سمیہ اسلام

دنیا کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ امن و سکون انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جس معاشرے میں امن قائم ہو، وہاں علم و ہنر پروان چڑھتے ہیں، معیشت ترقی کرتی ہے، اور انسان باوقار زندگی گزارتا ہے۔ لیکن جہاں ظلم و جبر اور جنگ کا راج ہو، وہاں انسانیت پستی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے ہر سال 21 ستمبر کو عالمی یومِ امن (International Day of Peace) منایا جاتا ہے تاکہ دنیا کو یاد دلایا جا سکے کہ امن کے بغیر ترقی و خوشحالی ممکن نہیں۔اس دن کا مقصد یہ پیغام عام کرنا ہے کہ انسانیت جنگ، نفرت، اور دہشت گردی سے ہٹ کر امن، محبت، اور برداشت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔ امن کے بغیر نہ معاشرہ ترقی کر سکتا ہے، نہ انسان سکون پا سکتا ہے، اور نہ ہی اقوام اپنی بقا قائم رکھ سکتی ہیں۔

اقوامِ متحدہ نے اس دن کو ایک ایسا موقع قرار دیا ہے جس میں دنیا بھر کے لوگ جنگ بندی، مصالحت اور امن کے فروغ کے لیے اجتماعی کوششوں کا عہد کرتے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ محض ایک دن منانے سے دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک ہم ان ہستیوں کی تعلیمات پر عمل نہ کریں جو حقیقی داعیانِ امن ہیں۔ اور سب سے روشن، کامل اور بے مثال داعیِ امن ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔امن کے سب سے بڑے داعی اور کامل نمونہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا ہر پہلو امن و محبت، عفو و درگزر اور انسانی ہمدردی کا عملی نمونہ ہے۔

قرآنِ مجید بارہا امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے سورۃ یونس کی آیت نمبر 25 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ.

اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی امن و محبت کا پیغام ملتا ہےحضور ﷺ نےفرمایا:

المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده

 (صحیح بخاری و مسلم)

مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔

ایک اور موقع پر فرمایا:

أَفْشُوا السَّلاَمَ بَيْنَكُمْ

(صحیح مسلم)

ترجمہ: آپس میں سلام کو عام کرو۔

آقاعلیہ السلام بطور داعی امن

1۔ مکہ مکرمہ میں ظلم و ستم کے باوجود صبر اور امن کا راستہ

جب آپ ﷺ نے دعوتِ حق کا آغاز کیا تو قریش مکہ نے آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے۔ کبھی آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، کبھی آپ کی پشت مبارک پر اوجڑی پھینکی گئی، کبھی آپ کو سخت طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا۔ آپ کے صحابہؓ کو بھی بدترین اذیتیں دی گئیں، جن میں حضرت بلال حبشیؓ کو تپتی ریت پر گھسیٹنا اور ام عمارہؓ کے شوہر اور بیٹے پر ظلم ڈھانا شامل ہے۔لیکن ان سب مظالم کے باوجود حضور اکرم ﷺ نے کبھی انتقام یا تشدد کی راہ اختیار نہیں کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

إني لم أبعث لعانًا وإنما بعثت رحمةً.

مجھے لعنت کرنے والا نہیں بلکہ رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے

یہ صبر و امن کی تعلیم آپ ﷺ کی سیرت کا بنیادی پہلو ہے۔

2۔ واقعہ طائف میں ہدایت کی دعا

جب مکہ کے لوگ اسلام قبول نہ کر سکے تو آپ ﷺ طائف تشریف لے گئے تاکہ وہاں کے لوگ دعوتِ حق قبول کریں۔ لیکن وہاں کے سرداروں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ اوباش لڑکوں کو آپ پر پتھر برسانے کے لیے بھیجا۔ آپ ﷺ لہولہان ہو گئے اور مجبوراً ایک باغ میں پناہ لی۔اس وقت فرشتہ حاضر ہوا اور کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں ان پہاڑوں کو ملا کر طائف کے لوگوں کو تباہ کر دوں۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے‘‘۔یہ انسانیت کے لیے امن و رحمت کی سب سے بڑی مثال ہے۔

3۔ میثاقِ مدینہ – پہلا تحریری معاہدۂ امن

مدینہ منورہ ہجرت کے بعد آپ ﷺ نے ایک ایسا معاہدہ مرتب کیا جسے دنیا کا پہلا ’’تحریری آئین‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس میں مدینہ کے مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر قبائل کو برابر کے شہری تسلیم کیا گیا،سب کو مذہبی آزادی دی گئی، سب کو جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دی گئی،کسی پر جبر یا زیادتی کی اجازت نہ تھی،دشمن کے حملے کی صورت میں سب کا مل کر شہر کا دفاع کرنا بھی مذکورہ معاہدے کا حصہ تھا۔یہ معاہدہ آج کے جدید آئین اور انسانی حقوق کے چارٹر سے کہیں زیادہ منصفانہ اور پرامن تھا۔

4۔ فتح مکہ پر عام معافی

آٹھ ہجری میں جب مسلمان فاتح کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو قریش اس سوچ میں تھے کہ آج انہیں بدترین انتقام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن نبی اکرم ﷺ نے اہل مکہ کو جمع کر کے فرمایا: تم کیا سمجھتے ہو کہ میں آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟انہوں نے جواب دیا: آپ ہمارے کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ، تم سب آزاد ہو۔یہ تاریخ کا وہ عظیم لمحہ تھا جب دنیا نے امن و معافی کا ایسا منظر دیکھا جو آج تک کوئی فاتح پیش نہ کر سکا۔

5۔ خطبہ حجۃ الوداع – امن، مساوات اور انسانی حقوق کا منشور

10 ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کے مجمع میں تاریخی خطبہ دیا۔ اس خطبہ میں آپ ﷺ نے انسانیت کو وہ اصول دیے جو قیامت تک امن و عدل کی ضمانت ہیں:

• "تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر حرام ہے۔"

• "کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں، فضیلت صرف تقویٰ میں ہے۔"

• "عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو کیونکہ وہ تمہارے پاس اللہ کی امانت ہیں۔"

• "سود ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا گیا ہے۔"

یہ خطبہ دراصل امن، انسانی مساوات، خواتین کے حقوق اور معاشی انصاف کا عالمی منشور ہے جسے آج اقوام متحدہ کے چارٹر سے بھی بڑھ کر اہمیت حاصل ہے۔یہ پانچوں واقعات حضور اکرم ﷺ کو سب سے بڑا داعیِ امن ثابت کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کی سیرت اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اسلام امن، محبت، رواداری اور انسانی احترام کا دین ہے۔

عصرِ حاضر میں امن کی ضرورت

آج کا دور جدید ایجادات اور ترقی کے باوجود بے شمار بحرانوں کا شکار ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت، جنگیں، معاشی ناہمواری، اور طاقت کے حصول کی دوڑ نے دنیا کو بدامنی اور خوف کی آگ میں جھونک رکھا ہے۔ ایک طرف ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ ہے تو دوسری طرف بھوک اور غربت سے بلکنے والی انسانیت۔ دنیا کے کئی خطے جنگ کی لپیٹ میں ہیں، جہاں معصوم جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور بستیاں اجڑ رہی ہیں۔ ایسے حالات میں امن کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے تاکہ نسلِ انسانی محفوظ اور خوشحال مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔

امن صرف کسی ایک ملک یا قوم کی ضرورت نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کی مشترکہ ضرورت ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں اگر ظلم و بربریت کا بازار گرم ہو تو اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑتے ہیں۔ مہاجرین کے مسائل، عالمی معیشت پر دباؤ، دہشت گردی کا پھیلاؤ اور انتہا پسندی کے رجحانات اس بات کے ثبوت ہیں کہ دنیا کے ایک حصے کا عدم استحکام باقی دنیا کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس لیے عالمی سطح پر رواداری، مکالمہ، اور باہمی احترام کو فروغ دینا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

اسلام کا پیغام اس تناظر میں انسانیت کے لیے روشنی کی کرن ہے۔ قرآن مجید اور سیرتِ رسول ﷺ ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ اصل ترقی امن کے بغیر ممکن نہیں۔ علم، معیشت، تعلیم اور صحت جیسے شعبے اسی وقت ترقی کر سکتے ہیں جب معاشرہ امن اور سکون کی فضا میں پروان چڑھے۔ لہٰذا آج دنیا کو اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اسلام کے حقیقی پیغام یعنی محبت، اخوت اور امن کو اپنائے اور نفرت، انتقام اور ظلم کو ختم کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جو دنیا کو تباہی سے بچا کر خوشحالی اور سکون کی طرف لے جا سکتا ہے۔آج دنیا دہشت گردی، جنگوں، فرقہ واریت اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے کمزور قوموں سے جینے کا حق سلب کر رہی ہیں۔ ایسے حالات میں عالمی یومِ امن کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات سے رہنمائی لے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور امن کی خدمات

عصرِ حاضر میں اگر کسی عالمِ دین نے امن و محبت کے پیغام کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں اجاگر کیا ہے تو وہ تحریک منہاج القرآن کے بانی، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے ہمیشہ یہ واضح کیا ہے کہ اسلام دہشت گردی اور انتہاپسندی کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے 600 سے زائد کتب تصنیف کیں جن میں کئی کتب کا تعلق امن، محبت، بین المذاہب رواداری اور انسانی حقوق سے ہے۔ ان کی شہرہ آفاق تصنیف Fatwa on Terrorism and Suicide Bombings نے عالمی سطح پر یہ ثابت کیا کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے بین المذاہب مکالمے کو فروغ دیا اور اسلام کے امن پسند چہرے کو اجاگر کیا۔منہاج القرآن انٹرنیشنل کے تحت دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں ان کے مراکز قائم ہیں جو امن کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔21 ستمبر کا عالمی یومِ امن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیا کو حقیقی سکون اور سلامتی صرف اُس ہستی کی تعلیمات سے مل سکتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا، یعنی نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ۔ اسی پیغام کو آج کے دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے عملی طور پر دنیا کے سامنے رکھا ہے اور اسلام کو امن، محبت اور رواداری کا دین ثابت کیا ہے۔