روشن خیالی اور اعتدال پسندی اسلامی تعلیمات کے تناظر میں

ڈاکٹر محمد اکرم رانا

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ایک روشن خیال مذہب ہے اور ہر شعبہ زندگی میں اعتدال پسندی کا درس دیتا ہے اور قیامت تک آنے والے لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کا علمبردار ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روشن خیالی کا جو تصور ہمارے ہاں ہر معاملہ میں عالمِ مغرب سے آیا ہے، اس کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟ مغربی روشن خیالی سے مراد ہر معاملہ میں آزاد ہونا ہے۔ یعنی تجارت میں بھی آزادی۔۔۔ سیاست میں بھی آزادی۔۔۔ معاشرے میں بھی آزادی۔۔۔ اور میل جول میں بھی آزادی۔ یعنی ’’No restriction at all‘‘

مغرب کوئی پابندی یا حدود و قیود اپنے ہاں نہیں دیکھنا چاہتا، اسی لیے وہ ہمارے لیے بھی یہ چیز جائز نہیں سمجھتا۔ آج جو تبدیلی مغرب ہمارے ہاں دیکھنا چاہتا ہے، وہ ہمارے لائف سٹائل کی تبدیلی ہے۔ وہ طریقہ جو شروع سے ہمارے درمیان چلا آرہا ہے اور جسے ہم نے اسلام کی بدولت سیکھا ہے، وہ مغرب کو پسند نہیں۔ اہلِ مغرب نہیں چاہتے کہ ہماری ایک خاص طرزِ فکر، خاص معیشت، خاص تجارتی لین دین، یا خاص معاشرت ہو بلکہ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہماری معاشرت، معیشت اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں میں اُن کے افکار اور نظریات شامل ہوجائیں۔

یاد رکھیں! اس قسم کی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کو اسلام میں نئے سرے سے داخل نہیں کیا جارہا بلکہ یہ تو وہ پرانی شراب ہے جس کو نئی بوتل میں ڈال کر پیش کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مغرب میں جب روشن خیالی کا یہ نظریہ آیا تو اس نے مغرب کو کیا دیا؟ اگر اس نظریے نے مغرب کو کوئی فائدہ پہنچایا ہے تو مسلمان بھی اس نظریے کو اپنائیں لیکن اگر اس نظریے نے مغربی تہذیب کو نقصان پہنچایا ہے تو مسلمانوں کو بھی احتیاط کا دامن تھامنا ہوگا۔ جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ متعدد کتب، میگزین اور انسائیکلو پیڈیا میں اس امر پر ثبوت موجود ہیں کہ اس روشن خیالی کے سبب مغرب نے حاصل کرنے کی نسبت بہت کچھ کھویا ہے۔

مغرب میں ایک وقت تک مذہب کو تفوق و غلبہ حاصل تھا۔ اس دور میں سائنسدانوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ برونو جیسے لوگوں کو سولی پر لٹکادیا گیا۔ گلیلیو کو مجبور کیا گیا کہ اپنے نظریات سے انحراف کرلو ورنہ ہم پھانسی پر لٹکادیں گے۔ اسی لیے مذہب کو سائنس کے مخالف سمجھ کر مذہب کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ ان دنوں کلیسا کا اقتدار اتنا زیادہ طاقتور تھا کہ ان کے لیے بادشاہ کو بھی تبدیل کرنا مشکل کام نہ تھا۔ جب ایک چیز اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے تو دوسری چیزیں اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔

مذہبی رہنماؤں نے مذہب اور اس کی تعلیمات کا غلط استعمال کیا جس کے سبب مغرب میں مذہب کے خلاف دو سو سال تک مذہب بیزاری اور اصلاحِ مذہب یا روشن خیالی یا نشاۃ ثانیہ کے نام سے تحریک چلی۔ اس تحریک کا بنیادی مقصد پاپائیت یعنی تھیوکریسی یا مذہبی حکومت کی خرابیاں دور کرنا تھا مگر اس کا نتیجہ بالکل الٹ نکلا اور مذہب بیزاری اور مذہب سے نفرت شروع ہوگئی۔

چنانچہ اس دور میں نئے نظریات پیش کیے گئے، ان میں فرائیڈ جیسے لوگ شامل ہیں جنھوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ ایک دور جہالت کا تھا، وہ ختم ہوگیا۔۔۔ پھر مذہب کا دور آیا، وہ بھی ختم ہوگیا۔۔۔ اب سائنس کا دور ہے۔ انھوں نے سائنس کو ایک Evolutionary method کے طور پر متعارف کروایا کہ دور جہالت میں لوگوں کو کچھ معلوم نہ تھا کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ پھر جہالت کو ختم کرنے کے لیے دنیا میں مذہب وجود میں آئے۔ اب مذہب کا دور بھی ختم ہوگیا اور آج کا دور سائنس کا دور ہے۔ اس دور کو مذہب کے مقابلے میں تضاد کے طور پر پیش کیا گیا۔

مغرب میں روشن خیالی کے نام پر مذہب سے بیزاری کی تحریکوں کا آغاز

سترہویں صدی سے بیسویں صدی عیسوی تک کے دور میں جن دو تحریکوں نے جنم لیا، وہ دونوں تحریکیں مذہب بیزاری کی علامت تھیں۔ ایک تحریک کو تحریک عقلیت (Rationalism) کہتے ہیں یعنی ہر چیز کو عقل سے پرکھا جائے اور یہ کہ ماوراء الطبیعیات، فوق الفطرت یا معجزات پر مبنی جتنے بھی دعوے یا عقیدے ہیں، انھیں عقل کی بنیاد پر دیکھا جائے، اگر عقل ان کو درست کہتی ہے تو ٹھیک اور اگر عقل ان کے خلاف ہے تو ان کو دور کردیا جائے۔ عقلیت پسندوں کے نزدیک ہر چیز کی اساس عقل ہے۔ چاہے نفسیات ہو، جمالیات ہو یا اخلاقیات ہو۔ نتیجتاً مذہب جس کی بنیاد وحی تھی، اسے ایک طرف رکھ دیا گیا اور ہر چیز عقل سے پرکھی جانے لگی۔ اس تحریک کی وجہ سے مذہب بیزاری کا جذبہ بڑھتا گیا۔

تحریک عقلیت کے ساتھ ساتھ مغرب نے ایک اور تحریک کو جنم دیا جسے ہم تحریک انسانیت (Humanism) کہتے ہیں۔ جس میں انسان کی برتری اور انسان کی اولیت کا نعرہ لگایا گیا۔ اس نعرہ کے پیچھے لذت کا نظریہ اور انسانی خواہشات کی تکمیل کا نظریہ کارفرماتھا۔

انہی دو تحریکوں نے مل کر مغرب میں روشن خیالی کے نظریے کو ہموار کیا۔ روشن خیالی اور مذہب بے زاری کو ایک ہی چیز قرار دیا گیا۔ اسی کو مذہب تبدیلی یا مذہب کا خاتمہ کہتے ہیں یعنی ان کے نزدیک (نعوذ باللہ) God is dead، خدا مرگیا ہے۔

روشن خیالی اور اسلام

مغرب آج اسی قسم کی روشن خیالی کو مسلمانوں کے ہاں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ یاد رکھیں! حقیقت میں روشن خیالی یا اعتدال پسندی بری چیز نہیں ہے بلکہ روشن خیالی اور اعتدال پسندی مذہب کی ضرورت ہے لیکن اس کا طریقہ کار مختلف ہے۔ یہ سچ ہے کہ اسلام ایک روشن خیال مذہب ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اصل روشن خیالی ہے کیا؟ اصل روشن خیالی یہ ہے کہ ہم دنیا میں رہتے ہوئے اپنے دین اور مذہب کے Life Style پر چلیں۔ اسلام کے مقابلے میں مغرب اپنے خیالات و نظریات مسلمانوں پر مسلط کی کوشش کررہا ہے اور وہ ایسا کرنے میں بالکل بھی ہچکچا نہیں رہا۔ اسی لیے نئے نئے القابات سے مسلم امہ کو نوازا جاتا ہے کبھی بنیاد پرست، کبھی انتہا پسند اور کبھی مسلمانوں پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگادیا جاتا ہے۔

روشن خیالی کی بدولت جو کچھ عالمِ مغرب نے پایا، وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ آج مغرب مادر پدر آزاد ہوگئے ہیں اور جس ننگ و عار کو اسلام ختم کرنے آیا تھا، آج پھر دنیا اس ننگ میں مبتلا ہوگئی ہے۔ عالمِ مغرب کی طرف سےمتعارف روشن خیالی، اعتدال پسندی، گلوبلائزیشن اور اس قسم کی چیزوں کا نقطہ صرف یہی ہے کہ مغرب والے مسلم امہ کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جیسے ہم ہیں، مسلمان بھی ویسے ہوجائیں۔ اس طرح ایک طرف تو ہمارے افکار کو تبدیل کیا جارہا ہے تو دوسری طرف ہمیں کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو زندگی کے دونوں پہلوؤں یعنی دین و دنیا کی بات کرتا ہے جبکہ مغربی تہذیب صرف دنیا کی بات کرتی ہے۔ پوری دنیا کی سیاست، معاشرت اورمعیشت پر ایک سرمایہ دارانہ نظام مسلط ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام کا معاشی نظام دنیا کو ایک منفرد نظامِ معیشت اور اقتصادی ضوابط عطا کرتا ہے۔ جب مسلمان اپنے مذہب کے دیے ہوئے اصول نہیں اپنائیں گے تو اسی غیر منصف اور ظالم نظام کے تحت پھڑپھڑاتے رہیں گے۔ سوشلزم اور کمیونزم جیسے معاشی افکار و نظریات جلد ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے جبکہ اسلام کا نظریہ معاشیات چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اب بھی قائم ہے۔ اس میں خرابیاں ہماری اپنی کمزوریوں کے باعث پیدا ہیں لیکن آج بھی یہ دیگر معاشی نظاموں کی نسبت بہت بہتر ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی تنظیمیں اور بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی وجود میں آگئی ہیں جو ممالک میں غربت ختم کرنے کا باعث بنتی ہیں مگر مسلمان ان کے معاشی چکروں میں اس طرح گھر ے ہوئے ہیں کہ آج اگر وہ ان سے نکلنا بھی چاہیں تو اس کے لیے کافی وقت اور محنت درکار ہے۔ حکومتوں کے کتنے ہی اعلانات ہوتے ہیں کہ ’ہم نے کشکول توڑ دیے، اب ہم قرضہ نہیں لیں گے، اب ہم خود انحصاری کی طرف جارہے ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے چلے جارہے ہیں۔

آج اگر مسلمانوں کو روشن خیالی اپنانی ہے تو انہیں پہلے اقتصاد کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ جب تک اسلام کے دیے ہوئے معاشی اصول مغرب کے دیے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں برتری اختیار نہیں کرتے، اس وقت تک یہی ہوتا رہے گا۔ درحقیقت مسلمان اپنے معاشی نظام کی طرف توجہ اور اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج سرمایہ دارانہ نظام تلے دبے ہوئے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی روشن خیالی یہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلہ میں اسلام کو کامیابی حاصل ہو۔ اسلام کا اپنا نظامِ بینکاری منظم ہو جس پر دنیا انحصار کرے۔

óاسی طرح ہمیں سیاسی نظام اور مشاورت کے سیاسی اصول کو ان Democratic اصولوں پر حاوی کرنا ہوگا جو مغرب ہمیں دیتا ہے۔ اس کے لیے اسلام کو عملی طور پر ایک بہترین لائحہ عمل پیش کرنا ہوگا۔ کیونکہ اب مقابلے کا زمانہ ہے۔ Clash of civilization کا مسئلہ یقیناً درپیش ہے۔ Survival to the fittest کے مطابق بقا اسی کی ہے، جو زمانہ کے ساتھ ساتھ چلے گا۔ مسلم ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی کا نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام کی مرضی کا بہت کم عمل دخل ہے۔ جب مسلم امہ کے حکمران ہی کرپٹ ہوں اور وہ پالیسیاں پیش کریں جو باہر سے درآمد ہوتی ہوں اور وہ پالیسیاں ہمیں طوطے کی طرح رٹائی جاتی ہوں تو یا للعجب! کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔

ó اسی طرح مسلمان جب تک اپنا نظامِ تعلیم مستحکم و منظم نہیں کریں گے تب تک دنیائے اسلام کبھی سرخرو نہیں ہوپائے گی۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سائنسی تعلیمات اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھیں اور غورو فکر کریں۔ آج مسلمانوں کو سائنس و ٹیکنالوجی سیکھنے کی ضرورت ہے، زبانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آج اگر دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں سبھی شعبوں میں آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر مسلمان مقابلہ نہیں کرنا چاہتے اور صرف اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں تو اپنی اس روش پر قائم رہیں مگر اس راستے کا انجام بھی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اگر زندہ قوم کے طور پر رہنا چاہتے ہیں تو نئے نئے علوم کو سیکھنا از حد ضروری ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر آدمی ہر علم سیکھے مگر جس میں جس قدر استطاعت ہے، وہ ضرور سیکھے۔ جس قوم کی نسل جدید تعلیم سے محروم ہو تو اس محرومی کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ساری کاوشیں ضائع ہوگئیں۔

نصاب کی تبدیلی، چیزوں کو صحیح سمجھنا، باتوں کی تحقیق کرنا، غور وفکر کرنا، میانہ روی اختیار کرنا، اعتدال اختیار کرنا؛ یہ سب ہماری تعلیمات ہیں جو کہ قرآن و سنت ہمیں دیتی ہیں۔ ہمیں اپنا تعلیمی نصاب تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ تعلیم ہی ایک ایسی چیز ہے جو قوموں کے عروج کا سبب بنتی ہے۔ ترقی کے لیے دوسرے میدان بھی ہیں مگر تعلیم ایک ایسا میدان ہے جو ہمیں جلا بخشتا ہے۔

آج اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مغرب نے پندرہویں صدی میں جب اپنے ہاں یونیورسٹیاں کھولیں تو سب سے پہلے اسلامیات اور عربی کو پڑھا۔ آج بہت سے لوگ اس بات سے ناآشنا ہیں کہ مغرب میں بھی اسلامیات پڑھائی جاتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی، کیمبرج یونیورسٹی، سوربون یونیورسٹی، سینٹ اینڈ ریوز یونیورسٹی، ان سب کو چھ سو سال ہوگئے ہیں، وہاں اسلامی علوم اور عربی کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن مغرب والے ان علوم کی تعلیم صرف اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے حاصل کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک ہزار سال کا ایک شاندار ماضی رہا ہے مگر افسوس کہ اس کے بعد امت مسلمہ خوابِ غفلت کا شکار ہوگئی۔

ایک دور تھا جب مسلمان اخلاقی قوت تھے، Morality کا معیار بلند تھا، بڑے بڑے فلاسفرز پیدا ہوئے اور ان فلاسفر کی بدولت کئی عظیم افکار و نظریات سامنے آئے۔ مگر افسوس کہ آج ہم مادیت پرستی کا شکار ہوچکے ہیں۔ اور ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘(بابر عیاشی کرلو پھر دنیا میں کہاں آنا ہے) کے مصداق عیاشی میں کھوچکے ہیں۔ یہ اسلام کا تصور نہیں ہے۔

اسی طرح اکثر مسلمانوں کا تصور یہ ہے کہ صرف آخرت بہتر ہونی چاہیے، یاد رکھیں، ’آخرت ٹھیک ہوگئی تو سب ٹھیک ہوگا‘، یہ تصور بھی اسلامی تعلیمات اور روشن خیالی کےمتصادم ہے۔ اسلام کی اصل تعلیمات یہ ہیں کہ دنیا اور آخرت دونوں کو ساتھ رکھ کر چلیں۔ ارشاد فرمایا:

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً

’’ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز‘‘۔  (البقرہ، ۲: ۲۰۱)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف موت کا انتظار کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ اگر ایسا ہے تو زندگی کے 50، 60 سال فضول ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی

’’ کیا اِنسان یہ خیال کرتا ہے کہ اُسے بے کار (بغیر حساب و کتاب کے) چھوڑ دیا جائے گا‘‘۔   (القیامۃ، ۷۵: ۳۶)

کیا انسان یہی سمجھتا رہے کہ اس دنیامیں اس کی کوئی ضرورت نہیں، وہ صرف مرنے کا انتظار کرے۔ یاد رکھیں! آخرت کی بہتری کا دارومدار بھی دنیا کی بہتری پر ہے۔ دنیا صرف مذہبی اعمال سرانجام دینے کا نام نہیں۔ دین میں سارے امور شامل ہیں۔ اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا سب دین کے مطابق ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتا ہے:

ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً

’’ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ‘‘۔  (البقرہ، ۲: ۲۰۸)

انسانی مساوات، حکمرانوں کی جواب دہی، شریعت کی پابندی، انصاف کی حکمرانی، معاشی و معاشرتی مساوات؛ یہ تمام وہ رہنما اصول تھے جن کی بناء پر مسلمانوں نے ایک عرصے تک اپنا سکہ دنیا پر جمائے رکھا۔ یاد رکھیں مذہبی تعلیمات سے بیزاری روشن خیالی نہیں ہے اور نہ ہی مذہب سے بیزاری میں ترقی ہے۔

اپنی گمشدہ روایات کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے عقائد، ہمارا اخلاق، ہمارا کردار درست ہو۔ آج روشن خیالی کے نام پر مسلم ممالک کے تین بڑے شعبوں کو متاثر کیا جا رہا ہے:

۱۔ تعلیم

۲۔ میڈیا

۳۔ قانون

تعلیم سے اسلام کو نکالا جارہا ہے۔ قوانین کو تنقید کے ذریعے تبدیل کیا جارہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے ثقافتی یلغار جاری ہے۔ ان تمام خرابیوں نے ہماری معاشرت کو کھوکھلا کردیا ہے۔ مسلم امہ کو اسلامی دائرے میں رہتے ہوئے میڈیا کا مقابلہ بھی کرنا ہے، مغربی نظام تعلیم کا متبادل بھی تیار کرنا ہے، اپنے قانون کی حفاظت بھی کرنی ہے اور مذہب کی تفہیم اور اس کی ناگزیریت کو بھی عوام و خواص کے حلقوں تک پہنچانا ہے۔

خلاصۂ بحث

روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا وہ تصور جو ہمیں ہمارا دین دیتا ہے، اس کو اپنانا چاہیے۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے دین کو اچھی طرح سمجھیں گے اور وہ رہنما اصول اپنائیں گے جو اسلام ہمیں دیتا ہے۔ آج مغرب کی طرف سے ہم پر مسلط روشن خیالی کے تصور کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔ جو کچھ ہمارے خلاف عالمِ مغرب میں کہا اور لکھا جاتا ہے، تعلیم اور شعور کی کمی کے باعث اکثر لوگ جانتے ہی نہیں۔ جب علمی میدان میں مسلم امہ آگے ہوگی تو تب ہی اقوامِ عالم میں ایک باوقار مقام حاصل کرپائے گی۔ نام نہاد روشن خیالی کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی اصل تعلیمات کو اپنانا ہوگا اور پھر معاشی نظام درست کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ اپنی معاشرتی، تعلیمی، عسکری، فکری اور سیاسی تعلیمات بھی ٹھیک کرنا ہوں گی تب جاکر مسلمان حقیقی روشن خیال اور اعتدال پسند ہوں گے۔