کہ وہ دوسروں کا درد محسوس کر سکیں اور اس کے مداوا کے لیے کچھ کر سکیں۔
دوسری طرف بہت زیادہ غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ دو وقت کی روٹی اور جسم و جاں کے رشتہ کو برقرار رکھنے والی انتہائی بنیادی ضروریات (جن میں آج کل بجلی بھی شامل ہے) کے معاملات میں اتنا الجھے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل سے اُو پر اُٹھ کر ملک و قوم کی بہتری اور اجتماعی معاملات کے متعلق غور کر سکیں۔
مشترکہ جدوجہد کا مرکز و محور
سوال یہ ہے کہ مسائل تو بے شمار ہیں اور اگر سارے مسائل کو حل کرنے کا کام بیک وقت شروع کر دیا جائے تو غالب امکان یہ ہے کہ کوئی بھی مسئلہ حل نہ ہو سکے۔ راقم الحروف کے خیال میں تین نکات ایسے ہیں کہ اگر انہیں نقطۂ آغاز کے طور پر لیا جائے تو ان پر مختلف الخیال طبقات کو بھی جمع کیا جا سکتا ہے اور ان نکات پر کام کرنے سے آگے بے شمار مسائل کے حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ وہ نکات یہ ہیں:
(1) بیداری شعور
مسائل کے حل کا پہلا نقطہ یہ ہے کہ عوام میں اس ظالمانہ و فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف شعور پیدا کرنا ہوگا۔ وہ لوگ جن کے اندر حالات کو بدلنے کی درد اور تڑپ موجود ہے اور جن کے پاس سوچ اور ویژن بھی موجود ہے،وہ ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو کر حمایت و مخالفت کے قرانی اُصول؛ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس نظام کی خرابیوں سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے اپنی اپنی سطح پر کردار ادا کریں۔ تحریک منہاج القرآن اور اس کے جملہ ذیلی فورمز کے عہدیداران، ذمہ داران اور کارکنان الحمدللہ تعالیٰ اپنی اپنی بساط کے مطابق نہ صرف خود احتسابی کے تینوں دائروں میں سرگرم عمل ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ بیداریٔ شعور کے لیے بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ اگر قوم کے وہ طبقات جو ملک کا درد محسوس کرتے ہیں،منہاج القرآن کےپلیٹ فارم سے یا کسی ایسے دوسرے پلیٹ فارم سے جو حقیقی معنی میں اس فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کی تبدیلی اور مسائل کے حل کے لیے کردار ادا کررہا ہے، ان کے ساتھ مل کر جدو جہد کریں تو امید کی جا سکتی ہے کہ چلتے چلتے یہ ایک سیلِ رواں بن جائے اور آئیڈیل درجے میں نہ سہی کسی نہ کسی درجے میں خوشگوار تبدیلی کا موجب بن جائے ؎
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل
لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا
(2) اخلاقی تربیت
افراد معاشرہ کی اخلاقی تربیت کے لیے ایک جامع منصوبہ مکمل غور و فکر کے بعد بنایا جائے کہ معاشرہ میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اخلاقی انحطاط کے اسباب و وجوہات کیا ہیں اور ان کے تدارک کے لیے کون کون سے کام کرنا ضروری ہیں۔ یہ کام اگر اخلاصِ نیت اور ہر قسم کے تعصبات و فرقہ وارانہ نظریات سے بلند ہو کر کیا جائے، نیز محض رسمی کاروائیوں کی بجائے ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے تو حوصلہ افزاء نتائج کے ملنے کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ بہت سارے مسائل کی جڑ یہی اخلاقی انحطاط ہے جو معاشرہ کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
الحمدللہ تعالیٰ تحریکِ منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں اس اہم کام پر بھی اپنے قیام کے دن سے ہی کارفرما ہے۔ شیخ الاسلام کی جملہ تصانیف و خطابات اور منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے ہونے والی جملہ سرگرمیوں کا بنیادی اور اہم مقصد ہر طبقۂ زندگی کو اخلاقی تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔
(3) قیامِ عدل
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ.
(الحدید، 57: 25)
’’بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں۔ ‘‘
یہاں انبیاء کرام علیہم السلامکی بعثت اور کتاب و میزان کو اُتارنے کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہنے والے بن جائیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی معاشرہ میں عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کا ہونا کس قدر ضروری ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو بیشتر جرائم کی بہت بڑی وجہ ملک میں عدل و انصاف کا نہ ہونا ہے۔ آج عدل و انصاف میں یہ ملک پستی کی اس حد تک چلا گیا ہے کہ دنیا کے چند ممالک کے سوا باقی تمام ممالک اس سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ جس معاشرہ میں عدل کا فقدان اور ظلم کا دور دورہ ہو وہاں تبلیغیں خاطر خواہ نتائج پیدا نہیں کیا کرتیں۔ بیداری شعور اور اخلاقی تربیت کے ساتھ جب معاشرے کا نظام عدل پر قائم ہو تو یہ تمام عوامل مل کر بہت زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔ مگر ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کر دیا جائے تو نتائج زیادہ حوصلہ افزا ءنہیں ہوتے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ چیزیں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔
مندرجہ بالا تینوں چیزیں ایسی ہیں جن کے لیے جدوجہد کرنا عین عبادت اور اس جدوجہد کی راہ میں مرنا عین سعادت ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ کوئی بھی شخص خواہ اس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر کے ساتھ ہو، علی الا علان ان کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ ساتھ دینا یا نہ دینا الگ بات ہے، مگر کسی میں یہ جرأت نہیں ہو سکتی کہ وہ بقائمی ہوش و حواس ان کو غلط قرار دے۔
کوئی بھی نظریہ جب ابتدا میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ بالکل سادہ ہوتا ہے نیک نیتی کے ساتھ اس پر غور و فکر کیا جائے تو آگے پھر کئی تفصیلات و جزئیات سامنے آتی چلی جاتی ہیں اور اُس میں نکھار آتا چلا جاتا ہے۔ نیز وقت کے ساتھ ساتھ خود بخود راستے بھی بنتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا.
(العنکبوت،29: 69)
’’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ وطنِ عزیز کو سلامت رکھے اور اسے امن و امان کا گہوارا بنائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ