حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا مقامِ ولایت و معرفت

ڈاکٹر نعیم انور نعمانی

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ.

’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے‘‘۔ (یونس، ۱۰: ۶۲)

اللہ تعالیٰ جن ہستیوں کو منصبِ ولایت پر فائز کرتا ہے، انھیںلاخوف اور لا حزن کے انعامات عطا کرتا ہے۔ وہ اپنی تمام حیاتِ ظاہری ایسی کیفیات میں گزارتے ہیں کہ ہر دم اور ہر پل اللہ رب العزت کی صفات کے رنگ میں رنگے رہتےہیں۔ معرفتِ الہٰیہ میں ان کا سفر ہر گام آگے بڑھتا رہتا ہے اور وہ قربتِ الہٰیہ کی منازل تیزی سے طے کرتے جاتے ہیں۔ ان کا قلب و باطن ہر وقت ذکرِ مولا سے آباد رہتا ہے اور ان کی زبان ہر لحظہ یادِ مولا سے تر رہتی ہے۔ وہ اطاعت کی وادی سے کبھی دوری اختیار نہیں کرتے اور وادیٔ معرفت و قربت کی طرف سفر جاری رکھتے ہیں۔

امام ابوالقاسم، الرسالہ القشیریہ میں بیان کرتے ہیں:

علامۃ الولی ثلاثۃ شغلہ باللہ تعالیٰ وفرارہ الی اللہ تعالیٰ وھمہ الی اللہ عزوجل

’’ولی کی تین نشانیاں ہیں: اس کا دل اللہ کے ساتھ شاغل رہے، اس کا ہر عمل اللہ کی طرف بھاگے اور اس کے نفس کی ہر کاوش اور عزم و ہمت اللہ کے لیے ہو‘‘۔ (القشیری، الرسالۃ القشیریہ، ۶۶۳)

گویا کسی بھی بندے میں ولایتِ الہٰیہ کا رنگ تب چڑھتا ہے جب اس کا ظاہر و باطن ہمیشہ اللہ کے ساتھ شاغل رہے اور کسی اور کے ساتھ مشغول ہونا اس کی ترجیح نہ ہو۔ اس طرح وہ اللہ کے ساتھ شاغل ہوکر مخلوق میں مشغول ہونے سے بچ جائے گا اور بہت سے رزائلِ اخلاق سے اُسے نجات مل جائے گی۔ اسی طرح ولایت کی شان کا حامل بندہ زہد عن الدنیا کی وصف سے متصف ہو، اس کا دل ہر شے میں اللہ کی طرف بھاگنے والا ہو، وہ ماسوا اللہ سے قطع تعلق ہو اور اس کے دل کا ربط اللہ سے قائم ہو۔ ولایت کی شان کی حامل ذات کا ارادہ اور اس کی ہر ہمت کی جہت مولا کی طرف ہو، اس کے ہر فکرو خیال اور قول و عمل کا رخ اللہ کی جانب ہو تو یہ ساری نشانیاں اس کے وجود میں جمع ہوکر اسے منصبِ ولایت کا مستحق بنادیتی ہیں۔

ولایت کی شان کا حامل ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ بندگی کا کمال اور شانِ بندگی کا افتخار ہے۔ جب بندہ اس مقامِ ولایت پر پہنچتا ہے تو اس کی پہچان اخلاقِ الہیٰہ کے اپنانے اور صبغۃ اللہ میں خود کو ڈھالنے سے ہونے لگتی ہے۔ اگر اس کے اخلاق پر نظر کرو تو وہ بندہ تخلقوا باخلاق اللہ کا پیکر نظر آتا ہے۔۔۔ اس کی صفات اور خوبیوں کو دیکھو تو وہ صبغۃ اللہ کے رنگ میں رنگا ہوا نظر آتا ہے۔۔۔ وہ من احسن من اللہ صبغۃ کا نور اپنے وجود میں منعکس کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جب بندے کا ظاہر اور باطن مولا کے رنگ میں رنگ جاتا ہے اور دل کے مسکن میں اس کا اصل مکین آباد ہوجاتا ہے تو اب دیکھنے میں بظاہر وہ بندہ نظر آتا ہے مگر وہ اپنا سب کچھ اپنے مولا کے سپرد کرچکا ہوتا ہے۔

وافوض امری الی اللہ کی شانِ تفویض اس کا امتیاز بن چکی ہوتی ہے۔۔۔ وہ فنائے نفس سے بقائے مولا کی جانب رختِ سفر باندھ چکا ہوتا ہے۔ ایسا نفس اللہ کی طرف کامل رجوع کرچکا ہوتا ہے۔ الغرض مقامِ ولایت میں بندہ اپنے نفس اور اس کےعوارض سے چھٹکارا پاکر اللہ تعالیٰ کا ہوجاتا ہے اور قد افلح من زکھا کا پیکر بن جاتا ہے۔ وہ یایتھاالنفس المطمئنۃ کا علمبردار ہوجاتا ہے۔ اب اس کے من میں رب کے ڈیرے ہیں، اب وہی بندے کے لیے ہر معاملے میں کفیل ہوجاتا ہے اور وہی بندے کے لیے کافی و شافی ہوجاتا ہے۔

حضور غوث الاعظم کی شانِ علم و معرفتِ الہٰیہ

قرآن مجید میں باری تعالیٰ اپنے ولی صفت بندوں کی علامت کا ذکر فرماتے ہوئے اُن کی شانِ علم کو اُن کا امتیاز قرار دیتا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کے حوالے سے فرمایا:

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَـآ اٰتَیْنٰـہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰـہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا

’’حضرت موسیٰؑ اور ان کا غلام تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا‘‘۔ (الکہف، ۱۸: ۶۵)

ولی کی شناخت اور منصبِ ولایت کی علامت یہ بتائی جارہی ہے کہ اللہ کا ولی اللہ کی رحمت کے خزانے کا حامل ہوتا ہے۔ باری تعالیٰ اس کو اپنی بارگاہِ خاص سے علمِ لدنی کی نعمت عطا کرتا ہے۔

سلسلۂ اولیاء کے سردار محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی، غوثِ صمدانی، غوث الثقلین حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو باری تعالیٰ نے خلعتِ ولایت سے نوازا اور آپ کی ذاتِ اقدس کو اپنی عطاؤں کا مھبط، اپنی عنایتوں کا مرکز اور اپنی تجلیات اور صفات کا مظہرِ کامل بنایا۔ آپؒ کو باری تعالیٰ نے اپنی رحمتِ خاص سے نوازا اور اپنے علمِ لدنی کا حامل بنایا۔ وعلمناہ من لدنا علما کا فیض ان کی ذات میں اس طرح جاری کیا کہ آپ خود اس بات کا اعتراف اور اظہار کرتے ہیں:

درست العلم حتی صرت قطبا ونلت السعد من مولی الموالی.

(صحیفه غوثیه شرح قصیده غوثیه، شارح مولانا قلندر علی، ص: ۱۹۳)

’’میں نے علم حاصل کیا یہاں تک قطب بن گیا اور یہ سعادت مجھے اللہ کے فضل سے حاصل ہوئی ہے‘‘۔

علم کا منتھی اور علم کا مقصود اللہ کی معرفت اور قربت ہے اور اسی علم کو علمِ نافع کہا جاتا ہے اور اسی کی تحصیل اہل اللہ پر لازم ہے۔ جب علمِ لدنی کا چشمہ حضور غوث الاعظمؒ کے وجودِ اقدس میں جاری ہوا تو ظاہری علم والے اس کے نظارے سے انگشت بدنداں ہوجاتے تھے اور حیرت و استعجاب کی کیفیات ان پر طاری ہوجاتی تھیں۔ جوں جوں اس علمِ لدنی کا اظہار بڑھتا جاتا، وہ حیرتوں کے سمندر میں مستغرق ہوتے رہتے۔ حضور غوث الاعظم کی شانِ علم و معرفت کو کبار ائمہ کرام نے اپنے اپنے انداز سے خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ذیل میں حضور غوث الاعظم کے حوالے سے چند ائمہ کے اقوال اور اُن کے آنکھوں دیکھے احوال کو درج کیا جاتا ہے:

۱۔ امام ابن جوزی محبوب سبحانی، قطبِ ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی کی شانِ علم کا تذکرہ یوں کرتے ہیں کہ آپ نے ایک مجلس میں ایک آیت کریمہ کی چالیس تفسیریں بیان کیں۔ مجھے صرف اس کی بارہ تفسیروں کا علم تھا جبکہ حضور غوث الاعظم نے اس کی چالیس تفاسیر بیان فرمائیں اور پھر بھی سلسلۂ تفسیر نہ رکا بلکہ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

الآ ن نرجع من القال الی الحال.

’’اب ہم قال کو چھوڑ کر حال کی طرف منتقل ہوتے ہیں‘‘۔

امام ابن جوزی بیان کرتے ہیں کہ جب تک قال کی تفسیر رہی، مجمع اپنے قابو میں رہا اور جب حال کی تفسیر کا آغاز ہوا تو اب مجمع پر بھی حال کی کیفیت طاری ہوگئی۔ پورا مجمع تڑپ اٹھا اور ہر طرف آہ و زاری اور سوز و گداز کی کیفیات نے اپنا ڈیرہ جمالیا۔ امام ابن جوزی بھی ان کیفیات سے الگ تھلگ نہ رہ سکے۔ ان کو بھی حال کی کیفیت نے بے خود کیا اور عجب لذت و سرور اور وجد کے عالم میں تڑپتے رہے۔

۲۔ امام یافعی فرماتے ہیں:

اجتمع عندہ من العلماء والفقہاء والصلحاء جماعۃ کثیرون انتفعوا بکلامہ وصحبتہ ومجالستہ وخدمتہ وقاصد الیہ من طلب العلم من الآفاق.

(یافعی، مراۃ الجنان، ۳: ۲۵۴)

آپ کی مجلسِ علم میں علماء، فقہاء اور صلحاء کی کثیر تعداد آپ کے کلام اور بیان کو سننے، آپ کی صحبت و سنگت کی برکت حاصل کرنے، آپ کی مجلس سے مستفید ہونے اور آپ کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل کرنے کے لیے جمع ہوتی۔ آپ کے علم سے مستفید اور مستنیر ہونے کے لیے بے شمار طالبانِ حق کل آفاق سے دور دراز کے سفر کرکے حاضر ہوتے تھے۔

۳۔ امام ابن حجر عسقلانی (مناقب الشیخ عبدالقادر جیلانی) بیان کرتے ہیں کہ حضور غوث الاعظمؒ کی مجلس میں ستر ہزار کا مجمع ہوتا تھا اور جس طرح آپ کی آواز کو پہلی صف والے سنتے تھے، اسی طرح آخری صف والے بھی آپ کی آواز سماعت کرتے تھے۔ آپ ہر روز علمِ تفسیر، علمِ حدیث اور علمِ فقہ سمیت تیرہ علوم کا درس دیتے تھے۔ ہر سال تین ہزار طلبہ آپ کے حلقۂ درس سے محدث بن کر نکلتے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے لشکر میں آپ کے طلبہ بطور سپاہ شامل تھے جو رات کو اللہ کے حضور عبادات میں ہوتے اور دن کو مجاہد اور عظیم پیکر جہاد تھے۔ علامہ ابن قدامہ حنبلی ایک طرف سلطان صلاح الدین کے دست راست تھے تو دوسری طرف محبوب صمدانی کے شاگرد بھی تھے۔ اسی طرح علامہ عبدالغنی المقدسی حنبلی بھی آپ کے شاگرد تھے۔

۴۔ علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب الاستقامۃ میں شیخ عبدالقادر جیلانی کی ذات کو بڑے شاندار اور زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

قطب العارفین ابا محمد بن عبدالقادر بن عبداللہ الجیلی.

 (ابن تیمیہ، الاستقامہ، ص۴۳)

علامہ ابن تیمیہ کے قلم نے یہ اسلوب صرف اور صرف حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے لیے ہی اختیار کیا ہے، کسی اور کو یہ شرف اوریہ رفعت نہیں دی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ شیخ شہاب الدین سہروردی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ جب وہ پندرہ سال کی عمر کو پہنچے تو علم الکلام میں امام الحرمین جوینی کی الارشاد اور امام شہر ستانی کی نہایۃ الاقدام پڑھنے کے حوالے سے متذبذب ہوئے تو ان کے چچا شیخ نجیب الدین سہروردی ان کو لے کر شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کو دیکھتے ہی فرمایا:

جو کتابیں تم پڑھنا چاہتے ہو، یہ قبر میں کام نہ آئیں گی۔ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، آپ نے میرے قلب کا حال جان کر تصحیح کردی۔ پس میں نے توبہ کرلی۔ اس کے بعد علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں:

ان الشیخ کاشفہ بما کان فی قلبہ

قطب العارفین شیخ عبدالقادر جیلانی نے کشف کے ذریعے ان کی دل کی بات کو جان لیا۔

ó حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے مقامِ علم اور معرفت و قربت کے سبب دیگر سلاسلِ طریقت کے بانیان اور برصغیر کے ممتاز علماء و اولیاء بھی اپنے اپنے زمانے میں شاہ جیلاں سے اپنی محبتوں اور عقیدتوں کا تذکرہ کچھ یوں کرتے رہے ہیں:

۱۔ سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی، شاہ جیلاں کو غوث معظم، نور ھدی، مختار نبی، مختار خدا، قطب الاقطاب اور سلطان دوعالم کے القابات سے یاد کرتے ہیں۔

۲۔ شہنشاہ نقشبند خواجہ بہاؤ الدین نقشبند آپ کو بادشاہ ہر دو عالم کہتے ہوئے یوں آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں:

بادشاہ ہر دو عالم شاہ عبدالقادر است

۳۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی آپ کو غوث اعظم، دلیل راہ یقیں اور رہبر اکابر دیں، در ہمہ اولیا ممتاز کے منفرد اسلوب اورمحبت آمیز کلمات کےساتھ کرتے ہیں اور یوں اظہار کرتے ہیں:

غوث اعظم دلیل راہ یقیں
بالیقیں رہبر اکابر دیں

اوست در جملہ اولیا ممتاز
چوں پیمبر در انبیا ممتاز

۴۔ شیخ ابوالمعالی آپ کی محبت میں ڈوب کر آپ کا تذکرہ حسیں یوں کرتے ہیں کہ اگر معرفتِ خدا اور قربتِ مولا چاہتے ہو تو آپ کے دامن سے وابستہ ہوجاؤ۔ فرماتے ہیں:

گر کسے واللہ بعالم از مئے عرفانی است
از طفیل شاہ عبدالقادر گیلانی است

۵۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی شاہ جیلاں کے حضور اپنا نذرانہ عقیدت یوں پیش کرتے ہیں:

واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا

۶۔ حضرت خواجہ بہاؤالدین زکریا ملتانی فرماتے ہیں:

سگ درگاہ میراں شو چوں خواہی قرب ربانی
کہ بر شیراں شرف دارد سگِ درگاہِ جیلانی

آپ کا فیض روحانی ایک سمندر کی طرح جاری و ساری ہے۔ عارفانِ حق اس امر سے خوب آگاہ ہیں اور اس کا اعتراف و اظہار برملا کرتے بھی ہیں۔ آپ کی حیاتِ ظاہری میں بھی وہ معترف رہے ہیں اور آج حیاتِ روحانی میں بھی ہر اہلِ نظر اس کی تصدیق کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ اپنی حیاتِ ظاہری میں ایک دفعہ درس دے رہے تھے اور آپ کی مجلسِ علم میں تین سو سے زائد اکابر اولیاء اللہ موجود تھے۔ جن میں حضرت علی بن الحیطی ابوسعید الکیلوی، ابوالخبیب سہروردی ابوعمروعثمان المقدسی، امام صدیق بن محمد البغدادی، امام یحیی المرتعش، امام ضیاء الدین ابراہیم، امام ابو عبداللہ القزوینی، امام ابوبکر الشیبانی، امام ابو سعود العطار، امام ابوالقاسم البزار، امام شہاب الدین سہروردی اور ابو محمدالیعقوبی جیسے جلیل القدر اولیاء اللہ موجود تھے۔ اسی دوران آپ کو حکم ہوا اور آپ نے اپنی ولایت کا اعلان یوں کیا:

قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ.

آپ کے اس جملے کو علم تصوف و سلوک میں روایت متواترہ کی حیثیت حاصل ہے۔ آپ کا یہ اعلان سنتے ہی جو جہاں تھا، اس نے وہیں اپنے سر اور اپنی گردن کو جھکالیا۔ آپ کے اس ارشادکے ذریعے اشارہ اس امر کی طرف تھا کہ کل سلاسلِ طریقت آپ کے ذریعے سے منصبِ ولایت کے باب میں مستفید ہوں گے۔

تعلیمات حضور غوث الاعظمؒ

۱۔ ولایت کی حقیقت کو حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ بڑے ہی خوبصورت انداز میں واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

کن مع اللہ بلا خلق وکن مع الخلق بلا نفس.

’’مقامِ ولایت یہ ہے کہ بندہ خالق کے ساتھ بغیر خلق کے رہے اورمخلوق کے ساتھ بغیر نفس کے رہے‘‘۔

یہ مختصر کلمات معرفت اور ولایت کے خزانوں کو اپنے اندر جمع کیے ہوئے ہیں۔ اللہ کا سچا ولی وہی ہے جس کی خلوت اور جلوت مع اللہ کی گواہی اور شہادت دے۔۔۔ حق کے انوار کا اس کے دل کے اطوار پر غلبہ و تفوق رہے۔۔۔ اس کا دل مع اللہ کی کیفیت سے آباد و شاد رہے۔۔۔ وہاں مع الخلق کا گذر اور افسانے اور حکایتیں نہ ہوں۔ یہ سارے عوامل مع اللہ کے مقامِ قلب کی وحدانی فضاؤں میں غیر ہیں۔ جس دل میں مع اللہ اور غیر اللہ کا اجتماع نہ ہو، وہاں سے مقامِ ولایت کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس لیے حضور غوث الاعظم نصیحت فرمارہے ہیں کہ اے طالبِ حق! اگر تو ولایت کی حقیقت کو پانا چاہتا ہے تو مع اللہ بلا خلق ہوجا اور مع الخلق بلا نفس ہوجا، تب تو رازِ ولایت کو پاجائے گا۔

۲۔ آپ اپنے عقیدت مندوں کو اخلاص کی دولت کو اختیار کرنے اور اس نعمت کا مستحق بننے کی تعلیم یوں دیتے ہیں:

علامۃ اخلاصک انک لا تلتفت الی حمدالخلق ولا الی ذمہم ولا تطمع فیما ایدیہم تعمل للمنعم لا للنعمۃ.

’’اے میرے مرید! تیرے اندر اخلاص کی علامت یہ ہو کہ تو مخلوق کی مدح وذم سے بے نیاز ہوجا اور لوگوں کے مال و دولت کی طمع نہ کر اور نعمت عطا کرنے والے منعم کے لیے عمل کر، نہ کہ صرف نعمت کے لیے‘‘۔ (الفتح الربانی، ۴۱۴)

۳۔ آپ دینداروں سے مخاطب ہوتے ہوئے اُن کے اندر دین کی قدرو اہمیت پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور دین کو بظاہر بربادی سے بچانے کے لیے انھیں یوں نصیحت کرتے ہیں کہ تمہارے دین کی بربادی چار چیزوں کی وجہ سے ہے:

الاول أنكم لاتعملون بما تعلمون؛ أنكم تعملون بما لا تعلمون؛ أنكم لا تتعلمون ما لا تعلمون فتبقوا جهالا؛ أنكم تمنعون الناس من تعلم ما لا يعلمون.

’’ پہلی چیز یہ ہے کہ تم نے جو علم سیکھا ہے، اس پر تم عمل نہیں کرتے ہو۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جس چیز کا تمھیں علم نہیں ہے، تم اس پر عمل کرتے ہو اور تیسری چیز یہ ہے کہ جس چیز کو تم سرے سے ہی نہیں جانتے، تم اسے سیکھنے اور جاننے کی فکر نہیں کرتے ہو۔ پس تم اس بنا پر جاہل کے جاہل ہو اور چوتھی چیز یہ ہے کہ تم لوگوں کو وہ علم حاصل نہیں کرنے دیتے جسے وہ نہیں جانتے۔  (الفتح الربانی)

۴۔ ایک اور مقام پر آزمائشوں کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اگر آزمائشیں نہ ہوتیں تو سب لوگ ہی عابد اور زاہد ہوتے‘‘۔ (الفتح الربانی، ص ۴۲۸)

اس حقیقت کو مزید واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

بندگی کا اظہار امتحان کے وقت ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں آئیں تو تو ثابت قدم رہ، باری تعالیٰ تجھ سے محبت کرے گا اور اگر تو اس وقت بدل جائے تو تیرا جھوٹ ظاہر ہوجائے گا۔ (الفتح الربانی، ص ۸۶)

۵۔ سب سے زیادہ عقلمند اور سب سے زیادہ جاہل کی نشانی بتاتے ہوئے شاہ جیلاں فرماتے ہیں:

اعقل الناس من اطاع اللہ عزوجل واجھل الناس من عصاہ.

’’لوگوں میں سے سب سے بڑا عقلمند وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے اور لوگوں میں سے سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے‘‘۔ (الفتح الربانی، ص ۱۲۴)

۶۔ ہر ایک طالبِ حق، متعلم اور معلم کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

من لا یکون معلم نفسہ فکیف یکون معلم غیرہ.

’’جو شخص خود اپنے نفس کا استاد نہیں بن سکا، وہ دوسروں کا کیسے استاد بن سکتا ہے‘‘۔ (الفتح الربانی، ص ۴۷۲)

یعنی ایک داعیِ حق اور ایک سچے طالبِ مولا کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے زیادہ کاوش اپنی اصلاح کے لیے کرے۔ وہ خود کو عملی بنیادوں پر فلاح اور صلاح کا نمائندہ بنائے۔ اس کی دعوتِ حق اس کے کردار سے ظاہر ہو۔ وہ رحمن کا بندہ بنے اور پھر اوروں کو بندگی مولا سے آشنا کرے۔

۷۔ حضور غوث الاعظم اپنے مریدوں اور اللہ کے تمام بندوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

تم شوق و اشتیاق سے اللہ کو یاد کرو، وہ تمہیں تقرب اور وصال سے یاد کرے گا۔۔۔ تم اسے حمد و ثنا سے یاد کرو، وہ تمہیں انعام و احسان سے آبادکرے گا۔۔۔ تم اسے توبہ و استغفار سے یاد کرو، وہ تمہیں بخشش و مغفرت کی نعمت سے شاد کرے گا۔۔۔ اگر تم اس کو ندامت سے یاد کرو گے تو وہ تمہیں عطا سے یاد کرے گا۔۔۔ تم اس کو اخلاص سے یاد کرو گے تو وہ تمہیں نجات و کامیابی کی خیرات سے آبادکرے گا۔۔۔ تم اس کو تنگ دستی میں یاد کرو گے، تو وہ تمہیں فراخ دستی اور خوشحالی کی نعمت سے یاد کرے گا۔۔۔ تم اسے فنا فی اللہ کی صورت میں یاد کرو گے، تو وہ تمہیں بقاء باللہ کی شان کے ساتھ یاد کرے گا۔۔۔ تم اسے صدق سے یاد کرو گے، تو وہ تمہیں کثرتِ رزق سے آباد کرے گا۔۔۔ تم اُسے اس کی ابدیت میں فنا ہوکر یاد کرو گے، تو وہ تمہیں تکریمِ انسانیت کا اعزاز عطا کرکے یاد کرے گا۔۔۔ تم اس کو ترکِ خطا سے یاد کرو گے، تو وہ تمہیں اپنی بخشش و عطا کے ذریعے یاد کرے گا۔۔۔ غرضیکہ تم بندہ خالص بن کر اور مقامِ بندگی کا پیکر بن کر اس کو یاد کرو گے تو وہ رحمن، رحیم، غفور اور شانِ صمدیت کا مالک ہوکر اپنی ساری خدائی، قدرت، قوت اور اپنی ساری شانِ عطا کے ساتھ تمھیں یاد کرے گا۔

شاہِ جیلاں، محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی، غوثِ صمدانی ابو محی الدین حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی نے ایسی شمعِ ہدایت روشن کی ہے کہ لوگ اللہ سے واصل ہوتے رہیں گے۔۔۔ اس کی معرفت اور قربت کی طرف بڑھتے رہیں گے۔۔۔ اس کی محبت کے جام پی کر اس کی خلعتِ ولایت پہنتے رہیں گے۔۔۔ دل کی بستیاں ان کے طریقِ ذکر سے آباد ہوتیں رہیں گی۔۔۔ خشک زبانیں ان اسلوبِ طریقت کی بنا پر تر ہوتی رہیں گی۔۔۔ ارواح اللہ کی یاد سے مچلتی رہیں گی اور ذہن و دماغ اور سوچ و فکر کی زمین ان کی جلائی ہوئی شمع توحید سے روشن رہے گی۔