قرآن مجید میں مختلف مقامات پر موجود آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی پختگی کا دارومدار چار امور پر قائم فرمایا ہے:
۱۔ محبتِ رسول ﷺ ۲۔ اطاعت ِ رسول ﷺ ۳۔ اتباعِ رسول ﷺ ۴۔ ادب و تعظیم اور نصرتِ رسول ﷺ
آیئے! ان امور کا مطالعہ کرتے ہیں کہ ان کا مفہوم کیا ہے اور یہ کس طرح ہمارے ایمان کی پختگی کا سبب قرار پاتے ہیں:
۱۔ محبتِ رسول ﷺ
ایمان کی پختگی کا دارو مدار جس پہلے امر پر ہے، وہ محبتِ رسول ﷺ ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ حدیث مروی ہے، آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
لا يؤمن احدكم حتى اكون احب إليه من والده وولده والناس اجمعين
(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب حب الرسول ﷺ من الإيمان، الرقم الحدیث: ۱۵)
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہ ہو گا جب تک میں اسے اس کے والدین اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ “
گویا ایمان کی ابتداء ہی حضور نبی اکرم ﷺ کے محبوب تر ہوجانے سے ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
يا رسول الله، لانت احب إلي من كل شيء إلا من نفسي، فقال النبي ﷺ : ”لا والذي نفسي بيده، حتى اكون احب إليك من نفسك“، فقال له عمر: فإنه الآن والله لانت احب إلي من نفسي، فقال النبي ﷺ : ”الآن يا عمر“۔
(صحيح البخاري، كتاب الأيمان والنذور، باب كيف كانت يمين النبى ﷺ، رقم الحدیث: ۶۶۳۲)
”یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوائے میری اپنی جان کے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔ “
اس حدیث سے بھی واضح ہورہا ہے کہ ایمان اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوسکتا جب تک آپ ﷺ کی محبت و عشق ہمارے قلوب میں اس طرح موجود نہ ہو کہ آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہمیں نہ صرف دنیا و مافیھا سے محبوب تر ہوں بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو۔
۲۔ اطاعت و اتباع رسول ﷺ
ایمان کی پختگی و استحکام کا دارو مدار جس دوسرے بڑے امر پر ہے، وہ اطاعت و اتباع رسول ﷺ ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا:
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ۔
”(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔ “( آل عمران، ۳: ۳۱)
اس آیت میں اللہ رب العزت نے واضح فرمادیا کہ اگر ہم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہیں تو محبتِ الہیٰ کا دروازہ اتباعِ رسول ﷺ سے کھلتا ہے اور اس کے انعام و اکرام اور جزا کی صورت میں اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ گویا دروازہ اطاعت و اتباعِ مصطفیٰ ﷺ کا کھلے گا مگر نتیجہ میں محبتِ الہٰی مقدر ہوگی۔
اطاعت اور اتباع میں فرق ہے۔ اگر ہم اس فرق کو جان لیں تو ہمیں ان دونوں امور کی اہمیت و افادیت سے آگاہی ہوگی اور یہی آگہی ہمیں اطاعت اور اتباع کے راستے پر کماحقہ گامزن ہونے کی ترغیب دے گی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اطاعتِ رسول ﷺ کا ذکر بھی کیا ہے اور اتباعِ رسول ﷺ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اطاعت کے حوالے سے اللہ رب العزت نے فرمایا:
مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ
”جس نے رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کی، بیشک اس نے اللہ (ہی) کی اطاعت کی۔“ (النساء، ۴: ۸۰)
گویا رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں اللہ کی اطاعت ہے۔
اتباع کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ
”(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔“ (آل عمران، ۳: ۳۱)
اول الذکر آیت میں اطاعتِ رسول ﷺ کی بات ہے جبکہ آخرالذکر میں اتباعِ رسول ﷺ کا بیان ہے۔ اتباعِ رسول ﷺ کا مقام الگ ہے اور اطاعتِ رسول ﷺ کا مقام الگ ہے۔ امام جرجانی المعجم التعریفات میں اطاعت کا معنیٰ بیان فرماتے ہیں:
الطاعة: هي موافقة الأمر طوعا.
’’کسی حکم پر رضا مندی اور فرمانبرداری کے ساتھ موافقت پیدا کرنے کو اطاعت کہتے ہیں۔‘‘ (المعجم التعریفات ، ص: ۱۱۸)
اس معنی کی رو سے اطاعتِ الہٰی اور اطاعتِ رسول ﷺ کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ رب العزت یا حضور علیہ السلام کے کسی بھی حکم پر رضا مندی اور فرمانبرداری کے ارادہ کے ساتھ اپنی موافقت پیدا کرنا، اطاعت کہلاتا ہے۔
لسان العرب میں ابن منظور افریقی ’’اتباع‘‘ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
تَبِعَ الشيءَ تَبَعاً وتَباعاً في الأَفعال.
”کسی کے پیچھے چلنا، اس کی پیروی کرنا اتباع کہلاتا ہے۔ “یعنی کسی کے نقشِ قدم پر چلنے کا نام اتباع ہے۔ (لسان العرب، ۱: ۴۱۸)
اطاعت اور اتباع کے ان معانی سے معلوم ہوا کہ اطاعت کا تعلق احکام کے ساتھ ہے جبکہ اتباع کا تعلق ذات کے ساتھ ہے۔ جب احکامات پر عمل پیرا ہونے لگیں تو سمجھیں کہ اطاعت رسول ﷺ کا فیض مل رہا ہے اور جب آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ذاتِ اقدس سے جڑنے لگیں تو سمجھیں کہ آقا ﷺ کی قربت کا فیض مل رہا ہے--- اطاعتِ رسول ﷺ کے ذریعے شریعتِ محمدی ﷺ مکمل اور مستحکم ہوتی ہے جبکہ اتباع کے ذریعے محبت و قربتِ مصطفیٰ ﷺ مستحکم اور مکمل ہوتی ہے--- اطاعتِ رسول ﷺ کے ذریعے دین کا ظاہر مکمل ہوتا ہے جبکہ اتباعِ رسول ﷺ کے ذریعے دین کا باطن مکمل ہوتا ہے--- اطاعتِ رسول ﷺ سے دین کی نسبت مضبوط ہوتی ہے جبکہ اتباع کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نسبت مستحکم اور مکمل ہوتی ہے--- اطاعت کا تعلق آپ ﷺ کے احکام سے ہے جبکہ اتباع کا تعلق آپ ﷺ کی خوبصورت کی اداؤں سے ہے--- اطاعتِ رسول ﷺ کا تعلق فرمانِ مصطفی ﷺ سے ہے جبکہ اتباعِ رسول کا تعلق عمل و فعلِ مصطفیٰ ﷺ اور ذات و نسبتِ نقش پائے مصطفیٰ ﷺ سے ہے--- حضور نبی اکرم ﷺ کے فرامین کی روشنی میں شریعت کی پیروی کریں تو اطاعت ہے جبکہ حضور علیہ السلام کی اداؤں کو دہراتے چلے جائیں تو اتباع ہے--- حضور علیہ السلام کی رضا کی خاطر عمل کریں تو اطاعت ہے جبکہ آپ ﷺ کی سنتوں کو اپنا اسوہ اور قدوہ بنا لیں اور حضور علیہ السلام کی مسکراہت کی خاطر عمل کریں تو اتباع ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جہاں جہاں لفظِ اطاعت استعمال کیا تو اس کو اپنے ساتھ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نسبت دی مگر قرآن مجید میں جہاں کہیں اتباع کا لفظ آیا تو اللہ رب العزت نے اسے اپنے ساتھ نسبت نہیں دی۔ اس لیے کہ اطاعت کے لیے حکم کافی ہے جبکہ اتباع ذات کی ہوتی ہے اور اتباع کے لیے ضروری ہے کہ جس کی اتباع کی جارہی ہے وہ مجسم اور مشخص صورت میں سامنے موجود ہو۔
اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ آقا ﷺ نے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دین کے دیگر احکامات پر عمل کا حکم دیا تو ہم نے فرمانبرداری میں سرِ تسلیم خم کرلیے اور عمل پیرا ہوگئے، یہ اطاعت ہے۔ اتباع یہ ہے کہ جن کا حکم مانا، اطاعت کی، ان کی ما ذاغ البصر والی نگاہ بھی سامنے ہو--- جن کی اطاعت کی، ان کی والیل اذا سجیٰ والی زلفیں بھی پیشِ نظر ہوں--- جن کی اطاعت کی ان کا اسوہ اور قدوہ حسنہ بھی سامنے ہو--- ان کی ادائیں، ان کا حسن و وقار، ان کا خراماں ناز چلنا، قیام فرمانا، الغرض اس ذاتِ مقدسہ کی ہر ایک ادا نگاہوں میں ہو۔ پس ذاتِ مصطفی، نسبتِ مصطفی اور نقش پائے مصطفیٰ ﷺ میں فنا ہونا کا نام اتباعِ رسول ﷺ ہے۔
تعلق و نسبتِ رسالت میں کمزوری کیوں؟
آج ہم تعلق و نسبتِ رسول ﷺ میں کمزور ہوچکے ہیں، جس کے سبب ہمہ جہتی زوال ہمارا مقدر بن چکا ہے۔ اس زوال سے نکلنے کا راستہ بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ.
(الحجرات، ۴۹: ۷)
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت اہلِ ایمان کو فرمارہا ہے کہ یہ بات ہمیشہ تمہارے پیش نظر رہے اور تمہاری توجہ اس نعمت پر رہے کہ تم میں رسول اللہ ﷺ موجود ہیں۔ یہ کتنا محبت بھرا پیغام ہے جو اللہ رب العزت نے اپنے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی زبانِ اقدس سے ادا کروا کر آپ ﷺ کے غلاموں اور عاشقوں کو سنایا۔ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ کا مطلب یہ ہے کہ میرے محبوب ﷺ کا وجود ہی تم میں کافی ہے۔ اگر اطاعت کے رستے سے تم میرے محبوب کے قریب ہونا چاہتے ہو تب بھی رسول اللہ ﷺ تم میں موجود ہیں--- اگر محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی سنتوں کو اپنا کر، محبوب ﷺ کےا سوہ اور قدوہ پر عمل پیرا ہوکر ان کے قریب ہونا اور ان کو اپنا محبوب بنانا چاہتے ہو، تب بھی رسول اللہ ﷺ تم میں موجود ہیں--- اگر احکاماتِ شریعت پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہو، تب بھی رسول اللہ ﷺ تم میں موجود ہیں--- اگر دین اور معاشرے کو استحکام دینا چاہتے ہو تب بھی رسول اللہ ﷺ تم میں موجود ہیں--- اگر اپنے معاشرے کو مصطفوی بنانے اور خرافات و فحاشی و عریانی کو ختم کر کے اس کو پاک صاف کرنا چاہتے ہو تب بھی رسول اللہ ﷺ تم میں موجود ہیں--- اگر خدا تک پہنچنا چاہتے ہو تب بھی رسول اللہ ﷺ تم میں موجود ہیں--- دنیا و آخرت میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تب بھی رسول اللہ ﷺ تم میں موجود ہیں--- قرآن و سنت مصطفی ﷺ کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہوناچاہتے ہو تب بھی رسول اللہ ﷺ تم میں موجود ہیں۔
اس آیت کا دوسرا حصہ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ
مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ (اگر وہ بہت سے کاموں میں تمہارا کہنا مان لیں
تو تم بڑی مشکل میں پڑ جاؤ گے۔ )ہماری معاشرتی زبوں حالی کی عکاسی کررہا ہے کہ ہم کیوں
تباہ ہو رہے ہیں--- ہمارا تعلق باللہ و بالرسول ﷺ کیوں کمزور ہورہا ہے--- ؟ ہمارا تعلق
بالقرآن اور تعلق بالعلم کیوں کمزور ہورہاہے--- ؟ہماری نسبتِ رسالت ﷺ کیوں کمزور ہورہی
ہے--- ؟ ہم اطاعت و اتباعِ رسول ﷺ میں کیوں کمزور ہورہے ہیں--- ؟اس لیے کہ ہم نے اس
مفہوم کو صحیح طرح سے سمجھا ہی نہیں اور اگر سمجھا ہے تو بھی اسے زندگیوں میں شامل
نہیں کیااور شامل کیا بھی ہےتو اپنی مرضی کے مفاہیم شامل کیے ہیں اور کلیتاً اسے زندگیوں
کا حصہ نہیں بنایا۔
آج ہم نے رسول اللہ ﷺ کے احکامات اور فرامین سے عملاً کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ محبت،
اطاعت اور اتباع سے ہمارا دامن آہستہ آہستہ خالی ہوتا جارہا ہے، نتیجتاً ہم ہر محاذ
اور میدان میں مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر ہم اپنے اس زوال کو دوبارہ عروج میں بدلنا چاہتے
ہیں تو ہمیں حقیقی معنی میں اطاعت و اتباعِ رسول ﷺ کرنا ہوگی۔
آیت مبارکہ کے تیسرے حصے وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ
الۡاِیۡمَانَ (لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا فرمائی۔ ) سے یہ امر واضح
ہورہا ہے کہ اللہ ایمان کی بدولت مشکلات سے بچاتا ہے۔ یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے ہمارے
لیے ِ ایمان کو منتخب فرمایا ہے اور اس ایمان کی زینت اور نعمت سے ہمارے دلوں کو مزین
و منور کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے ایک اور الوہی انتظام بھی کردیا کہ کفر،
نافرمانی اور گناہوں کو ہمارے لیے قابلِ نفرت عمل بنا دیا۔ یعنی اللہ رب العزت نے ایک
طرف ہمیں ایمان کی نعمت سے نوازا ہے اور دوسری طرف ہمیں کفر، فسق و فجور، نافرمانی
اور گناہ و عصیان سے متنفر کردیا تاکہ ہم ان سے اجتناب اور کنارہ کشی اختیار کریں۔
گویا حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت و پیروی میں سرِ تسلیم خم کرنے، آپ ﷺ کی اتباع کرنے، آپ ﷺ کی محبت میں فنا ہونے اور آپ ﷺ کو اپنی جان، مال، عزت، آبرو، اولاد اور والدین سے بڑھ کر محبوب رکھنے سے ایمان مکمل ہوگا اور اسی ایمان کی محبت کے سبب مشکلات سے بھی بچیں گے اور کفر، فسق اور عصیان سے بھی محفوظ رہیں گے۔ جب ہر شے سے بڑھ کر حضور ﷺ کو مان لیا اور آپ کے بارے میں شک و شبہ کی گنجائش ہی نہ رہی اور ہر طرح کا سوال ختم کرکے حضور کے سامنے سرِ تسلیم خم کرلیں تو یہ ہی حقیقی معنی میں اطاعت و اتباع ہے۔ اسی ایمان سے اللہ تعالیٰ نے قلوب کو مزین فرما دیا اوراس کے وسیلہ سے ہی کفر، فسوق اور عصیان سے ہمیں متنفر کر دیا۔
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اطاعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ وَ مَنۡ تَوَلّٰی فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا
”جس نے رسول ( ﷺ ) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔“ (النساء، ۴: ۸۰)
معلوم ہوا جس نے رسول اللہ ﷺ کا حکم مانا گویا اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کی اور جس نے نبی اکرم ﷺ کے حکم سے روگردانی کی، اس نے حکمِ الہٰی ماننے سے انکار کردیا۔ اس حکم عدولی کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمادیا کہ آپ ﷺ ان پر نگہبان نہیں ہیں۔ یعنی جس نے محبوب ﷺ کے حکم کی نافرمانی کی اور آپ ﷺ سے روگردانی کردی، آپ ﷺ کی بارگا ہ کا گستاخ ہوگیا تو اب حضور نبی اکرم ﷺ اس کے نگہبان، اسے بچانے والے اور اس کے شافع و مشفع نہیں ہوں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آقا علیہ السلام نے فرمایا:
كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى. قِيلَ: وَمَنْ أَبَى؟ قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فقد أَبى.
(مشکوۃالمصابیح، کتاب الایمان، باب التمسک بالکتاب والسنہ، رقم الحدیث: ۱۴۳)
’’میری ساری امت جنت میں جائے گی بجز اس شخص کے جس نے انکار کیا۔ عرض کیا گیا کہ کس نے انکار کیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں جائے گا اور جس نےمیری نافرمانی کی، گویا اس نے انکار کر دیا۔‘‘
مصطفوی معاشرہ کا قیام کیونکر ممکن ہے؟
پورے دین کا دارومدار ذاتِ مصطفیٰ ﷺ پر ہے۔ اطاعت و اتباعِ مصطفیٰ ﷺ میں ہی دین کی حیات اور بقا ہے اور اسی تعلق و نسبت کے سبب ہی حضور علیہ السلام کی نظرِ کرم، شفاعت اور حفاظت کا سایہ میسر آئے گا۔ اس مصطفوی معاشرہ کا قیام جس کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور منہاج القرآن انٹرنیشنل کوشاں ہے، اس کی بنیاد ہی اطاعت اور اتباعِ رسول ﷺ میں ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اس معاشرے کے خدو خال کا تذکرہ فرمادیا ہے کہ وہی معاشرہ ایک حسین اور مثالی معاشرہ ہوگا، جس کو قائم کرنے والوں میں یہ خوبیاں پائی جائیں گی:
وَ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا۔
”اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو۔“ (النساء، ۴: ۳۶)
اگر یہ خوبیاں ہمارے معاشرے کے ہر فرد اور طبقہ میں آجائیں تو ہر فرد ایک مثالی فرد ہوگا اور ایسا معاشرہ ایک مثالی مصطفوی معاشرہ بن جائے گا۔ اگر ہمیں ایک مصطفوی معاشرہ بنانا ہے تو اس کے لیے اطاعتِ رسول ﷺ کو اپنانا ہوگا اور اتباعِ رسول ﷺ میں فنا ہونا ہوگا۔ یاد رکھیں!فہمِ دین کا سارا دارومدار بھی ذاتِ مصطفیٰ ﷺ میں ہے اور مثالی معاشرے کے قیام کا دارومدار بھی ذاتِ مصطفیٰ ﷺ اور اطاعت و اتباعِ رسول ﷺ میں ہے۔
یہ اطاعت و اتباع کیسے حاصل ہوگی؟اسے واضح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا وَاتُّقُوْ اللہ
”اور جو کچھ رسول ( ﷺ ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو۔“ (الحشر، ۵۹: ۷)
اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں کامیاب زندگی بسر کر نے کا ایک فارمولا دے دیا کہ جو میرےمحبوب ﷺ تمہیں دے دیں، وہ لے لیا کرو اورجس سے میرے مصطفی ﷺ تمہیں روک دیں تو اس سے رک جایا کرو۔ جو خبر میرے مصطفی ﷺ کے در سے تمہیں مل جائے ”امناً و صدقنا“ کہہ کر سرِ تسلیم خم کرنے میں ہی فلاح و کامیابی ہے۔
یہ فرماکر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ (اور اللہ سے ڈرتے رہو)یعنی رسول ﷺ کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)۔ یہاں سے محبت کا راستہ شروع ہوتا ہے۔ جب تقسیم و عطا کے بارے میں سوچ میں پڑ گئے تو راستہ کھو دیں گے۔ اس لیے ہمیشہ حضورنبی اکرم ﷺ کے فرمان اور رضا کے مطابق عمل کرنے میں سرگرداں رہیں، جو محبوب ﷺ کی رضا ہے، وہ خدا کی رضا ہے--- جو حضور علیہ السلام کی عطا ہے، وہ خدا کی عطا ہے--- اور جس پر حضور علیہ السلام نے منع کر دیا، وہ خدا کا منع کرنا ہے۔
یاد رکھیں! متابعتِ سنت ِمصطفی ﷺ میں رہنا ہی ولایت ہے۔ جب چلنا، پھرنا اور گفتگو کرنا حضور ﷺ کی سنت اور اداؤں کے مطابق ہو، زندگی کا نصب العین حضور ﷺ کے احکامات اور شریعتِ مطہرہ کے مطابق ہو اور فکر اور عمل آقا ﷺ کے اعمال کے مطابق ہو تو یہی ولایت ہے۔ ہم حضور علیہ السلام کے صحابہ اور اہلِ بیت اطہارf کی محبت، اتباع اور اطاعت کا ذکر کرتے ہیں مگر جس طرح ان ذواتِ مقدسہ نے محبت، اطاعت اور اتباع کا حق ادا کیا، اس نقشِ قدم پر نہیں چلتے۔ مشکلات میں صبر کرنا اتباعِ رسول ﷺ ہے--- اپنی خواہشات، مفادات اور ترجیحات کو معاشرے کے ضرورت مند طبقہ اور افراد کے لیے قربان کردینا اتباعِ رسول ﷺ ہے--- صحابہ کرامl اور اہلِ بیت اطہارf کی زندگیاں اتباعِ رسول ﷺ کے اس حقیقی اظہار سے معمور تھیں۔ اگر ہم بھی آج اتباعِ رسول ﷺ کے اسی مفہوم کو اپناتے ہیں تو ہم بیک وقت اتباعِ رسول ﷺ اور سنت صحابہ و اہل بیت پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کرنے والے ہوں گے۔
آج معاشرتی بے راہ روی کا دور دورہ ہے۔ ہم حضور ﷺ کے نام پر قربان ہونے اور ”فدا ک ابی و امی یا رسول اللہ “کے دعوے کرتے اور نعرے لگاتے نہیں تھکتےمگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف زبان سے اقرار کرنا ہی محبتِ مصطفی ﷺ ہے؟ محبت و اتباعِ مصطفی ﷺ کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب ایثار و قربانی دینے کا وقت آتا ہے کہ اب کون ہے جو حقیقی معنی میں محبت، اطاعت اور اتباعِ مصطفی ﷺ کا پیکر ہے۔ جب اطاعت و اتباع کا راستہ تھامیں گے، حضور ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوں گے ، حضور ﷺ کی رضا اورعطا میں راضی ہوں گے، جو حضور ﷺ دیں گے، اسے لے لیں گے، جس سے حضور ﷺ منع کر دیں گے، اس سے منع ہو جائیں گے تو پھر اجرو انعام کے طور پر حضور علیہ السلام ہر ایک نعمت عطا کردیں گےلیکن اس کے لیے عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ حضور ﷺ ہم میں موجود ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں اخلاقیات، روایات اور اقدار کا جنازہ نکل چکا ہے، رشتوں میں کوئی قدریں نہ رہیں، معاشرہ عظیم معاشرہ نہ بن سکا، لوگوں میں اخلاق، قرینہ اور سلیقہ نہ رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللہ کا پیغام فراموش کردیا ہے۔ اس لیے کہ اگر ہمارا عقیدہ ہو کہ حضور ﷺ ہم میں ہیں تو ادب زندہ ہے اور اگر نعوذ باللہ یہ عقیدہ ہو کہ حضور ﷺ ہم میں نہیں تو ادب بھی زندہ نہیں رہتا۔
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ادبِ رسول ﷺ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
راس الادب ماھو؟ کمالتلسلیم الھو ولانقعاد لامرہ۔ وتلقی الخبرہ بالقبول۔ وتصدیق دون ایں یحملہ معارضتہ خیال باطل یسمیہ صاحبہ معقولاً او یسمیہ شبھۃ او شک یقدم علیہ آراء الرجال وذبالات الاذہانھم۔
(امام قسطلانی، المواہب الدنیہ، ج: ۲، ص: ۵۸۹)
”ادب کی اصل یہ ہے کہ حکم دینے والے کے حکم کے آگے مکمل تسلیم و رضا کے ساتھ جھک جانا۔ اس کے حکم میں کسی قسم کا انکار یا توقف نہ کرنا۔ خبر کو (اس سے) بلا تردد قبول کرنا اور اس کی تصدیق کرنا۔ اگر اس کے برعکس کسی باطل خیال کا سامنا کرنا پڑے، جسے اس کا قائل عقلی بات کا نام دیتا ہو یا جس سے شبہ یا شک پیدا ہوتا ہو تو اس کو ٹھکرادینا۔ لوگوں کی آراء یا ان کے کمزور اور گمراہ کن خیالات کو ترجیح نہ دینا۔ “
پس اگر اتباعِ سنت کے راستہ پر گامزن ہوں گے تو آقا علیہ السلام کی موجودگی کا فیض ملتا چلا جائے گا--- اگراَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ کا تصور جمائے رکھیں گے تو معاشرہ مصطفوی معاشرہ بن جائے گا۔ پس جب آپس میں میل جول اور تعلقات بنائیں، لین دین کریں، الغرض کوئی بھی معاملۂ حیات کریں تواَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِکی فکر کو زندہ کریں۔ اگر حضور ﷺ کی اطاعت اور اتباع ہمارے اعمال میں رہے گی تو پھر آپ ﷺ کی محبت بھی سلامت رہے گی۔ اگر اطاعت و اتباعِ مصطفی ﷺ والا مزاج مل جائے تو پھر زندگی میں خیر ہی خیر ہے۔
تحریک منہاج القرآن آقا ﷺ کی محبت، اطاعت اور اتباع کے احیا ءکی تحریک ہے--- منہاج القرآن اقامتِ دین کی تحریک ہے--- منہاج القرآن آقا ﷺ کی اتباع اور سنت پر عمل پیرا ہونے اور کروانے کی تحریک ہے۔ جب کبھی معاشرہ میں نسبتِ اطاعت کمزور ہوئی تو منہاج القرآن نے اس رشتہ کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کیا ہے--- نسبتِ اتباع اور نسبتِ محبت کمزور ہوئی تو منہاج القرآن نے اس کا حل عطا کیا ہے--- اسوۂ مصطفی ﷺ پر عمل میں کمزوری آئی تو منہاج القرآن اقامتِ دین، احیائے دین اور احیائے سنت مصطفی ﷺ کی تحریک کے طور پر سامنے آیا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس عزم کے ساتھ گلی گلی، نگر نگر جائیں کہ ہم نے لوگوں میں حضور ﷺ کی محبت، اتباع اور سنتوں کی پیروی کے رشتے کو مضبوط کرنا ہے اور یہی ہمارا نصب العین ہے۔ اس رشتے کو مضبوط کریں، لوگوں کو اس کی ترغیب دیں، انھیں رغبت دلائیں اور خوبصورت مجالس اور محافل کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیں۔ ہر جگہ امت کے ان کھوئے ہوئے رشتوں کو مضبوط کرنا شروع کر دیں اور اپنی زندگیوں میں بھی اسے شامل کریں۔ آقا ﷺ کا میلاد ایسے منائیں کہ جیسے منانے کا حق ہے۔ ہر جگہ حضور ﷺ کے ساتھ محبت و اطاعت اور اتباع کے رشتے کو مضبوط کرتے چلے جائیں اور معاشرے کو ایسا بنائیں کہ ہر طرف سے حضور ﷺ کی سنتوں کی اتباع اور اطاعتِ مصطفی ﷺ کی خوشبو آنا شروع ہو جائے۔