جشنِ ولادتِ مصطفی ﷺ کے حقیقی تقاضے

قرۃ العین زینب

تعارف

اسلام ایک ایسا دین ہے جو صرف عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو انسان کو فرد سے امت کی طرف لے جاتا ہے۔ اسلام ہمیں نہ صرف ایک عقیدے میں جوڑتا ہے، بلکہ ہمیں ایک دوسرے کے دلوں میں گھر کرنے، امیدوں کو جوڑے رکھنے اور ذمہ داریوں میں شریک ہونے کا درس بھی دیتا ہے۔ اس سال جب ہم نبی کریم، حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا 1500 واں یومِ ولادت منانے جا رہے ہیں، تو یہ موقع محض ایک جشن منانے کا نہیں بلکہ ایک تجدید عہد کا موقع ہے۔ ایک ایسا عہد، جو ہمیں آپ ﷺ کے اسوۂ حسنہ، تعلیمات اور پیغامِ وحدت کو اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔ آج کی دنیا میں جہاں مسلمانوں کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے ، وہاں ہمارا یہ باہمی اتحاد ہی ہماری سب سے بڑی کامیابی اور اصل جشن ہے۔ خوشی ہو یا غم، جب ہم بطور ایک اُمت شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے تبھی چیلنج کا بہتر طور پر سامنا کر سکتے ہیں۔

یہ مضمون امتِ مسلمہ کے طور پر باہمی اتحاد و یگانگت کی قوت کو اجاگر کرتا ہے اور اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ یہی وحدت دراصل حقیقی جشن ہے جو ہمیں طاقت، سکون اور امید عطا کرتی ہے۔ مزید برآں اس اہم پہلو پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ ایک خاتون امت کی نشاۃ ثانیہ میں کس طرح مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے۔

اتحاد امت: ایک ناقابل شکست قوت

"اُمت" کا لفظ عربی زبان سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں ایک جماعت یا قوم۔ اسلامی اصطلاح میں، یہ لفظ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے مجموعے کو ظاہر کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ پر ایمان کے رشتے سے آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ تعلق ، نسل، قومیت، زبان یا ثقافت کی تمام حدود سے ماورا ہے۔ چاہے کوئی مسلمان دنیا کے کسی بھی حصے میں رہتا ہو یا کوئی بھی زبان بولتا ہو، وہ اس عالمگیر اسلامی خاندان کا حصہ ہے۔

قرآن مجید مسلمانوں کو اس اتحاد کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیتا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔۔۔ ‘‘ (آلِ عمران، 3: 103)

یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ تفرقہ بازی ہماری اجتماعی قوت کو کمزور کر دیتی ہے۔ جب مسلمان متحد ہو جاتے ہیں، تو وہ ایک ایسی فصیل بن جاتے ہیں جسے کوئی دشمن عبور نہیں کر سکتا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں، جس کا ایک حصہ تکلیف میں ہو تو سارا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔

اسلام میں جشن کا حقیقی مفہوم

قرآن مجید میں ارشاد ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ.

(الحجرات، 49: 10)

یہ آیتِ مبارکہ محض ایک سادہ بیان نہیں بلکہ ایک جامع اور بامعنی پیغام پر مشتمل ہے، جو اہلِ ایمان کو باہمی اخوت، محبت و ہمدردی اور تقویٰ اختیار کرنے کی واضح ہدایت دیتی ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔ جب مومنین ایمان کے جذبے کے تحت ایک دوسرے کی مدد، تعاون اور اصلاح کا فریضہ انجام دیتے ہیں، تو نہ صرف روحانی ارتقاء کے دروازے کھلتے ہیں بلکہ اس عمل سے انسانی تعلقات کی اہمیت اور معاشرتی ہم آہنگی بھی اجاگر ہوتی ہے۔

خوبصورت ماضی: متحد، فاتح امت

امتِ مسلمہ کی تاریخ درحقیقت ایک حسین اور منظم دستاویز کی مانند ہے، جو ایمان، عزم، اور اجتماعی اتحاد کی حقیقی، خوبصورت اور دلکش مثال پیش کرتی ہے۔ ایسے بے شمار مواقع ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جب امت نے اتفاق، وحدت اور باہمی تعاون کے مظاہرہ کے ذریعے نہ صرف اپنی قوت کو منوایا بلکہ نمایاں کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ زیرِ نظر سطور میں چند ایسے تاریخی لمحات پیش کیے جا رہے ہیں جو امتِ مسلمہ کی وحدت، ہم آہنگی اور اجتماعی شعور کی درخشاں مثالیں ہیں۔

غزوۂ بدر — چٹان جیسا ایمان، دلوں کا اتحاد

معرکۂ بدر کی فتح محض عددی طاقت یا عسکری ساز و سامان کی بنیاد پر حاصل نہیں ہوئی، بلکہ اس کا اصل سبب ایمان کی پختگی اور اتحاد کی قوت تھی۔ ایک قلیل الافراد مگر باعزم جماعت نے صحرا کی تپش اور شدید حالات کے باوجود ایک کثیر التعداد اور طاقتور دشمن کا سامنا کیا۔ ان کے دل اللہ تعالیٰ پر کامل یقین سے لبریز تھے، اور وہ ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے۔ گویا ایک جسم کی مانند، یک جان و یک دل ہو کر صف آرا ہوئے۔ تمام تر ناموافق حالات اور آزمائشوں کے باوجود انہوں نے فتح حاصل کی۔ یہ تاریخی واقعہ اس ابدی حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے کہ جب خلوصِ ایمان اور اخوت کے جذبے سے سرشار ہو کر جدوجہد کی جائے تو شدید ترین معرکے بھی کامیابی سے سر کیے جا سکتے ہیں۔

فتح مکہ: ابرِ رحمت کا سماں

فتح مکہ کے بعد جب مسلمان مکہ مکرمہ کی جانب لوٹے، تو وہ غیظ و غضب یا انتقام کے جذبے کے تحت نہیں آئے، بلکہ وہ رحمت، عفو و درگزر اور کشادہ دلی کے ساتھ واپس آئے۔ نہ کوئی جنگ ہوئی، نہ بدلہ لیا گیابلکہ عام معافی، درگزر اور محبت کے ساتھ سب کا خیرمقدم کیا گیا۔ یہ محض ایک عسکری فتح نہ تھی، بلکہ ایک ایسا لمحہ تھا جو زخموں کا مداوا بن گیا۔ اس واقعے نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ محبت، اتحاد اور رواداری ہی وہ ہتھیار ہیں جو دلوں کو جوڑتے ہیں۔

سنہری دور: یکجہتیِ افکار سے عالم کی تابندگی

تاریخ کے مختلف ادوار میں امتِ مسلمہ نے اپنی عظمت کا اظہار جنگ کے ذریعے نہیں، بلکہ حکمت، علم اور فکری بالیدگی کے ذریعے کیا۔ بغداد، قرطبہ اور قاہرہ جیسے شہر علمی و فکری مراکز بن گئے، جہاں علم کو خزانے کی مانند بانٹا جاتا تھا۔ علما، مفکرین اور ماہرین مختلف علوم میں یکجا ہو کر باہمی تعاون اور مشترکہ مقصد کے تحت سرگرمِ عمل رہے۔ یہ وہ دور تھا جب دل اور ذہن یکسوئی کے ساتھ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو گئے، گویا ایک ہی آسمان کے ستارے بن کر دنیا کو روشنی عطا کرنے لگے۔

یہ واقعات صرف ماضی کی دستاویزات نہیں بلکہ ہمارے لیے آئینہ ہیں جو ہمیں ہماری اصل شناخت دکھاتے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جب تک ہم باہم متحد ہیں تو کوئی بھی مشکل ہماری راہ کی دیوار نہیں بن سکتی۔ خواہ حالات سازگار ہوں یا ناموافق، امتِ مسلمہ کی اصل قوت ہمیشہ اس کے باہمی اتحاد، اخوت اور محبت میں مضمر رہی ہے۔

آج کے دور میں اتحاد کی راہیں

آج کا عالمی منظرنامہ ہمیں تہذیبی، مسلکی، اور حتیٰ کہ خاندانی سطح پر بھی اختلاف، تفرقہ اور انتشار سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ تاہم، ہماری تابناک تاریخ میں پوشیدہ گراں قدر اسباق ہمیں نہ صرف مایوسی کے اندھیروں میں امید کی روشنی دکھاتے ہیں بلکہ ایک متحد، پرامن اور مضبوط امت کی تشکیل کے لیے واضح رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں۔

اس اجتماعی تعمیر و اصلاح میں خواتین کا کردار نہایت اہم اور مؤثر ہے۔ آپ سب ہی وہ مربیہ ہیں جو نسلوں کی فکری اور اخلاقی تربیت کی بنیاد رکھتی ہیں، آپ ہی وہ خاتون ہیں جو صبر، محبت اور احترام جیسے اوصاف کے ذریعے خاندانی نظام کو استحکام بخشتی ہیں۔ گھریلو ماحول میں ان اعلیٰ اقدار کو فروغ دے کر آپ ایسی مضبوط اساس فراہم کرتی ہیں جو امتِ مسلمہ کے اتحاد، ہم آہنگی اور اخوت کی ضامن بن جاتی ہے۔ نیز درج ذیل امور کو اپنانا بھی اتحاد کی راہوں کو ہموار کرے گا:

1۔ شفقت و تعاون کو شعار بنائیں

اتحاد و یگانگت کا آغاز بظاہر معمولی مگر نہایت مؤثر شفیق رویّوں سے ہوتا ہے۔ مثلاً ہمسائے کو خندہ پیشانی سے سلام کہنا، کسی ضرورت مند کی خبرگیری کرنا یا کسی دوست کی مدد کے لیے پیش قدمی دکھانا، یہ وہ عملی مظاہر ہیں جو معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ " اس حدیثِ مبارکہ میں ہمیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی تلقین کی گئی ہے جو محبت، تحفظ اور باہمی بھائی چارے پر قائم ہو۔

2۔ چھوٹے اختلافات پر تقسیم سے اجتناب کریں

اکثر اوقات ہم معمولی فقہی یا ثقافتی اختلاف، جیسے نماز کا انداز، زبان یا لب و لہجہ کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں، حالانکہ دینِ اسلام ہمیں ان عناصر پر توجہ مرکوز کرنے کی دعوت دیتا ہے جو ہمیں یکجا کرتے ہیں: یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان، رسولِ رحمت ﷺ کی اطاعت، اور باہمی محبت۔

3۔ نیکی کے کاموں میں باہمی اشتراک کو فروغ دیں

خواہ وہ فلاحی سرگرمی ہو، معاشرتی صفائی مہم ہو، یا کسی ہنگامی صورتحال میں امداد کی صورت ہو، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اشتراک ، دلوں کو جوڑنے اور رشتوں کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ " (المائدہ: 2) ہر مشترکہ کوشش، امت کی وحدت کے فروغ کی جانب ایک مؤثر قدم ہے۔

4۔ درگزر کو اپنائیں

انسانی فطرت میں خطا شامل ہے۔ ہم سب غلطیاں کرتے ہیں لیکن کدورت، غصہ اور رنجش دلوں کے درمیان دیواریں کھڑی کر دیتی ہیں جبکہ نبی کریم ﷺ کی فتح مکہ کے بعد اعلانیہ معافی اس بات کی عملی دلیل ہے کہ آج ہم بھی معمولی اختلافات یا تلخ باتوں کو معاف کر کے معاشرتی ہم آہنگی کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔ درحقیقت، عفو و در گزر ہی وہ ذریعہ ہے جو اتحاد کی بنیاد کو مضبوطی عطا کرتا ہے۔

5۔ سب کو دائرۂ محبت میں شامل کریں

کسی فرد کو تنہائی یا محرومی کا احساس نہ ہونے دیں خواہ وہ بچہ ہو، ضعیف العمر، نو مسلم، یا کسی مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والا شخص ہو، حقیقی اتحاد اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد خود کو جماعت کا فعال حصہ محسوس کرے۔ مسجد ہو، مجلس ہو یا گھریلو ماحول سب کے لیے جگہ، قبولیت اور محبت کا ماحول پیدا کیا جائے۔

6۔ اتحاد کی تعلیم گھر سے شروع کریں

بنیادی تربیت کا سب سے مؤثر اور پائیدار مرکز گھر ہوتا ہے۔ بچوں کو آغاز ہی سے دوسروں سے محبت کرنا، عزت دوسروں کی بات سے سننا، اور اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا سکھایا جائے۔ ایک مربوط و بااخلاق گھرانہ ہی دراصل ایک مضبوط، منظم اور متحد امت کی بنیاد بنتا ہے۔

امتِ مسلمہ میں اتحاد کے فروغ میں خواتین کا کلیدی کردار— خانگی سطح سے عالمی منظرنامے تک

جب ہم امتِ مسلمہ کے اتحاد، استحکام اور اجتماعی شعور کی بات کرتے ہیں تو خواتین کے کردار کو نظرانداز کرنا نہ صرف تاریخی حقائق سے انحراف ہے بلکہ اسلامی فہم و بصیرت کے منافی بھی ہے۔ خواہ ایک خاتون گھریلو سطح پر اپنے خاندان کی تربیت و پرورش میں مصروفِ عمل ہو، یا وہ پیشہ ورانہ میدان میں سماجی و علمی خدمات سرانجام دے رہی ہو—ہر صورت میں وہ درحقیقت اُس معاشرتی اساس تشکیل میں مصروف ہوتی ہے جس پر ایک مضبوط، متحد اور مہذب امت کی عمارت قائم کی جاتی ہے۔

عائلی نظام: روزمرہ محبت اور تربیت کی بنیاد پر امت کو جوڑنا

ایک خاتون جب اپنے گھر اور خاندان کی خدمت اور نگہداشت میں مصروفِ عمل ہوتی ہے، تو دراصل وہ عبادت کی ایک قابلِ تحسین صورت انجام دے رہی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ عمل اکثر دنیا کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی حیثیت نہایت بلند و برتر ہے—کیونکہ وہ ایک باکردار، باایمان اور بااخلاق نسل کی پرورش کی بنیاد رکھتی ہے۔

اس کی روشن مثال اُمّ المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی ذاتِ مبارکہ ہے، جو نہ صرف نبی کریم ﷺ کی اولین زوجۂ محترمہ تھیں، بلکہ آپ ﷺ کے لیے ایک مضبوط سہارا، قلبی سکون کا ذریعہ اور اعتماد کا مینار تھیں۔ جب دنیا نے رسول اللہ ﷺ کی نبوت کو ماننے سے انکار کیا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے یقین، حوصلہ اور وفاداری کا پیکر بن کر آپ ﷺ کی ڈھارس بندھائی۔ جب آپ ﷺ تنہائی محسوس کرتے، وہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی یاد دہانی کراتیں۔ اُن کی محبت، شفقت اور قربانیوں سے آراستہ گھر، اسلامی معاشرت کی ابتدائی بنیاد بن گیا۔

اسی طرح، حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کی سیرت بھی ایک روشن مثال ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی لاڈلی صاحبزادی، جنہوں نے کٹھن حالات اور مسلسل آزمائشوں کے باوجود استقامت، صبر اور وقار کے ساتھ نہ صرف اپنے گھر کی آبیاری کی، بلکہ ایک ایسی نسل کی تربیت کی جو تاریخِ اسلام کا افتخار بنی۔ ان کے عظیم فرزندان، حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما، محض نسب کی نسبت سے نہیں بلکہ اپنی والدہ کی عظیم تربیت کی بدولت اسلامی تاریخ میں مثالی کردار بنے۔

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی مثالی ہمت و استقامت

خواتین معاشرتی بندھن کی ایک نہایت اہم کڑی ہیں جو کسی بھی معاشرے کو متحد اور مربوط رکھتی ہیں۔ امت مسلمہ میں خواتین کا یہ کردار ایک ومضبوط معاشرہ کے قیام کے لیے جز و لا ینفک ہے، جو بظاہر خاموش مگر انتہائی مؤثر اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہا، جو کہ سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی ہیں، اس معاملے میں ایک قابلِ تقلید مثال ہیں۔ کربلا کے دردناک سانحے کے بعد، جس میں آپ نے اپنے بھائی، امام حسین رضی اللہ عنہ، اور متعدد قریبی رشتہ داروں کو شہید ہوتے دیکھا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا صبر و استقامت کا پیکر بن کراپنے قبیلے اور امت کے ساتھ کھڑی رہیں۔ انہوں نے سخت حالات اور شدید مشکلات کے باوجود ظلم و جور کے خلاف نہایت دلیری اور حکمت کے ساتھ آواز بلند کی۔ ان کے بیان کردہ حقائق اور جرأت مندانہ الفاظ امت مسلمہ کے دلوں میں جذبہ و حوصلہ کی شمع روشن کرنے والے چراغ کے مانند تھے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے یہ واضح فرمایا کہ بعض اوقات ایک واحد پراثر آواز ہی متعدد دلوں کو متحد کر کے ایک غیر معمولی قوت کا اظہار کر سکتی ہے۔

جب خواتین امت مسلمہ کی وحدت و اتحاد کے قیام کی ذمہ داری اٹھاتی ہیں تو ان کی ہمدردی، حکمت اور طاقت ایک روشنی بن کر راہِ ہدایت فراہم کرتی ہے۔ بلاشبہ، جب افراد اجتماعی محنت و یکجہتی کے ذریعے اپنے وسائل و صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں تو کام آسان اور نتائج زیادہ پائیدار و مؤثر ثابت ہوتے ہیں، اور یوں امت مسلمہ ہر قسم کی مشکلات اور چیلنجز کا مقابلہ قوی تر ہو کر کرتی ہے۔

اختتامی کلمات: وحدتِ امت — جشنِ حقیقی کی روح

اسلام میں حقیقی جشن اور مسرت کا مفہوم ظاہری زیب و زینت یا رسمی تقریبات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دراصل، حقیقی خوشی اس میں مضمر ہے کہ مسلمان ایک ملتِ واحدہ کی صورت میں باہم جُڑے رہیں — ایک دوسرے کا سہارا بنیں، اخوت و محبت کا مظاہرہ کریں، اور باہمی شفقت و ہمدردی کے ذریعے ایک مستحکم اور پُرامن معاشرہ قائم کریں۔ جب امت باہمی اتحاد، رواداری اور ایثار کے ساتھ یکجان ہو جاتی ہے، تو وہ نہ صرف داخلی طور پر مضبوط ہو جاتی ہے بلکہ اقوامِ عالم کے لیے بھی ہدایت، رحمت اور استقامت کا مینار بن کر ابھرتی ہے۔ یہی ہے وہ اصل جشن — ایک ایسا روحانی اور فکری جشن جو ایمان، محبت اور یگانگت کی بنیاد پر استوار ہے؛ جو ہمیں ہمارے درخشندہ ماضی سے جوڑتا ہے اور ایک روشن مستقبل کی جانب رہنمائی فراہم کرتا ہے۔