1500 واں جشنِ ولادتِ مصطفی ﷺ: امت کا ہدیہ تبریک

آسیہ سیف قادری

حضور پر نور سرور کونین، تاجدار کائنات، رحمت اللعالمین، ھادی دو عالم، خاتم النبیین، محبوب کبریا، وجہ تخلیق کائنات، فخر موجودات، محسن انسانیت، حضرت محمد مصطفی ﷺ کا پندرہ سو سالہ جشن ولادت تمام امت مسلمہ کو مبارک ہو۔

یوں تو ہر سال جب ماہ ربیع الاول ہم پر اپنی تمام تر رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتا ہے تو تمام اہل ایمان اور امت مسلمہ کے دلوں میں مسرت و انبساط کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ہر مومن، ہر عاشق رسول ﷺ کا دل خوشی سے جھوم جھوم جاتا ہے۔ ہر لب پہ صل علیٰ کے نغمے جاری ہوجاتے ہیں۔ ہر طرف مرحبا مرحبا آمد مصطفی ﷺ کے نعروں سے فضائیں گونج اٹھتی ہیں۔ ہر کوچہ، ہر نگر، ہر گلی، محلہ اور شہر شہر کے درو بام سجائے جانے اور جلسے جلوس کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ گھروں اور مساجد میں محافل میلاد کا انعقاد ہوتا ہے۔ کیف و سرور کا سماں طاری ہوجاتا ہے، بہاریں مسکراتی ہیں۔ ہر سو رحمت کے بادل چھا جاتے ہیں نور کی برسات۔ ۔ ۔

نور کی برسات سے عالم منور ہوگیا

آپؐ آئے تو زمانے میں اجالا ہوگیا

وہ نبی محتشم ﷺ کہ جس کی آمد کی خوشخبریاں ہر رسول، ہر نبی اور ہر پیغمبر اپنی اپنی امتوں کو دیتے آئے، جس کا میلاد اس کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے ہی منانے کا اہتمام اللہ تعالیٰ نے ازل سے کردیا۔ پہلا میلاد خود رب کائنات نے عالم ارواح میں تمام نبیوں، پیغمبروں کے سامنے میثاق انبیاء کی صورت میں منایا۔ خود اس جلسہ میلاد مصطفی ﷺ کی صدارت فرمائی۔ قرآن اس پر گواہ ہے، خود رب کائنات اس پر شاہد ہے:

وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗ ؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِكُمْ اِصْرِیْ ؕ قَالُوْۤا اَقْرَرْنَا ؕ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ.

(آل عمران، 3: 81)

اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ ‘‘

یہ تھا وہ حلف نامہ، وہ میثاق انبیاء جو اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں سے حضور ﷺ کی غلامی، اطاعت اور نبوت و آمد کی تصدیق کا دیا۔ گویا بارگاہ خداوندی سے یہ تمام نبیوں، پیغمبروں، رسولوں کی ڈیوٹی لگادی گئی کہ جاؤ اور میرے مصطفی ﷺ کا میلاد ان کی دنیا میں بعثت سے پہلے مناؤ اور آمد مصطفی ﷺ کے ڈنکے بجاؤ جاؤ میرے بندوں کو بتادو، یہ خوشخبری سنادو کہ میرا عظمتوں اور رفعتوں والا محبوب، وہ نبی آخرالزماں، وہ سراپا رحمت جس کے لیے میں نے بزم کائنات کو بنایا، بزم جہاں کو سجایا، کائنات کا دولہا، وہ مہمان خصوصی، وہ میرا محبوب زمانے جس کا طواف کرنے کے لیے بے تاب تھے، جو دعائے خلیل بھی ہے، عطائے کبریا بھی ہے، وہ جلیل القدر ہستی جس کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی، تشریف لانے کو ہیں۔

وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ.

(الصف، 61: 6)

’’اور اُس رسولِ (معظّم ﷺ کی آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( ﷺ ) ہے۔ ‘‘

انبیاء کرام کے میلاد نامہ کا تذکرہ اللہ کی سنت ہے۔ انبیاء کرام کی ولادت باسعادت کا ذکر خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے۔ حضرت آدمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت یحییٰؑ کا میلاد نامہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا۔ مثال کے طور پر حرف حضرت یحییٰ علیہ السلام کا میلاد نامہ جس کا ذکر سورہ مریم میں آیا ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠.

(مریم، 19: 15)

’’اور یحیٰی پر سلام ہو ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔ ‘‘

اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:

وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا.

(مریم، 19: 33)

’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن، اور میری وفات کے دن، اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ ‘‘

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ انبیاء کرام جو حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے ہوئے ان کا ذکر قرآن مجید میں آتا ہے ان کا میلاد نامہ قرآن میں بیان ہوا ہے تو کیا حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت کا بھی ذکر فرمایا؟

جی ہاں جب آپ ﷺ کی ولادتِ باسعادت کا ذکر فرمایا، جب تاجدار کائنات کی دنیا میں تشریف آوری کا ذکر فرمایا جب اپنے حبیب کبریا ﷺ کے میلاد نامے کو بیان فرمایا تو اس شان کے ساتھ کہ

لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ. وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ.

(البلد، 90: 1-2)

’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ ‘‘

سورۃ انبیاء میں سب نبیوں رسولوں اور پیغمبروں کا ذکر کیا اور آخر میں اپنے محبوب نبی آخرالزماں اور حبیب رب کبریا کا ذکر اس شان کے ساتھ کیا:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ.

(الانبیاء، 21: 107)

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ ‘‘

کہ ہر نبی، ہر پیغمبر، ہر رسول کسی ایک زمانے کسی ایک قوم اور کسی ایک علاقے کے لیے نبی بن کر آیا تھا۔ مگر آپ کی ولادت باسعادت، آپ کی آمدو تشریف آوری، آپ کا وجود مسعود تمام زمانوں، تمام عالموں، تمام انسانوں، تمام قوموں کے لیے قیامت تک کے لیے رحمت ہے۔

اب ہم قدرے اختصار کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں کہ بعثت محمدی ﷺ سے انسانیت اور بالخصوص اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا ان گنت فائدے، برکتیں، رحمتیں اورنعمتیں عطا ہوئیں اور ان انعامات خداوندی اور احسانات ربانی کے تشکر میں امت کے کندھوں پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں یعنی ہمیں اس عظیم احسان جو وجود مصطفی ﷺ کی صورت میں اللہ رب العزت نے ہم پر کیا اس کا تشکر بجا لاتے ہوئے ہمیں کیا کرنا چاہیے اور جشن میلاد مصطفی ﷺ منانے کے عملی تقاضے کیا ہیں۔

بعثت محمدی ﷺ ۔ امت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا.

(آل عمران، 3: 164)

’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (ﷺ) بھیجا۔ ‘‘

قابل غور اور توجہ طلب یہ نکتہ ہے کہ وہ رب جس نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کیں، بے حد احسانات ہم پر کیے جس نے ہمیں زندگی، صحت، جان، مال، اولاد، رزق الغرض ان گنت نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں مگر کسی نعمت کو عطا کرکے احسان نہیں جتلایا جب باری آئی اپنے محبوب کو دنیا میں بھیجنے کی تو اللہ نے فرمایا: ’’جان لو اے ایمان والو! اللہ نے تم پر بڑا احسان کیا تم میں سے تمھیں میں اپنا رسول بھیجا۔ ‘‘

احسان اس لیے جتلایا کہ یہی وہ نعمت عظمیٰ ہے کہ جس کے صدقے میں ساری کائنات بنائی جس کی وجہ سے تم سب کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی، جس کے صدقے میں قرآن ملا اور جس کے صدقے سے ہی رب رحمان کی معرفت ملی۔

لہذا احسان جتلا دیا کہ اسے کوئی عام نعمت نہ سمجھ لینا اور ان کے وجود کی قدر کرنا۔

سلام اے آمنہ کے لال، اے محبوبِ سبحانی

سلام اے فخرِ موجودات، فخر، نوع انسانی

تیرے آنے سے رونق آگئی گلزار ہستی میں

شریک حال قسمت ہوگیا پھر فضل ربانی

بعثت مصطفی ﷺ معرفت الہٰی

تخلیق کائنات کا مقصد کیا ہے، یہ راز افشا کرنے کے لیے حضور ﷺ تشریف لائے۔ آپ ﷺ کی آمد سے کفرو شرک کی کالی گھٹائیں کافور ہوگئیں۔ 360 بتوں کی پوجا کرنے والے ایک خدائے واحد کے آگے جھکنے والے بن گئے۔

قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ. اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ. لَمْ یَلِدْ ۙ وَ لَمْ یُوْلَدْۙ. وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۠.

(الاخلاص، 112: 1۔4)

’’(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجیے: وہ ﷲ ہے جو یکتا ہے۔ ﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔ ‘‘

گویا ہمیں اللہ رب العزت کا عرفان ملا تو حضور ﷺ کے میلاد پاک کے صدقے میں ہی پہلا تحفہ ہے لہذا میلاد پاک کا پہلا تقاضا یہی ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کے ذریعے ہی توحید کو سمجھیں اور حضور ﷺ کی ذات و تعلیمات کے ذریعے بارگاہ الہٰی تک رسائی حاصل کریں۔

بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر

جو وہاں سے یہیں آکے ہو جہاں نہیں تو وہاں نہیں

میلاد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا ذریعہ

میلاد مصطفی ﷺ کا دوسرا تحفہ اورعملی تقاضا یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی محبت ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ ہے۔ اپنی ذات سے محبت کروانے کا اصول بھی اللہ رب العزت نے قرآن کی صورت میں بزبان مصطفی ﷺ سکھادیا۔

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.

(آل عمران، 3: 31)

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم ﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب ﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور ﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔ ‘‘

یعنی اللہ تعالیٰ نے علی الاعلان واضح فرمادیا کہ اے میری محبت کے متلاشیو، اے راہ حق کے راہ نوردو تم اگر میری محبت کا دعویٰ کرتے ہو اور یہ گمان رکھتے ہو کہ تم اللہ سے محبت کرنے والے ہو تو سنو تمھارا یہ دعویٰ محبت تمھاری یہ خواہش، یہ چاہت اس وقت قبول ہوگی جب تم یہ شرط پوری کرو گے، میرے حبیب آپ ہی بتادیں کہ پھر تمھیں میری پیروی کرنا ہوگی اور محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کا پٹہ گلے میں ڈالنا ہوگا۔ اگر تم نے محمد کی غلامی و اطاعت کا حق ادا کردیا تو پھر خود رب تم سے محبت کرے گا اور تمھارے تمام گناہ بھی معاف کردے گا۔

کی محمدؐ سے وفا تو نے توہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

جب تم فاتبعونی کی شرط پوری کردو گے میرے مصطفی کے سچے غلام، سچے پیروکار بن جاؤ گے تو خود خدا بھی تمھارا ہوجائے گا خدا کی خدائی بھی تمھاری ہوجائے گی۔

میلاد مصطفیؐ، اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور خوشنودی کے حصول کا ذریعہ

جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کے اظہار حضور علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو وہاں حضور علیہ السلام کے عمل کو بھی اپنا عمل قرار دیا۔ اللہ رب العزت کی ذات مجسم صورت میں ظاہر ہونے سے رہی کہ ہم اس کے عمل کو دیکھ سکیں ایسی صورت میں اس تشنگی کو پورا کرنے کے لیے حضور ﷺ کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے اپنا عمل قرار دے دیا۔ حضور ﷺ کے فعل کو اپنا فعل قرار دے دیا۔

وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰی.

(الانفال، 8: 17)

’’اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔ ‘‘

حضور ﷺ کی بیعت کو اپنی بیعت قرار دیتے ہوئے آپ ﷺ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَ ؕ یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ.

(الفتح، 48: 10)

’’(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ ﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) ﷲ کا ہاتھ ہے۔ ‘‘

آپ کے فرمان کو اپنا فرمان، آپ کے قول کو اپنا قول آپ کی بات کو اپنی بات قرار دیا۔

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیؕ. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیۙ.

(النجم، 53: 3-4)

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔ ‘‘

رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دے دیا:

رسول اللہ ﷺ کی رضا کو اللہ کی رضا قرار دے دیا گیا۔

وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ.

(التوبۃ، 9: 62)

’’حالانکہ اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ حقدار ہے کہ وہ اسے راضی کریں اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے (تو یہ حقیقت جان لیتے اور رسول a کو راضی کرتے، رسول a کے راضی ہونے سے ہی اللہ راضی ہو جاتا ہے۔ ‘‘

گویا اللہ کو راضی کرنا ہو تو پہلے مصطفی ﷺ کو راضی کرنا ہوگا، اللہ کی اطاعت کرنا تو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و غلامی اختیار کرنا ہوگی، اللہ کی فرمانبرداری کرنا تو رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کرنا ہوگی تو میلاد مصطفی ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اللہ کو کیسے پانا ہے، اپنے رب کو کیسے راضی کرنا، اس کی اطاعت و خوشنودی کیسے حاصل کرنی ہے۔

یوم میلاد مصطفیؐ: صفات و اخلاق الہٰیہ اپنانے کا درس

یوم میلاد مصطفی ﷺ ہمیں کردار کی تطہیر اور اعلیٰ اخلاقی اوصاف پیدا کرنے کے لیے ہمیں حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ اور اخلاق کریمانہ کو اپنانے کی یاددہانی کراتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.

(الاحزاب، 33: 21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول ﷲ (ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔ ‘‘

اور رسول کے اخلاق کو عظیم ترین قرار دے دیا۔

وَ اِنَّكَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.

(القلم، 68: 4)

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔ ‘‘

اس لیے حضرت عائشہؓ نے ہماری رہنمائی کے لیے فرمایا:

کان خلقہ القرآن. ’’آپ کا اخلاق قرآن تھا۔ ‘‘

لہذا یوم میلاد مصطفی ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ میلاد والے کی سیرت و کردار کو عملاً اپنایا جائے، حضور اقدس کے اخلاق کریمانہ کو اپنایاجائے، حضور ﷺ حلم و بردباری کا پیکر تھے، آپ بھی حلیم و بردباد بنیں۔ حضور ﷺ محبتیں بانٹنے آئے تھے، نفرتیں مٹانے آئے تھے، ہم بھی محبت کرنے والے اور نفرت مٹانے والے بنیں۔ حضور غریبوں، مسکینوں، یتیموں کا سہارا بننے آئے۔ آیئے ہم حضور ﷺ کے غریب، بے بس، بے سہارا امتیوں کا سہارا بنیں، مسکینوں کی مدد کریں، یتیموں کی دلجوئی کریں، دکھی انسانیت کے کام آئیں۔

وہ ایک امی کہ ہر دانش کو چمکاتا ہوا آیا

وہ ایک دامان بخشش پھول برساتا ہوا آیا

وہ ایک عظمت کہ مظلوموں کے چہرے پر دمک اٹھی

وہ اک بندہ کہ سلطانوں کو ٹھکراتا ہوا آیا

یوم میلاد مصطفی ﷺ : انسانی حقوق کی بحالی کا دن

یوم میلاد مصطفی ﷺ کو یوم تشکر کے طور پر بھی منانا چاہیے۔ اس لیے کہ اسی دن عالمی انقلاب کی کرنیں پھوٹیں جس نے غلام اور آقا کی غیر انسانی تفریق ختم کردی۔ یہی وہ تاریخی انقلاب تھا جس نے انسانیت کو حقیقی عزت و آبرو بخشی۔ جانوروں سے بدتر زندگی بسر کرنے والے غلاموں کو وہ جرات اور حوصلہ دیا کہ وہ اپنے آقاؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا حق لینے کے قابل ہوگئے۔ اسی انقلابی قیادت نے بلال و بابر جیسے حبشی غلاموں کو قریشی سرداروں کا آقا بنادیا اور ان کے ہاتھوں میں عظمت اسلام کا پرچم تھماکر کعبہ کی چھت پر کھڑا کرکے تمام نسلی غرور اور نسبی بڑائی کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا۔

اسی خلق عظیم کا معجزہ تھا کہ تباہی کے دھانے پر پہنچی ہوئی قوم، بات بات پر تلواریں بے نیام کرنے والی قوم، بچیوں کو زندہ درگور کرنے والی قوم، تمام دنیا کی ھادی و رہبر بن گئی۔ آپ ﷺ نے عورت کے حقوق و مقام کو بلند کیا، ماں کے روپ میں جنت اس کے قدموں میں رکھ دی۔ چنانچہ یوم میلاد النبی ﷺ انسانی حقوق کی بحالی، انسانی عظمتوں اور انسانی اعلیٰ قدروں کی سربلندی کا دن ہے۔

یوم میلاد مصطفی ﷺ : یوم نجات

اس دن انسانی حقوق کی بے دردی سے پامالی اور اخلاقی قدروں کی پامالی سے بچانے والا انسانیت کا نجات دہندہ دنیامیں آچکا تھا۔ جس نے آکر انسانیت کو شرک، ظلم، غلامی کی زنجیروں،شیطان اور طاغوت کے ہتھکنڈوں اور جھوٹے خداؤں کی اذیت ناک خدائی، بے حیائی اور برائی سے نجات دی۔ جن کی آمد سے راہرو، راہبر بن گئے، بت پرست بن شکن بن گئے، بے حیاؤں کو غیرت کا شعور میسر آگیا، دشمن، دوست بن گئے، بیماروں کو شفا مل گئی، بے سہاروں کو سہارا مل گیا، یتیموں کو ماویٰ مل گیا، بیواؤں کو ملجا مل گیا، غلاموں کو آقا مل گیا، اخلاق و شرافت کی دھجیاں بکھرنے والے رفعت کردار کا نمونہ بن گئے۔ یوم میلاد النبی ﷺ دراصل اس انقلاب کی صبح نو تھی جس نے انسانیت کے دامن سے درندگی کے بدنما دھبوں کو دھویا اور اسے رحمت و رافت کے سدابہار پھولوں سے بھر دیا۔ آپ ﷺ دکھی انسانیت کے لیے نوید مسیحا بن کر آئے تھے۔ آپ کا روشن کردار وقت کے فرعونوں کے لیے ضرب کلیمی اور آپ کا اسوہ زمانے بھر کے حق پرستوں کی بے پناہ قوت ایمانی کا باعث تھا۔

یوم میلاد مصطفی ﷺ : انسانی اقدار اور سربلندی کا دن

یوم میلاد النبی ﷺ وہ دن ہے جس میں وہ عظیم محسن انسانیت تشریف لائے جنھوں نے انسانوں کو نسلی، لسانی، ذات پات، رنگ و نسل کے غرور کو مٹاکر مساوات کا درس دیا۔ فرمایا تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں سوائے تقویٰ کے۔ یومِ میلادِ مصطفی ﷺ کا عملی تقاضا یہ ہے کہ بحیثیت امت ہم انسانی مساوات، عدل و انصاف کےلیے بین الاقوامی سطح پر اپنا کردار اداکریں۔

یومِ میلادِ مصطفی ﷺ : مواخات اسلامی کا دن

یوم میلاد مصطفی ہمیں مواخات مدینہ کی یاد دلاتا ہے کہ جس رسول ﷺ کی ہم امت ہیں اس نے کس طرح مدینہ کے انصار اور مہاجرین کو بھائی چارے اور اخوت و محبت کی لڑی میں پرودیا تھا۔ ہمیں بھی آج پندرہ سو ویں اس جشن میلاد النبی کو کماحقہ اس طرح منانا ہوگا کہ ایثار و قربانی، دیانتداری اور باہمی پیار و الفت کو اپنا کر فرقہ واریت اور آپس کے جھگڑوں کو ختم کرکے اتحاد امت کو فروغ دینا ہوگا۔ تاکہ ہم اپنی قومی و ملی، خود انحصاری کی منزل کو جلد پاسکیں۔

یومِ میلادِ مصطفی ﷺ : یوم تجدید عہد وفا

جن کا مشن، جن کی نبوت و رسالت کا فریضہ دین حق کی سربلندی اور غلبہ دین حق قرار پایا جن کی امت، امتِ دعوت قرار پائی، ان عظیم نبی محتشم، رسول حق ﷺ کا امتی ہونے کے ناطے ان کے یوم میلاد پر جتنی بھی خوشیاں منائیں کم ہیں، جتنا شکر بارگاہ خدا میں بجا لائیں کم ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں آپ کی بعثت مبارکہ کے عظیم مشن، فرائض، آپ ﷺ کی تعلیمات کے فروغ اور آپ ﷺ کے اخلاق کو اپناتے ہوئے اسوہ حسنہ پر عمل کرکے حضور ﷺ کے ساتھ اپنے عہد و وفا کی تجدید کرنا ہوگی۔ ؎ آؤ کہ حضور سے عہد وفا کریں۔

یہی صحیح معنوں میں کماحقہ میلاد النبی ﷺ کا جشن منانے کا طریقہ ہے۔