انمول عشق اور بے مثل اطاعت

ڈاکٹر حافظ محمد سعد اللہ

حضور نبی اکرم ﷺ نے ایمان کی معنوی حلاوت اور باطنی مٹھاس پانے کے لیے جن خصائل و صفات کو ایک مومن کے لیے ضروری قرار دیا ہے ان میں سرِ فہرست یہ بات رکھی ہے کہ:

ان یکون اللہ ورسولہ احب الیہ مما سواھما

’’اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس کے نزدیک باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں۔ ‘‘

(صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب حلاوۃ الایمان)

جس آدمی کے دل میں محبت رسول ﷺ کا کوئی جذبہ نہ ہوگا، اس کے لیے روزمرہ کے اسلامی فرائض کی ادائیگی اور عام ایمانی مطالبات کی تعمیل بھی سخت گراں اور بڑی کٹھن ہوجاتی ہے اور جتنا کچھ وہ کرتا بھی ہے تو اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ بس قانونی پابند ی یا مجبوری کی سی ہوتی ہے جبکہ قرآن مجید نبی اکرم ﷺ کےلیے اس اعزاز اور توقیر و اکرام کا طالب ہے جو قلب کی گہرائیوں کی پیداوار ہو۔ قرآن مجید آپ ﷺ سے جذباتی لگاؤ اور محبت پیدا کرنا چاہتا ہے، آپ ﷺ کی صرف اس اطاعت پر راضی نہیں جو جذباتِ محبت اور تعظیم سے خالی ہو جیسے کہ رعایا کا بادشاہ کے ساتھ اور دوسرے فوجی و سول لیڈروں کے ساتھ عوام کا ایک رسمی یا مجبوری کا تعلق ہوتا ہے۔ قرآن مجید صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر فرائض کی ادائیگی ہی کافی نہیں سمجھتا بلکہ اس کا مطالبہ ہے:

لِّتُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ

’’تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور آپ (ﷺ کے دین) کی مدد کرو اور آپ (ﷺ ) کی بے حد تعظیم و تکریم کرو۔‘‘ (الفتح: ۹)

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اسی رشتہ محبت و عشق میں بندھے ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حبِّ مصطفی ﷺ پر مبنی چند واقعات کا مطالعہ ہم اس تحریر کے پہلے حصہ (شائع شدہ جولائی 2025ء) میں کرچکے ہیں، مزید چند واقعات ملاحظہ ہوں:

۱۔ دیدارِ رسول ﷺ کے لیے بے چینی

محبوب کی زیارت کی دلی تمنا، اس کے دیدار کا ہمہ وقت شوق، اس کی جدائی برداشت نہ کرسکنا اور غمِ فراق میں دنیا کی ساری لذتیں بھول جانا، حقیقی محبت کی ایک واضح نشانی ہے۔ محبت کی اس علامت کی روشنی میں جب ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھیں دیدارِ رسول ﷺ کے بغیر دنیا میں چین تھا، نہ آخرت میں ہوگا۔ حضور ﷺ کا نورانی و مبارک چہرہ دیکھنے سے انہیں سارے غم بھول جاتے تھے۔ دیدارِ رسول ﷺ کے لیے اس طرح کی بے قراری کی چند ایمان افروز جھلکیاں ذیل میں ملاحظہ فرمایئے:

(۱) دیدارِ رسول ﷺ کے بغیر چین نہ آنا

حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلاموں (موالی) میں ایک نام حضرت ثوبان بن بجدد (م ۵۴ھ) کا بھی ملتا ہے یہ حضور ﷺ کے ساتھ شدید محبت رکھتے تھے۔ کچھ دیر آپ ﷺ کو نہ دیکھتے تو بے چین ہوجاتے تھے۔ سفرو حضر میں آپ ﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔ موت کے بعد حضور ﷺ کا دیدار نہ کرسکنے کے خوف کی وجہ سے ان کا رنگ اڑ گیا اور جسم لاغر ہوگیا تھا۔ ایک دن یہ عاشق بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:

یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ مجھے میری جان اور اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ جب کبھی میں اپنے غریب خانے میں ہوتا ہوں اور آپ ﷺ کی یاد آتی ہے تو مجھے اس وقت تک چین نہیں آتا، جب تک آپ ﷺ کا دیدار نہ کرلوں۔ اب مجھے رہ رہ کر یہ خیال ستا رہا ہے کہ مرنے کے بعد میں تو پتہ نہیں جنت کے کس گوشے میں ہوں گا اور آپ ﷺ یقیناً انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ جنت کے اعلیٰ اور بلند مقامات پر فائز ہوں گے تو میں آپ ﷺ کا دیدار کیسے کرسکوں گا؟ اگر روئے تاباں کی زیارت نہ ہوئی تو میرے لیے جنت کی ساری لذتیں ختم ہوجائیں گی۔ فراق و ہجر کا یہ جانکاہ صدمہ اس دلِ ناتواں سے برداشت نہ ہوسکے گا۔

علماء (قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، ۵: ۲۷۱) نے لکھا ہے کہ یہ سن کر حضور ﷺ خاموش ہوگئے۔ اتنے میں جبرائیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اور ثوبان جیسے اہلِ محبت اور اطاعت گزاروں کو من جانب اللہ یہ مژدہ سنایا:

وَمَنْ یُّطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا

’’ اور جو کوئی اللہ اور رسول (ﷺ ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ ‘‘ (النساء: ۶۹)

ó دوسری حدیثِ پاک میں ہے ایک صحابی جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتے تو ٹکٹکی باندھ کر حضور ﷺ کا رخِ انور دیکھتے رہتے اور آنکھ تک نہ جھپکتے۔ حضور ﷺ نے ان سے دریافت کیا: مَالَک؟کیا بات ہے؟

عرض کیا: میرا باپ اور میری ماں آپ ﷺ پر قربان، جب دل اداس ہوتا ہے تو حضور ﷺ کے رخِ انور کو دیکھ دیکھ کر اس کو تسلی دلاتا ہوں لیکن جب قیامت کا دن ہوگا، حضور ﷺ کا مقام بڑا اعلیٰ و ارفع ہوگا، میں کیونکر حضور ﷺ کا دیدار کرسکوں گا؟ حضرت انسرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا:

من احبنی کان معی فی الجنۃ

 (قاضی عیاض، الشفاء، ۲: ۲۰)

’’جو میرے ساتھ محبت کرتا ہوگا، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ ‘‘

(۲)حضور ﷺ کے دیدار اور آمد پر اہلِ مدینہ کی خوشی

حضور ﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کی طرف نکلے تو اس بات کی اطلاع اہلِ مدینہ کو ہوچکی تھی، چنانچہ وہ روزانہ صبح مقامِ حرہ تک آتے اور حضور ﷺ کا انتظار کرتے رہتے۔ یہاں تک کہ دوپہر کی سخت گرمی انہیں واپس لوٹنے پر مجبور کردیتی۔ ایک دن طویل انتظار کے بعد جب یہ حضرات (حسبِ معمول) واپس لوٹ گئے اور اپنے گھروں میں داخل ہوچکے تو ایک یہودی نے اپنے ایک قلعہ پر سے بغور دیکھا تو اسے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی نظر آئے جو اس وقت سفید کپڑوں میں ملبوس تھے اور بہت دور تھے۔ وہ یہودی بے اختیار چلا اٹھا اور بآواز کہا: اے معاشر عرب! تمھارے وہ بزرگ آگئے، جن کا تمھیں انتظار تھا۔ مسلمان ہتھیار لے کر دوڑ پڑے اور حضور ﷺ کے مقامِ حرہ پر پہنچنے سے پہلے استقبال کیا۔ آپ ﷺ نے ان کے ساتھ داہنی طرف کا راستہ اختیار کیا اور بنی عمرو بن عوف (قبا) میں قیام کیا۔

(بخاری، الصحیح، کتاب المناقب باب ہجرۃ النبی ﷺ واصحابہ الی المدینۃ، ۱: ۵۵۴۔ ۵۵۵)

حضور ﷺ نے یہاں تقریباً دس دن قیام فرمایا، مسجد کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ مدینہ منورہ پہنچے تو مدینہ کے باوفا لوگوں نے اہتمام، اشتیاق، سج دھج اور والہانہ انداز میں اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کا استقبال کیا۔ حد درجہ مسرت و انبساط اور انتہائی محبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے ہر آدمی اپنا سر اور اپنی آنکھیں بلکہ اپنا دل فرشِ راہ کیے ہوئے تھا۔ اس کی نظیر آسمان نے آج تک نہیں دیکھی۔ مدینہ کی تاریخ میں یہ عجیب و مبارک دن تھا۔ بنو نجار اور تمام انصار ہتھیاروں سے آراستہ دو رویہ صف بستہ کھڑے تھے۔ رؤسا اپنے اپنے محلوں میں قرینے سے کھڑے تھے، پردہ نشین ایک جھلک نبوی ﷺ دیکھنے کے لیے گھروں سے باہر نکل آئی تھیں اور مدینہ کے حبشی غلام جوشِ مسرت میں اپنے اپنے فوجی کرتب دکھا رہے تھے۔

حضرت براء بن عازبرضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جتنے جوش میں اہلِ مدینہ کو اس دن میں نے دیکھا پھر کبھی نہ دیکھا۔

(حلبی، سیرت حلبیہ، ۲: ۲۳۴)

حضرت انس بن مالکرضی اللہ عنہ اپنا آنکھوں دیکھا حال یوں بیان کرتے ہیں کہ اس دن جیسا منظر ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا، خواتین اور بچیوں کی زبان پر محبت بھرا گیت تھا:

طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا ما دعا للہ داع

(شامی، سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیرالعباد، ۳: ۳۸۶)

حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ ہجرتِ نبوی کا واقعہ اور ورودِ مدینہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فصعدالرجال والنسآء فوق البیوت وتفرق الغلمان والخدم فی الطرق ینادون یا محمد یارسول اللہ یا محمد یا رسول اللہ۔

(مسلم، الجامع الصحیح، ۲: ۴۱۹)

’’مرد اور ساری عورتیں (حضور ﷺ کے چہرہ انور کا دیدار اور ایک جھلک دیکھنے کے لیے) گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے۔ جبکہ تمام لڑکے اور خادم سارے رستوں میں پھیل گئے۔ اور ’’یامحمد ﷺ یارسول اللہ ﷺ ، یا محمد یارسول اللہ ﷺ ‘‘ کے (ایمان افروز) نعرے لگارہے تھے۔‘‘

ایک دوسری روایت کے مطابق خادم اور بچے کہہ رہے تھے:

اللہ اکبر جاء نا رسول اللہ، جاء نا محمد ﷺ

(الصالحی الشامی، سیرۃ شامی، ۳: ۳۸۶)

مدینہ منورہ کے ہر چھوٹے بڑے گھرانے کی یہ زبردست خواہش تھی کہ حضور ﷺ ان کے گھر میں قدم رنجہ فرمائیں اور انھیں اولین مہمان نوازی کا شرف بخشیں۔ حضور ﷺ اونٹنی پر سوار تھے۔ بنو سالم بن عوف کے سرکردہ لوگ سامنے کھڑے ہوگئے اور مہمان نوازی قبول کرنے کی پرخلوصِ دعوت پیش کی مگر آپ ﷺ کسی بھی محب و مخلص کی دل شکنی نہیں فرمانا چاہتے تھے، فرمایا:

خلوا سبیلھا فانھا مامورۃ۔۔۔ بارک اللہ علیکم

’’اس اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو، یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے اللہ تمھیں برکت دے (جہاں اللہ کا حکم ہوگا وہاں خود بخود بیٹھ جائے گی)۔ ‘‘

آگے چلے تو بنی بیاضہ نے اسی طرح مہمان نوازی کی مخلصانہ پیشکش کی مگر آپ ﷺ نے انھیں بھی وہی جواب دیا جو بنو سالم کو دیا تھا۔ بنو ساعدہ، بنو عدی بن النجار اور بنو مالک بن النجار، سب نے باری باری اپنے ہاں ٹھہرانے کی خواہش کا اظہار کیا مگر آپ ﷺ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ یہ اونٹنی من جانب اللہ مامور ہے۔ اونٹنی جب اس مبارک مقام پر پہنچی، جہاں آج مسجد نبوی ہے تو از خود بیٹھ گئی۔ سامنے ایک غریب صحابی حضرت ابوایوب خالد بن زیدالانصاریرضی اللہ عنہ کا غریب خانہ تھا۔ انھوں نے کجاوے سے سامان اٹھایا اور گھر لے گئے۔ اب آپ ﷺ نے سب سے فرمایا: المرء مع رحلہ

انسان اپنے سامان اور کجاوے کے ساتھ جاتا ہے۔

اور یوں مہمانداری کا شرف حضرت ابو ایوبرضی اللہ عنہ کے حصے میں آگیا۔ (حلبی، سیرت حلبیہ، ۲: ۲۴۸)

۲۔ یادِسول اللہ ﷺ میں آنسو امڈ آنا

حضور ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی والہانہ عقیدت اور شدتِ محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد جب آپ ﷺ کا نام نامی ان کی زبانوں پر آتا یا تذکرہ ہوتا تو اکثر اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکتے اور آپ ﷺ کی یاد میں رونے لگتے۔ ذیل میں اس شدتِ محبت اور وفورِ جذبات کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمایئے:

(۱) فاقہ نبوی ﷺ کی یاد میں رقت طاری ہوجانا

عشرہ مبشرہ میں داخل خوش نصیب اور جلیل القدر صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوفرضی اللہ عنہ کے حوالے سے نوفل بن ایاس الہذلی کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوفرضی اللہ عنہ ہمارے ہم مجلس (دوست تھے) اور کیا ہی بہترین ہم مجلس تھے۔ ایک دن وہ (از راہِ خلوص و محبت) ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ جب ہم ان کے دولت کدہ پر پہنچے تو وہ اندر (زنان خانہ میں) داخل ہوئے، غسل کیا اور پھر ہمارے پاس تشریف لائے۔ اسی دوران ہمارے پاس کھانے کا ایک بڑا پیالہ لایا گیا۔ جس میں روٹی اور گوشت تھا۔

جب یہ پیالہ (دستر خوان پر) رکھا گیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوفرضی اللہ عنہ رونے لگے۔ تو میں (نوفل بن ایاس) نے ان سے کہا: اے ابومحمد! یہ رونا کیوں اور کیسا؟ فرمایا سرور کونین رسول اللہ ﷺ نے اس حال میں دنیا سے رحلت فرمائی تھی کہ کبھی آپ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے اہلِ بیت نے جو کی روٹی بھی سیر ہوکر نہ کھائی تھی (دراصل حضور ﷺ کی اسی ’’کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا‘‘ والی کیفیت یاد آگئی تھی جبکہ ہمارے سامنے اس وقت پر تکلف کھانا رکھا جارہا ہے)۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد اتنے دنوں تک زندہ رہنے میں کوئی بھلا نظر نہیں آتا۔

(ترمذی، شمائل، بمع جامع، باب فی عیش النبی ﷺ ، ص: ۵۹۹)

ó حضرت مسروقرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے میرے لیے کھانا منگوایا اور فرمایا: میں کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتی مگر رونے کو دل چاہتا ہے، پس رونے لگتی ہوں۔ مسروق کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: کیوں؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے وہ حالت (فقر و تنگدستی) یاد آجاتی ہے جس پر رسول اللہ ﷺ نے اس دنیا سے مفارقت فرمائی۔ اللہ کی قسم آپ ﷺ نے کبھی ایک دن میں دو مرتبہ روٹی پیٹ بھر کر کھائی اور نہ ہی گوشت۔ (ترمذی، الشمائل، باب ماجاء فی صفۃ خبز رسول اللہ ﷺ ، ص: ۵۷۸)

(۲) راتوں کو یادِ رسول ﷺ

عبدہ بن خالد بن معدان سے مروی ہے، آپ کہتی ہیں کہ میرے باپ خالد اس وقت تک بستر پر آرام نہیں کرتے تھے جب تک وہ حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جی بھر کر یاد نہیں کرلیا کرتے تھے۔ آپرضی اللہ عنہ مہاجرین و انصار کے نام لے کر یاد کرتے تھے۔ وہ فرماتے: ھم اھلی و فخری

وہ میرے اہل خانہ اور میرا سارا ناز ان پاک لوگوں پر ہے، ان کے دیدار کے لیے میرا دل تڑپتا ہے اور میرا شوق بڑھتا ہے۔
آپؓ یہ دعا مانگتے: فجعل رب قبضی الیک۔

یا اللہ مجھے جلدی جلدی اپنے پاس بلالے تاکہ میں محبین مصطفی ﷺ کا دیدار کرسکوں۔ یہی کہتے کہتے ان پر نیند غالب آجاتی اور وہ سوجاتے۔ (قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ۳: ۳۰۶۔ ۳۰۷)

۳۔ تعظیم و توقیرِ رسول ﷺ

محبوب کے لیے تعظیم، توقیر، تکریم، تقدیس، احترام اور اس کی عظمت و رفعتِ شان اور محاسن و کمالات کا اعتراف محبت کا خاصہ ہے۔ پھر رسولِ محتشم و معظم ﷺ کی انتہائی تعظیم و توقیر تو قرآن کا لازمی مطالبہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں اللہ کریم نے اپنے محبوب ﷺ کو جو عظمت و شان، جو بلند مرتبہ ومقام اور جو بے شمار صوری و معنوی محاسن و کمالات اور پیغمبرانہ فضائل و مناقب عنایت فرما رکھے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کا بھی ہر وقت مشاہدہ کرتے رہتے تھے۔ ان تمام چیزوں کی موجودگی میں کیسے ممکن تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کی حد درجہ تعظیم و توقیر نہ کرتے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور ﷺ کی جس طرح دل کی اتھاہ گہرائیوں سے تعظیم کرتے تھے، دنیا کے بڑے سے بڑے آدمی کی آج تک اتنی تعظیم نہیں کی گئی۔ آئندہ سطور میں ہم اس تعظیمی اندازِ محبت کے چند ایمان افروز مظاہر اور جھلکیاں دکھانے کی کوشش کرتے ہیں:

(۱) تعظیمِ رسول ﷺ کے باعث نظریں جھکائے رکھنا

تعظیمِ رسول ﷺ کا ایک منفرد، نرالا اور ایمان افروز انداز یہ بھی تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نظر اٹھا کر آپ ﷺ کی طرف دیکھنا بھی بے ادبی خیال کرتے تھے اور جب بارگاہ نبوی ﷺ میں بیٹھتے تو یوں بے حس و حرکت بیٹھتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس انوکھے انداز تعظیم کی چند مثالیں ملاحظہ فرمایئے:

ابو شماسہ المہری بیان کرتے ہیں کہ ہم معروف صحابی حضرت عمرو بن العاص بن وائل السہمی (امیر مصر) کی وفات کے وقت ان کے پاس حاضر ہوئے تو آپرضی اللہ عنہ نے اپنے قبولِ اسلام کا تفصیلی واقعہ سناتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات والا شان سے بڑھ کر کوئی آدمی میرے نزدیک محبوب نہ تھا اور نہ ہی کوئی بڑے سے بڑا فرد میری آنکھوں میں آپ ﷺ سے بڑھ کر بزرگ و برتر اور لائقِ تعظیم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تعظیمِ نبوی ﷺ کی خاطر میں آپ ﷺ کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اور اگر کوئی آدمی مجھ سے یہ سوال کرے کہ میں آپ ﷺ کا وصف یعنی حلیہ اور خدوخال بتاؤں تو میں نہیں بتا سکوں گا کیونکہ تعظیمِ نبوی ﷺ کے باعث میں نے کبھی آپ ﷺ کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا تھا۔

(مسلم، الصحیح، کتاب الایمان باب کون الاسلام یہدم ماقبلہ وکذاالحج والعمرۃ)

ó امام ترمذی نے خادم رسول ﷺ حضرت انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں اپنے مہاجر اور انصار صحابہ کے پاس تشریف لے آتے اور وہ بیٹھے ہوتے جن میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی موجود ہوتے تو ان میں سے کوئی صحابی از راہِ تعظیم آپ ﷺ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا، سوائے حضرت شیخین (ابوبکرؓ و عمرؓ) کے کہ وہ آپ ﷺ کی طرف نظرِ عقیدت سے دیکھتے اور آپ ﷺ ان کی طرف نظرِ رحمت فرماتے۔ اسی طرح وہ دونوں آپ ﷺ کو دیکھ کر تبسم فرماتے اور آپ ﷺ ان کی طرف دیکھ کر تبسم فرماتے۔ (ترمذی، جامع ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق)

ó صحابی رسول حضرت اسامہ بن شریکرضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے گرد بیٹھے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ یوں بے حس و حرکت بیٹھے ہیں کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور ایک حدیث میں یوں بیان ہوا ہے کہ جب آپ ﷺ گفتگو اور کلام فرماتے تو حاضرین (صحابہ) اپنے سروں کو یوں جھکا لیتے اور یوں توجہ سے سنتے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔

(ترمذی، الشمائل، باب ماجاء فی الخلق الرسول ﷺ ، ص: ۵۹۸)

واضح رہے تعظیم و تکریم رسول ﷺ کا یہ انداز صرف آپ ﷺ کی ظاہری زندگی اور بنفسِ نفیس موجود ہونے کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ قسطلانی کے الفاظ میں ’’آپ ﷺ کے وصال کے بعد بھی اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب کبھی آپ ﷺ کا ذکر کرتے تو (غایت تعظیم میں) ان کے جسم جھک جاتے، جسموں پر کپکپی طاری ہوجاتی (رونگٹے کھڑے ہوجاتے) اور بے ساختہ رونے لگتے تھے۔ ‘‘ (قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ۳: ۳۰۴)

(۲) حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے اونچی آواز سے بات کرنے پر اظہارِ غصہ

حضرت نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آنے کی اجازت چاہی تو آپ نے سنا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (کسی گھریلو مسئلہ میں حضور اکرم ﷺ سے) اونچی آواز میں بول رہی تھیں۔ جب اندر داخل ہوئے تو شدتِ جذبات میں بیٹی کی اس جسارت پر اسے ایک طمانچہ مارنا چاہا اور کہا کہ حضور ﷺ سے اونچی آواز میں گفتگو کرتی ہو؟ مگر حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پکڑلیا۔ حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ اسی غصے میں باہر نکل گئے۔ جب حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ چلے گئے تو حضور ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: دیکھا! میں نے تمہیں اس آدمی (تمہارے باپ) سے کیسے بچایا؟ چند دنوں کے بعد حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ دوبارہ کاشانہ نبوی ﷺ پر آئے تو دیکھا کہ میاں بیوی کے درمیان صلح ہوچکی ہے۔ کہنے لگے کہ آپ دونوں نے جس طرح مجھے اپنی لڑائی میں داخل کیا تھا، اپنی صلح میں بھی کرلیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: ہم نے داخل کرلیا، داخل کرلیا۔

(ابوداؤد، السنن، باب ماجاء فی المزاح، ۲: ۶۸۲)

(۳) تعظیمِ رسول ﷺ کے باعث سوال سے ڈرنا

تعظیم و ہیبت رسول کے باعث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینی مسائل کے بارے میں بھی آپ ﷺ سے سوال کرنے سے ڈرتے تھے۔ چنانچہ اعلانِ نبوت کے بعد حضور ﷺ کے وصال تک تئیس سالوں میں صحابہ نے حضرت عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہ کے بقول آپ ﷺ سے صرف تیرہ یا چودہ سوالات کیے تھے، جن کا ذکر قرآن مجید میں یسئلونک کے لفظ سے کیا گیا ہے۔

(القرطبی، الجامع الاحکام القرآن، ۳: ۴۰)

اس مثالی اندازِ تعظیم کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں

ó حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے ایک جاہل اعرابی (بدوی) سے کہا کہ تم حضور ﷺ سے قرآنی آیت؛ من قضی نحبہ (جس نے اپنی نذر پوری کردی۔ سورۃ الاحزاب: ۲۳) کے حوالے سے دریافت کرو کہ یہ کون آدمی ہیں؟ اور (سوال کے لیے اعرابی کو واسطہ بنانے کی وجہ یہ تھی کہ) وہ آپ ﷺ سے سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ اس لیے کہ وہ حضور ﷺ سےڈرتے اور آپ ﷺ کی غایت درجہ تعظیم کرتے تھے۔ چنانچہ اعرابی نے حضور ﷺ سے یہ (مذکورہ) بات پوچھی تو آپ ﷺ نے اس سے اعراض فرمایا۔ اس نے دوبارہ پوچھا تو بھی آپ ﷺ نے اس سے اعراض فرمایا (کوئی جواب نہ دیا)۔ پھر اتفاق سے میں (طلحہ) مسجد کے دروازے سے اندر داخل ہوا اور اس وقت میرے جسم پر سبز کپڑے تھے۔ جب حضور ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: جس سائل نے من قضی نحبہ کے بارے میں سوال کیا تھا، وہ کہاں ہے؟ اعرابی نے کہا کہ میں حاضر ہوں یارسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا: یہ (طلحہ) ان (خوش نصیب) آدمیوں میں سے ہے جنھوں نے (ارشادِ الہٰی کے مطابق) اپنی نذر پوری کرلی۔

(قاضی عیاض، الشفاء، ۲: ۳۹۔ ۴۰)

ó حضرت براء بن عازبرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور ﷺ سے ایک معاملے میں سوال کرنا چاہتا تھا تو حضور ﷺ کی ہیبت کے باعث کئی سال تک اس سوال کو مؤخر کیے رکھا۔

(قاضی عیاض، الشفاء، ۲: ۴۰)

ó حضرت انسرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں قرآن مجید میں اس بات سے روک دیا گیا تھا کہ ہم (بلا ضرورت) کسی چیز کے بارے میں نبی محتشم ﷺ سے سوال کریں، اس لیے ہمیں یہ بات اچھی لگتی تھی کہ بدوی (دیہاتی)لوگوں میں سے کوئی عقل مند آدمی آئے اور وہ حضور ﷺ سے سوال کرے اور ہم سنتے رہیں۔ پھر حضرت انسرضی اللہ عنہ نے بدوی لوگوں میں سے ایک آدمی کی آمد کا ذکر کیا ہے جس نے بے دھڑک اور سیدھے انداز میں حضور ﷺ سے پہلے اللہ کریم کے خالقِ کائنات ہونے اور آپ ﷺ کے رسول ہونے کی تصدیق کی، پھر ارکانِ اربعہ کی فرضیت و لزوم کے بارے میں چند سوالات کیے اور نبی رحمت ﷺ نے جوابات مرحمت فرمائے۔ اس کے بعد وہ جانے کے لیے کھڑا ہوا اور کہا:

’’اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ میں ان احکام (ارکان) پر زیادتی کروں گا اور نہ ان میں سے کوئی چیز گھٹاؤں گا۔ ‘‘

اس پر حضور ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اس نے سچ کہا (اپنی بات پر قائم رہا) تو ضرور بالضرور جنت میں داخل ہوگا۔ ‘‘

(مسلم، الصحیح، کتاب الایمان، ۱: ۳۰۔ ۳۱)

(۴) خونِ نبوی ﷺ زمین پر گرانے کی بجائے پی لینا

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ایک موقع پر بارگاہ نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ پچھنے لگوارہے تھے۔ حضور ﷺ پچھنے لگوانے سے فارغ ہوئے تو فرمایا: عبداللہ! یہ خون لے جاؤ اور کسی ایسی جگہ گرادو جہاں تجھے کوئی دیکھ نہ رہا ہو۔ حضرت عبداللہ، حضور ﷺ کے ہاں سے اوجھل ہوئے تو خونِ نبوی ﷺ کو زمین پر گرانے کی بجائے پی لیا۔ جب واپس لوٹے تو آپ ﷺ نے پوچھا، عبداللہ! تو نے خون کا کیا کیا؟ انھوں نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ ! میں نے اسے ایسی مخفی جگہ پر رکھا ہے کہ وہ یقیناً تمام لوگوں سے پوشیدہ رہے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: لگتا ہے کہ تم نے اسے پی لیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے عبداللہ! اب تجھے دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی اور ان کے سر پر دستِ شفقت بھی پھیرا۔ (بدران، تہذیب تاریخ دمشق، ۷: ۴۰۱)

حضرت ابو موسیٰ ابوعاصم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ میں جو غیر معمولی قوت و طاقت تھی وہ اسی خون نبوی ﷺ کی برکت سے تھی۔ (ابن حجر، الاصابہ، ۴: ۷۰)

ó غزوہ احد کے دن جب حضور ﷺ کا چہرہ انور زخمی ہوگیا اور اس پر خون لگا تھا تو اسی دوران حضرت ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت مالک بن سنان آگئے۔ انھوں نے آگے بڑھ کر اپنے منہ (زبان) کے ذریعے چہرہ نبوی ﷺ پر لگے خون کو چاٹ لیا پھر اسے نگل گئے۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اس خوش نصیب آدمی کو دیکھے جس کے خون کے ساتھ میرا خون شامل (خلط ملط) ہوگیا ہے تو وہ مالک بن سنان کو دیکھ لے۔ ‘‘

(الحاکم، المستدرک، کتاب معرفۃ الصحابہ، ۳: ۵۶۳۔ ۵۶۴)

حضور نبی اکرم ﷺ کی تعظیم و توقیر اور ادب کے حوالے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مزید واقعات ان شاء اللہ آئندہ شمارہ میں بیان کیے جائیں گے۔