سیرتِ مصطفی ﷺ انسانیت کے لیے کامل نمونہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاؕ.

(النِّسَآء، 4: 80)

’’جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا، اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ ‘‘

اگر ہم حضور ﷺ کی نبوت و رسالت کو زندہ و موجود حقیقت سمجھ لیں اور اسے کتاب ماضی کا باب تصور نہ کریں تو امت مسلمہ کی وفاداریاں حضور ﷺ سے خالصتاً بندھ جائیں گی اور یوں ہم ہر قسم کے تشدد و اختلاف سے نجات پائے ہوئے باطل وفاداریوں کے بتوں کو پاش پاش کرسکیں گے۔ اگر ہماری جبین نیاز محبت و عقیدت کی نسبت سے اس پر غیر مشروط طور پر جھک جائے تو پھر بعید نہیں کہ امت میں وحدت کے آثار بہت جلد پیدا ہوں۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں حضورؐ کی ذات گرامی کو بطور مطاع مطلق بیان کرکے اسی تصور پر زور دیا گیا ہے۔

چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آقا ﷺ کی ذات گرامی بطور نمونۂ کمال کیوں؟

چودہ صدیاں گزر چکیں، حالات بدل گئے، زمانہ تغیر پذیر ہے، تہذیبیں بدل گئیں لیکن کیا وجہ ہے کہ آج بھی کسی اور کو معیار کمال نہیں سمجھا جاتا اور ہم تاقیامت حضور ﷺ کی حیات طیبہ کے علاوہ کسی اور کی زندگی کو اسوۂ حسنہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت آج بھی حتمی، قطعی اور unconditional ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے مذکورہ آیت مبارکہ کے تین نکات قابل توجہ ہیں:

1۔ ’الرسول‘ کا لفظ معرف باللام لانے کی وجہ:

عربی کا اصول ہے کہ اسم کبھی نکرہ ہوگا اور کبھی معرفہ ہوگا مثلاً کتاب سے مراد کوئی بھی کتاب ہے اور الکتاب سے مراد کوئی خاص کتاب ہے۔ اسی طرح اگر رسول کا لفظ تنوین کے ساتھ آتا تو اس سے مراد کوئی بھی رسول لیا جاسکتا تھا۔ اللہ رب العزت نے ’الرسول‘ کا لفظ استعمال کرکے تمام دیگر احتمالات رفع کرتے ہوئے ایک ہی خاص رسول کی طرف اشارہ فرمادیا۔ اس آیت کریمہ کا خطاب فقط صحابہ کرامl سے نہ تھا۔ اس آیت مبارکہ کا اور پورے قرآن مجید کا خطاب چودہ صدیوں کے ہر فرد اور آئندہ آنے والی قیامت تک کی تمام نسلوں سے ہے۔ مخاطب بدلے ہیں اور بدلتے رہیں گے مگر خطاب یہی رہے گا۔ یہ آیت مبارکہ ہم سے مخاطب ہوکر آج بھی کہہ رہی ہے کہ جو کوئی اس رسول ﷺ کی اطاعت کرتا ہے گویا اس نے اللہ رب العزت کی اطاعت کرلی۔ قرآن حکیم اس تصور کو ہم میں جاگزیں کرنا چاہتا ہے کہ لوگو! یہ رسول ﷺ اور اس کی نبوت ور سالت کوئی حقیقتِ زمانہ ماضی نہیں ہے بلکہ جس طرح اس نبوت و رسالت کا سایہ ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ و علیؓ کے سر پر تھا، اس کی رسالت کا سایہ بالکل اسی طرح آج تمھارے سروں پر بھی ہے اور قیامت تک یہ سایہ ہر ایک پر قائم رہے گا۔الرسول کا لفظ یہ پیغام دے رہا ہے کہ رسل عظام، زمانی و مکانی نبوتیں اور رسالتیں لے کر آتے رہے مگر اس نبی کی نبوت و رسالت کے لیے مکان و زماں کی حدود کو اٹھا دیا گیا ہے۔ اب جسے اپنے تن اور من کو منور کرنا ہے وہ اسی دہلیز نبوت مصطفی ﷺ سے منور کرسکتا ہے۔ اب باطل قیادتوں اور نفسانی خواہشات کے بت پاش پاش ہوچکے ہیں اور قیامت تک اسی نبی کی قیادت و سیادت قائم رہے گی۔

2۔ من یطع میں صیغہ مضارع کے استعمال کی حکمت

مضارع کا صیغہ حال میں موجود اور آئندہ موجود رہنے والی شے پر دلالت کرتا ہے۔ من یطع الرسول میں حال اور مستقبل دونوں کے معانی شامل ہیں یعنی جو کوئی اس رسول کی اطاعت کرتا ہے یا کرے گا۔ ماضی گزر جاتا ہے جبکہ حال اور مستقبل ہمیشہ موجود رہنے والے ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کی اطاعت کا حکم ’من اطاع‘ فرماکر ماضی کے صیغے سے نہیں دیا کہ مراد لی جائے کہ جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی بلکہ فرمایا ’من یطع الرسول‘ جو اس رسول ﷺ کی اطاعت کرتا ہے یا کرے گا۔ ماضی کے صیغے سے مخاطب کے ذہن میں ایک امکان پیدا ہوسکتا تھا کہ اطاعت رسول ﷺ کی بات قصہ پارینہ ہوگئی۔ اس امکان کو ختم کرنے کے لیے باری تعالیٰ نے فرمایا: ’من یطع الرسول‘۔ اس سے واضح ہوگیا کہ ہر شے گزر سکتی ہے مگر یہ رسول ﷺ گزر نہیں سکتا۔ جب تک زمانہ چلے گا تب تک اس رسول ﷺ کی اطاعت رہے گی۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر جدید سے بڑھ کر جدید حقیقت کے طور پر قائم رہے گی۔ آپ ﷺ کی اطاعت کو رجعت پسندی اور ماضی پرستی تصور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہر حال اور ہر مستقبل اسی کی اطاعت میں رہے گا۔

3۔ فقد اطاع اللہ میں صیغہ ماضی کے استعمال کی حکمت

آیت مبارکہ کے اس حصے میں اللہ رب العزت نے اسلوب بدلتے ہوئے ماضی کا صیغہ استعمال فرمایا۔ یہ آیت مبارکہ زبان حال سے بتارہی ہے کہ اللہ رب العزت اپنے بندے سے مخاطب ہوکر فرمارہا ہے کہ میں تو رب ہوں، میری نسبت تو مردہ ہونے کا گمان نہیں کیا جاسکتا تو میں اپنی بات جس صیغے سے چاہوں کہتا پھروں مگر محبوب ﷺ چونکہ مخلوق میں سے ہیں تو مخلوق ہونے کی نسبت سے کوئی آپ ﷺ کے گزر جانے کا گمان کرسکتا تھا۔ اسی گمان کو رفع کرنے کے لیے ماضی کی بجائے مضارع (حال و مستقبل) کا صیغہ استعمال کیا تاکہ اظہر من الشمس ہوجائے کہ اب رسول اللہ ﷺ آگئے ہیں جو اب آپ ﷺ کے جانے کا گمان قیامت تک نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے علاوہ صیغہ ماضی کے استعمال کے حوالے سے ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ بعض اوقات جب صیغہ ماضی میں بات کی جاتی ہے تو جس کام کی بات صیغہ ماضی میں کی جاتی ہے، یہ صیغہ اس کام کے ہوچکنے پر دلالت کرتا ہے۔ اس سے آیت مبارکہ کی مراد واضح ہے کہ اس رسول ﷺ کی اطاعت کرنے کی دیر تھی کہ اللہ رب العزت کی اطاعت ہوچکی، اُدھر رسول ﷺ کی اطاعت کی طرف تمھارا قدم اٹھے گا اور ادھر خدا کی اطاعت قبول کرلی جائے گی۔اس بات کو اللہ رب العزت نے فقد اطاع اللہ فرما کر تین تاکیدوں کے ساتھ بیان کیا: فاء للتاکید، قدللتاکید اور پھر ماضی کے صیغہ اطاع کا استعمال بھی تاکید کے لیے ہے۔

ظلم یہ ہے کہ خدا اور رسول ﷺ کو دو متصادم حقیقتیں بناکر کھڑا کردیا گیا ہے جبکہ یہ نہ ایمان ہے اور نہ اسلام۔ خدا سے ربط اور رسول ﷺ سے ربط، خدا کا تعلق اور رسول ﷺ کا تعلق نیز خدا کی رضا اور رسول ﷺ کی رضا ایک ہی ہے اور ان کے جڑنے کی گواہی خود قرآن حکیم دیتا ہے

یہاں عربی کا ایک اور قاعدہ یہ بھی ہے کہ جب ماضی کے صیغہ پر قد لگتا ہے تو یہ ماضی قریب پر دلالت کرتا ہے یعنی جو کوئی اس رسول ﷺ کی اطاعت کرتا ہے یا کرے گا تو یہ اطاعت ہوتے ہی یہ رب کی اطاعت شمار کرلی گئی ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی بندگی اور اطاعت رسول ﷺ کو دو الگ چیزیں شمار نہیں کیا۔ اب ہمارے معاشرے میں خدا اور رسول ﷺ کی تفریق یوں کی جاتی ہے کہ یہ دو گروہ نظر آنے لگے ہیں۔ جن میں سے ایک خدا کا نعرہ لگاتا ہے اور دوسرا گروہ رسول ﷺ کا نعرہ لگاتا ہے۔ ظلم یہ ہے کہ خدا اور رسول ﷺ کو دو متصادم حقیقتیں بناکر کھڑا کردیا گیا ہے جبکہ یہ نہ ایمان ہے اور نہ اسلام۔ خدا سے ربط اور رسول ﷺ سے ربط، خدا کا تعلق اور رسول ﷺ کا تعلق نیز خدا کی رضا اور رسول ﷺ کی رضا ایک ہی ہے اور ان کے جڑنے کی گواہی خود قرآن حکیم دیتا ہے۔ اسی کی ذیل میں اللہ رب العزت آپ ﷺ کے قول کو اپنا قول کہتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیؕ. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیۙ.

(النَّجْم، 53: 3-4)

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔ ‘‘

اور آپ ﷺ کے فعل کو اپنا فعل قرار دیتے ہوئے اللہ فرماتا ہے:

وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰی.

(الانفال، 8: 17)

’’اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے۔ ‘‘

اسی طرح اللہ رب العزت کئی مقامات پر آقا ﷺ کے قول و فعل کو اپنے قول و فعل کے ساتھ جوڑا، حضور ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ جوڑا اور حدیبیہ کے مقام پر آقا ﷺ پر قربانی کی پہل کرنے کو خود اپنی ذات پر پہل کرنے سے نسبت دی تاکہ یہ بات اظہر من الشمس ہوجائے کہ رسول ﷺ کی بے ادبی، اللہ کی بے ادبی ہے اور رسول ﷺ; کا ادب، اللہ کا ادب ہے۔

اسی موضوع کے تحت درج ذیل آیت مبارکہ اپنے وسیع تر معانی کے ساتھ واضح ہے، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ.

(التوبۃ، 9: 62)

’’اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ حقدار ہے کہ وہ اسے راضی کریں۔ ‘‘

اللہ رب العزت نے اپنا اور اپنے حبیب مکرم ﷺ کا ذکر اکٹھے فرماکر راضی کرنے کے حق پر واحد کی ضمیر واردفرمائی، رب ذوالجلال ’ھما‘ فرماکر دو کو الگ نہیں فرمایا تاکہ واضح ہوجائے کہ اللہ اور رسول ﷺ کی ذاتیں تو دو ہیں مگر رضا ایک ہے یعنی ذاتیں دو ہیں مگر اطاعت، محبت، تعلق، امر، بیعت، فعل اور قول ایک ہے۔ اللہ رب العزت، خالق ہونے کے باعث اور رسول ﷺ مخلوق ہونے کے باعث ذاتاً دو ہیں مگر نسبتاً ایک ہیں اور یہی توحید و رسالت کا ربط ہے۔ امت مسلمہ کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک دو ذاتوں میں ایک تعلق، ربط اور نسبت کو قبول نہ کرلے۔

اس سے آیت مبارکہ کی مراد واضح ہے کہ اس رسول ﷺ کی اطاعت کرنے کی دیر تھی کہ اللہ رب العزت کی اطاعت ہوچکی، اُدھر رسول ﷺ کی اطاعت کی طرف تمھارا قدم اٹھے گا اور ادھر خدا کی اطاعت قبول کرلی جائے گی۔اس بات کو اللہ رب العزت نے فقد اطاع اللہ فرماکر تین تاکیدوں کے ساتھ بیان کیا: فاء للتاکید، قدللتاکید اور پھر ماضی کے صیغہ اطاع کا استعمال بھی تاکید کے لیے ہے

آقا ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی سیرت مطہرہ عطا فرمائی کہ جس سے بہتر انسانی اخلاق، ایثار، محبت اور تعلق جوڑے رکھنے کا کوئی تصور اور سبق نہیں مل سکتا۔ اسی لیے آج کئی صدیاں بیت جانے کے بعد بھی حضور سرور کونین ﷺ مطاع مطلق ہیں اور آپ ﷺ تا قیامت مطاع مطلق رہیں گے۔ نیز اطاعت رسول ﷺ ہی اطاعت الہٰی کہلائے گی۔ آج امت مسلمہ کے ظلمت کدہ تقدیر میں پھر سے اجالا لانے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے نبی ﷺ کے اسوہ کامل کے ساتھ جڑ جائیں اور آپ ﷺ کی اطاعت کرکے دنیا و آخرت میں امر ہوجائیں۔