اداریہ: انصاف میں تاخیر، انصاف کے قتل کے مترادف ہے

چیف ایڈیٹر نور اللہ صدیقی

عدل کے بغیر کوئی بھی معاشرہ صحت مند انداز سے نہ تو پنپ سکتا ہے اور نہ ہی اس معاشرے میں انسانی حقوق کی کما حقہ ادائیگی کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کوئی معاشرہ اور حکومت نظامِ عدل وانصاف کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے دینِ اسلام نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اسے سب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ حتی کہ اسے حکومت کے اولین فرائض میں شمار کیا ہے۔ اسلامی ریاست کے ہر شہری کو خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، حاکم ہو یامحکوم، امیر ہو یا غریب، بڑا ہو یا چھوٹا، انصاف مہیا کرنا اور اس کے حقوق کا تحفظ کرنا، اسلامی حکومت کا کوئی احسان نہیں بلکہ اس کا بنیادی فرض ہے۔

قرآن حکیم میں بھی اکثر مقامات پر قیامِ عدل پر زور دیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:

’’فرما دیجیے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے۔‘‘

اسی طرح سورہ الانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اور ناپ تول کو انصاف سے پورا کرو‘‘۔

سورہ الحدید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’بے شک ہم نے اپنے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا تاکہ لوگ انصاف قائم کریں‘‘۔

آپ ﷺ کے عطا کردہ انسانی حقوق کے تصور سے عدل کی ان روایات نے بال و پر حاصل کئے اور ان کی موجودگی میں اسلامی معاشرے میں قانون کے نفاذ اور حقوق کی ادائیگی میں ذرہ مشکل پیش نہ آئی۔ عہد نبوی ﷺ میں عدل و انصاف کی فراہمی کا یہ معیار تھا کہ کوئی فرد یا طبقہ ناانصافی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ایک موقع پر جب آپ ﷺ نے ایک معزز خاندان کی عورت کو چوری پر سزا دی تو اس کی سفارش کرنے والوں کی سفارش رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنتِ محمد چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘

خلفائے راشدین کے دور میں بھی انصاف کی فراہمی کی روایت آگے بڑھتی رہی، جس کے بے شمار نظائر موجود ہیں۔ اسلام کے نظامِ عدل میں مجرم کے حسب نسب کو دیکھے بغیر اس کے جرم کے مطابق اُسے سزا دی جاتی تھی، یہی وہ وصف تھا جس کی وجہ سے اسلام شرق تا غرب پھیلتا چلا گیا۔

انصاف اور منصف کے بارے میں احادیث مبارکہ موجود ہیں جس سے انصاف کی فراہمی کی ناگزیریت سامنے آتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’انصاف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہوں گے، جو اپنے فیصلوں اور اپنے اہل و عیال کے درمیان انصاف کرتے ہیں۔‘‘

ایک اور موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ عدل و انصاف قائم کرنے والے حکمرانوں کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دے گا، جس دن اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا‘‘۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی فیصلہ کرے تو انصاف سے کام لے، اگرچہ وہ اپنے قریبی رشتہ دار کے خلاف ہو۔‘‘

حدیث مبارکہ ہے:

’’جب امت میں انصاف قائم ہو جائے تو وہ فلاح پاتی ہے اور جب ظلم پھیل جائے تو وہ ہلاک ہو جاتی ہے۔‘‘

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا سبب ہوگا‘‘۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’مظلوم کی دعا سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا‘‘۔

حکمرانوں کو عدل و انصاف نہ کرنے پر وعید سناتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ظالم حکمران کو ہوگا۔ ‘‘

بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ بھی نظامِ انصاف کے ساتھ منسلک ہے۔ جن ملکوں اور معاشروں میں بلا روک ٹوک انصاف دستیاب ہوتا ہے، وہاں ظلم، بے یقینی اور عدمِ تحفظ جیسے معاشرتی عوارض جڑ نہیں پکڑتے۔ انصاف کی فراہمی حاکمینِ وقت کا صوابدیدی اختیار نہیں ہے بلکہ یہ قرآن و سنت کی طرف سے ٹھہرایا جانے والا ایک ایسا مقدس فریضہ ہے جس سے انحراف قابلِ گرفت جرم ہے۔ جب تک اُمتِ محمدیہ ﷺ میں انصاف کی فراہمی اولین ترجیح تھی اسلام کی سرحدیں پھیل رہی تھیں، مظلوم طبقات اسلامی ریاست کے اندر خود کو محفوظ و مامون سمجھتے تھے۔ اگر ہم اپنے کمال سے زوال کے سفر کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو وہ یوں ہے کہ جب سے اُمت نے انصاف کا دامن چھوڑا وسائل اور افرادی قوت کی فراوانی کے باوجود مغلوب ہے۔

مذکورہ بالا قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ کے مطالعہ کے بعد ہم بآسانی اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ اگر اپنی آزادی، اقتدارِ اعلیٰ، قومی وقار کا تحفظ کرنا ہے تو انصاف کی فراہمی کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ جب کسی مظلوم کو انصاف نہیں ملتا تو اُس کا ریاست پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ بالادست طبقات ظلم کرنے میں اور بھی بے خوف ہو جاتے ہیں۔ طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے اور ایسے معاشروں میں خوشحالی نہیں انارکی ہوتی ہے اور انارکی کے ماحول میں ترقی و خوشحالی کا کوئی بھی ایجنڈا کارگر ثابت نہیں ہوتا۔

اسلام قانون میں عدل و انصاف کے حوالے سے تمام لوگ یکساں ہیں اور اسلام اس معاملہ میں کسی کے حسب و نسب اور جاہ ومرتبہ کو نہیں دیکھتا۔ عامۃ الناس تو ایک طرف رہے، سربراہِ مملکت اور خلیفۂ وقت کو بھی کوئی امتیاز اور استثناء حاصل نہیں۔ اس کے خلاف کوئی دعویٰ دائر ہوتا ہے تو اسے بھی عدالت کے کٹہرے میں مدعی کے برابر کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر مدعا علیہ غیر مسلم اور قاضی کا دشمن بھی ہے تو محض اس وجہ سے اس کے ساتھ ناانصافی نہیں کی جاسکتی کہ وہ غیر مسلم یا دشمن ہے۔ اسلام کے قانون عدل میں یہ بات بھی داخل ہے کہ سربراہِ حکومت، گورنروں، وزراء، اعلیٰ حکام اور عامۃ الناس سب کے لیے ایک ہی قانون اور ایک ہی نظامِ عدالت ہے۔ کسی کے لیے کوئی قانونی امتیاز نہیں۔ کوئی بڑے سے بڑا قانون کی گرفت سے مستثنیٰ نہیں۔ عدل و انصاف کے معاملے میں اسلامی ریاست کے خلفاء اور قاضیوں نے جو مثالیں قائم کی ہیں۔ ان کی نظیر دنیا کے کسی مذہب، قانون اور آئین میں نہیں پائی جاتی۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن پا کستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مورخہ 17 جون 2025ء کو شہداء سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی گیارہویں برسی ہے لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین اور شہداءکے لواحقین 11 سال سے انسدادِ دہشت گردی عدالت لاہور سے، لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان تک حصولِ انصاف کے لیے مسلسل قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ 11 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین انصاف سے محروم ہیں۔

پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے اندرون و بیرون ملک مقیم ہزار ہا کارکنان شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی انصاف نہ ملنے پرشدید تکلیف سے دوچار ہیں۔ ملکی تاریخ کا یہ وہ واحد سانحہ ہے جسے پوری قوم نے براہِ راست ٹیلی ویژن کی سکرین پر دیکھا۔ ریاستی ادارہ پولیس جس طریقے سے نہتے اور پُرامن لوگوں پر گولیاں برسا رہا تھا، بوڑھوں، بچوں، خواتین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا، وہ تشدد کی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے۔ ظلم کاایک واقعہ تو یہ ہے کہ کسی نے ظلم کرنے والوں کا ہاتھ نہیں روکا اور دوسرا ظلم یہ تھا کہ ظلم کے واقعے کی رپورٹ درج کروانے سے بزور طاقت روکا گیا اور تیسرا المیہ یہ ہے کہ عدالتوں سے بھی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔ یہ طرزِ عمل انصاف کا قتل ہے۔ حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور نظامِ عدل کی یہ آئینی، و قانونی اور انسانی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مظلوموں کو انصاف دے اور انصاف کرتے وقت طاقتوروں کے خوف کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ یہ آئینی تقاضا ہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت کا حکم بھی ہے۔ دعا کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت ہمیں عدل و انصاف کی راہ پر گامزن کرے تاکہ ہمارے احوال درست ہو سکیں۔