قرآن مجید: حدیث و سنت کی حجیت کی سب سے بڑی دلیل

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت کی توفیق سے قران و سنت کی روشنی میں عقائدِ صحیحہ کے انتہائی اہم موضوع ’’حجیتِ حدیث و سنت‘‘ پر اپریل 2024ء سے شروع کی گئی اس سلسلہ وار تحریر کا یہ آخری حصہ ہے۔ اس سلسلہ وار تحریر میں ہم نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات پر غور و فکر کیا کہ کیا یہ عقیدہ اور تصور درست ہے کہ ’’ہمارے لیے صرف قرآن ہی حجت ہے، فقط قرآن کافی ہے، ہم صرف اسے اتھارٹی مانیں اور حضور (علیہ السلام) کی حدیث اور سنت مبارکہ کو احکامِ دین و شریعت کے باب میں حجت اور اتھارٹی نہ مانیں بلکہ اسے (معاذ اللہ) محض ایک صوابدیدی رہنمائی کا درجہ دیں، اسے صرف اُس زمانے کے حالات کے مطابق دی گئی ہدایات سمجھیں، اس میں سے ہم جو کچھ چاہیں اپنے فائدے اور رہنمائی کے لیے اخذ کر لیں اور جسے (معاذ اللہ) ہم مناسب نہ سمجھیں، اسے چھوڑدیں اور حتمی اتھارٹی (binding authority) صرف قرآن کو سمجھیں‘‘۔

یہ ایک باطل تصور ہے اور سراسر گمراہی ہے۔ اس کی حیثیت دینی اعتبار سے کفر اور الحاد کی ہے۔ انسان ایسا عقیدہ رکھ کر قرآن مجید سے باغی اور بالآخر اس کا منکر ہو جاتا ہے۔ پورے قرآن مجید میں اس تصور کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ قرآن مجید کی نسبت ایک ایسی بات کا دعویٰ کرنا ہے جو خود قرآن مجید بھی نہیں کہہ رہا۔ قرآن مجید نے سیکڑوں مقامات پر اس تصور و عقیدہ کی نفی کی ہے، اس کو رد کیا ہے اور اس کے برعکس یہ تصور و عقیدہ بیان کیا ہے کہ قرآن مجید اور سنت دونوں حجت ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی حجت ہے اور اس کے رسول ﷺ کا فرمان بھی حجت ہے۔ اطاعتِ الٰہی اور اطاعت رسول دونوں دائمی و مستقل طور پر علی الاطلاق بغیر استثنیٰ کے حجت اور واجب ہیں۔ اس میں ہماری صوابدید (discretion) کا کوئی دخل نہیں ہے۔ قرآن مجید نے دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ:

وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَی اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ

(الاحزاب، ۳۳: ۳۶)

’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں تو ان کے لیے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسول ﷺ کے فیصلہ کو ایک ہی فیصلہ قرار دیا ہے۔ یعنی مومن مرد یا عورت کو یہ حق ہی حاصل نہیں ہے کہ جس معاملہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حکم اور فیصلہ آ جائے تو اس میں اپنا اختیار استعمال کریں کہ ہم اسے مانیں یا نہ مانیں۔ قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کو مطلقاً حتمی اتھارٹی قرار دیا ہے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہم نے اس موضوع کو اس سلسلۂ تحریر کے سابقہ تمام حصوں میں قرآن مجید ہی کے دلائل سے واضح کیا ہے۔ اس موضوع پر پورا مؤقف اور اس کی تمام تشریح و تعبیر کی بنیاد حدیث نبوی پر نہیں بلکہ قرآنی دلائل پر قائم کی گئی ہے۔ مذکورہ دلائل کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ ’’حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میری سنت واجب ہے، میرا ہر حکم واجب ہے، میرے حکم کی اطاعت قیامت تک واجب ہے‘‘۔ بلاشبہ ایسی سیکڑوں احادیث ہیں جن میں آپ ﷺ نے خود اپنی زبان سے اپنی حدیث و سنت کے واجب ہونے کو کو بیان فرمایا مگر ہم نے دلائل کا مدار احادیث نبوی پر نہیں رکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے کچھ لوگ حدیثِ نبوی کی حجیت کا انکار کر رہے ہیں اور اس تحریر کا مقصود اسی انکار کو رد کرنا، اسی غلط فہمی کو دور کرنا اور اسی تصور میں واضحیت (clarity) دینا ہے۔

حدیث و سنت کی حجیت و وجوب پر واضحیت کے لیے صرف قرآن مجید سے دلائل اس لیے دیے کہ حدیث و سنت کی حجیت کے منکرین جو قرآن مجید کے علاوہ کسی اور شے کو حجت نہیں مانتے، وہ دیکھ لیں کہ اس باب میں قرآن مجید کیا کہہ رہا ہے۔ ان تمام قرآنی دلائل سے حدیث و سنت کی حجیت و وجوب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ایسے لوگ جو حدیث و سنت کی حجیت کا انکار کرتے ہیں، حقیقت میں وہ قرآن مجید کو بھی نہیں مانتے، اس لیے کہ اگر وہ قرآن مجید کو مانتے تو قرآن مجید کے فرامین کے مطابق وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث و سنت کو بھی حجت و واجب مانتے۔

آیئے! حجیتِ حدیث و سنت پر قرآن مجید کی ایک اور دلیل کا مطالعہ کرتے ہیں:

کلامِ مصطفی ﷺ وحیِ خدا ہے

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیؕ. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیۙ.

(النجم، ۵۳: ۳۔ ۴)

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔ ‘‘

ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے کلام کے بارے میں واضح فرمادیا کہ وہ کوئی بات اور کوئی لفظ اپنے منہ سے ایسا نہیں نکالتے جو ان کی اپنی ذاتی خواہش (personal wish & Choice) سے نکلا ہو۔ وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتے بلکہ وہ جب کلام بھی فرماتے ہیں تو ان کا کلام وحی ہوتا ہے، جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ ان آیات مبارکہ سے واضح ہورہا ہے کہ آقا علیہ السلام کی زبانِ اقدس سے ادا ہونے والا ہر لفظ، ہر قول اور ہر فرمان حجت ہے، اسے اپنی فرضیت، حجیت، مشروعیت اور شرعی حکم ہونے کے اعتبار سے قرآن مجید سے الگ نہیں کر سکتے۔

آیت مبارکہ میں وَمَا یَنْطِقُ کا لفظ عام ہے اور یہ ہر اُس لفظ، کلمہ، جملہ اور قول کو شامل ہے جو آقا علیہ السلام کی زبانِ مبارک سے ادا ہوتا ہے۔ لغت کی رو سے ہر وہ لفظ جو کسی شخص کے منہ سے نکلتا ہے، اسے نُطْق کہتے ہیں۔ اُسی سے منطق ہے اور اسی سے نُطُوْق ہے، جس کا معنی تَکَلُّمْ یعنی کلام کرنا ہے۔ ایسا کلام جس میں آواز، حروف اور الفاظ ہوں تو وہ نطق ہے۔ اس معنی کی رو سے معلوم ہوا کہ آقا علیہ السلام کا سارا کلام اور ہر کلمہ جس کی آواز ہے، جس میں حروف اور الفاظ ہیں، وہ خواہشِ نفسانی کی بنیاد پر آپ ﷺ سے صادر نہیں ہوتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہیں۔ القاموس میں نطق کے حوالے سے درج ہے:

ألأصواتُ المُقَطِّعۃ اَلَّتِی یُظْھِرُہَا اللِّسَانْ وطعیہا الآذان

وہ الگ الگ آوزیں جنھیں زبان ادا کرے اور کان سمجھیں۔

جب ہم زبان سے بول رہے ہیں تو ہر لفظ دوسرے لفظ سے الگ الگ بیان ہو رہا ہے۔ یعنی تَقْطِیْع ہے، الفاظ مُقَطِعَۃ ہیں، ہر لفظ اور حرف سمجھ آرہا ہے اور ان سے جو جملہ بن رہا ہے، وہ جملہ بھی سمجھ آرہا ہے۔ معلوم ہوا کہ زبان سے ادا ہونے والا ہر بامعنی لفظ اور جملہ نطق میں آتا ہے، جسے کان سنتے اور سمجھتے ہیں۔ اس لغوی معنی کی رو سے معلوم ہوا کہ آقا علیہ السلام کی زبان مبارک سے ادا ہونے والا ہر قول اور فرمان وَمَا یَنْطِقُ میں آتا ہے۔

پھر ارشاد فرمایا:

 اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیۙ.

اس آیت کریمہ میں اِنْ ہُوَ (بلکہ وہ) کے الفاظ میں ھُوَ سے مراد ’’وہ‘‘ کلمہ اور قول ہے جو حضور ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا اور جسے حضور علیہ السلام نے بیان فرمایا۔ ہُوَ ضمیر کا مرجع آقا علیہ السلام کا نُطق، کلام، گفتگو اور قول ہے، جو آپ علیہ السلام کی زبانِ اقدس سے صادر ہوتا ہے۔ اس نطق، کلام اور قول کے بارے میں اللہ فرمارہا ہے کہ وہ وَحْیٌ یُوْحیٰ ہے یعنی وہ وحی ہے، جو اُن کی طرف کی جاتی ہے۔

وحی کی دو صورتیں: وحی جلی و خفی

ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ وحی سے مراد صرف قرآنی آیات ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ وحی صرف قرآن مجید کی آیات نہیں ہیں بلکہ ہر کلمہ، لفظ، قول اور فرمان جو آقا s کی زبانِ اقدس سے نکلتا ہے، وہ بھی وحی ہے۔ وحی کی دو صورتیں ہیں:

۱۔ وحی جلی (مرسل الیہ): وہ وحی جو جبرائیل امین آیاتِ قرآنی کی شکل میں اللہ کی طرف لے کر نازل ہوئے۔ اس وحی میں الفاظ اور معنی دونوں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے اور آپ ﷺ نے اسی طرح اسے بیان کر دیا۔ یہ ظاہراً بھی وحی ہے اور باطناً بھی وحی ہے، لفظاً بھی وحی ہے اور معنًا بھی وحی ہے۔ وحی کی یہ قسم قرآن کی آیات پر مبنی ہے۔ اسے مرسل إلیہ (حضور علیہ السلام کی طرف بھیجی گئی وحی) بھی کہتے ہیں۔

۲۔ وحی خفی (ملھم من اللہ): وہ کلام جو قرآن مجید کے علاوہ آقا علیہ السلام کی زبانِ اقدس سے نکلا، وہ وحی خفی ہے۔ اسے جبریل امین لائے یا براہِ راست اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے قلبِ اطہر پر الہام اور القاء کیا۔ یہ قرآن نہیں ہے مگر قرآن سے جدا بھی نہیں ہے۔ اس وحی میں حضرت جبرائیل کے ذریعے الفاظ نازل نہیں ہوتے بلکہ اللہ رب العزت براہِ راست آقا علیہ السلام کے قلب و روح میں وہ معنی، مفہوم اور تصور الہام کر دیتا ہے۔ اس وحی میں معنی اللہ کی طرف سے آیا ہوتا ہے مگر اس معنی کو الفاظ کاجامہ حضور علیہ السلام اپنی طرف سے پہناتے ہیں۔ یعنی الفاظ حضور علیہ السلام کے ہوتے ہیں اور معانی اللہ کی طرف سے آتے ہیں۔ spirit، message اور concept اللہ کی طرف سے آتا ہے مگر اس کو بیان حضور علیہ السلام اپنے الفاظ میں کرتے ہیں۔ اس قسم کی وحی کو حدیث اور سنت کہتے ہیں، یہ وحی خفی کہلاتی ہے۔

قرآن مجید کی مذکور آیات (النجم: ۳۔ ۴) میں اللہ تعالیٰ نے ایک چیز کی نفی کر دی اور دو چیزوں کا اثبات کر دیا۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی فرما کر اس بات کی نفی کردی کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حضور علیہ السلام کا کلام عام انسانوں جیسا کلام ہے کہ جس طرح عام انسان اپنی خواہشِ نفس سے بولتے ہیں، اپنی چاہت سے کلام کرتے ہیں اور سارے الفاظ اور ان کے معانی بھی ان کے اپنے ہوتے ہیں، حضور علیہ السلام کا کلام اس طرح کا نہیں ہے۔

جب عام انسان کلام اور گفتگو کرتے ہیں تو اپنی خواہش سے کرتے ہیں۔ اس میں ناراضگی بھی ہوتی ہے اور رضا مندی بھی ہوتی ہے، اچھی بات بھی کرتے ہیں اور بری بات بھی کرتے ہیں۔ یعنی ہم جو کچھ کہتے ہیں، وہ سب اپنی خواہشِ نفس کی بنیاد پر ہمارے اندر سے نکل رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور رسول کے حوالے سے اس تصور کی نفی کردی کہ خبردار! میرے محبوب ﷺ کو عالم ِبشریت کے کلام کرنے کے طریقہ اور پیمانے پر نہ ماپنا۔ ہر چند کہ وہ بشریتِ مقدسہ سے خالی نہیں ہیں، مگر میں نے انہیں پیکرِ بشریت اور پیکر نورانیت میں یکجا کیا ہے۔ وہ عالمِ بشیریت میں سے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کے بولنے کو اپنے بولنے جیسا سمجھنے لگو، ان کے کلام کو اپنے کلام کی طرح کلام سمجھنے لگو، ان کی گفتگو کی اصل (origin) ان کی خواہشِ نفس نہیں ہے بلکہ وحیِ الہٰی ہے۔ عام انسانوں کی گفتگو ان کی خواہش اور تمنا سے جنم (originate) لیتی ہے مگر رسول اللہ ﷺ کا بولنا، اس طرح نہیں ہوتا کہ جو کچھ وہ چاہیں، وہ کہیں بلکہ وہ جو بھی کلام فرماتے ہیں، وہ وحی ہوتا ہے۔

گویا اللہ تعالیٰ نے نبی و رسول کے حوالے سے بشری، قلبی اور نفسانی چاہت سے بولنے کی نفی کر دی کہ جس طرح تم اپنی خواہشِ نفس سے بولتے ہو، میرا رسول ایسے نہیں بولتا بلکہ اس کی شان اس سے بلند ہے۔ وہ جب بھی بولتے ہیں، کلام کرتے ہیں، خطاب کرتے ہیں تو اُن کے بولنے کی اصل (origin) جہاں سے وہ originate اور جنم لے رہا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی، وہ صرف وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ پس آقا علیہ السلام کی زبانِ اقدس سے صادر ہونے والے ہر کلام کو اللہ نے بطریقِ حصر وحی قرار دیا ہے۔

اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی میں اللہ رب العزت نے واضح فرمادیا کہ جو کلمہ بھی میرے محبوب کے منہ سے نکلتا ہے، اس کے حوالے سے کسی مغالطے اور گمراہی میں نہ پڑنا، وہ کچھ اور نہیں ہے، فقط وحی ہے جو ان پر کی جاتی ہے۔ یہ وحی خواہ الفاظ اور معانی دونوں کی صورت میں کی جائے یا فقط معانی کی صورت میں کی جائے اور الفاظ کا جامہ حضور علیہ السلام خود پہنا دیں۔ اگر الفاظ اور معانی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اترے ہوں تو اس کو قرآن اور وحی جلی کہتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف معانی اترے ہوں اور حضور علیہ السلام نے اس کی وضاحت اپنے الفاظ میں کر دی تو اس کو وحی خفی کہتے ہیں اور اسی کو حدیث اور سنت کہا جاتا ہے۔

وحی جلی اور وحی خفی کے مابین تعلق

وحی جلی اور وحی خفی کے مابین تعلق کو اس مثال سے سمجھیں کہ ہر شخص جو صاحبِ علم ہے، وہ جانتا ہے کہ جس قرآن مجید کی ہم تلاوت کرتے ہیں، وہ الحمد سے شروع ہو رہا ہے اور والناس پر ختم ہو رہا ہے۔ ہر شخص اس بات سے آگاہ ہے کہ قرآن مجید کی 114 سورتیں ہیں اور یہ تمام سورتیں ایک خاص ترتیب کے ساتھ قرآن مجید میں موجود ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’جو کچھ اس قرآن مجید کی 114 سورتوں میں لکھا گیا ہے، صرف وہ حجت ہے اور جو کچھ آقا علیہ السلام نے فرمایا، وہ حجت نہیں، یہ بس ایک رہنمائی ہے، مان لیں یا نہ مانیں، ہماری مرضی ہے۔ ‘‘ان کلماتِ کفر کے مرتکب اور گمراہی و ضلالت کے اندھیروں میں گھرے ہوئے لوگوں سے سوال ہے کہ وہ جس قرآن مجید کے حجت ہونے پرکاربند ہیں کیا یہ قرآن مجید سورتوں اور آیات کی اسی ترتیب کے ساتھ نازل ہوا تھا جس ترتیب کے ساتھ یہ چودہ سو سال سے موجود ہے؟ قرآن مجید تو اس ترتیب کے ساتھ نازل ہی نہیں ہوا۔ جب قرآن مجید کا نزول ہوا تو اس کی ترتیب کچھ اور تھی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

۱۔ غارحرا میں نازل ہونے والی پہلی سورت ’’الفاتحہ‘‘ نہیں ہے بلکہ وہ تو سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات ہیں۔ اب اگر صرف قرآن مجید ہی حجت ہوتا تو قرآن مجید کی کتابی ترتیب میں بھی یہ آیات پہلے ہونی چاہیےتھیں اور سورۃ الفاتحہ جس ترتیب کے ساتھ نازل ہوئی تھی، وہاں اپنی جگہ پر ہوتی۔ سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ البقرۃ اور پھر بقیہ سورتیں ہیں، جب کہ پہلی وحی کی آیات قرآن مجید کی کتابی ترتیب کے اعتبار سے 96 ویں سورۃ ( العلق) میں موجود ہیں۔

۲۔ اسی طرح جب آقا علیہ السلام کی عمر مبارک 43 سال تھی اور اعلانِ نبوت کو تین سال گزر چکے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو تبلیغِ عام کا حکم فرمایا تو اس وقت سورۃ المدثر کی یہ آیات نازل ہوئیں:

یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ. قُمْ فَاَنْذِرْ۪ۙ. وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ۪ۙ. وَ ثِیَابَكَ فَطَهِّرْ۪ۙ.

(المدثر، ۷۴: ۱۔ ۴)

’’اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!) اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں۔ ‘‘

یہ آیات تو آقا علیہ السلام کے اعلانِ نبوت اور وحی کے نزول کے تیسرے سال اُتری ہیں جب کہ ان آیات کو قرآن مجید کے 29 ویں پارہ میں رکھا گیا ہے۔ حالانکہ انھیں نزولی اعتبار سے ابتدائی آیات میں ہونا چاہیے تھا۔

آقا علیہ السلام کی زبانِ اقدس سے ادا ہونے والا ہر لفظ، ہر قول اور ہر فرمان حجت ہے، اسے اپنی فرضیت، حجیت، مشروعیت اور شرعی حکم ہونے کے اعتبار سے قرآن مجید سے الگ نہیں کر سکتے

۳۔ اسی طرح سورۃ المائدہ قرآن مجید کی ترتیب کے مطابق پانچویں سورۃ ہے، اس سورۃ کی تیسری آیت ترتیبِ نزولی کے مطابق قرآن مجید کی آخری آیت ہے۔ جس میں ارشاد فرمایا گیا:

اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا.

(المائدۃ، ۵: ۳)

’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔ ‘‘

یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر وصالِ مبارک کے آخری سال نازل ہوئی یعنی جب قرآن مجید کو نازل ہوتے ہوئے تقریباً 23 برس گزر چکے تھے۔ جس ترتیب سے قرآن مجید نازل ہوا تھا، اگر اس ترتیب سے قرآن مجید لکھا جاتا اور مجموعہ بنایا جاتا تو یہ آیت تو 30 ویں پارہ میں آخری آیت ہونا چاہیے تھی۔ یہ آیت قرآن مجید کے شروع میں کیسے آ گئی؟

اللہ تعالیٰ نے وما ینطق عن الھویٰ فرماکر حضور علیہ السلام کے کلام کا عام انسانوں کے کلام جیسا ہونے کی نفی کردی کہ میرے محبوب ﷺ کے کلام کو اپنے کلام جیسا نہ سمجھو، ان کا کلام تمھاری طرح خواہشِ نفس سے صادر نہیں ہوتا بلکہ وہ وحی الہٰی ہوتا ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے

قابلِ غور بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی یہ ترتیب جو چودہ سو سال سے زائد کے عرصہ سے چلی آرہی ہے، یہ ترتیب کس نے بنائی؟ یاد رکھیں! جب قرآن مجید کی آیات نازل ہوتی تھیں تو قرآن مجید میں کسی ایک آیت یا سورۃ میں بھی یہ نہیں آیا کہ فلاں آیت کو فلاں سورت میں فلاں مقام پر درج کیا جائے۔ جب قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت یا حکم نہیں ملتا جس میں آیات اور سورتوں کو اس موجودہ ترتیب کے مطابق متعلقہ جگہوں پر درج کرنے کا کہا گیا ہو تو پھر قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کو ان کی اس موجود ترتیب میں کس وجہ سے رکھا گیا ہے؟

جس ترتیب سے قرآن مجید اُترا اُس کو ترتیبِ نزولی کہتے ہیں اور جس ترتیب میں قرآن مجید آج مصحف اور کتاب کی سورت میں موجود ہے، یہ ترتیبِ کتابی ہے۔ ترتیب نزولی اور ترتیب کتابی مختلف ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ’’صرف قرآن کافی ہے‘‘، وہ تو قرآن مجید پر بھی ایمان نہیں رکھ سکتے، اس لیے کہ قرآن مجید میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا کہ فلاں آیت کو فلاں سورت میں فلاں مقام پر اور فلاں سورت کو فلاں سورت سے پہلے یا بعد میں درج کریں۔ قرآن مجید میں تو کہیں بھی اس مصحف کو ترتیب لگانے کی آیات موجود نہیں اور نہ ہی یہ اس کتابی ترتیب کے مطابق نازل ہوا ہے۔ اگر قرآن مجید اپنی ترتیبِ نزولی کے ساتھ ہمارے سامنے ہوتا تو یہ ترتیب بھی قرآن مجید کا حصہ ہوتی مگر ایسا نہیں ہے۔ نہ تو قرآن مجید نزولی ترتیب کے ساتھ موجود ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی اس ترتیبِ کتابی کا قرآن مجید میں کہیں بھی کسی بھی حوالے سے ذکر ہے۔

قرآن مجید میں کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں جو کسی سورت کی ترتیب بتاتا ہو کہ کس سورۃ کے بعد کس سورۃ نے آنا ہے۔ اسی طرح کوئی آیت بھی قرآن مجید میں ایسی نہیں جہاں کسی آیت کی ترتیب بتائی گئی ہو کہ کس آیت نے کس سورۃ میں کس مقام پر آنا ہے۔

اسی طرح قرآن مجید کی طویل سورتیں بھی ہیں اور مختصر بھی ہیں، ایسی سورتیں بھی ہیں جو سو، دو سو اور اڑھائی سو آیات پر مشتمل ہیں۔ لازمی بات ہے کہ یہ تمام آیات اور کوئی طویل سورت ایک بار تو نازل نہیں ہوئی۔ ایک وقت میں تو کبھی تین، کبھی پانچ، کبھی چھ، سات، آٹھ یا دس آیات نازل ہوتیں۔ مزید یہ بھی ذہن میں رہے کہ ایسا بھی نہیں تھا کہ کسی ایک سورت کی آیات مکمل ہونے کے بعد دوسری سورت کی آیات کا نزول ہوتا۔ یعنی تسلسل کے ساتھ ایک ہی سورت کی آیات نہیں اتر رہی ہوتی تھیں کہ پہلے سورۃ البقرۃ کی آیات نازل ہوئیں، جب یہ مکمل ہوگئیں تو سورۃ آل عمران کی آیات کا نزول ہوا بلکہ موقع محل اور حالات کے مطابق آیات کا نزول ہوتا۔

ایک ہی سال میں بیک وقت کئی سورتوں کی آیات نازل ہو رہی ہوتی تھیں۔ اس لیے کہ آیات کا اترنا اس وقت کی صورتحال کو بیان کرنے کے لیے ہوتا۔ مثلاً: آپ ﷺ جہاد پر گئے ہیں اور جہاد پر جانے سے قبل جو وحی نازل ہوئی تھی، ان آیات کا موضوع، ایمان، دعوت، آخرت یا اخلاق تھا مگر جب آپ ﷺ جہاد پر چلے گئے تو اب صورتِ حال بدل گئی، اب میدان جنگ میں نازل ہونے والی آیات میں جہاد کے احکامات اور اس موقع کی مناسبت سے وحی الہٰی کا نزول ہورہا ہے کہ اُس جنگی صورتحال میں کیا کرنا ہے۔۔۔؟ جنگ کے حوالے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا کفار مکہ کی طرف سے کوئی صورتحال درپیش ہے، کوئی نیا معاملہ سامنے آیا ہے تو اب اس کے متعلق آیات کا نزول ہوتا۔۔۔الغرض غزوات کے موقع پر اُن کی مناسبت سے آیات نازل ہوتیں۔۔۔اسی طرح ہجرت، معراج، کفارِ مکہ کے مظالم، منافقین کی سازشیں، وفود کی آمد، یہود و نصاریٰ سے معاہدات، دعوتِ اسلام کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روانگی، کسی کافر یا منافق کی طرف سے آپ ﷺ کو ایذا پہنچانا اور اس طرح کے متعددمواقع اور مقامات پر مکی اور مدنی دور میں موقع محل کی مناسبت سےآیات کا نزول ہوتا رہتا۔

الغرض کسی بھی وقت کوئی معاملہ آتا، کوئی سوال اُبھرتا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی معاملہ کے بارے میں پوچھتے تو انہیں رہنمائی اور ہدایت دینے کے لیے وحی نازل ہو جاتی۔

اب سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کی یہ ترتیب تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان نہیں کی تو یہ ترتیب کس نے دی؟ یقیناً یہ ترتیب حضور علیہ السلام نے عطا فرمائی ہے۔ قرآن مجید کی کتابی ترتیب حدیث و سنتِ نبوی کے ذریعے ممکن ہوئی۔ قرآن مجید کی اسی ترتیبِ کتابی کو حضور علیہ السلام نے حفظ کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حفظ کروایا۔ جبریل امین آقا علیہ السلام کی خدمت میں ماہِ رمضان میں تشریف لاتے اور حضور علیہ السلام پورے قرآن کی تلاوت فرماتے اور سناتے تھے۔ وصال مبارک کے آخری سال اسی ترتیب سے جس ترتیب میں آج قرآن موجود ہے، دو مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آقا علیہ السلام کے ساتھ مل کر دورۂ قرآن کیا۔ آقا علیہ السلام نے اپنی حیاتِ طیبہ میں خلفائے راشدین سمیت چالیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی مجلس میں، اپنی نگاہوں کے سامنے اور اپنی نگرانی میں قرآن مجید کو اسی ترتیب کے ساتھ لکھوایا تا کہ آنے والے زمانے میں کوئی قرآن مجید کی ترتیب بدل نہ سکے۔ حضور علیہ السلام نے اپنے سامنے قرآن مجید کے اتنے نسخے تیار کروائے کہ ترتیبِ قرآنی میں بھی کوئی اختلاف نہ رہے۔ یہی وجہ ہے آج چودہ سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود امتِ مسلمہ کے کسی بھی ملک، طبقہ، مکتبِ فکر اور کسی بھی زبان کے بولنے والے میں نہ صرف قرآن مجید کی ایک آیت کا بھی اختلاف نہیں بلکہ اس ترتیبِ کتابی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا قرآن مجید نہیں ملے گا جس میں آیات اور سورتوں کی ترتیب بھی مختلف ہو۔ ایک آیت تک بھی آگے پیچھے نہیں۔ یہ ترتیب آقا علیہ السلام نے امت کو اس طرح ضبط کے ساتھ عطا کر دی کہ جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور پوری امت اس پر قائم ہوگئی۔ پس قرآن مجید کی یہ ترتیب حضور علیہ السلام نے عطا فرمائی۔ آپ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو باقاعدہ احکامات صادر فرماتے کہ نازل ہونے والی آیت، کس سورۃ میں کس جگہ پر اور کس آیت سے پہلے یا بعد میں درج کریں۔

محض قرآن کو حجت ماننے اور حدیث و سنت کی حجیت کا انکار کرنے والوں سے سوال ہے کہ قرآن مجید کی موجودہ ترتیب کا بیان قرآن مجید کی کسی آیت میں نہیں ہے۔ یہ ترتیب تو آقا علیہ السلام کے فرامین کی روشنی میں دی گئی، اگر فرامینِ مصطفی ﷺ کی حجیت کا انکار کریں گے تو پھر قرآن مجید کو بھی حجت نہیں مان سکتے

آپ ﷺ مختلف مواقع پر مختلف صورتحال کے تناظر میں نازل ہونے والی آیات کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو احکامات و ہدایات فرماتے کہ اسے فلاں مقام پر فلاں سورت میں درج کرو۔ پس قرآن مجید کو اس ترتیب میں لکھوانا یہ حدیثِ محمدی ہے۔ یہ حضور علیہ السلام کی سنت ہے اور یہ ترتیب وحی خفی ہے جو قرآن مجید کی شکل میں نازل تو نہیں ہوئی مگر آقا علیہ السلام کے قلبِ اطہر پر براہ راست نازل ہوئی۔ یہ الہام و القاء قرآن مجید کی طرح نہیں ہوتا تھا مگر یہ وحی کا حصہ ہوتا تھا۔

وحی جلی اور خفی کے مابین تعلق کی یہ ایک ایسی مثال ہے جسے ہر آدمی بآسانی سمجھ لے گا اور اس سے صرف قرآن مجید کو حجت ماننے اور حدیث و سنت کو حجت نہ ماننے کے باطل فتنہ کی جڑ کٹ جائے گی (ان شاء اللہ)۔

اس بات کو یوں بھی سمجھیں کہ جبرائیل امین آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں تقریباً 24 ہزار مرتبہ آئے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات تو چھ ہزار سے زائد ہیں۔ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں جبرائیل علیہ السلام خود نہیں آتے تھے بلکہ اللہ کے بھیجنے سے ہی آتے تھے اور ہر بار اللہ کا پیغام لاتے، حضور علیہ السلام سے گفتگو کرتے اور اللہ کا پیغام پہنچاتے۔ اگر قرآن مجید کی ہر ایک آیت الگ الگ بھی نازل ہو تو جبرائیل علیہ السلام کا تقریباً ساڑھے چھ ہزار بار آنا تو وحیِ قرآن لے کر آنا تھا تو بقیہ ساڑھے سترہ ہزار مرتبہ جبرائیل علیہ السلام کیا لے کر نازل ہوتے تھے؟ وہ تو قرآن مجید میں نہیں ہے۔ دراصل جبرائیل علیہ السلام کا ہزارہا مرتبہ نزول وحی خفی کے لیے ہے اور قرآن مجید کی موجود ترتیب بھی اسی وحیِ خفی کا نتیجہ ہے جو کبھی اللہ کی طرف سے جبریل امین لے کر نازل ہوئے اور کبھی آقا علیہ السلام پر براہِ راست القاء کی جاتی۔

قرآن مجید کی یہ موجودہ ترتیب ’’ترتیب توقیفی‘‘ ہے۔ حضور علیہ السلام اللہ کی اس ہدایت یعنی وحیِ خفی کے تحت قرآن مجید کی آیات کو اس ترتیب سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لکھواتے تھے۔ جب آقا علیہ السلام آیات قرآنی صحابہ کو لکھواتے تو ساتھ ہی ہدایات فرماتے کہ ان آیات کو فلاں مقام پر لکھو۔ آپ ﷺ کا یہ فرمان حدیث ہے۔ آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ ’’اس سورت کو پہلے لکھو، اس کو بعد میں لکھو‘‘، یہ کلام حدیث ہے، یہ قرآن نہیں ہے۔

پس آقا علیہ السلام بتاتے گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس ترتیب سے لکھتے گئے۔ اس لیے کہ ان کا ایمان تھا کہ حضور علیہ السلام خواہ کچھ بھی فرمادیں وہ حق ہے۔ آپ ﷺ اسے قرآن کا نام دیں تو وہ بھی حق ہے۔۔۔ اسے قرآن کا حصہ نہ بتائیں تب بھی وہ قرآن کی طرح حق ہے۔ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور علیہ السلام کے فرمان سے اختلاف کرتے اور آپ ﷺ کی حدیث کو قرآن مجید کی طرح حجت اور حق نہ مانتے تو قرآن مجید آج کتابی صورت میں اُمت کے ہاتھوں میں نہ ہوتا۔ آج قرآن مجید کے حوالے سے یہ دعوٰی کرنے والے کہ ’’صرف قرآن کافی ہے، ‘‘وہ اس حوالے سے سوچیں کہ یہ قرآن مجید اس ترتیب سے بنا کیسے ہے؟

قرآنی دلائل سے حدیث و سنت کی حجیت و وجوب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ایسے لوگ جو حدیث و سنت کی حجیت کا انکار کرتے ہیں، حقیقت میں وہ قرآن مجید کو بھی نہیں مانتے، اس لیے کہ اگر وہ قرآن کو مانتے تو قرآن کے فرامین کے مطابق وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث و سنت کو بھی حجت و واجب مانتے

یقیناً انھیں یہی جواب ملے گا کہ قرآن اس ترتیب سے حضور علیہ السلام کی حدیث اور سنت کے ساتھ بنا ہے، اس لیے کہ جو قرآن مجید کا حصہ نہیں، وہ حدیث کا حصہ ہے۔ جبرائیل علیہ السلام کا آنا اور حضور علیہ السلام کے ساتھ دورۂ قرآن کرنا، یہ واقعہ بھی قرآن میں نہیں ہے بلکہ یہ بھی حدیث میں ہے۔ الغرض قرآن مجید کی ترتیب مقرر کرنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دینا کہ اس ترتیب سے لکھو، یہ سب احادیث ہیں۔ اگر حدیثِ رسول کو قرآن مجید ہی کی طرح حجت نہیں مانیں گے تو دینِ اسلام سے بھی گئے اور قرآن سے بھی گئے۔ اس صورت میں تو وہ قرآن مجید پر بھی ایمان نہیں لا سکتے۔ پس معلوم ہوا قرآن مجید کی ترتیب کا بھی سوائے حدیث مبارک کے کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔

آقا علیہ السلام نے وحی خفی کے طور پر اللہ تعالیٰ سے رہنمائی لی اور ہدایتِ ربانی کے تحت اس قرآن مجید کو ترتیب دی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے محبوب ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے کسی بھی کلمہ کو ایک عام انسان اور بشر کے کلام کی طرح نہ سمجھنا، بلکہ یہ وحی ہیں۔ اگر میرے محبوب کی ہر بات کو وحی نہیں سمجھو گے اور وحی کی طرح حق نہیں جانو گے تو قرآن مجید کو حجت ماننا تو الگ بات، قرآن کو قرآن بھی نہیں مان سکتے۔