سوشل میڈیا کی اَخلاقیات

عبدالستارمنہاجین

سوشل میڈیا کے اصل مقصد کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کو بامقصد اِستعمال نہیں کریں گے، تو کوئی اور ہمیں غیرمحسوس طریقے سے استعمال کر لے گا۔ بڑی بڑی سوشل میڈیا کمپنیاں جو ہمیں مفت اکاؤنٹ بنانے کا موقع دیتی ہیں، وہ اس کے بدلے ہماری زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہم سے لیتی ہیں، جو ایک ناقابلِ تلافی سرمایہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ

’’(اَللہ تعالیٰ کی) دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے میں مبتلا ہیں۔ اُن میں سے ایک صحت ہے اور دُوسری فراغت ہے‘‘۔(بخاری، الصحيح، ۵: ۲۳۵۷، رقم الحدیث: ۶۰۴۹)

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرصت کے اوقات کو صحت کے برابر قیمتی قرار دیا۔ لہٰذا، ہمیں اپنے فارغ وقت کو کارآمد بنانا چاہیے اور سوشل میڈیا پر غیر ضروری وقت ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل امور کو ہمیشہ مدِنظر رکھیں:

۱۔ بےمقصد سکرولنگ سے اِجتناب کریں

بے مقصد سکرولنگ میں وقت ضائع کرنا دانشمندی نہیں۔ فضول اور غیر مفید مواد، خاص طور پر مختصر ویڈیوز (ریلز اور شارٹس)، دماغ کو غیر متوازن کر سکتی ہیں کیونکہ یہ تیزی سے مختلف جذباتی کیفیات میں جھٹکا دیتی ہیں۔ چند سیکنڈز کی ریلز اور شارٹس دماغ کو یکدم خوشی اور غمی بھرے مختلف جذبات دکھاتی ہیں اور انسانی دماغ جذبات کے فوری اُتار چڑھاؤ کی وجہ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ جس کا نتیجہ ذہنی اِنتشار اور عدم اِستحکام کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

۲۔ لائیکس اور فالورز کی دوڑ سے بچیں

ہمیشہ اپنی پوسٹس پر لائیکس اور فالورز کی تعداد دیکھنا، ہر وقت نوٹیفکیشن چیک کرتے رہنا اور دوسروں کی رائے پر غیر ضروری اِنحصار کرنا ایک غیر صحتمند عادت ہے۔ مشہور شخصیات کی زندگی میں حد سے زیادہ دلچسپی لینا اُس شخصیت کو تو فائدہ دیتا ہے مگر ہمارا بہت سا قیمتی وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ اِسی طرح فیک نیوز اور افواہیں وقت اور وسائل کو ضائع کرتی ہیں۔ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

کَفٰى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يحدث بِكُلِّ مَا سَمِعَ

’’آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے بس یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (تحقیق کئے بغیر) بیان کرنے لگے ‘‘۔ (مسلم، الصحیح، رقم الحدیث: ۵)

لہٰذا، کسی بھی معلومات کو بغیر تصدیق آگے نہ بڑھائیں۔

۳۔ غیر ضروری مباحث سے اِجتناب کریں

سوشل میڈیا پر اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کی بجائے تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لیں۔ بے مقصد سکرولنگ کے بجائے اپنا وقت سیکھنے سکھانے میں صرف کریں۔ ہر ٹرینڈ پر تبصرہ کرنا اور غیر ضروری مباحث میں شامل ہونا وقت کا ضیاع ہے۔ حدیثِ مبارک ہے:

مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرکُہٗ مَا لَایَعْنِیْہٖ

’’کسی (بھی) شخص کے اِسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اورفضول باتوں کوچھوڑ دے‘‘۔ (ترمذی، السنن، رقم الحدیث: ۲۳۱۷)

اپنی پرائیویسی کا خیال رکھیں اور ہر سرگرمی سوشل میڈیا پر شیئر نہ کریں، کیونکہ یہ آپ کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔

۴۔ اپنا مقصد متعین کریں

سوشل میڈیا کا اِستعمال کسی بامقصد کام کیلئے کریں۔ محض تفریح یا وقت گزاری کیلئے اس میں مگن رہنا ہماری اِجتماعی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ سیاسی و مذہبی مباحث میں شدت پسندی سے گریز کریں اور منطقی و تعمیری گفتگو کو فروغ دیں۔ مجموعی طور پر ہم مقصدیت سے عاری قوم ہیں۔ انفرادی و اجتماعی سطح پر وقت کا ضیاع ہماری اولین ترجیح ہوتا ہے۔ ہم کسی بامقصد کام سے جان چھڑا کر جلدی فارغ ہوجانا چاہتے ہیں تاکہ کچھ وقت ضائع کرنے کیلئے بچا سکیں۔ متنازعہ موضوعات پر بات کرنا ہمارا قومی مشغلہ ہے۔ ہم سیاسی گپ شپ میں چسکے لینے والی قوم ہیں جو خود اِحتسابی کی بجائے دوسروں کا اِحتساب کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

ہمارا سوشل میڈیا بالعموم شخصیات کے ساتھ محبت اور نفرت کے ساتھ بھرا پڑا ہے۔ ایک بڑی اکثریت اپنے سیاسی و مذہبی لیڈروں کی تعریفوں کے پل باندھتی رہتی ہے جبکہ ایک دوسری اکثریت اُن پر طعن و تنقید کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ ہم شخصیات کو ڈسکس کرنے میں وقت ضائع کرتے رہتے ہیں، اور اُن کا ایجنڈا، پروگرام اور کارکردگی کو زیربحث نہیں لاتے۔

۵۔ سوشل میڈیا ایک آفاقی صحبت ہے

سوشل میڈیا پر موجود اَفراد کے خیالات اور رویوں کا ہم پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ہم جتنی جلدی یہ سمجھ جائیں اُتنا ہی اچھا ہوگا کہ سوشل میڈیا پر دوستیاں گلی محلے کی صحبت سے زیادہ اہم ہیں۔ پرانے وقتوں میں والدین بچوں کو نصیحت کرتے تھے کہ وہ اچھے بچوں کے ساتھ دوستی لگائیں اور بری عادات رکھنے والے بچوں کی صحبت سے بچیں۔ آج ہمارا سوشل سرکل گلی محلے کی صحبت اور دوستی سے بڑھ کر ہم پر اثرانداز ہورہا ہے۔ ہمیں سوشل میڈیا پر بھی اچھی صحبت اِختیار کرنی چاہئے اور بری صحبت سے اِجتناب کرنا چاہئے۔ جیسے عام زندگی میں اچھے دوستوں کا اِنتخاب ضروری ہے، ویسے ہی سوشل میڈیا پر بھی مثبت اور اَخلاقی مواد شیئر کرنے والے لوگوں کو دوست بنانا چاہئے۔

۶۔ مذہبی اِفراط و تفریط سے بچیں

سوشل میڈیا پر مذہبی بحث و مباحثہ عموماً بے نتیجہ ہوتا ہے اور اِختلافات کو جنم دیتا ہے۔ اَخلاقیات سے عاری لوگ سوشل میڈیا پر دوسروں کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی کو معمولی بات سمجھتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم ذمہ دار اِنسان بنیں۔ مدِمقابل کو کسی خاص طبقے کا نمائندہ قرار دے کر اُس کے ساتھ بحث نہ کریں۔ مذہبی شخصیات پر تنقیدی فقرہ بازی نہ کریں۔ کسی بھی مسلک یا مذہبی شخصیت پر تنقید کرنے سے گریز کریں اور بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دیں۔

۷۔ سیاسی اِفراط و تفریط سے بچیں

اپنے سیاسی نظریات اور اپنی من پسند سیاسی شخصیات سے محبت رکھنا اور اُن کے دیے ہوئے پروگرام پر عملدرآمد کیلئے اُن کا ساتھ دینا ایک اچھا اِقدام ہے مگر سیاسی نظریات کیلئے اپنی رشتہ داریاں خراب نہ کریں۔ جو پارٹیاں ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے دعوے کرکے لوگوں کو بے وقوف بناتی تھیں، آج وہ مل کر ملک پر حکومت کر رہی ہیں۔ یہ سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے ہر قدم اٹھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں، ان کی سیاست کا اخلاقیات کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے مفادات کے ساتھ رشتہ ہوتا ہے۔ لہذا اپنی دوستیوں اور رشتہ داریوں کو اِس مکروہ سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں اور سیاسی نظریات میں شدت پسندی سے گریز کریں۔ سیاسی جماعتوں کی وقتی چمک دمک میں آ کر اپنے ذاتی تعلقات اور رشتے سیاست کی نذر نہ کریں۔ ہمیں سیاسی شخصیات پر تنقید کو اپنا مشغلہ بنانے کی بجائے نظام کی اِصلاح پر توجہ دینی چاہیے۔

کسی ایک پارٹی کے خلاف پوسٹ اکثر دوسری کے حق میں جا رہی ہوتی ہے۔ ملک میں جاری ظالمانہ نظام کی بجائے کسی ایک پارٹی کو اپنا دشمن قرار دے کر دوسروں کو فائدہ نہ دیں۔ اِس سے اُلٹا نظام ہی مضبوط ہوتا ہے۔ ہمیشہ ظالمانہ نظام سے چھٹکارے کے حوالے سے عوام کا شعور بیدار کرنے پر فوکس کریں۔

۸۔ مثبت اور بامقصد گفتگو کو فروغ دیں

مصطفوی معاشرے کے قیام کیلئے نئے لوگوں تک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا پیغام پہنچائیں اور ہمیشہ مثبت اور بامقصد گفتگو کو فروغ دیں۔ اِختلافات کو بڑھانے کے بجائے باہمی اِشتراک اور اِتفاق کے نکات تلاش کریں۔ لوگوں سے اُلجھ کر اُنہیں اپنا دشمن بنانے کی بجائے دوستوں کی تعداد بڑھانے پر فوکس کریں۔ اِختلاف کی بجائے باہمی اِتفاقات کو مدنظر رکھنے کی عادت ڈالیں۔ لوگوں کو اپنے ساتھ مانوس کریں تاکہ وہ آپ کی بات سننے میں دلچسپی ہیں۔ اُن کے ساتھ اُلجھ کر اُنہیں وحشت میں مبتلا نہ کر دیں۔

۹۔ ردعمل میں کبھی اِعتدال کی روِش نہ چھوڑیں

سوشل میڈیا پر کسی بھی پوسٹ یا تبصرے کا ردعمل جذباتی انداز میں نہ دیں بلکہ ہمیشہ راہِ اعتدال کو اپنائیں۔ ہمیشہ عقلی و منطقی انداز میں گفتگو کریں یا خاموشی اختیار کریں۔ اُن لوگوں کے ساتھ بحث سے بچیں جو ہمیں مشتعل کرکے ہمارے منہ سے سخت الفاظ نکلوا کر ہمیں بےدلیل ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے تئیں اسے محبت کی آزمائش سمجھ کر عقل و خرد کو دوسری طرف رکھ کر جذباتی جوابات شروع کر دیتے ہیں۔ گویا دوسرا ہمارے جذبات کو کنٹرول کرنے لگتا ہے اور ہم اپنا کنٹرول اُس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ اپنا کنٹرول ہمیشہ اپنے اِختیار میں رکھیں کہ دوسرا ہمیں غصہ دلا کر کنٹرول نہ کر سکے۔ اِختلاف کی صورت میں ہمیشہ دلیل سے بات کریں یا خاموش رہیں۔ ہر سوال ہمارے جواب دینے کیلئے نہیں ہوتا۔ ضرروت ہوئی تو ہماری بجائے کوئی اور اُس کا جواب دے دے گا۔ بعض لوگ اِس نیت سے بھی پوسٹ کرتے ہیں کہ ہم جذباتی ہو کر اُس پر جواب لکھیں اور وہ وائرل ہو کر اُن کا مقصد پورا کر دے۔ مخالفانہ پوسٹ پر جواب لکھ کر اُسے وائرل کرنے میں اپنا حصہ نہ ڈالیں۔

المختصر یہ کہ سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے جسے اگر مثبت انداز میں اِستعمال کیا جائے تو یہ ترقی اور بیداریٔ شعور کا زبردست ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہمیں اپنی گفتگو، مواد اور وقت کے درست اِستعمال کو یقینی بناتے ہوئے، تعمیری سرگرمیوں میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔