مصنف اور کتاب کا تعارف
ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایک ممتاز اسلامی اسکالر، فقیہ، اور کثیر التصانیف مصنف ہیں جنہوں نے اسلامی علوم کے مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ آپ نے روایتی اسلامی تعلیمات اور عصرِ حاضر کے چیلنجز کے درمیان ایک علمی و فکری ہم آہنگی قائم کی ہے، جس کی بدولت آپ کو عالمِ اسلام میں وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ آپ تحریک منہاج القرآن کے بانی ہیں اور مختلف موضوعات پر ہزار سے زائد کتب تصنیف کر چکے ہیں۔
آپ کی اہم تصانیف میں سے ایک کتاب "میلاد النبی ﷺ " ہے، جس میں آپ نے نبی اکرم ﷺ کی ولادت کی خوشی منانے کے جواز، بنیاد اور باعثِ اجر و ثواب ہونے کو قرآن، حدیث اور ائمہ و علما کی روایات کی روشنی میں نہایت مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ کتاب واضح کرتی ہے کہ میلاد منانا نہ صرف جائز اور مستحسن عمل ہے بلکہ ایمان میں اضافے کا باعث بھی ہے۔
جشنِ میلاد النبی ﷺ بدعت یا اسلامی عمل؟
ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے مؤقف کی ابتدا اُس بنیادی اعتراض کے جواب سے کرتے ہیں جو بعض حلقوں کی جانب سے نبی اکرم ﷺ کی ولادت کا جشن منانے کو بدعت قرار دے کر کیا جاتا ہے۔ آپ نے مدلل اور تحقیقی انداز میں قرآن، سنت اور اجماعِ اُمت کی روشنی میں یہ واضح کیا کہ حضور ﷺ کی ولادتِ باسعادت کا جشن منانا نہ صرف جائز ہے بلکہ دینی و روحانی لحاظ سے مستند اور با برکت عمل بھی ہے۔
قرآنِ مجید کی روشنی میں
قرآنِ مجید میں ذکر (یاد منانے)کی مختلف اقسام کا بیان آیا ہے، جن میں انبیائے کرام کے حالاتِ زندگی اور اللہ تعالیٰ کے عظیم فضل و انعام والے دنوں کی یاد کو نصیحت اور روحانی بیداری کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
انہیں اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ۔
’’جو ان پر اور پہلی امتوں پر آچکے تھے۔ ‘‘
(ابراہیم، 14: 5)
یعنی وہ ایّام جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت، نصرت یا ہدایت عطا فرمائی۔
سرکارِ دوعالَم ﷺ کا یومِ ولادت ان ہی "ایّام اللہ" میں سب سے برتر اور مقدس دن ہے۔ اللہ رب العزت نے مومنوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی رحمت اور فضل پر خوشیاں منائیں:
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ.
(یونس، 10: 58)
’’فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔ ‘‘
نبی اکرم ﷺ اللہ کی رحمتِ کاملہ کا مظہرِ اتم ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
’’اور (اے محبوب!) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔‘‘
(الانبیاء، 21: 107)
لہٰذا، حضور ﷺ کی ولادت پر خوشی منانا اور جشن منانا براہِ راست قرآنی احکامات کے مطابق عمل اور اللہ کی رحمت پر شکر و مسرت کا اظہار ہے۔
حدیث مبارکہ کی روشنی میں
اس کتاب میں متعدد تاریخی واقعات کا حوالہ پیش کیا گیا ہے جہاں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ اور سلف صالحین نے آپ ﷺ کی ولادت باسعادت کا جشن منایا۔
صحیح مسلم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن روزہ رکھتے تھے اور جب آپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسی روز میری ولادت ہوئی۔
اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے یوم ولادت کی اہمیت کا خود اعتراف کرنا ظاہر ہوتا ہے۔
صحیح بخاری: مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر انصار نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے گیت گائے۔ یہ اہم واقعات پر اجتماعی جشن کا ایک اور ثبوت ہے۔
کیا میلاد النبی ﷺ منانے کی بنیاد قرونِ اولیٰ میں موجود ہے؟
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی اس تصنیف میں وضاحت کرتے ہیں کہ اگرچہ آج کے دور کی طے شدہ سالانہ میلاد کی شکل ابتدائی صدیوں میں موجود نہ تھی، لیکن اس کے تمام اجزاء — جیسے اجتماعات، ذکر، نعت خوانی، اور کھانے کھلانا — نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی زندگی سے ثابت شدہ ہیں۔
نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ: میلاد کا ذکر اور اجتماعات منعقد کرنا
• نبی اکرم ﷺ نے مدینہ کے لوگوں کو جمع کر کے عوامی اجتماعات میں اپنے نسب، ولادت اور بعثت کا ذکر فرمایا۔
• صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی مدح میں کہی گئی شاعری کو سراہا، جن میں حسان بن ثابتؓ اور کعبؓ بن زہیرؓ کے اشعار شامل ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے کعب بن زہیرؓ کو اُن کی مشہور نعتیہ نظم "بانت سعاد" پر اپنی چادرِ مبارک بطور انعام عطا فرمائی۔
حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ (چچا رسول ﷺ ) نے ایک طویل نظم میں نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کا ذکر کیا، جس پر حضور ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی۔
انصار کی عورتوں نے نبی کریم ﷺ کی مدینہ آمد پر خوشی سے نعتیں پڑھ کر اُن کا استقبال کیا۔
جشن میلادالنبی ﷺ ائمہ و محدثین کی نظر میں
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ، حنبلی محدث و واعظ، جنہوں نے 159 سے زائد کتب تصنیف کیں، میلاد النبی ﷺ پر دو اہم کتابیں ’’بیان المیلاد النبوی‘‘ اور ’’مولد العروس‘‘ تحریر کیں۔
امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ، جن کی تصانیف کی تعداد تقریباً 700 ہے، نے میلاد النبی ﷺ کے جواز پر مشہور رسالہ ’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ تحریر کیا، جو الحاوی للفتاوی میں بھی شامل ہے۔
• ملا علی قاری رحمہ اللہ، جلیل القدر محدث و فقیہ، نے میلاد النبی ﷺ پر اپنی کتاب ’’المورد الروی فی مولد النبوی ﷺ ‘‘ و نسبہ الطاہر میں علما کے اقوال اور مختلف اسلامی ممالک میں میلاد کی تقاریب کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔
• مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ، معروف دیوبندی عالم، نے اپنی سیرت کی کتاب نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب ﷺ میں تخلیقِ نورِ محمدی ﷺ اور ولادتِ نبوی کے واقعات تفصیل سے بیان کیے اور طریقۂ مولود بھی مرتب کیا۔
اپنی اس معرکہ الآرا تصنیف میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ایک سو سولہ (116) اَئمہ و شیوخ کی ایک سو پچیس (125) سے زائد تالیفات و شروحات کا ذکر کیا ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے میلاد ناموں اور واقعاتِ ولادت کے قصص پر مشتمل ہیں۔
بلاد اسلامیہ میں جشن میلادالنبی ﷺ کی تاریخ
• امام ابن الجوزیؒ نے بیان کیا کہ عرب دنیا کے مسلمان طویل عرصے سے ربیع الاول میں خوشی و مسرت کے ساتھ میلاد النبی ﷺ مناتے آئے ہیں اور اس میں شرکت باعث اجر پ و ثواب ہے۔
• حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے عاشورہ کی حدیث سے قیاس کرتے ہوئے میلاد منانے کو اللہ کے احسان پر شکر کے طور پر جائز و مستحسن قرار دیا، اور فرمایا کہ نعت، صدقہ و تلاوت جیسے اعمال کے ذریعے میلاد منانا خواہ مخصوص دن ہو یا کوئی اور دن، باعثِ برکت ہے۔
• شاہ ابوسعید المظفر (جو عظیم فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی تھے)کے دور میں میلاد النبی ﷺ سرکاری سطح پر منایا جاتا تھا، جہاں علما، صوفیا اور عوام کی عظیم الشان محافل منعقد کی جاتیں۔
• امام نووی، ابن حجر عسقلانی، شمس الدین جزری اور سخاوی جیسے جلیل القدر علما نے میلاد کی تقریبات کو تقربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دے کر سراہا ہے۔
جشن میلادالنبی ﷺ کے اجزائے تشکیلی
مندرجہ بالا تفصیلی دلائل کے ساتھ، میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے اَجزائے تشکیلی اور اِس کے اندر ہونے والی ایمان افروز اور روح پرور سرگرمیوں کو درجِ ذیل عنوانات کے تحت بیان کیا ہے:
i۔ مجالس و اِجتماعات کا اِہتمام
حضور نبی اکرم ﷺ نے خود بھی صحابہ کرام کو جمع فرما کر اپنی فضیلتوں اور اپنی بعثت کے مقصد کا ذکر فرمایا۔ احادیث کی روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی پیدائش اور تخلیق کا واقعہ خصوصاً اپنے چچا حضرت عباسؓ اور دیگر صحابہ کے ساتھ بیان فرمایا۔
ii۔بیانِ سیرت و فضائلِ رسول ﷺ
ان مجالس میں حضور ﷺ کی سیرتِ مطہرہ کے درج ذیل پہلو بیان کیے جاتے ہیں:
• سیرت النبی ﷺ — حضور ﷺ کی زندگی کے حالات و واقعات
• تذکارِ خصائلِ مصطفیٰ ﷺ — آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق و کردار
• تذکارِ خصائص و فضائلِ مصطفیٰ ﷺ — نبی اکرم ﷺ کی مخصوص و منفرد صفات
• ذکرِ وِلادت اور روحانی آثار و علائم کا تذکرہ— آپ ﷺ کی ولادت کے وقت ظاہر ہونے والی نشانیاں
iii۔مدحت و نعتِ رسول ﷺ
حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں خود نعتیہ اشعار سنے۔ آپ ﷺ کے سامنے نعت خوانی کرنے والوں میں شامل تھے:
1. حضرت حسان بن ثابتؓ
2. حضرت کعب بن زہیرؓ
3. حضرت عبداللہ بن رواحہؓ
4. حضرت انسؓ اور دیگر صحابہؓ
حتیٰ کہ جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو انصار کی کم سن بچیوں نے دف کے ساتھ نعتیہ اشعار پیش کیے۔
iv۔صلوٰۃ و سلام
قرآن و حدیث میں حضور نبی اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا صریح حکم موجود ہے:
’’بیشک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ ‘‘
(الاحزاب، 33: 56)
کتبِ احادیث میں یہ بات بھی واضح طور پر بیان ہوئی ہے کہ نبی کریم ﷺ اُمت کے درود و سلام کو سنتے ہیں اور اس کا جواب بھی عطا فرماتے ہیں۔
v۔قیام
جشنِ میلاد النبی ﷺ میں اکثر جس چیز پر اعتراض کیا جاتا ہے، وہ "قیام" (احتراماً کھڑا ہونا) ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری اس بارے میں وضاحت کرتے ہیں:
• قیام عبادت نہیں، بلکہ محبت، ادب اور خوشی کے اظہار کا ایک انداز ہے۔
• صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی نبی کریم ﷺ کے لیے متعدد مواقع پر ادباً کھڑے ہوتے تھے۔
• قیام کی مختلف اقسام میں شامل ہیں:
o قیامِ تعظیم
o قیامِ محبت
o قیامِ مسرت
o قیامِ ذکر و یادگار
یہ عمل محض عقیدت و احترام کے اظہار کا طریقہ ہے، نہ کہ بدعت یا عبادت۔
vi۔اِہتمامِ چراغاں
یہ عمل ابتدائی میلاد کی محافل میں مکہ مکرمہ میں رائج تھا۔ روشنی اور چراغاں ہدایت کی علامت ہے، اور نبی اکرم ﷺ کو قرآن میں ’’سِرَاجًا مُّنِیْرًا‘‘ (روشن چراغ) فرمایا گیا ہے۔
vii۔ اِطعام الطعام (کھانا کھلانا)
قرآن مجید اور متعدد احادیث میں مہمان نوازی اور دوسروں کو کھانا کھلانے کو باعثِ اجر عمل قرار دیا گیا ہے، اور جب یہ عمل حضور نبی کریم ﷺ کی یاد میں کیا جائے تو اس کی برکت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
viii۔جلوسِ میلاد
جب تک میلاد کی محافل پُرامن، غیر شرعی افعال سے پاک، اور حضور نبی کریم ﷺ کے ادب و احترام کو ملحوظِ خاطر رکھیں، تب تک یہ محافل جائز ہی نہیں بلکہ مفید اور باعثِ برکت ہیں۔
میلاد النبی ﷺ کو درست انداز میں منانے کے لیے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تجاویز
• میلاد النبی ﷺ منانے کا مرکز و محورعلم، محبت اور ادب ہو۔
• اس میں تلاوتِ قرآن، احادیثِ نبوی، اور سیرتِ طیبہ کا بیان شامل ہو۔
• نعت خوانی، صلوٰۃ و سلام اور دعا کا اہتمام ہو۔
• اسراف، غیر شرعی اختلاط یا ناجائز کاموں سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
• معاشرتی بھلائی جیسے غریبوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی جائے۔
وہ واضح کرتے ہیں کہ میلاد صرف ظاہری خوشی کا نام نہیں، بلکہ یہ روحانی بیداری، نبی کریم ﷺ سے تعلقِ محبت کی تجدید، اور اُن کے پیغام کی تجدیدِ عہد ہے۔
اختتامی کلمات
"میلاد النبی ﷺ " از ڈاکٹر طاہرالقادری ایک عظیم علمی کاوش ہے جس میں مصنف نے قرآنِ مجید، حدیثِ مبارکہ اور معتبر ائمہ و محدثین کے اقوال کی روشنی میں میلادِ مصطفیٰ ﷺ سے متعلق پائے جانے والے شکوک و شبہات اور اعتراضات کا رد کیا، اور یہ ثابت کیا کہ میلاد النبی ﷺ منانا کوئی بے بنیاد تصور نہیں بلکہ یہ ایک اسلامی روایت ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ مبارک سے جاری ہے۔ مصنف کا مؤقف ہے کہ میلاد النبی ﷺ کو "بدعت" قرار دینا اکثر غلط فہمی یا اسلامی تاریخ اور فقہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ قرآن، سنت اور ائمہ و علماء کی آراء اس عمل کی جوازیت کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔یہ کتاب ہمیں یاد دلاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے محبت صرف زبانی دعوے کا نام نہیں، بلکہ اُن کی سیرت، علم، اخلاق، اور اُن کے راستے سے عملی وابستگی کا تقاضا ہے۔