خصوصی رپورٹ

’’الہدایہ‘‘منہاج القرآن انٹرنیشنل (برطانیہ) کے زیراہتمام منعقد ہونے والے سالانہ اسلامی تربیتی کیمپس کا ایک سلسلہ ہے جس کا آغاز 2005ء میں ہوا۔ ان کیمپس کا مقصد یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی روحانی تربیت، دینی تعلیم اور اخلاقی نشوونما کرنا ہے۔ یہ کیمپس مغربی معاشرے میں موجود نوجوانوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرانے اور انہیں انتہا پسندی اور گمراہی سے بچانے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں۔ یہ تربیتی کیمپس نوجوانوں میں اسلامی اقدار، سماجی بہبود اور امن کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ الہدایہ کے ذریعے نوجوانوں میں قیادت کی صلاحیتیں پیدا کرنے اور انہیں مغربی معاشرے کا ایک فعال اور مثبت حصہ بنانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

ان تربیتی کیمپس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری سمیت دیگر جید علماء اور اسکالرز لیکچرز دیتے ہیں جو شرکاء کو مختلف دینی اور عصری موضوعات پر رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ الہدایہ تربیتی کیمپس میں نہ صرف دینی تعلیمات پر زور دیا جاتا ہے، بلکہ عملی ورکشاپس اور مختلف دینی، علمی اور روحانی سرگرمیاں بھی منعقد کی جاتی ہیں تاکہ نوجوانوں کو روزمرہ زندگی کے مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنے کی تربیت دی جا سکے۔

ó امسال منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے زیر اہتمام تین روزہ (2 اگست تا 4 اگست 2025ء) دینی، تعلیمی اور اصلاحی تربیتی کیمپ ’’الہدایہ 2025ء‘‘یونیورسٹی آف واروک لندن میں منعقد ہوا۔ اس کیمپ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی، پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، شیخ حماد مصطفیٰ مدنی القادری، شیخ احمد مصطفیٰ العربی القادری اور ڈاکٹر غزالہ حسن قادری نے خصوصی شرکت کی اور مختلف موضوعات پر لیکچرز دیے۔ اس کیمپ میں برطانیہ بھر سے مختلف طبقاتِ زندگی سے تعلق رکھنے والی 1300 سے زائد فیملیز نے بطورِ خاص شرکت کی۔

’’الہدایہ‘‘گزشتہ 20 سال میں علم، روحانیت اور اسلامی نظریاتی بیداری کا روشن مینار بن کر ابھرا ہے۔ یہ ایک علمی، فکری اور روحانی تحریک ہے جس نے دو دہائیوں سے اذہان و قلوب کی تربیت کی، ایمان کو جلا بخشتی اور نئی نسل کو جدید فتنوں سے بچا کر اسلام کی حقیقی روشنی کی جانب گامزن کیا ہے۔ امسال منعقد ہونے والے ’’الہدایہ‘‘ کیمپ کی اجمالی رپورٹ نذرِ قارئین ہے:

تربیتی کیمپ کا پہلا دن (2 اگست2025ء)

’’الہدایہ‘‘ 2025ء کے عنوان کے تحت منعقدہ تین روزہ تربیتی کیمپ کا آغاز تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول مقبولﷺ سے ہوا۔ بعد ازاں ’’الہدایہ‘‘ کے ٹائٹل کے تحت 20 سال پر محیط اس روحانی اور علمی سفر پر شرکاء نے منتظمین کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے ’’الہدایہ‘‘ تربیتی کیمپ میںThe Pre-Eminence and Authenticity of the Sunnah and Hadith.، سنت و حدیث کی حجیت اور اسناد کی اہمیت‘‘ کے موضوع پر اپنا پہلا علمی و فکری خطاب ارشاد فرمایا۔ انھوں نے اپنے خطاب میں حجیتِ حدیث کو واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور نبی کریمﷺ کے فرامین کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام تسلیم کرنا حدیث پر ایمان کا ثبوت ہے۔ سنت کو مانے بغیر قرآن کو ماننا بھی ممکن نہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات حضور نبی اکرمﷺ کی اطاعت اور اللہ کی اطاعت کو لازم و ملزوم قرار دیتی ہیں اور دونوں کی نافرمانی کو یکساں طور پر نافرمانی اور گمراہی قرار دیتی ہیں۔ قرآن اور سنت دو الگ راستے نہیں، بلکہ ایک ہی نور، ایک ہی پیغام اور ایک ہی الوہی منبع کے سرچشمے ہیں۔

شیخ الاسلام نے قرآن کی متعدد آیات سے استدلال کیا، جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ کے فرامین اور اعمال کی حجیت کی توثیق کی ہے۔ ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن اور سنت ایک ہی پیغام کے دو پہلو ہیں۔ قرآن ہمیں عبادت کا حکم دیتا ہے، لیکن اس کا طریقہ ہمیں سنت سے ہی معلوم ہوتا ہے۔ قرآن حکم دیتا ہے، سنت طریقہ فراہم کرتی ہے۔ قرآن ہمیں نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور حج کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن سنت کے بغیر، ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کیسے ادا کرنا ہے۔

شیخ الاسلام نے ان آیات کو بھی بیان فرمایا جن میں آپﷺ کے فرامین و اعمال اور اطاعت کو قبول کرنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو رد کرنا دونوں کو رد کرنا ہے۔ شیخ الاسلام نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ نبی اکرمﷺ کے بغیر کوئی اسلام نہیں۔ قرآن اور سنت دو راستے نہیں ہیں؛ وہ ایک روشنی اور ایک ہی پیغام ہیں اور ان کا ماخذ بھی ایک ہے۔

اپنے خطاب میں شیخ الاسلام نے نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر پھیلنے والی غیر مستند، بغیر علم اور غیر تربیت یافتہ آوازوں سے ہوشیار رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ چکنی چپڑی زبان یا فصیح انداز کو حق نہ سمجھو۔ جو سننے میں اچھا لگے، ضروری نہیں کہ وہ سچ بھی ہو۔ جو سوشل میڈیا پر مقبول ہو، لازمی نہیں کہ وہ مستند بھی ہو۔ اسلام علمی گہرائی، نظم اور سند کا تقاضا کرتا ہے۔ جیسے دوا صرف ماہر ڈاکٹروں سے حاصل کی جاتی ہے، ویسے ہی دین صرف اہلِ علم اور سند یافتہ علماء سے سیکھا جاتا ہے۔

شیخ الاسلام نے نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اپنے دین کو صحیح طریقے سے سیکھنے میں وقت صرف کریں۔ قرآن اور سنت سے جڑی ہوئی مستند تعلیمات پر بھروسہ کریں جو صدیوں کے علمی ورثے میں محفوظ ہیں۔ اپنے آپ کو علم سے لیس کریں تاکہ ان لوگوں کے بہکاوے میں نہ آئیں جو بغیر حکمت و بصیرت کے بولتے ہیں۔ ان آوازوں سے ہوشیار رہیں جو قرآن کو نبیﷺ سے الگ کرتی ہیں۔ اسلام توازن، علم، اور مستند روایت کا مذہب ہے نہ کہ سنسنی خیزی یا ذاتی رائے کا۔

ó الہدایہ تربیتی کیمپ کےپہلے روز کے دوسرے سیشن میں شرکاء کے روحانی ذوق اور کیفیات کو جِلا بخشنے کے لیے قراء اور نعت خوانان نے تلاوت قرآن مجید، حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت اور مختلف عارفانہ و صوفیانہ کلام اور نشید پیش کیے۔ علاوہ ازیں اس کیمپ میں شریک بچوں کے لیے بھی خصوصی طور پر علمی اور روحانی سرگرمیوں کا خصوصی اہتمام کیا گیا جن میں بچوں نے نہایت ذوق و شوق سے بھرپور حصہ لیا۔

تربیتی کیمپ کا دوسرا دن (3 اگست 2025ء)

’’الہدایہ‘‘ کیمپ کے دوسرے دن کے پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن مجیداور نعت رسول مقبول ﷺ اور محفل سماع سے ہوا۔ بعد ازاں محترمہ ڈاکٹر غزالہ حسن قادری اور شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے نہایت اہم موضوعات پر لیکچرز دیے اور مختلف پہلوؤں سے اسلامی تعلیمات کو اجاگر کیا۔

خطاب ڈاکٹر غزالہ حسن قادری

ڈاکٹر غزالہ حسن قادری (صدر منہاج القرآن ویمن لیگ انٹرنیشنل) نے Steps to Spirtual Growth - A Practical Guide to Becoming a Better Muslim ’’عملی مسلمان بننے کے لیے روحانی ترقی کے مراحل‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے ان امور کی طرف توجہ دلوائی کہ ایک بہتر مسلمان بننے کے لیے کیا عملی اقدامات اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ یہ خطاب باطنی اصلاح، سچی توبہ اور عاجزی کی اہمیت کو اجاگر کررہا تھا۔ انہوں نے اچھے اخلاق، نرمی اور دوسروں کے لیے دل میں وسعت پیدا کرنے پر زور دیا۔ اُن کا کہنا تھا مومن کو بدتمیزی یا دوسروں پر فتویٰ لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ دوسروں کی غلطیوں پر نظر رکھیں، ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہمارے رویے، ہماری زبان اور ہمارے غصے سے لوگ محفوظ ہیں؟ زبان سے نکلے الفاظ بھی جسمانی زخموں کی طرح تکلیف دے سکتے ہیں۔

تقویٰ (اللہ کی قربت اور خوف) حاصل کرنا بھی اسی طرح محنت کا متقاضی ہے، جیسا کہ دنیاوی کامیابیاں محنت چاہتی ہیں۔ روحانی ترقی کوئی اتفاقیہ عمل نہیں بلکہ مسلسل اخلاص، عاجزی، صبر اور محنت سے حاصل ہونے والا ایک شعوری سفر ہے۔ ہمیں ہر لمحہ سوچنا چاہیے کہ ہم اللہ کے پسندیدہ راستے پر ہیں یا ناپسندیدہ پر؟ غفلت کی زندگی انسان کو اللہ سے دور کر دیتی ہے۔ صبر کو صرف بیماری یا مشکل پر برداشت کرنا نہ سمجھا جائے، بلکہ اصل صبر وہ ہے کہ جب گناہ کا موقع موجود ہو لیکن انسان خود کو روک لے۔ یہی صبر حقیقی تقویٰ کی بنیاد ہے۔ صبر کو مضبوط بنانے کے لیے قناعت (دل کا سکون اور شکرگزاری) کا ہونا ضروری ہے، خاص طور پر آج کے دور میں جب سوشل میڈیا پر دوسروں کی زندگیوں سے موازنہ انسان کے دل میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔ اپنی زبان کو صابر، دل کو مطمئن، اور جسم کو پرسکون رکھیں۔ جب یہ توازن حاصل ہو جائے تو دل کی گہرائیوں سے سکون اور روحانی استحکام نصیب ہوتا ہے۔

خطاب شیخ حماد مصطفی المدنی القادری

شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے Al-Futuwwa: A Chivalrous Way of Life in the 21st Century، نوجوانوں سے الفُتُوَّۃ: اکیسویں صدی میں جوانمردی کا طرزِ حیات‘‘ کے موضوع پر نہایت مؤثر اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔ انہوں نے الفتوۃ کے تصور کو تاریخی و روحانی پس منظر میں بیان کیا اور واضح کیا کہ یہ محض ماضی کا تصور نہیں بلکہ عصرِ حاضر میں بھی ایک لازمی اخلاقی و روحانی نظامِ حیات ہے۔ آج کے دور میں ایمان کو صرف رسمی عبادات اور رسومات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ نماز، روزہ اور مسجد کی حاضری کے باوجود اکثر لوگ یتیموں، بھوکوں، محتاجوں اور مظلوموں کی خبرگیری نہیں کرتے۔ سچے مؤمن کا تین چوتھائی وقت خلقِ خدا کی خدمت، دوسروں کے حقوق کی ادائیگی اور رحم و سخاوت میں گزرنا چاہیے۔

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ الفتوۃ کا جوہر شکر، صبر، ایثار اور دنیا سے بے رغبتی ہے۔ اللہ کے قریب ہونے کا حقیقی راستہ مخلوق کی خدمت سے ہوکر گزرتا ہے۔ آج کا معاشرہ ان لوگوں کو سراہتا ہے جو صرف اپنی ترقی و شہرت کے پیچھے ہیں، جبکہ اسلام ہمیں ایثار، بھائی چارہ اور عاجزی کی تعلیم دیتا ہے۔ الفتوۃ کا اعلیٰ روحانی درجہ وہ ہے جہاں انسان سمندر جیسا ہو جائے یعنی گہرا، پر سکون اور بے پناہ وسعت لیے ہوئے۔ سچے مؤمن وہ ہیں جو خوشحالی اور تنگی دونوں حالتوں میں خرچ کرتے ہیں، غصے کو ضبط کرتے ہیں اور ہر حال میں حسنِ سلوک کرتے ہیں۔ سچا جوانمرد اپنے اعمال پر فخر نہیں کرتا، بلکہ ہمیشہ عاجزی و انکساری اختیار کرتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خطاب

’’الہدایہ‘‘ کیمپ کے دوسرے دن یونیورسٹی آف واروک میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے Analytical Study of the Western Critical Method ”مغربی تنقیدی طریقہ کار کا تجزیاتی مطالعہ“کے موضوع پر نہایت مدلل اور فکرانگیز کلیدی خطاب کیا۔ یہ خطاب گذشتہ لیکچر کا تسلسل تھا، اس خطاب میں آپ نے اسلام اور بالخصوص احادیث کے مآخذ کو مشکوک بنانے اور ان کی ساکھ کو مجروح کرنے میں مغربی تاریخی تنقیدی طریقہ کار کے کردار کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔

شیخ الاسلام نے سامعین کے سامنے اس طریقہ کار کی فکری بنیادوں اور نوآبادیاتی مقاصد کو بے نقاب کیا۔ شیخ الاسلام نے واضح کیا کہ یہ طریقہ 17ویں اور 18ویں صدی کی یورپی روشن خیالی (Enlightenment) کے دور میں بائبل پر تنقید کے لیے بنایا گیا تھا، مگر بعد ازاں اسے اسلام کے متون پر بھی لاگو کیا گیا، باوجود اس کے کہ مستشرقین کو اسلامی علوم کی گہرائی کا فہم نہ تھا اور نہ ہی اخلاص۔ یہ طریقہ کبھی علمی طور پر غیر جانب دار نہیں رہا۔ اس کا مقصد نبوت کی عظمت کو کم کرنا، اسلامی قانون کی حرمت کو مشکوک بنانا اور اسلامی متون کو بائبل کی طرح تاریخی طور پر غیر معتبر قرار دینا تھا۔ اس کام کو سرانجام دینے والے مشہور مستشرقین جنہوں نے اسلام کی علمی روایت کو مسخ کیا، ان میں اگناز گولڈزیہر (Ignaz Goldziher)، اس نے پورے ذخیرہ حدیث کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا؛جوزف شاخت (Joseph Schacht)، اس نے دعویٰ کیا کہ اسلامی قانون قبل از اسلام قبائلی روایات سے لیا گیا، الوئیس اسپرانگر (Aloys Sprenger)، اس نے ’’سیرت محمدؐ‘‘ کے نام پر من گھڑت روایات کو تاریخی سچ کے طور پر پیش کیا۔ دیگر متعصب مصنفین جیسے ایڈورڈ سیل، ولیم میور اور گوستاو ویل کے کام بھی جھوٹ، غلط ترجمہ اور نظریاتی تعصب کا مجموعہ ہیں۔

شیخ الاسلام نے بیان کیا کہ ان مستشرقین نے اسلامی اصولِ حدیث علم الرجال، الجرح والتعدیل اور مصطلحات الحدیث کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ انھوں نے اس تاریخ علم الحدیث سے جان بوجھ کر اعراض برتا کہ اہلِ اسلام نے عہدِ نبوی ہی سے حدیث و سنت کو محفوظ کیا اور کئی صحابہ کرامl نے اپنے اپنے طور پر کئی احادیث کو اپنے پاس جمع کررکھا تھا۔ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ نے ان علوم کو باقاعدہ مدون کیا۔ اسلامی علمی روایت وحی، سنت اور سند پر مبنی ہے، نہ کہ سیکولر یا مغربی نظریات پر۔ قرآن خود نبی ﷺ کو اس فرمان الہٰی کے ذریعے وحی کی تشریح کے لیے مقرر کرتا ہے:

وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ۔

’’ اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ (پیغام اور احکام)خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں‘‘۔  (النحل، ۱۶: ۴۴)

لہٰذا سنت نہ صرف بنیادی ماخذ ہے بلکہ قرآن کی عملی تفسیر بھی ہے۔ مغربی تنقیدی طریقہ محض علمی نہیں بلکہ فکری استعمار (intellectual colonisation) کا ایک ہتھیار ہے۔ اس کا مقصد اسلامی علم کو مسخ کرنا تھا، نہ کہ سچ کی تلاش۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کو مستند اسلامی علوم کے زاویے سے سمجھیں، مغربی نظریات سے نہیں۔ حدیث و سنت؛ قرآن مجید کی تشریح، عملی صورت اور اسلام کا بنیادی ماخذ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ دونوں کی اطاعت لازم ہے۔ جب تک نبی کریم ﷺ کی اتباع نہ ہو، صرف اللہ کو ماننا کافی نہیں یہی اسلامی عقیدہ ہے جو مغربی طریقہ کار کی خرابیوں کا رد کرتا ہے۔

تربیتی کیمپ کا تیسرا دن (4 اگست 2025ء)

4 اگست 2025ء ’’الہدایہ‘‘ کیمپ کےآخری دن کا آغاز حسبِ معمول تلاوت، قرآن مجید، نعت رسول مقبولﷺ اور صوفیانہ و عارفانہ کلام سے ہوا۔ بعد ازاں پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری (چیئرمین سپریم کونسل منہاج القرآن انٹرنیشنل) نے تجدید و احیاء دین کے موضوع پر علمی و فکری خطاب فرمایا۔

خطاب پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

پروفیسر ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے Who is Shaykh-ul-Islam? کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو امت میں ظاہر کرتا ہے جو صداقت، تقویٰ اور سنت کی حفاظت کے علمبردار ہوتے ہیں۔ ہر صدی میں اللہ تعالیٰ ایک مجدد بھیجتا ہے جو امت کو رہنمائی، توازن اور دین کی اصل روح سے جوڑتا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ اللہ رب العزت ہمیں صادقین (سچے لوگوں)، جو اللہ کے چنے ہوئے اور پاک کیے ہوئے ہیں، ان کو پہچاننے کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے کہ یہی لوگ قرآن و سنت کے محافظ اور نبوی ورثہ کے علمبردار ہیں۔ ان کی صحبت سے اللہ کی یاد آتی ہے، ان کے چہرے اللہ کی یاد دلاتے ہیں اور ان کی موجودگی نبی ﷺ کی محبت کو دوبارہ زندہ کرتی ہے۔ یہ لوگ اس وقت دین کو زندہ کرنے والے ہوتے ہیں جب قرآن و سنت کو بھلایا جا رہا ہو۔ ہر صدی میں، اللہ تعالیٰ امت کو توازن اعتدال پر قائم رکھنے کے حوالے سے رہنمائی کے لیے کسی کو بھیجتا ہے۔ ہمارے دور میں یہ ذمہ داری شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو نصیب ہے۔

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے شیخ الاسلام کے علمی، فکری اور روحانی سلسلہ کو بیان کیا کہ شیخ الاسلام نہ صرف روایتی اسلامی علوم بلکہ جدید علوم اور معرفت و روحانیت کے عظیم سرچشموں سے سیراب ہیں۔ شیخ الاسلام کو عالمی سطح پر ایسی ہمہ جہتی کامیابیاں اور انفرادیت حاصل ہے کہ عرب و عجم کی دنیا کے علماء شیخ الاسلام کا نہ احترام کرتے ہیں بلکہ ان کی کتب اور خطابات سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔

شیخ الاسلام کی تعلیمات امام ابوحنیفہ کی گہرائی، امام غزالی کی روحانی بصیرت اور ماضی کے عظیم ائمہ کے وژن کی عکاسی کرتی ہیں۔ شیخ الاسلام آج نبوی حکمت کے وارث، اس صدی کے مجدد، اور ہماری نسل کے لیے اللہ کا ایک تحفہ ہیں۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کے ذریعے انہوں نے نہ صرف علم کو دوبارہ زندہ کیا ہے بلکہ ایک ایسی تحریک بھی بنائی ہے جو علم، روحانیت اور اصلاح کو یکجا کرتی ہے اور 90 سے زائد ممالک میں انسانیت کی خدمت کر رہی ہے۔

خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

4 اگست 2025ء ’’الہدایہ‘‘ کے تیسرے اور آخری دن کی اختتامی نشست میں، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے The Islamic Epistemology of Hadith Verification’’احادیث کی اسلامی تصدیقی معرفت‘‘کے موضوع پر نہایت اہم اور جامع کلیدی خطاب فرمایا۔ یہ خطاب احادیث و سنت کی صداقت، مغربی تنقیدی طریقہ کار کا تجزیہ اور اسلامی علمی روایت کے تناظر میں تصدیقِ حدیث کے اصولوں پر مشتمل تین حصوں پر مبنی سلسلے کا اختتامیہ تھا۔ شیخ الاسلام نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے Epistemology (معرفتِ علم) کا مفہوم واضح کیا کہ اسلام میں علم کا ماخذ انسانی قیاس یا تجربہ نہیں۔ اسلامی اور مغربی تصدیقی طریقہ کار میں فرق ہے۔ اسلامی طریقہ شک کی بنیاد پر نہیں بلکہ محبت، یقین اور مسلسل روایت پر مبنی ہے جبکہ مغربی طریقہ شک اور الحاد پر مبنی ہے جو وحی کی حیثیت کو چیلنج کرتا ہے۔

شیخ الاسلام نے مزید واضح کیا کہ حدیث اور سنت الگ الگ تصورات نہیں ہیں۔ سنت مستند احادیث کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے، جو اسناد کے قابل اعتماد سلسلوں کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں۔ اسلامی تاریخ میں علماء، بشمول سنن ابی داؤد، سنن الترمذی، اور سنن النسائی جیسی بڑی تالیفات کے مصنفین، نے حدیث اور سنت کو مترادف سمجھا۔ شیخ الاسلام نے جدید دعووں کو سختی سے رد کیا جو ان دونوں کو الگ کرنے یا سنت کی تصدیق کرتے ہوئے حدیث کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے خیالات اکثر الجھن، جہالت، یا گمراہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ شیخ الاسلام نے عام غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ حدیث کو حضور نبی اکرمﷺ کے وصال کے صدیوں بعد مرتب نہیں کیا گیا بلکہ آپﷺ کی اپنی زندگی میں ہی اسے محفوظ کرلیا گیا تھا۔

الہدایہ کیمپ کی اس آخری نشست میں شیخ الاسلام نے سامعین کو نصیحت کی کہ وہ سچے داعی بنیں۔ دین کا صحیح فہم حاصل کریں، سنت سے تعلق کو مضبوط کریں اور اپنے خاندان، رشتہ داروں اور معاشرے کو اس علم سے فیض یاب کریں تاکہ آخرت میں نجات ممکن ہوسکے۔ غیر فعال مومن نہ بنیں بلکہ اسلام اور اس کی مستند تعلیمات کی طرف بلانے والے فعال داعی بنیں۔

ó اس تاریخی خطاب کے ساتھ الہدایہ 2025ء کا اختتام ہوا۔ اس تین روزہ علمی و روحانی تربیتی کیمپ نے شرکاء کو دین کے فہم، حدیث کی قدر اور اسلامی تشخص پر فخر کے ساتھ دنیا کا سامنا کرنے کا حوصلہ عطا کیا۔ شرکاء کو اعتقاد کی وضاحت، حدیث و سنت نبوی پر اعتماد اور حقیقی اسلامی تعلیمات کے مشعل بردار بننے کے اجتماعی عزم سے نوازا۔ یہ تین روزہ کیمپ نوجوانوں کے لیے ایک روشن چراغ ثابت ہوا، جس نے ان کے ایمان کو زندہ کیا، ذہنوں کو تقویت دی اور پیغمبر اسلام ﷺ کی عظیم میراث سے دوبارہ جوڑا۔ اس علمی و فکری اور روحانی کیمپ نے نئی نسل کو جدید چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے علم، ایمان اور خود اعتمادی سے لیس کیا۔