مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: قر آن مجید کی آیت کریمہ ’وتعز من تشاء و تذل من تشاء‘ کا صحیح مفہوم بتائیں۔ اللہ کی طرف سے تو فقط عزت ہے، ذلت تو انسان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔ آیت کریمہ میں ’وتذل من تشاء‘ کی تفصیلی وضاحت فرمائیں۔

جواب: اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق و مالک ہے اور ہر شئے اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کوئی ذرہ بھی اذنِ الٰہی کے بغیر اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے اور نہ کوئی پتّہ گرسکتا ہے۔ اس کائنات کا کوئی معمولی سا عمل بھی اللہ تعالیٰ کے علم اور مشیت کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے اور انسان کیا عمل کرے گا‘ سب ازل سے ہی علمِ الٰہی میں ہے۔ اسی کو تقدیر کا نام دیا گیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو قدرت و اختیار عطا کیا ہے اور اسے خیر و شر کی تمیز سکھا کر خیر کو اختیار کرنے اور شر کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.

(الکہف، 18: 29)

اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔

اسی طرح ایک مقام پر ارشاد ہے:

أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ۔ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ۔ وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ۔

کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔ اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے)۔ اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔

(البلد، 90: 8-10)

مذکورہ بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کی تمیز سکھائی اور ان میں سے کسی ایک کو اپنانے کا اختیار دیا ہے۔ اب انسان کی مرضی ہے کہ خیر کا راستہ اپنا کر عزت کما لے یا شر کو اپنا کر ذلت و رسوائی کمالے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لاَّ رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ.

(آل عمران، 3: 25)

سو کیا حال ہو گا جب ہم ان کو اس دن جس (کے بپا ہونے) میں کوئی شک نہیں جمع کریں گے، اور جس جان نے جو کچھ بھی (اعمال میں سے) کمایا ہو گا اسے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اس آیتِ مبارکہ کا دوسرا حصہ موضوع سے متعلقہ ہے کہ جو انسان کمائے گا اسی کا بدلہ اسے ملے گا۔ یعنی اچھے اعمال کی جزا ملے گی اور برے اعمال کی سزا ملے گی۔ اسی منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اگلی آیت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو بآسانی بات سمجھ آ جائے گی۔ فرمایا:

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَـنْـزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.

(آل عمران،۳: ۲۵)

(اے حبیب! یوں) عرض کیجئے: اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔

یعنی اچھے اعمال انسان کی عزت اور درجات کی بلندی کا سبب بنتے ہیں اور برے اعمال انسان کی ذلت و پستی کا باعث ہوتے ہیں‘ جبکہ خدا تعالیٰ کی رضا انسان کو عزت دینے میں ہے ذلت و رسوائی میں نہیں۔

و تذل من تشاء میں اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت کا تذکرہ ہے نہ کہ اس کی رضا کا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کسی کو ذلت دینا نہیں ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ ’جسے چاہے ذلت دے‘ اس کا مطلب ہے کہ ذلت ملنا بھی خدا تعالیٰ کی مشیت و ارادے کے تابع ہے۔ اچھائی ہو یا برائی دونوں اثر پزیری کے لیے اللہ تعالیٰ کے ارادے، مشیت اور اذن ہی کی محتاج ہیں‘ خود سے مؤثر نہیں ہیں۔ اس لیے عزت و ذلت‘ دونوں اللہ کی مشیت و ارادے سے مؤثر ہیں‘ از خود نہیں۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ عزت اللہ تعالیٰ کے ارادے و مشیت کے ساتھ ساتھ اس کے حکم اور رضا سے بھی ہے جبکہ ذلت اللہ تعالیٰ مشیت و ارادے سے اثر پذیر تو ہے مگر اس کے کسب میں اللہ کا حکم اور رضا شامل نہیں ہے۔

سوال:اللہ تعالیٰ کے حکم اور رضا میں کیا فرق ہے؟

جواب: اوامر کو بجا لانے اور نواہی کو ترک کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کچھ صادر کیا ہے، وہ احکام (حکم کی جمع) ہیں۔

احکامِ الہٰی کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

۱۔ ٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْ.

(النساء،۴: ۵۹)

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی۔

۲۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ.

(البقرہ،۲: ۱۷۲)

اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو۔

۳۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.

(آل عمران،۳: ۱۳۰)

اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

یہ احکامِ الٰہی کی چند ایک مثالیں ہیں۔ قرآنِ مجید میں بےشمار مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام بیان فرمائے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام، صریح اور واضح انداز میں بیان کر دیے ہیں اور انسان کو بتا دیا ہے کہ اوامر کو بجا لانے اور نواہی کو ترک کرنے سے میں راضی ہوتا ہوں، مگر انسان کو ان اوامر و نواہی کے بجالانے پر مجبور نہیں کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.

(الکہف،۱۸: ۲۹)

اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ۔

(البلد،۹۰: ۱۰)

اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔

اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں پر انسان کو اختیار و ارادہ کی آزادی بخشی ہے، ان پر اسے اجر دینے اور مواخذہ کرنے کا وعدہ بھی فرما رکھا ہے۔ یہ اختیار و ارادہ انسان کا ذاتی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا عطاکردہ ہے اور اس کا استعمال اگر انسان، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرے تو اس سے رضائے الٰہی عطا ہوتی ہے۔ رضا، اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں کی جانب سے ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے رضوان کا لفظ مخصوص کیا ہے۔ بندے کے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حق تعالیٰ سے راضی ہو، دین مبین اسلام سے راضی ہو، اللہ کے اس رسول ﷺ سے ر اضی ہو جنہوں نے یہ دین مبین ہم تک پہنچایا اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر دل سے یقین رکھے اور اپنے اوپر آنے والی آزمائشوں اور مصیبتوں کو سکون اور اطمینان سے قبول کرے۔ پس جو شخص اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، اسے اپنا نصب العین بنائے اور اس کی خاطر پیہم کوشش کرے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے۔

سوال: غیرمسلموں سے تعلقات رکھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اہلِ علم اور فقہائے کرام نے غیر مسلموں سے تعلقات کی تین اقسام بیان کی ہیں:

۱۔ موالات: اس سے مراد قلبی اور دلی محبت ہے۔ یہ صرف ہم عقیدہ لوگوں ’اہلِ اسلام‘ کے ساتھ جائز ہے، کفار و مشرکین سے رازدارانہ تعلق، قلبی محبت اور ان کا ایسا احترام کہ جس سے کفر کا احترام لازم آئے، جائز نہیں۔

۲۔ مواسات: اس کے معنیٰ ہمدردی، خیر خواہی اور نفع رسانی کے ہیں۔ ایسے غیرمسلم جو اہلِ اسلام سے برسرِپیکار نہیں، وہ ہماری ہمدردی اور خیر خواہی کے مستحق ہیں۔ سورہ ممتحنہ میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے:

لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ۔

(الممتحنہ،۶۰: ۸)

اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

ایسے لوگوں سے حسنِ سلوک اور ہمدردی و غم خواری میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اسلام اورمسلمانوں کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہوں گے اور آپسی فاصلہ کم ہوگا۔

۳۔ مدارات: اس سے مراد ظاہری خوش خلقی اور ادب و احترام ہے۔ یہ تمام غیرمسلموں کے ساتھ جائز ہے، خاص طورپر جب اس سے مقصد دینی نفع رسانی، اسلام کی دعوت، اسلامی اخلاق و برتاؤ پیش کرنا ہو یا وہ ہمارے مہمان ہوں اور مہمانوں کا احترام بہر حال لازم ہے۔

دعوتِ دین کی خاطر غیرمسلم سے دوستی کرنا اور اس سے خوش اخلاقی سے پیش آنا جائز ہے، تاہم اس سلسلے میں اس بات کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے کہ ہماری اسلامی امتیاز ہمہ وقت برقرار رہے اور عقائد یا دینی مسائل میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ ہو۔ کسی بھی مسلمان کو رواداری کے نام پر ذرہ برابر دین کے معاملے میں رد و بدل اور ترمیم کی اجازت نہیں ہے۔

غیر مسلم کے لئے ’السلام علی من اتبع الهدیٰ‘ یا ’ آداب‘ کہنا جائز ہے- اگر کوئی غیر مسلم ’السلام علیکم‘ کہے تو اسے جواب میں صرف ’وعلیکم‘ کہنا چاہیے۔ حدیث مبارک میں آتا ہے:

 لاتبدؤُا اليهود ولا النصاریٰ بالسلام.

یہود و نصارٰی پر سلام کہنے میں پہل نہ کرو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث مبارک میں آتا ہے:

اذا سلم عليکم اليهود فانما يقول احدهم السَّام عليک فقل و عليک.

(اوکماقال) (متفق علیہ)

جب تم کو یہود سلام کرتے ہیں تو وہ کہتے: السام علیک۔ وہ یہ لفظ استعمال کرتے تھے اس کا معنی ہے تم جلدی مرجاؤ۔ تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جواب میں تم بھی یہی الفاظ کہو: وعلیکم یعنی تم کو بھی ایسا ہی ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ السلام علیکم کہے تو تم بھی وعلیکم السلام کہو، اگر وہ السام کہے تو تم جواب میں وعلیکم کہو۔

علماء کرام فرماتے ہیں اگر کوئی مسلمان ایسی جگہ پر کام کرتا ہو یا رہتا ہو جہاں پر وہ لوگ اکثریت میں ہوں تو اگر یہ مسلمان ان کے شر سے بچنے کے لیے ان پر سلام کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر وہ لفظ سلام استعمال کرتا ہے تو جواب بھی سلام سے ملے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بہرحال اگر وہ پہل کرے تو اچھا ہے، اگر مطلقاً بھی سلام کرے تو بعض علماء کے نزدیک فقط مکروہ ہے۔ المختصر یہ کہ اسلام سلامتی اور امن کا درس دیتا ہے لہذا انھیں سلام نہ کرنا مناسب اور بہتر رویہ نہیں۔