ڈاکٹر نعیم مشتاق

جب شام ڈھلنے لگتی ہے اور صحرا کی ہوا آسمان کو چھوتی ہوئی زمین کو سہلاتی ہے، تو میرے دل میں ایک پرانی روشنی جاگ اٹھتی ہے۔ میں بنو سعد کی اس پرامن بستی کو یاد کرتی ہوں جہاں میں پلی بڑھی—ایک ایسی جگہ جہاں مٹی کے گھر تھے مگر دل سونے جیسے تھے۔ وہ وقت جب دن کے اختتام پر عورتیں چولہوں پر ہانڈیاں چڑھاتیں، دھواں آسمان سے باتیں کرتا، اور ہم چھوٹی بچیاں اپنے اپنے بھائیوں کو گود میں لے کر باہر آ جاتیں۔ ہر ایک اپنی محبت میں ڈوبی ہوئی، ایک دوسرے سے کہتی: "میرا بھائی سب سے خوبصورت ہے!" کوئی کہتی: "میرے بھائی جیسی آنکھیں کسی کے پاس نہیں!

اور پھر۔۔۔ میری باری آتی۔ میں آتی، اپنے بازوؤں میں روشنی کا ایک ٹکڑا لیے—ایک ایسا چہرہ جو چاندنی سے زیادہ روشن تھا۔ میں دور سے پکارتی: وَهٰذَا أَخِي أَيْضًا آتِي (اور یہ میرا بھائی بھی آ گیا)۔

سب خاموش ہو جاتیں۔ اُن کے چہرے بدل جاتے، آنکھیں جھک جاتیں، اور دھیرے سے کہتیں: "نہیں نہیں، شَیماء، تیرے بھائی کا کوئی ثانی نہیں!" میں اُسے گود میں بھر لیتی، دل سے لگا لیتی، اور دھیرے دھیرے جھولتی۔

بچپن کا ایک دن

میری اماں (حضرت حلیمہ سعدیہؓ) جب بکریوں کو چرانے بھیجتی تھیں تو مجھے تنہا بھیج دیتیں۔ ایک دن میں نے دیر کر دی۔ امی نے پوچھا: شیماء! آج تم نے ابھی تک بکریاں چرا کر واپس کیوں نہیں لائیں؟

میں نے ہچکچاتے ہوئے کہا: "امی، میں اکیلی جاتی ہوں، بکریاں زیادہ ہیں، گرمی کا موسم ہے، بھاگ بھاگ کر میں تھک جاتی ہوں۔ اکیلی مجھ سے یہ کام نہیں ہوتا۔ اب آپ میرے ساتھ کسی کو بھیجا کریں۔"

امی نے جواب دیا: "بیٹی، گھر میں تو اور کوئی نہیں جسے تیرے ساتھ بھیج سکوں۔ میں نے کہا: "امی، ایک شرط پر جاؤں گی۔۔۔ اگر آپ میرے ساتھ میرے چھوٹے بھائی محمد ﷺ کو بھیج دیں، تو میں بکریاں چرانے جاؤں گی، ورنہ نہیں۔

امی نے کہا: "بیٹی! تیرا بھائی محمد ﷺ تو بہت چھوٹا ہے۔ ایک بکریوں کو سنبھالنا، دوسرا ایک چھوٹے بچے کو سنبھالنا، یہ تو اور بھی مشکل ہو جائے گا۔"

میں نے کہا: "امی، اگر میرا چھوٹا بھائی ساتھ ہوگا تو بکریاں سنبھالنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔"

امی نے پوچھا: "یہ کیا کہہ رہی ہو؟"

میں نے بتایا: "امی، ایک بار میں بھائی کو ساتھ لے کر گئی تھی، تو بکریاں جلدی جلدی چرنے لگیں، جیسے برسوں کی بھوک مٹ رہی ہو۔ پھر میں اور محمد ﷺ نرم سبز گھاس پر بیٹھ گئے۔ میں نے بھائی کو اپنی گود میں سلا لیا۔ وہ ننھا سا چہرہ، جیسے چاند کی کرنوں نے زمین پر جگہ بنا لی ہو۔ اور پھر عجیب منظر ہوا—آہستہ آہستہ تمام بکریاں اپنا چرنا چھوڑ کر ہماری طرف بڑھنے لگیں۔ وہ ایک دائرے کی صورت میں ہمارے گرد بیٹھ گئیں، جیسے کسی مقدس مرکز کے گرد حلقہ بن گیا ہو۔ کوئی بکری بھائی کے قدموں کے قریب لیٹ گئی، کوئی اپنا چہرہ آہستہ سے ان کے کپڑوں کے پاس لے آئی، اور کچھ تو اتنی قریب آ گئیں کہ گویا ان کے سانسوں کی حرارت سے برکت لینا چاہتی ہوں۔

پورا چراگاہ جیسے خاموش ہو گیا۔ نہ کھڑکھڑاہٹ، نہ بکریوں کی معمول کی "مَیں مَیں" ، بس ایک پرسکون سا سکوت، اور اس سکوت میں محبت کی ایک خوشبو گھل گئی تھی۔ میں نے دیکھا، ان کے چہرے پر دھوپ کے سونے جیسے ذرے کھیل رہے تھے، اور بکریوں کی آنکھیں ایک لمحے کے لیے بھی ان سے ہٹتی نہ تھیں، جیسے سب ان کے جمال کی زیارت کر رہی ہوں، اور اس زیارت میں ہی اپنی ساری تھکن اور بھوک بھول گئی ہوں۔

ایک اور دن دوپہر کے وقت میں انہیں گود میں لیے باہر نکلی۔ دھوپ تیز تھی، مگر میں حیران رہ گئی—ایک بادل مسلسل ہمارے اوپر سایہ کیے ہوئے تھا۔ جب ہم چلتے تو بادل ساتھ چلتا، اور جب ہم رکتے تو وہ بھی رک جاتا۔ میں نے امی سے کہا: "دیکھیں امی! ان پر گرمی کا اثر نہیں ہوتا، کیونکہ آسمان بھی ان کی عزت کرتا ہے۔"

لوریاں اور دعائیں

میں اکثر انہیں گود میں لے کر لوریاں دیتی۔ میری لوری صرف الفاظ نہیں، ایک دعا تھی:

يَا رَبَّنَا أَبْقِ لَنَا مُحَمَّدًا، حَتَّى أَرَاهُ يَافِعًا وَأَمْرَدًا، ثُمَّ أَرَاهُ سَيِّدًا مُسَوَّدًا، وَاكْبِتْ أَعَادِيَهُ مَعًا وَالْحُسَدَا، وَأَعْطِهِ عِزًّا يَدُومُ أَبَدًا.

(اے ہمارے رب! محمد ﷺ کو ہمارے لیے سلامت رکھ، تاکہ میں انہیں جوان، خوش قامت اور روشن چہرے کے ساتھ دیکھ سکوں، پھر انہیں معزز، سربلند اور قوموں کا سردار پاؤں، ان کے دشمنوں اور حسد کرنے والوں کو پست کر دے، اور ایسا مقام عطا فرما جو کبھی زوال نہ پائے)۔

کبھی میں یہ بھی گنگناتی:

هٰذَا أَخٌ لِيْ لَمْ تَلِدْهُ أُمِّيْ، وَلَيْسَ مِنْ نَّسْلِ أَبِيْ وَعَمِّيْ، فَدَیْتُہ مِنْ مُخْوِل مُعِمّ، فَاَنْمِهِ اللّٰهُمَّ فِيْمَا تُنْمِيْ

(یہ میرے وہ بھائی ہیں جو میری ماں سے پیدا نہیں ہوئے، نہ میرے والد یا چچا کی نسل سے ہیں، مگر میں ان پر فدا ہوں۔ اے اللہ! ان کی بہترین پرورش فرما)

برسوں بعد

وقت گزرا، میرا بھائی واپس مکہ چلا گیا۔ میں جوان ہوئی، شادی ہوئی، دوسرے قبیلے میں جا بسی۔ مگر دل میں وہی بچپن کی روشنی باقی رہی۔ پھر خبر آئی کہ محمد ﷺ نے نبوت کا اعلان کر دیا ہے اور مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہو گئی ہے۔ بدر، احد، خندق۔۔۔ ہر خبر پر میرا دل کہتا: "میرا بھائی وہی کر رہا ہے، جو میں نے لوریوں میں مانگا تھا۔‘‘

جب غزوات کا سلسلہ شروع ہوا، تو جس قبیلے میں میری شادی ہوئی تھی، اس کا مسلمانوں سے ٹکراؤ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بھائی محمد ﷺ کو فتح عطا فرمائی اور ہمارے چند آدمی صحابہ کرامؓ کے ہاتھوں قید ہو گئے۔ قبیلے کے لوگ اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے فدیہ اکٹھا کرنے لگے۔ سردار اور چند لوگ ایک ایک گھر جا رہے تھے۔ چلتے چلتے وہ میرے دروازے پر بھی آ گئے۔ میں اس وقت عمر کے ایک سنجیدہ اور وقار سے بھرے حصے میں تھی۔ انہوں نے کہا؛

"شَیماء! یہ تمہارا حصہ ہے، قیدی چھڑانے کے لیے۔"

میں نے پوچھا: "کس لیے؟"

سردار نے کہا: "جو لڑائی ہوئی ہے، اس میں ہمارے کچھ آدمی گرفتار ہو گئے ہیں۔"

ابھی وہ بات ہی کر رہا تھا کہ کسی کے لبوں پر میرے بھائی کا نام آ گیا—"محمد ﷺ "۔ یہ سنتے ہی میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ میں نے حیرت سے پوچھا:

"کیا کہا تم نے؟ محمد ﷺ نے تمہارے لوگ پکڑے ہیں؟"

"جی ہاں!" سردار نے جواب دیا۔

میں نے فوراً کہا: "تو پھر یہ رقم اکٹھی کرنا چھوڑ دو۔۔۔ اور مجھے اُن کے پاس لے چلو!

سردار نے چونک کر کہا: آپ کو؟ ساتھ لے چلیں؟

میں مسکرا کر بولی: "ہاں، تم نہیں جانتے، وہ میرے بھائی ہیں

یہ سن کر سردار اور باقی لوگ جیسے پلکیں جھپکنا بھول گئے۔ ایک لمحے کے لیے سب کے چہرے حیرت سے کھل گئے، پھر وہ حیرت آہستہ آہستہ مسکراہٹ میں بدل گئی۔ کسی نے بےاختیار قہقہہ لگایا، کسی کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ فضا میں ایک عجیب سی مثبت لہر دوڑ گئی۔ سخت اور فکر زدہ چہرے یکدم نرم ہو گئے۔ سردار بولا: شَیماء! تم نے تو ہمیں خوشخبری دے دی۔ چلو، فوراً چلتے ہیں، اور تمہیں اپنے بھائی کے پاس لے چلتے ہیں۔ راستہ جیسے ہلکا ہو گیا، قدم تیز ہو گئے، اور قافلے میں ایک نئے اعتماد اور خوشی کی چمک پھیل گئی۔

چند ہی لمحوں بعد، میں قبیلے کے سرداروں کے ساتھ مدینہ کی طرف جا رہی تھی۔ سامنے افق پر مدینہ کے نوری خیمے چمک رہے تھے۔ جب ہم قریب پہنچے تو دیکھا کہ صحابہ کرامؓ ننگی تلواریں لیے پہرہ دے رہے ہیں۔ یہ مکی دور نہیں تھا، یہ مدنی دور تھا—میرے بھائی ﷺ ایک نبی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک امت کے قائد اور سپہ سالار بھی تھے۔

میں سرداروں سے آگے بڑھی تو ایک پہرے دار صحابیؓ نے تلوار اٹھا لی اور بلند آواز میں بولا: اےخاتون! رک جاؤ! یہ رسول اللہ ﷺ کا خیمہ ہے۔ یہاں تو جبرئیلؑ بھی بغیر اجازت نہیں آتے۔ تم کون ہو جو یوں اعتماد سے بڑھتی چلی آ رہی ہو؟

میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: راستہ چھوڑ دو۔۔۔ تم نہیں جانتے، میں تمہارے نبی ﷺ کی بہن ہوں۔ میری زبان سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ ماحول جیسے تھم سا گیا۔ تلواریں نیچے ہو گئیں، چہروں پر نرمی آ گئی، اور میرے لیے راستہ کھول دیا گیا۔

ملاقات کا لمحہ

میں آہستہ آہستہ اندر داخل ہوئی۔ میرے قدموں کی چاپ جیسے بچپن کی گھنٹیاں بجا رہی تھی۔ آپ ﷺ نے سر اٹھایا، اور پہچان لیا۔ پہچان کی روشنی اور فرطِ محبت سے آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ آپ ﷺ نے اپنی چادرِ مبارک زمین پر بچھا دی اور فرمایا: "آؤ بہن! یہاں بیٹھو۔ وہ لمحے میرے لیے وقت کی قید سے آزاد تھے۔ میں اُن کے سامنے تھی، اور وہ میرے سامنے۔ برسوں کی جدائی مٹی ہو چکی تھی۔ میں اُنہیں دیکھ رہی تھی، لیکن میری آنکھیں جھولے میں سوتے ہوئے اُس بچے کو ڈھونڈ رہی تھیں، جسے میں لوریاں دیتی تھی۔ وہ مسکرا رہے تھے، لیکن اُن کی مسکراہٹ میں ایک نمی سی تھی، جیسے بچپن کی کوئی گم شدہ گڑیا دوبارہ مل جائے۔

کچھ لمحے خاموشی میں گزرے۔ پھر حضور ﷺ نے قیدیوں کے بارے میں دریافت کیا اور میں نے تفصیل سے بتایا۔ آپ ﷺ نے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔ فرمایا، "قیدیوں کو فوراً رہا کر دو۔" خیمے سے باہر آواز بھیجی گئی اور صحابہ کرامؓ کو پیغام دیا گیا کہ فلاں قبیلے کے تمام قیدی آزاد کر دیے گئے ہیں۔ پھر آپ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور ایک مہربان بھائی کی طرح تحفے عنایت فرمائے۔ گھوڑے، عمدہ لباس اور کچھ دیگر اشیاء میرے قدموں میں رکھوا دیں۔ فرمایا، ’’جب بہن بھائی کے دروازے پر آتی ہے تو بھائی اُسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔‘‘

میں خاموش کھڑی تھی، لیکن اندر سے لرز رہی تھی۔ یہ وہی بچہ تھا جو میری گود میں سوتا تھا۔۔۔ اور آج وہ پوری دنیا کے دلوں پر راج کر رہا تھا—لیکن اُس کی محبت میں رتی بھر کمی نہ آئی تھی۔ پھر آپ ﷺ نے میرا ہاتھ تھام کر خیمے سے باہر تشریف لانے کا ارادہ فرمایا۔ میں نے عرض کیا، ’’آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں؟‘‘ مگر آپ ﷺ نے فرمایا، ’’بہنوں کو صرف تحفے دے کر رخصت نہیں کیا جاتا، ان کے ساتھ چل کر عزت بھی دی جاتی ہے۔‘‘

پھر شفقت بھرے لہجہ میں فرمایا: ’’اے بہن! تم میرے یہاں رہنا چاہو تو یہ تمہارا گھر ہے اور اگر واپس جانا چاہو تو مجھے کوئی اصرار نہیں۔‘‘ جب ہم خیمے سے باہر نکلے تو صحابہ کرامؓ قطار میں کھڑے تھے۔ سب کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ حضور ﷺ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا، ’’اے میرے صحابہ! تم جانتے ہو کہ میں جب بھی قیدی چھوڑتا ہوں، تم سے مشورہ کرتا ہوں۔ لیکن آج میں نے تم سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔ " صحابہؓ نے مودبانہ عرض کیا، "یا رسول اللہ ﷺ ، ہمیں خوشی ہے لیکن آپ نے کیوں مشورہ نہ کیا؟"

میرے نبی ﷺ نے میری طرف دیکھا، اور پھر صحابہؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: إِنَّهَا أُخْتِي، وَقَدْ جَاءَتْ إِلَيَّ، فَأَكْرَمْتُهَا ’’آج میری بہن میرے دروازے پر آئی تھی، اس لیے میں نے اس کا اکرام (اس کی خاطر قاعدے بدل کر دیا)‘‘۔

یہ الفاظ صرف جملے نہیں تھے، یہ وقت کے سینے پر کندہ کیے گئے وہ نقوش تھے، جو قیامت تک نہیں مٹیں گے۔ وہ لمحہ، جب ایک نبی، ایک سپہ سالار، ایک حکمران بہن کے لیے قاعدے بدل دیتا ہے، فیصلے بدل دیتا ہے، اور دنیا کو بتاتا ہے کہ رشتے کیا ہوتے ہیں۔اور میں، میں اُس دن نہ صرف ایک بہن تھی، بلکہ ایک پوری امت کی آنکھوں میں عزت، محبت، اور رشتہ داری کی علامت بن گئی۔

تو بتاؤ۔۔۔ کیا میرے بھائی جیسا کوئی ہے؟ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔محمد ﷺ جیسا بھائی، دنیا میں کوئی اور نہیں۔