وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡھَوٰی. اِنۡ ھُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی.
(النجم، 53: 3-4)
’’ اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘
یہ عظمت اور شان اللہ رب العزت نے کسی اور کے کلام کو عطا نہیں فرمائی جو تاجدار کائنات ﷺ کے ارشاد کردہ ہر لفظ اور جملہ کو عطا فرمادی کہ جو کچھ تاجدار کائنات ﷺ فرماتے ہیں، یہ اپنی مرضی سے نہیں فرماتے بلکہ آپ ﷺ کے دہن مبارک سے نکلا ہوا ہر ایک لفظ اور جملہ وحیِ الہٰی ہے۔
قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہ امر واضح فرما دیا ہے کہ اگر اللہ رب العزت کی قدر و عظمت کو جاننا چاہتے ہو اور اس کی عظمت پر اعتقاد و ایمان رکھتے ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے قدر ومنزلتِ رسالتِ محمدی ﷺ پر کامل اعتقاد اور ایمان قائم ہو۔یعنی جتنا عظمتِ مصطفیٰ ﷺ پر ایمان مضبوط ہوتا جائے گا، اتنا ہی اللہ رب العزت کے نزدیک یہ سمجھا جائے گا کہ یہ بندہ اللہ رب العزت کی قدر و منزلت سے خوب واقف ہے اور اگر آقا ﷺ کی قدر و منزلت پر ایمان کم اور کمزور ہوتا جائے گا تو یہ اللہ رب العزت کی حقانیت، حقیقت، عظمت اور اس کی قدر منزلت کے اوپر در حقیقت انسان کے ایمان کی کمی کی علامت ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖۤ اِذۡ قَالُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنۡ شَیۡءٍ
(الانعام، 6: 91)
’’ اور انہوں نے (یعنی یہود نے) اللہ کی وہ قدر نہ جانی جیسی قدر جاننا چاہیے تھی، جب انہوں نے یہ کہہ (کر رسالتِ محمدی ﷺ کا انکار کر) دیا کہ اللہ نے کسی آدمی پر کوئی چیز نہیں اتاری۔ ‘‘
اللہ رب العزت نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مختلف ادوار میں مختلف اقوام کی طرف بھیجے اور تمام انبیاء اور رسل عظام علیہم السلام کو اپنی قدر منزلت اور عظمت پر دلیل بنا کر مبعوث فرمایا اور پھر ان سب کے درمیان سب سے بڑی دلیل محمد مصطفیٰ ﷺ کو بنا کر بھیجا۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر جب قرآن مجید میں کیا گیا تو اللہ رب العزت نے یہ امر واضح فرمادیا کہ یوں تو یہ میرے ہی بھیجے ہوئے انبیاء و رسل علیہم السلام ہیں لیکن اپنی قدر ومنزلت، عظمت، تصرفات و اختیارات، معجزات اور قربِ الہی کے مدارج میں یہ ایک دوسرے سے الگ الگ اور جدا ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان کے مابین پائے جانے والے اس فرق کو خود قرآن مجید میں یوں بیان کیا۔ ارشاد فرمایا:
تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَھُمۡ عَلٰی بَعۡضٍۘ مِنۡھُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللّٰہُ وَ رَفَعَ بَعۡضَھُمۡ دَرَجٰتٍ.
(البقرہ، 2: 253)
’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ان میں سے کسی سے اللہ نے (براہِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)۔‘‘
ایک مقام پر آقا ﷺ کے لیے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی.
(الضحىٰ، 93: 5)
’’ اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔‘‘
آقا ﷺ کی قدرو منزلت اور رسالت پر کامل اعتقاد سے ہی انسان اللہ رب العزت کے کامل مقام و مرتبہ سے آگاہ ہوگا جبکہ آقا ﷺ کی عظمت کے حوالے سے کمزور یا کم ایمان اللہ تعالیٰ کی حقانیت اور اس کی عظمت پر کمزور ایمان کی علامت متصور ہوگا
مقام و عظمتِ مصطفی ﷺ کے اظہار کے اور کئی مقامات بھی اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمائے ہیں جن کے مطالعہ سے عظمت و شرفِ مصطفی ﷺ نکھر کر ہمارے سامنے آتا ہے۔
آج بدقسمتی سے چند اذہان میں ایک ایسا مغالطہ پیدا کردیا گیا ہے کہ کچھ طبقات یہ سوچنے لگے ہیں کہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام اللہ رب العزت کے ہی بھیجے ہوئے ہیں اور تمام ہی برگزیدہ، محترم اور عظیم ہیں، ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور ان ہی انبیاء کرام میں سے تاجدار کائنات ﷺ بھی ایک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ انھیں آخری نبی اور رسول بناکر بھیجا ہے، اس لیے بقیہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی نسبت یہ ان سے بہتر ہیں لیکن وہ جماعتِ انبیاء علیہم السلام میں سے ایک نبی ہیں اور ان انبیاء کرام علیہم السلام جیسے ہی ہیں۔
اس مغالطہ کو دور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس بات کا اللہ کے کلام اور حدیث نبوی ﷺ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس حوالے سے اس حقیقت کو سمجھ لینا لازم ہے کہ تاجدار کائنات ﷺ کو انبیاء و رسل علیہم السلام کی جماعت میں اللہ رب العزت نے ضرور بھیجا ہے مگر آپ ﷺ ان جیسے نہیں ہیں۔اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ رب العزت نے تاجدار کائنات ﷺ کو آخری نبی بنایا اور انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت کے منصب پر سرفراز فرمایا ہے اور آپ ﷺ جماعتِ انبیاء پر کچھ فضیلت کے ساتھ تشریف لائے ہیں تو صرف ایسا نہیں ہے بلکہ تاجدار کائنات ﷺ کو اللہ رب العزت نے جو شانیں عطا فرمائی ہیں اور جن شانوں پر قرآن مجید میں کئی آیات بطورِ دلیل موجود ہیں، وہ شانیں ایسی ہیں کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار کی صف میں کسی ایک پیغمبر کو بھی ایسی شان اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائی۔
یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ اس سے دیگر انبیاء کرام اور رسل عظام علیہم السلام کی شان میں کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ آقا ﷺ کی امامت کو تسلیم کرنے سے ان کی اپنی شان اور عظمت بلند ہوجاتی ہے۔اس لیے کہ یہ ان کے لیے بھی فخر ہےکہ اللہ رب العزت نے جن کو ان کا امام بنایا، وہ کیسی عظمت، شان اور تصرفات والے ہیں۔
اس بات کو اس مثال سے سمجھیں کہ اگر کسی تنظیم، تحریک اور جماعت کے قائد و لیڈر کو اس جماعت کے کارکن اور پیروکار اپنے سے بہتر تو سمجھیں لیکن انھیں اپنے اور قائد کے درمیان بہت زیادہ فرق نظر نہ آئے تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ کارکن اور پیروکار اپنے قائد کے کس قدر مطیع و فرمابردار ہوں گے اور ان کا اپنے قائد کے بارے میں یقین کا درجہ کیا ہوگا۔اس کے بر عکس اگر کارکن اور پیروکار اپنے قائد اور لیڈر کو علم، ذہانت، بصیرت و حکمت، معاملہ فہمی اور دور اندیشی میں بہت بلند دیکھیں اور اپنے اور اپنے قائد کے درمیان زمین و آسمان کا فرق محسوس کریں تو ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کا اپنے قائد پر اعتقاد اور اعتماد کتنا مضبوط اور اعلیٰ ہوگا۔
جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کی عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت نے انھیں وہ امام اور قائد عطا کیا ہے کہ جن کو وہ عظمت و شرف، عزت و کرامت اور مقام و مرتبہ میں خود سے بہت آگے دیکھتے ہیں۔ آپ ﷺ کو حاصل یہ شان صرف یہاں پر ہی نہیں ہے بلکہ محشر کے میدان میں بھی اس کا اظہار یوں ہوگا کہ آپ ﷺ کو مقامِ محمود پر فائز کیا جائے گا۔ اس دن باقی سب مخلوق نیچے ہوگی، عرش پر صرف ایک خدا کی ذات ہوگی اور اللہ کے ساتھ انبیاء کرام علیہم السلام کے عظیم قائد و رہبر تاجدار کائنات ﷺ جلوۂ افروز ہوں گے۔محشر کا میدان آپ ﷺ کی اسی عظمت کو دکھانے کے لیے ہوگا کہ کرسیٔ محمود پر سرور کائنات ﷺ جلوہ افروز ہوں گے اور باقی ہر کوئی لوائے حمد کے سائے میں کھڑا ہوگا۔
اللہ رب العزت نے تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کو عزت و عظمت سے نوازا ہے لیکن تاجدار کائنات ﷺ کی توقیر یوں بلند فرمائی کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اور آقا ﷺ کے درمیان فرق کو جاننے کا کوئی پیمانہ ہی موجود نہیں۔ اس لیے کہ آپ ﷺ کا مقام و مرتبہ جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کی نسبت بے حد و بے حساب بلند و ارفع ہے۔ اس لیے اس مغالطہ کو اذہان کی تختی سے یکسر مٹا دیں کہ تاجدار کائنات ﷺ جماعتِ انبیاء و رسل علیہم السلام میں صرف ایک رسول بن کر تشریف لائے۔ وہ رسول بن کر تشریف لائے ہیں لیکن آپ ﷺ اور بقیہ انبیاء کرام و رسل عظام علیہم السلام کے درمیان فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ ہماری سوچ ان کا احاطہ بھی نہیں کرسکتی۔
جملہ انبیاء کرام علیہم السلام اور حضور نبی اکرم ﷺ کے درمیان مقام و مرتبہ کے فرق کو سمجھنے کے لیے تاجدار کائنات ﷺ کی عظمت کو آپ ﷺ کے اختیارات و تصرفات کے آئینہ میں دیکھنا ہوگا کہ آپ ﷺ کی وہ کون سی عظمتیں ہیں جو آپ ﷺ کو باقی انبیاء کرام علیہم السلام سے جدا کرتی ہیں اور وہ کون سی رفعتیں اور منزلیں ہیں جو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو باقی انبیاء کرام علیہم السلام سے ممتاز کرتی ہیں؟ یوں تو ہر نبی اور رسول کو اللہ رب العزت نے معجزات اور تصرفات عطا فرمائے ہیں، کوئی ایسا نبی اور رسول تشریف نہیں لایا کہ جسے اللہ نے معجزات اور اختیارات و تصرفات نہ عطا فرمائے ہوں لیکن ہر کسی کے اختیارات کا دائرہ کار جدا جدا تھا۔
آیئے! اللہ رب العزت کی اس تقسیم کو براہ راست حدیث مبارک سے سمجھتے ہیں۔ حضرت سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
ما من الانبياء نبي إلا اعطي ما مثله آمن عليه البشر، وإنما كان الذي اوتيت وحيا اوحاه الله إلي فارجو ان اكون اكثرهم تابعا يوم القيامة.
(صحيح البخاري، كتاب فضائل القرآن، باب كيف نزول الوحي وأول ما نزل، رقم الحدیث: 4981)
’’ہر نبی کو ایسے ایسے معجزات عطا کئے گئے کہ (انہیں دیکھ کر لوگ) ان پر ایمان لائے (مگر بعد کے زمانے میں ان کا کوئی اثر نہ رہا) اور مجھے جو معجزہ دیا گیا ہے وہ وحی (قرآن) ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی ہے۔ (اس کا اثر قیامت تک باقی رہے گا) اس لیے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے تابع فرمان لوگ دوسرے پیغمبروں کے تابع فرمانوں سے زیادہ ہوں گے۔‘‘
اللہ رب العزت نے جملہ انبیاء کرام و رسل عظام علیہم السلام کو اپنی قدرو منزلت اور عظمت پر دلیل بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا اور پھر ان میں سے حضورنبی اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کو اپنی عظمت کی سب سے بڑی دلیل قرار دیا
آقا ﷺ نے اس حدیث مبارک میں انبیاء کرام علیہم السلام کے دائرہ کار کا تعین خود فرما دیا کہ ہر نبی کو اتنے ہی تصرفات اور معجزات دیے گئے جتنے لوگ ان پر ایمان لائے اور جو چیز مجھے بطورِ معجزہ دی گئی، وہ قرآن ہے جو قیامت تک باقی رہے گا اور قیامت کے روز میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے۔ ان الفاظ میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے خود واضح فرمادیا کہ جس نبی کا جتنا دائرہ تھا، جتنی قوم ان کو ماننے والی تھی، جہاں تک ان کی دعوت پہنچی اور جتنا ان کا زمانہ نبوت تھا، ان کے تصرفات، اختیارات اور معجزات اتنے ہی تھے۔
گویا ہر نبی اور رسول کا اپنا ایک زمانہ اور دور تھا، ہر ایک کا ایک محدود علاقہ تھا اور ہر ایک اپنے مقررہ و معینہ دور کے لیے تشریف لائے۔ کسی پر ہزار آدمی ایمان لائے، کسی پر پانچ سو ایمان لائے، کسی پر بیس لوگ ایمان لائے اور کسی پر پچاس لوگ ایمان لائے اور پھر اس حساب سے ہی انھیں معجزات بھی عطا کیے گئے۔
اب حکمتِ الہٰیہ پر غور و فکر کریں کہ اس نے اپنے محبوب ﷺ کو سب سے آخرمیں ہی کیوں مبعوث فرمایا؟آپ ﷺ سے قبل آبادیاں بھی کم تھیں، زمانہ بھی محدود تھے، وہ تہذیبیں اور اقوام آتی تھیں اور ختم ہوجاتی تھیں، مگر تاجدار کائنات ﷺ کا سورج کچھ اس انداز سے طلوع ہوا کہ اس نے اب غروب نہیں ہونا۔اس نے قیامت تک اور قیامت کے بعد بھی روشنی کو پھیلاتے رہنا ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ یہ زمانہ کتنا ہے۔ نہ جانے کتنے لاکھوں اور کروڑوں سال بعد قیامت بپا ہوگی، اس وقت تک اور اس کے بعد بھی آنے والا ہر زمانہ میرے حضور کا ہے۔
تاجدارِ کائنات ﷺ نہ صرف خاتم النبیین کے منصب پر فائز ہیں بلکہ آپ ﷺ جیسی عظمت، شان اور تصرف و اختیار اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کو عطا نہیں فرمایا
مذکورہ حدیث مبارک کی روشنی میں آقا ﷺ کے تصرفات اور اختیارات کے معیارات کی بھی سمجھ آجاتی ہے۔ جس طرح تاجدار کائنات ﷺ کا زمانہ بے حدو حساب ہے اس طرح آپ ﷺ کے تصرفات، معجزات اور کمالات بھی بے حد و بے حساب ہیں۔اب ہر نبی کے زمانہ کو بھی سامنے رکھ لیں اور تاجدار کائنات ﷺ کے زمانے کو بھی سامنے رکھ لیں تو کیا ہم کبھی اس فاصلہ کا ادراک کرسکتے ہیں جو فاصلہ عظمتِ مصطفی ﷺ اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے مقام و مرتبہ کے درمیان حائل ہے۔ نہیں، ایسا ممکن نہیں۔ تاجدار کائنات ﷺ کا زمانہ چودہ سو سال پہلے کا طلوع نہیں ہوا بلکہ آقا ﷺ کا زمانہ تو وہ بھی تھا کہ جب آدم ﷺ کا جسدِ خاکی ابھی تخلیق کے مراحل میں تھا۔۔۔ تاجدار کائنات ﷺ کا زمانہ تو وہ بھی تھا کہ جب سیدنا آدم ﷺ نے عرش الہیٰ کی طرف دیکھا تھا تو عرش کے ستونوں پر اسم ِ محمد ﷺ کو لکھا پایاتھا۔۔۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ہرزمانہ میرے مصطفیٰ ﷺ کا ہے۔ وہ زمانہ بھی میرے مصطفیٰ ﷺ کا تھا اور یہ زمانہ بھی میرے مصطفیٰ ﷺ کا ہے۔۔۔ آئندہ آنے والا ہر زمانہ بھی مصطفیٰ ﷺ کا ہوگا۔۔۔ محشر بھی مصطفیٰ کا ہے اور وہاں پر دکھایا جانے والا مقامِ محمود بھی مصطفیٰ ﷺ کا ہے۔۔۔ جنت بھی مصطفیٰ ﷺ کی ہے اور جنت کے مقامات و مدارج بھی مصطفیٰ ﷺ کے ہیں۔
جو معجزات انبیاء کرام اور رسل عظام علیہم السلام کو عطا ہوئے، وہ سب تاجدار کائنات ﷺ کی ذات بابرکات میں بھی تھے بلکہ ان سے بہت بڑھ کر تھے۔آیئے! دیگر انبیاء کرام علیہم السلام اور آقا ﷺ کے معجزات کا اس تناظر میں مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ سیدنا نوح ﷺ کو سفینہ کا معجزہ عطا کیا یعنی انہوں نے ایک کشتی تیار کی اور اس کے اندر اپنی قوم کے مومنین کو بچالیا۔ آقا ﷺ کو بھی اس سفینہ نوح کی شان عطا ہوئی۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
أَلَا إِنَّ مِثْلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مِثْلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هلك.
(مشکوۃ المصابیح، كتاب المناقب، رقم الحدیث: 6183)
’’ سن لو! تم میں میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا۔ ‘‘
2۔ سیدنا ہود ﷺ کو ریح صرصر (ہوا کا معجزہ) کے معجزہ سے نوازا۔ ہوا کا تو کام ہی چلناہے تو اس نے کیا نیا کام کیا۔ حضرت ہود ﷺ کے اس معجزہ پرایمان ہے لیکن ہوا کا کام چلنا ہے، اس تناظر میں اس کے ذریعے دکھایا جانے والا کوئی معجزہ افضل ہوگا یا کوئی ایسا معجزہ افضل و اعلیٰ ہوگا جس میں پتھر ہوا کی طرح اڑنے لگیں۔ تاجدار ِکائنات ﷺ سنگریزوں کو مٹھی میں لے کر پھینکتے تو ہوا سے زیادہ تیز رفتاری سے جاکر کفار کی آنکھوں میں لگتے۔اس سے معلوم ہوا کہ آقا ﷺ کو ہر وہ معجزہ جو دیگر انبیاء کی انفرادیت اور امتیاز تھا، آپ ﷺ کو وہ حد سے بڑھ کر عطا کیا گیا۔
3۔ سیدناصالح ﷺ کو اونٹنی کا معجزہ دیا گیا مگر تاجدار کائنات ﷺ کو یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اس اونٹنی جیسے کتنے ہی جانور آپ ﷺ کے قدموں میں جھک کر سجدہ کرتے اور آپ ﷺ سے ہم کلام ہوتے۔
جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کی عظمت و شان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ امام و قائد عطا کیا ہے جن کی عظمت و شرف، عزت و کرامت اور مقام و مرتبہ اُن سے حد درجہ بلند ہے اور وہ محبوبیت کے ارفع مقام پر فائز ہیں
4۔ سیدنا یوسف ﷺ کو قمیص کا معجزہ دیا کہ جس سے آپ ﷺ کے والد محترم حضرت یعقوب ﷺ کی بینائی لوٹ آئی۔ دوسری طرف تاجدارِ کائنات ﷺ کے نہ جانے ایسے کتنے واقعات ہیں کہ لوگ صبح و شام نہ صرف آپ کے دستِ مبارک سے بلکہ آپ ﷺ کی استعمال اور مس کردہ ہر چیز سے شفایاب ہوگئے۔
5۔ سیدنا موسیٰ ﷺ کو معجزہ عصاء دیا گیا جبکہ دوسری طرف تاجدار کائنات ﷺ اگر کسی کو لکڑی کی ٹہنی عطا کردیں تو وہ ہی اُن کے لیے چمکنے لگے اور رات کے اندھیرے میں ٹارچ کا کام دے۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نماز عشاء کے لئے باہر تشریف لائے تو خوب زوردار بارش ہورہی تھی۔اسی دوران آپ ﷺ کی نظر حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ پر پڑی، آپ ﷺ نے پوچھا: قتادہ! رات کے اس وقت میں (اس بارش میں) آنے کی کیا ضرورت تھی؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے معلوم تھا کہ آج نماز کے لئے بہت تھوڑے لوگ آئیں گے تو میں نے سوچا کہ میں نماز میں شریک ہوجاؤں۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
جب تم نماز پڑھ چکو تو رک جانا، نماز سے فارغ ہو کر آپ ﷺ نے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کو ایک چھڑی دی اور فرمایا:
خذ هذا، فسيضيء امامك عشرا، وخلفك عشرا، فإذا دخلت البيت، وتراءيت سوادا في زاوية البيت، فاضربه قبل ان يتكلم، فإنه شيطان.
(مسند احمد، رقم الحدیث: 11624)
یہ لے لو، یہ تمہارے دس قدم آگے اور دس قدم پیچھے روشنی دے گی، پھر جب تم اپنے گھر میں داخل ہو اور وہاں کسی کونے میں کسی کا سایہ نظر آئے تو اس کے بولنے سے پہلے اسے اس چھڑی سے مار دینا کہ وہ شیطان ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
6۔ سیدنا موسیٰ ﷺ کو معجزہ یدِ بیضاء عطا کیا کہ آپ ﷺ کا ہاتھ مبارک نورانی بن جاتا اور چمکنے لگتا۔ دوسری طرف کئی متفق علیہ احادیث مبارکہ میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ تاجدار کائنات ﷺ نے جس کے چہرے کو چھو لیا، اس کا چہرہ بیضاء کی مانند روشن ہوکرعمر بھر چمکتا رہتا۔نبی کا اپنا ہاتھ چمکے تو معجزہ ہے اور اگر نبی کا اپنا ہاتھ ابدیت کی شان پر رہے اور جسے چھو جائے وہ عمر بھر کے لیے چمکنے لگ جائے تو یہ دیگر انبیاء کے معجزات سے بڑا معجزہ ہے۔یہ شان صرف تاجدار کائنات ﷺ کو ہی حاصل ہے۔
7۔ سیدنا داؤد ﷺ کے ہاتھ پر لوہا پگھل جاتا تھا جبکہ تاجدار کائنات ﷺ کے قدموں میں آنے پر بے شمار سخت قلوب والوں کی ’’انا‘‘ اور ’’میں‘‘ پگھل جاتی تھی۔ دنیا کے بگڑے ہوئے لوگ جب چہرہ انور ﷺ پر نگاہ ڈالتے تھے تو ان کی تقدیریں بدل جاتی تھیں۔ سیدنا داؤد ﷺ کے ہاتھ پر فقط لوہا پگھلا جبکہ شان اور عظمت مصطفیٰ ﷺ یہ ہے کہ تاجدار کائنات ﷺ کا دست مبارک بڑھا تو نہ جانے کتنے سخت دل پگھل گئے۔
8۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ ﷺ کو شانِ مسیحائی عطا کی کہ آپ ﷺ بیماروں کو شفا دیتے اور نابینا لوگوں کو بینائی عطاکرتے جبکہ تاجدار کائنات ﷺ کی شان یہ تھی کہ اگر کسی کی آنکھ اپنی جگہ سے نکل جاتی تو اس کو اپنے دستِ اقدس سے اس کی جگہ پر واپس رکھ کر بینائی عطا فردیتے۔حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہما کی آنکھ غزوہ بدر کے دن تیر کا نشانہ بنی اور ان کا ڈھیلا نکل کر چہرے پر لٹک گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس آنکھ کے ڈھیلے کو کاٹنا چاہا تو آقا ﷺ نے منع فرمادیا اور اس کو اپنے دست مبارک سے اٹھا کر ان کی آنکھ کی جگہ پر رکھا۔ جیسے ہی آپ ﷺ نے آنکھ کے ڈھیلے کو اس کی جگہ پر رکھا تو فوراً آنکھ جڑ گئی اور نہ صرف جڑ گئی بلکہ بینائی بھی فوراً بحال ہوگئی۔
(مسند ابی یعلیٰ، 3: 120)
کسی بھی نبی کے معجزات کا بعد کے زمانے میں کوئی اثر نہ رہا جبکہ آقا ﷺ کو قرآن مجید کی صورت میں دیے گئے معجزہ کا اثر قیامت تک باقی رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن امتِ مسلمہ کی تعداد دیگر امم سے زیادہ ہوگی
ایک چیز جو اپنی ہیت میں قدرتی تھی اور سائنسی اعتبار سے اپنی معینہ جگہ پر تھی، اگر وہ اس مقام پر رہتے ہوئے کام کرنا بند کردے تو اسی مقام پر اس میں جان لوٹا دی جائے تو یہ اتنا حیران کن نہیں لیکن یہ بات عقل سے م اور ا ٓء ہےکہ وہ عضو اپنے اصل مقام سے کٹ کر باہر نکل جائے اور پھر اس کو اسی جگہ پر رکھ کر فوراً جوڑ دیا جائے، یہ تصرف مصطفیٰ ﷺ کے علاوہ کسی سے ممکن نہیں۔ یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے کئی واقعات ہیں۔ غزوہ احد میں ایک صحابی آقا ﷺ کی بارگا ہ میں اپنی نکلی ہوئی آنکھ لے کر آئے۔ آقا ﷺ نے اپنے لعابِ دہن لگا کر اس آنکھ کو اس کی جگہ پر رکھا تو آنکھ ٹھیک ہوگئی اور بینائی لوٹ آئی۔یہ ایسا تصرف ہے کہ ایسا تصرف آج تک آسمان نے نہیں دیکھا۔
سیدنا سلیمان ﷺ کو یہ معجزہ دیا گیا کہ جنات پر آپ ﷺ کو تصرف اور اختیار حاصل تھا۔ آقا ﷺ کو بھی جنات پر تصرف عطا فرمایا گیا لیکن فرق یہ ہے کہ سیدنا سلیمان ﷺ کے تصرف میں تو صرف ان کے دور کے ہی جنات تھے جبکہ تاجدارِ کائنات ﷺ کے تصرف و اختیار میں صرف آپ ﷺ ہی کے زمانہ کے جنات نہیں تھے بلکہ آج اور آنے والے زمانے کے جنات کو بھی آقا ﷺ کا تابع و فرمانبردار بنا دیا گیا۔ یہاں تک کہ آقا ﷺ کے ادنیٰ غلام اور امتی بھی آپ ﷺ کا نام لے کر ان جنات پر تصرف و اختیار رکھتے ہیں۔
روایات کے مطابق سیدنا سلیمان ﷺ کے پاس ایک نایاب اور کرشماتی انگشتری تھی جوایک بار ان سے کہیں کھو گئی تو اس کے ساتھ ہی سلطنت بھی ان کے ہاتھوں سے کچھ عرصہ کے لیے چلی گئی۔ اس انگوٹھی میں ایسی کیا وجہ تھی کہ اس کے کھو جانے سے حضرت سلیمان ﷺ حکومت سے محروم ہوگئے؟روایات کے مطابق اس انگوٹھی پر تاجدار کائنات ﷺ کا اسم گرامی لکھا ہوا تھا۔ جب تک سیدنا سلیمان ﷺ کے پاس وہ انگوٹھی رہی تو حکومت ان کے پاس رہی اور جوں ہی وہ انگوٹھی ان سے کھو گئی، حکومت بھی ان کے ہاتھ سے چلی گئی۔
اسمِ مصطفی ﷺ والی انگوٹھی پاس رہے تو سلطنت بھی قدموں میں رہتی ہے اور اگر کھو جائے تو سلطنت بھی چلی جاتی ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ سیدنا سلیمان ﷺ کاتصرف بھی اسم مصطفیٰ ﷺ کی دین اور عطا ہے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جن کے دلوں میں مصطفیٰ ﷺ رہتے ہیں، دنیا ان کے قدموں میں رہتی ہے اور جو محبت و عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے دور ہوجاتے ہیں، دنیا بھی اپنا چہرہ ان سے پھیر لیتی ہے۔یہ بھی اختیار و تصرف ِمصطفیٰ ﷺ ہے کہ جو اِن کا ہوا، دنیا اُن کی ہوگئی اور جو اُن کا نہ رہا، دنیا ان کی نہ رہی۔
(جاری ہے)