حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ تمام انسانیت کے لیے رہنمائی کا بہترین ذریعہ اور کامل نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
’’ اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔‘‘
(الانبیاء، 21: 107)
آپ ﷺ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک نمایاں اور عظیم صفت اپنی اُمت کے لیے بے مثال محبت، شفقت، اور فکرمندی ہے۔ بعثت کے آغاز سے لے کر وصال مبارک تک، نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی انسانیت کی ہدایت، نجات اور فلاح کے لیے وقف تھی۔ یہ مضمون حضور نبی اکرم ﷺ کی اپنی اُمت کے لیے محبت اور فکرمندی کو اجاگر کرتا ہے، اور ان مختلف انداز و مظاہر کا جائزہ لیتا ہے جن کے ذریعے آپ ﷺ نے اس محبت کا اظہارفرمایا۔مزید برآں، یہ مضمون اس امر کی وضاحت بھی کرتا ہے کہ بطور اُمتی ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی اپنی اُمت کے لیے بے مثال فکر و شفقت
1۔ قرآن مجید میں آپ ﷺ کی اُمت کے لیے فکر مندی کا بیان
قرآنِ حکیم حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کے ساتھ گہری شفقت اور ہمدردی پر گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ.
(التوبہ، 9: 128)
’’ بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول( ﷺ ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔‘‘
یہ آیت کریمہ نبی اکرم ﷺ کی اپنی اُمت سے بے مثال محبت، درد مندی اور ہمدردی کو ظاہر کرتی ہے۔ اُمت کی تکالیف آپ ﷺ کے قلبِ انور کو دکھ دیتی تھیں، امت کی ہدایت آپ ﷺ کا مشن تھا، اور اُن کی دنیا و آخرت کی کامیابی آپ ﷺ کی سب سے بڑی آرزو تھی۔
2۔آپ ﷺ کے آنسو اور امت کے حق میں دعائیں
حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی پوری زندگی اُمت کے لیے درد، محبت اور خیرخواہی میں بسر فرمائی۔ آپ ﷺ کی راتیں اپنی اُمت کے لیے گریہ و زاری اور دعاؤں میں بسر ہوتیں۔ جس کی چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:
• حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا پڑھی:
فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْ ۚ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
(ابراہیم، 14: 36)
’’پس جس نے میری پیروی کی وہ تو میرا ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی تو بیشک تُو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘
آقاe نے حضرت عیسیٰeکی یہ دعا بھی تلاوت فرمائی:
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ.
(المائدہ، 5: 118)
’’اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک بلند کیے اور شدتِ گریہ سے فرمایا: ’’اے اللہ! میری اُمت، میری اُمت‘‘! اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے فرمایا: جاؤ اور میرے محبوب سے پوچھو کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘جبریل علیہ السلام آئے، حال پوچھا اور واپس جا کر بتایا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ہم آپ کو آپ کی اُمت کے بارے میں راضی کر دیں گے اور ہرگز آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے۔‘‘
(صحیح مسلم )
• یہ روایات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ حضور ﷺ کی تمام تر فکریں، دعائیں اور آنسو صرف اور صرف اپنی اُمت کی بھلائی اور نجات کے لیے تھے۔
1۔روزِ قیامت سے متعلق فکر مندی
• رحمتِ دو عالم، حضور نبی اکرم ﷺ کی اپنی امت کے لیے شفقت و عنایت صرف دنیوی زندگی تک محدود نہ تھی، بلکہ آخرت میں بھی آپ ﷺ کی امت کے لیے آپ کا اضطراب، محبت اور شفاعت کا جذبہ روزِ قیامت جلوہ گر ہوگا۔ یہ ابدی فکر اُس روز شفاعتِ کبریٰ کی صورت میں ظاہر ہوگی آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر نبی کی (اپنی امت کے سلسلے میں) ایک دعا ہوتی ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے، تو ہر نبی نے جلدی سے دنیا ہی میں اپنی دعا پوری کر لی، اور میں نے اپنی دعا کو چھپا کر اپنی امت کی شفاعت کے لیے رکھ چھوڑا ہے، تو میری شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہو گی جو اس حال میں مرا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا رہا۔‘‘
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
آپ ﷺ کی محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ قیامت کے دن اس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گے جب تک آپ ﷺ کا آخری امتی بھی جنت میں داخل نہ ہو جائے۔
2۔آخری لمحات میں بھی اُمت کی فکر
حضور نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ اپنی اُمت کے لیے خیر خواہی اور محبت سے لبریز تھا، اور یہ کیفیت آپ ﷺ کے وصال کے آخری لمحات تک برقرار رہی۔ آپ ﷺ کا دل اپنی اُمت کی حالت پر ہمہ وقت مضطرب رہتا، اور وقتِ رخصت بھی اُمت کی بھلائی ہی آپ ﷺ کی زبان پر جاری تھی۔
• آپ ﷺ کے آخری ارشادات میں یہ الفاظ شامل تھے:
’’نماز، نماز! اور اپنے زیرِ کفالت (غلاموں) کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
(سنن ابی داؤد)
• حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں: ’’حضور ﷺ اپنی وفات کی بیماری میں پانی میں ہاتھ ڈالتے اور چہرے پر ملتے، اور فرماتے: ’اے اللہ! موت کی سختیوں پر میری مدد فرما۔‘ پھر فرماتے: ’اے اللہ! میری اُمت، میری اُمت۔‘‘
(سنن ابن ماجہ)
دعوتی زندگی میں اُمت کی فکر کا مظہر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو ان کی امت کے لیے گہری فکر کا مظہر ہے:
تبلیغ وحی کے ذریعے امت کی ہدایت کے لیے کاوشیں
آپ ﷺ نے قرآن مجید کو انتہائی وضاحت، اخلاص اور امانت کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا تاکہ کوئی فرد ہدایت سے محروم نہ رہے۔
عملی نمونہ
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر تم ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: اللہ کی کتاب اور میری سنت۔‘‘
(موطا امام مالک، مستدرک حاکم)
تنبیہ و نصیحت
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی اور پتنگے اور پروانے اس میں گرنے لگے اور یہ شخص انہیں اس سے ہٹا رہا ہے۔ اسی طرح میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ میں گرنے سے بچا رہا ہوں لیکن تم میرے ہاتھوں سے نکلے جاتے ہو۔‘‘
(بخاری، مسلم)
یہ حدیثِ مبارکہ حضور ﷺ کی مسلسل تگ و دو، دلی تڑپ اور اخلاص کو واضح کرتی ہے کہ کس طرح آپ ﷺ اُمت کو تباہی سے بچانے کے لیے دن رات کوشاں رہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کے لیے فکر — ہماری ذمہ داریاں
حضور نبی کریم ﷺ کی اُمت کے لیے بے مثال محبت اور فکر ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے ادا کریں، اور آپ ﷺ کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں:
1۔سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جس نے میری سنت کو زندہ کیا، اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘
(ترمذی)
2۔نفع بخشی کا ذریعہ بننا
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ کے نزدیک سب سے محبوب لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہوں۔‘‘
(طبرانی)
3۔ اللہ کے ذکر، خصوصاً نماز سے وابستگی
آپ ﷺ کی زندگی کی آخری وصیت تھی:
الصلاۃ، الصلاۃ
نماز کو ترک کرنا گویا آپ ﷺ کی سب سے بڑی فکر کو نظرانداز کرنا ہے۔
4۔دین کا پیغام آگے پہنچانا
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میری طرف سے پہنچاؤ، خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
(بخاری)
آج کے مسلم نوجوانوں کے لیے سبق
حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کے لیے فکر و محبت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے ایمان کو زندہ رکھیں اور دینِ اسلام کو اپنی زندگی کا حقیقی محور بنائیں۔ آج کے نوجوانوں کے لیے یہ اسباق نہایت اہم ہیں:
1. انفرادی اور معاشرتی زندگی میں اسلام کے حقیقی تصورکو زندہ کرنا
2. ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور عدل و انصاف کو فروغ دینا
3. ثقافتوں اور قوموں کے درمیان اخوت کو مضبوط کرنا
4. نئی نسل کی تربیت قرآن و سنت کی بنیاد پر کرنا
5. انسانیت کی خدمت کرنا
حاصلِ کلام
حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی پوری زندگی اور آخری لمحات اُمت کے لیے بے پایاں محبت اور گہری فکر کے ساتھ گزارے۔ آپ ﷺ کی دعائیں، آپ کے آنسو، آپ کی تنبیہات اور آپ کی قربانیاں اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ آپ کی اُمت سے محبت بے مثال اور بے نظیر تھی۔
اب ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس محبت کا حق اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بن کر، سنتِ نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہو کر، آپس میں اتحاد قائم رکھ کر، اور تمام مخلوقِ خدا کے ساتھ شفقت و رحمت کا سلوک کرتے ہوئے ادا کریں آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
(بخاری، مسلم)
لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ آپ ﷺ کے مشن کو آگے بڑھانے اور دینِ اسلام کی سربلندی میں اپنا کردار ادا کرے۔
اگر ہم آپ ﷺ کی محبت پر غور کریں تو یہ حقیقت ہم پر واضح ہو جائے گی کہ آپ کی تعلیمات پر عمل کرنا صرف ایک فریضہ نہیں بلکہ شکر گزاری کا سب سے اعلیٰ اور حسین اظہار ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو روزِ قیامت حضور نبی اکرم ﷺ کے قلبِ اطہر کیلئے باعثِ راحت ہوں اور آپ کی شفاعت کے مستحق بنیں۔ آمین۔