جیسے میرے سرکار ہیں ویسا نہیں کوئی

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

انبیاء کرام اور رسل عظام علیہم السلام کو عطا ہونے والے جملہ معجزات، تاجدار کائنات ﷺ کی ذات بابرکات میں بھی تھے بلکہ ان سے بہت بڑھ کر تھے۔ اس مضمون کے گزشتہ حصہ میں ہم چند انبیاء کرام علیہم السلام اور آقا علیہ السلام کے معجزات کا اس تناظر میں مطالعہ کرچکے ہیں، اس حوالے سے آقا علیہ السلام کے مزید معجزات کا ایک جائزہ ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

۱۔سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے پتھرپر عصا مارا تو پانی نکل آیا۔ بلاشک و شبہ یہ ایک عظیم معجزہ ہے لیکن اسے اگر اس زاویۂ نگاہ سے دیکھا جائے کہ پانی اکثر پتھر سے ہی نکلا کرتے ہیں تو اس میں ہمیں وہ کمال نظر نہیں آتا جو کمال پانی سے متعلقہ معجزات میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ہاں نظر آتا ہے۔ تاجدار کائنات ﷺ اپنا دستِ اقدس چھاگل یا پیالہ میں رکھتے تو آپ ﷺ کی انگلیوں سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑتے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی، آپ ﷺ نے اس سے وضو فرمایا۔ لوگ آپ ﷺ کی طرف تیزی سے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا:

یا رسول اللہ!لَیْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَا بَیْنَ یَدَیْکَ، فَوَضَعَ یَدَهُ فِي الرِّکْوَةِ

(البخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، ۳: ۱۳۱۰، الرقم: ۳۳۸۳)

ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو آپ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی چشموں کی طرح جوش مار کر نکلنے لگا۔ چنانچہ ہم سب نے (خوب پانی) پیا اور وضو بھی کر لیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھاگیا کہ اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے، تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔‘‘

پانی کا پتھروں سے نکلنا عام بات ہے لیکن پانی کا ہاتھوں کی انگلیوں سے رواں ہونا، یہ صرف تصرفِ مصطفیٰ ﷺ کے سبب ہی ممکن ہے۔ علماء کرام نےاس معجزہ کو ’’معجزۂ تکثیر الماء‘‘ کا نام دیاکہ آقا ﷺ نے قلیل مقدار میں موجود پانی کو برکت سے زیادہ فرما دیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالیٰ اسے معجزہ تکثیر الماء نہیں بلکہ اسے معجزۂ تخلیق الماء قرار دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس مغالطہ میں نہ رہنا کہ یہ کم پانی کو زیادہ کرنے کا معجزہ ہے۔ نہیں، بلکہ بے شمار واقعات اور احادیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے گواہی دی ہے کہ ہم نے خود آقا علیہ السلام کی انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلتے دیکھا ہے۔ جب انگلیوں سے پانی نکلتے دیکھا تو یہ تکثیر الماء نہیں بلکہ حضور سرور کائنات ﷺ کی انگلیوں سے پانی کے تخلیق ہونے کا معجزہ ہے۔ یہ آقا علیہ السلام کی وہ شانِ تخلیقیت ہے جس کا مظہر اللہ رب العزت کی عطا سے آپ ﷺ بنے۔ یہ شانِ تخلیقیت اللہ تعالیٰ نے کسی اور کو عطا نہیں کی۔

۲۔ آقا علیہ السلام کے اس طرح کے معجزات کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں آپ ﷺ کی شانِ تخلیقیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک اور معجزہ ملاحظہ ہو۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ حدیبیہ کے قریب ایک ایسے کنوئیں کے کنارے بیٹھ گئے جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ لوگوں نے اس میں سے تھوڑا تھوڑا کر کے پانی لے لیا حتیٰ کہ وہ ختم ہو گیا۔

لوگوں نے بارگاهِ رسالت میں پیاس کی شکایت کی تو:

فَانْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ کِنَانَتِهٖ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ یَجْعَلُوْهُ فِیْهِ، فَوَاللهِ، مَا زَالَ یَجِیْشُ لَهُمْ بِالرِّيِّ حَتّٰی صَدَرُوْا عَنْهُ.

(بخاري، الصحيح البخاري، كتاب الشروط، باب الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب، ج: ۲، ص: ۹۷۴، الرقم الحدیث: ۲۵۸۱)

آپ ﷺ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا اور پھر اسے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو دیتے ہوئے فرمایا: اسے اس کنوئیں میں ڈال دو۔ (یعنی گاڑھ دو)۔ خدا کی قسم! پانی فوراً ابلنے لگا اور تمام لوگ پانی سے سیراب ہو گئے۔

تصرفِ مصطفیٰ ﷺ کا اظہار ہر آن ہر زمانے میں جاری و ساری ہے، اس لیے کہ وہ زمانہ بھی مصطفیٰ ﷺ کا تھا۔۔۔ یہ زمانہ بھی مصطفیٰ ﷺ کا ہے۔۔۔ اور آنے والا ہر زمانہ بھی مصطفیٰ ﷺ کا ہے

پہلی روایت میں ہے کہ آقا علیہ السلام نے اپنا دستِ مبارک چھاگل/پیالہ میں ڈالا تو پانی انگشتانِ مبارک سے جاری و ساری ہوگیا۔ اب آپ ﷺ نے اپنی یہ شان بھی دکھا دی کہ آپ ﷺ نے جس تیر کو اپنے دستِ اقدس سے چھوا تھا، جیسے ہی وہ کنوئیں میں گاڑھا گیا تو کنوئیں میں سے پانی ابلنے لگا اور اتنا پانی پیدا ہوا کہ پورا قافلہ اور مویشی سیراب ہو گئے۔ آپ ﷺ نے اس معجزہ سے یہ پیغام بھی دے دیا کہ اگر ایک بے جان چیز میرے ہاتھ کی برکت اور مجھ سے نسبت کے سبب لوگوں کے لیے فیض رسانی کا باعث بن سکتی ہے تو قیامت تک میری امت میں آنے والے اولیاءو صلحاء جنھیں میری ذات و تعلیمات کا براہِ راست فیض میسر آرہا ہوگا، اُن کی کرامات اور اُن کا مخلوقِ خدا کو فیض رسانی کا عالم کیا ہوگا۔

۳۔ اسی شانِ تخلیقیت کا ایک اظہار یہ بھی تھا کہ اگر آقا ﷺ اپنے دستِ اقدس سے کسی صحابی کو میدانِ جنگ میں لڑنے کے لیے درخت کی ایک ٹہنی عطا فرماتے تو آپ ﷺ کے دستِ مبارک سے چھوتے ہی درخت کی وہ ٹہنی لوہے کی تلوار بن جاتی۔ حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے دن میری تلوار ٹوٹ گئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے ایک چھڑی عطا فرمائی۔ میں نے اسے ہاتھ میں لیا تو وہ سفید رنگت کی لمبی تلوار بن گئی۔ میں نے اس معجزانہ تلوار کے ساتھ جہاد کیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو شکست دی۔ یہ تلوار حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کی وفات تک ان کے پاس موجود رہی۔ (ابن ہشام، سیرت النبویہ، ۳: ۱۸۵)

کیا کبھی کسی سائنسدان نے لکڑی سے بھی لوہا بنایا ہے؟ کوئی نہیں بنا سکتا، لیکن آقا علیہ السلام کے دستِ اقدس سے یہ معجزہ بھی ظاہر ہوا۔ یہ شانِ تخلیقیت ہے کہ تاجدار کائنات ﷺ لکڑی کی ٹہنی کو چھوئیں تو وہ تلوار بن جاتی ہے اور وہ صرف چند لمحات کے لیے تلوار نہیں ہے بلکہ یہ لکڑی کی ٹہنی ایسی تلوار بنی کہ وہ صحابی مرتے دم تک اس سے لڑتے رہے اور وہ ٹہنی تلوار ہی رہی۔

آقا علیہ السلام کی اس شان ِ تخلیقیت اور تصرف و اختیار پر قربان جائیں کہ جیسے چاہیں ویسا کردیتے ہیں۔ لکڑی کو لوہا بنا دیتے ہیں۔۔۔ انگلیوں سے پانی رواں کرتے ہیں۔۔۔ لکڑیوں کو روشن فرمادیتے ہیں۔۔۔ سنگریزوں کو تیر کی طرح ہوا میں اڑاتے ہیں۔۔۔ جس پر نگاہ کریں، اس کی تقدیر و قسمت بدل دیتے ہیں۔۔۔ تھوڑے کھانے کو زیادہ کردیتے ہیں۔۔۔ کسی کے چہرے کو چھولیں تو وہ اتنا منور و تاباں ہوجاتا کہ وفات تک روشن رہتا۔۔۔ کسی کو لعاب دہن عطا فرمادیتے تو اس کو شفا ہوجاتی۔۔۔ کسی کو پانی دم کرکے عنایت کرتے تو اس کی وقتی ضرورت تو پوری ہوتی مگر اس کے ساتھ ساتھ اس لمس اور دم کا فیض بھی اس کی زندگی کے آخری لمحہ تک قائم رہتا۔۔۔ کسی بچے کے سر پر ہاتھ رکھ دیں تو اس کو سب بڑا عالم بنا دیتے۔

حتی کہ وصال مبارک کے بعد بھی فیض کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ تصرف فرماکر ہر صدی میں تجدید و احیاء دین کے لیے اُس صدی کا مجدد مقرر فرمادیتے ہیں۔ تصرفِ مصطفیٰ ﷺ کا یہ اظہار ہر آن ہر زمانے میں جاری و ساری ہے، اس لیے کہ وہ زمانہ بھی مصطفیٰ ﷺ کا تھا۔۔۔ یہ زمانہ بھی مصطفیٰ ﷺ کا ہے۔۔۔ اور آنے والا ہر زمانہ بھی مصطفیٰ ﷺ کا ہے۔

وہ ٹہنی جسے تاجدار کائنات ﷺ کے دستِ اقدس کا لمس چند لمحات کے لیے مل گیا ہو تو اس میں یہ تاثیر آجاتی ہے کہ وہ کنوئیں کو بھر دے تو وہ اہل اللہ، صوفیاء اور اپنے ادوار کے مجددین جن کے سینے محبت ِرسول ﷺ سے سرشار رہتے ہیں۔۔۔ جن کی پوری زندگی تاجدار کائنات ﷺ کے قدموں سے فیض یاب ہوتی رہتی ہے۔۔۔ جن کا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا اور جینا مرنا دینِ مصطفی ﷺ کی خاطر ہوتا ہے۔۔۔ جو ہمہ وقت عشقِ مصطفی ﷺ سے معمور رہتے ہیں اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں، ایسے لوگوں کی شان کا عالم کیا ہوگا۔۔۔ قیامت تک ان کی برکات، تصرفات اور کرامات سے نہ جانے کتنے دلوں کی کایا پلٹتی رہے گی۔۔۔ کتنے لوگوں کی تقدیریں سنورتی رہیں گی۔۔۔ کتنے دل معارف سے آشنا ہوتے ہوں گے۔۔۔ کتنے باطن علم اور ایمان کے نور سے سیراب ہوتے ہوں گے۔ یہ تمام شانِ مصطفی ﷺ کا اظہار ہے۔

جو معجزات دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا ہوئے وہ تو تاجدار کائنات ﷺ کی امت کے اولیاء کو کرامتوں کی شکل میں عطاہوئے۔ آپ ﷺ کی امت کے اولیاء کی کرامات بھی آقا علیہ السلام کی شان و عظمت کا اظہار ہے کہ جن کے خدام اور غلاموں کی شان کا عالم یہ ہے تو پھر ان کے آقا و مالک کی عظمت کا عالم کیا ہوگا

۴۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں اس راستے پر بیٹھ گیا جس راستہ سے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا گزر ہونا تھا۔ جب آپ ﷺ کا وہاں سے گزر ہوا اور آپ نے مجھے دیکھا تو مسکرا دئیے اور جو میرے دل میں اور میرے چہرے پر تھا، آپ ﷺ نے پہچان لیا۔ آپ ﷺ نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ آپ ﷺ اپنے کاشانۂ اقدس میں داخل ہوئے تو وہاں کسی صحابی کی طرف سے ہدیہ کیا گیا دودھ کا پیالہ موجود تھا۔ دودھ کا پیالہ دیکھ کر آپ ﷺ کو بھوک سے پریشان و نڈھال اصحابِ صفہ کی یاد آگئی۔ آپ ﷺ نے مجھے فرمایا:

اہلِ صفہ کے پاس جاؤ اور انہیں میرے پاس بلا لاؤ۔ میں نے سوچا کہ یہ دودھ ہے ہی کتنا کہ سارے صفہ والوں میں تقسیم ہو، اس کا حقدار میں تھا کہ اسے پی کر کچھ قوت حاصل کرتا۔ جب صفہ والے آئیں گے تو آپ ﷺ مجھے اس دودھ کو ان میں تقسیم کرنے کا حکم دیں گے اور مجھے تو شاید اس دودھ میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی تابعداری کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ میں اصحابِ صفہ کے پاس آیا اور نبی کریم ﷺ کی دعوت پہنچائی۔ چنانچہ وہ آگئے۔ آپ ﷺ نے مجھے وہ دودھ سب اصحاب میں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ میں نے پیالہ پکڑ لیا اور ایک ایک کو دینے لگا۔ ایک صحابی دودھ پی کر جب سیراب ہو جاتا تو پھر میں وہ پیالہ دوسرے صحابی کو دیتا، وہ بھی سیراب ہو کر پیتا تو اگلے صحابی کو دے دیتا۔

جب سب صحابہ دودھ پی کر سیراب ہوگئے تو آخر میں آپ ﷺ نے پیالہ پکڑا اور میری طرف دیکھا اور مسکرا کر فرمایا: بیٹھ جاؤ اور پیو۔ میں بیٹھ گیا اور میں نے دودھ پیا۔ نبی کریم ﷺ برابر فرماتے رہے کہ اور پیو، اور پیو۔ آخر مجھے کہنا پڑا: اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اب بالکل گنجائش نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر مجھے دے دو۔ میں نے پیالہ نبی کریم ﷺ کو دے دیا۔ آپ ﷺ نے اللہ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر بچا ہوا دودھ خود نوش فرمالیا۔

(صحيح البخاري، كتاب الرقاق، باب كيف كان عيش النبى ﷺ ، وتخليهم من الدنيا، الرقم الحدیث: ۶۴۵۲)

لوگ آقا علیہ السلام کی عطاؤں پر شک کرتے پھرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام (نعوذ باللہ) کچھ نہیں دے سکتے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ کے اذن سے سب کچھ عطا فرماسکتے ہیں، صرف ہمیں مانگنے کا ڈھنگ اور سلیقہ آنا چاہیے۔ جب شدید طلب ہو تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے نقشِ قدم پر چل کر دیکھیں، پھر دیکھیں کہ حضور علیہ السلام یوں عطا فرماتے ہیں کہ انسان سیر ہو جاتا ہے اور کہہ اٹھتا ہے کہ یا رسول اللہ ﷺ بس ہو گئی، اب مزید کی گنجائش نہیں۔

تمام عوالم شان و عظمتِ مصطفی ﷺ پر گواہ ہیں

آقا علیہ السلام کے عظمت اور تصرفات کی کوئی حد نہیں ہے۔ آپ ﷺ کا اختیار و تصرف زماں و مکاں کی حدود و قیود سے بھی ماوراء ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے تصرفات اسی عالمِ دنیا کے تھے جبکہ تاجدار کائنات ﷺ کے تصرفات و اختیارات نے ہر عالم کو چھوا ہے۔ چاہے وہ عالمِ ناسوت ہو، عالمِ ملکوت ہو، عالمِ لاہوت ہو، عالمِ ارواح، یا پھر عالم برزخ، ہر اک عالم پر نشان ِ شان و عظمت مصطفیٰ ﷺ موجود ہے۔ سبھی عوالم عظمت و شان ِمصطفیٰ ﷺ کے گواہ اور شاہدہیں۔ اختیار و تصرف اور عظمت و شانِ مصطفیٰ ﷺ پر عالمِ آخرت بھی گواہ ہے اور عالمِ دنیا بھی گواہ ہے، عالمِ حیوانات بھی گواہ ہے اور عالمِ نباتات بھی گواہ ہے۔ ارض وسماء، شجر و حجر، چرند پرند الغرض ہر ایک شے تصرفات واختیارات مصطفیٰ ﷺ پر گواہ ہے۔

عظمت ِمصطفی ﷺ پر برزخ کیسے گواہ ہے ؟اس کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ تاجدارِکائنات ﷺ کا حسین چہرہ قبر میں ہر کسی نے دیکھنا ہے۔ جب صاحبِ قبر سے پوچھا جائے گا:

مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ ﷺ ۔

تم اس شخصیت محمد مصطفی ﷺ کے بارے میں دنیا میں کیا کہا کرتے تھے؟ (صحیح بخاری، ۱: ۴۵۰، حدیث: ۱۳۳۸)

تب ہر کسی کو برزخ کا امتحان پاس کرنے کے لیے آقا علیہ السلام کے بارے میں کچھ بتانا پڑے گا۔ پس اس طرح برزخ بھی عظمت وشان مصطفیٰ ﷺ پر گواہ ہے۔

ó عالمِ لاہوت وملکوت بھی عظمت و شانِ مصطفیٰ ﷺ پر گواہ ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب سیدنا جبرائیل امین بھی سدرہ المنتہیٰ پر رک گئے اور عرض کیا: یا محمد مصطفیٰ ﷺ ! میں اگر اس سے آگے بڑھا تو میرے پر جل جائیں گے۔ تاجدار کائنات ﷺ نے جبرائیل کو پیچھے چھوڑا اور اللہ کے حضور اس کے دیدار کے لیے آگے بڑھ گئے۔ اس طرح آسمان، عالمِ ملکوت اور سدرۃ المنتہیٰ بھی عظمت و شانِ مصطفیٰ ﷺ پر گواہ ہوگئے۔

ó جنت بھی عظمتِ مصطفیٰ ﷺ پر گواہ ہے اور کتب میں آتا ہے کہ جنت کی سب سے حسین مخلوق حور العین کے حسن کا راز یہ ہے کہ ان کی پیشانیوں پر اسم ِمحمد ﷺ لکھا ہوا ہے۔ حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو جنت میں ٹھہرایا تو انہوں نے جنت میں کوئی محل یا کوئی کمرہ ایسا نہیں دیکھا جہاں محمد (ﷺ) کا نام نہ لکھا ہو۔ حتیٰ کہ محمد (ﷺ) کا نام جنت کی حوروں کے سینوں اور پیشانیوں پر لکھا دیکھا، جنت کے محلات کی اینٹوں پر، طوبیٰ کے درختوں کے پتوں پر، سِدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر، پردوں کے اطراف پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اسے لکھا دیکھا۔ (تاریخ دمشق ابن عساکر، ۲۳: ۲۸۱)

آقا علیہ السلام کو بے شک اللہ رب العزت نے انبیاء کرام اور رسل عظام کی جماعت کا امام بنا کر پیدا فرمایا مگر آپ ﷺ کے معجزات نہ صرف تعداد بلکہ عظمت وشان میں بھی انبیاء کرام کے معجزات سے بڑھ کر ہیں۔ جو معجزات دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا ہوئے وہ تو تاجدار کائنات ﷺ کی امت کے اولیاء کو کرامتوں کی شکل میں عطاہوئے۔ آپ ﷺ کی امت کے اولیاء کی کرامات بھی آقا علیہ السلام کی شان و عظمت کا اظہار ہے کہ جن کے خدام اور غلاموں کی شان کا عالم یہ ہے تو پھر ان کے آقا و مالک کی شان کا عالم کیا ہوگا۔

نعمتِ عظمیٰ پر اللہ کی بارگاہ میں ہدیۂ تشکر

آقا علیہ السلام کی صورت میں جو نعمتِ عظمیٰ ہمیں حاصل ہے، اس عظیم نعمت کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں بھی ہم پر عائد ہوتی ہیں کیونکہ قران مجید کا اصول ہے کہ جو اللہ رب العزت کی نعمت پر جتنا زیادہ شکر ادا کرتا ہے، اللہ رب العزت اس پر اپنی نعمتیں اسی قدر بڑھا دیتا ہے اور جو نعمتوں پر شکر نہیں کرتا، اللہ رب العزت اس کی نعمتیں کم کر دیتا ہے۔ اگر اللہ رب العزت نے ہمارے نصیب حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات بابرکات سے جگمگائے ہیں تو ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس کے حضور شکر بجا لائیں۔

شکر بجا لانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کی تمام تر تعلیمات پر کما حقہ عمل پیرا ہو جائیں۔۔۔ آقا علیہ السلام نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے، ان سے رک جائیں۔۔۔ جن چیزوں کی آقا علیہ السلام نے تاکید فرمائی ہے، ان چیزوں کو زندگی کا حصہ بنا لیں۔۔۔ ہر حرام سے بچتے رہیں اور ہر حلال کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔۔۔ اپنی زبانوں، نگاہوں اور سماعتوں کو پاک رکھیں۔۔۔ صبح و شام آقا علیہ السلام کی تعلیمات سے اپنی زندگیوں کو رنگنے کی کوشش کریں۔۔۔ آقا علیہ السلام کی محبت میں جینا اور مرنا سیکھیں۔۔۔ اپنی زبان سے جھوٹ کو ہمیشہ دور رکھیں۔۔۔ اپنی عادات سے دھوکے کو ہمیشہ دور رکھیں۔۔۔ کسی کی چغلی نہ کریں، برا نہ سوچیں، گالی نہ دیں اور کسی سے نفرت نہ کریں۔۔۔ لوگوں کے لیے محبت پھیلانے اور ان کو امان فراہم کرنے کا ذریعہ بنیں۔۔۔ لوگوں کے لیے اچھا سوچیں اور اچھا کریں۔۔۔ آقا علیہ السلام کی تعلیمات کو عام کریں۔۔۔ کسی کو اپنے ہاتھ یا زبان سے تکلیف نہ پہنچائیں۔۔۔ ہمیشہ خیر کے عمل پر مصروف رہیں اور شریعت کے احکام و فرائض کی پابندی کریں۔

اگر ایسا کریں گے تو پھر ہم آقا علیہ السلام کی صورت میں حاصل نعمتِ عظمیٰ کا کچھ نہ کچھ شکر ادا کر رہے ہوں گے۔ مذکورہ تمام اعمال کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی مصروفیات میں سے ایک حصہ لازماً اللہ کے دین کے لیے وقف کر دیں۔ ایسا کرنا آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں شکر ادا کرنا ہوگا۔ یہ عمل آقا علیہ السلام کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور آقا علیہ السلام کی اپنی حیات اس پر دلیل ہے۔ اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کے دینِ متین کی صورت میں اتنی بڑی نعمت ہمیں عطا کر دی ہے کہ اگر ہم پھر بھی اپنی زندگی میں گم رہیں تو یہ شکر گزاری نہ ہوگی بلکہ اللہ کی اس نعمتِ عظمیٰ کی ناقدری ہوگی۔

دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے وقت نکالنا اور کاوشیں کرنے کا نہایت ہی مؤثر ذریعہ اللہ رب العزت نے اس دور میں تحریک منہاج القران کی شکل میں ہمیں عطا کیا ہے۔ مجدد عصر شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے ذریعے ہمیں ایک ایسا پلیٹ فارم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے کہ جس میں دین کی خدمت بھی ہے اور ایمان کی تقویت بھی ہے۔۔۔ احوال و اعمال کی حفاظت بھی ہے اور نوجوان، کم عمر بچوں اوراگلی آنے والی نسلوں کے دین کی حفاظت بھی ہے۔۔۔ معاشرے کی خدمت و فلاحِ انسانیت بھی ہے اور دین کی تعلیم و تبلیغ بھی ہے۔۔۔ تصوف و روحانیت بھی ہے اور اصلاحِ احوال اور ایمان کی سلامتی بھی ہے۔ الغرض ہر شے اللہ رب العزت نے اس دور میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک منہاج القران کا جو پہلو ہمارے ذوق کے قریب تر ہو، اس پہلو سے وابستہ ہوجائیں اور اپنے روزانہ کے اوقات میں سے کم از کم ایک وقت اللہ کے دین اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کے لیے وقف کردیں۔ ایسا کرنا حقیقی معنی میں اس نعمتِ عظمیٰ پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا ہوگا اور اس کے نتیجے میں نہ صرف اللہ رب العزت ہمیں اپنی مزید نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا بلکہ ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ سے بھی توجہات اور فیوضات نصیب ہوں گے۔