شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی 11 ویں برسی پر جہاں ہمارے دل غم سے نڈھال ہیں وہاں ہمارے دلوں کو اطمینان بھی میسر ہے کہ شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی حصولِ انصاف کی جدوجہد 11 سال کے بعد بھی پوری طاقت، عزم، استقامت کے ساتھ جاری ہے۔ حصولِ انصاف کی اس جد و جہد میں شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر غیر متزلزل یقین اور اعتماد کا اظہار قابلِ فخر اور قابلِ تقلید ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گزشتہ 11 سالوں کا ہر دن حصولِ انصاف کی جدوجہد میں گزارا۔ الحمدللہ اس جدوجہد میں نہ قیادت کے عزم میں کوئی شکن آئی اور نہ ہی شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے عزم و ہمت اور حوصلے کو وقت کی نمرودی، فرعونی اور قارونی قوت متزلزل کرسکی۔
17 جون 2014ء پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے جس دن نواز، شہباز حکومت نے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر جس طرح ریاستی دہشتگردی کی، پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ اس سانحہ میں پاکستان عوامی تحریک اور ادارہ منہاج القرآن کے معصوم، نہتے اور بے گناہ کارکنوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ دہشگردی پر مبنی خونی مناظر پوری دنیا نے میڈیا چینلز کے ذریعے براہِ راست دیکھے۔ اس المناک واقعہ میں 14 افراد شہید ہوئے جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ سو سے زائد افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئیں اور شدید زخمی کیا گیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا اس لیے سانحہ کے فوری بعد قتل و غارت گری میں ملوث افسران و اہلکاران کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی بلکہ سانحہ میں حصہ لینے والے تمام افسران و اہلکاران کو پرکشش عہدوں سے نوازا گیا، انہیں آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دینے کے ساتھ ان کی پسند کی تقرریاں بھی کی گئیں۔
اس سانحہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ 2010ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پاکستان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی اہمیت کا فتویٰ جاری کیا جو کہ 600 صفحات پر مشتمل ہے اور دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اس فتویٰ کو پوری دنیا میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ پاکستان اور دنیا بھر میں دہشت گرد مشتعل ہو کر بوکھلا اُٹھےاور شیخ الاسلام کے جانی دشمن بن گئے۔ پاکستان اور دنیا بھر کے دہشت گروں نے شیخ الاسلام کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں جس پر پاکستان کی مختلف ایجنسیوں نے شیخ الاسلام کو ان دہشت گردوں کے مذموم عزائم کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ بھی کیا۔
چنانچہ عدالت عالیہ لاہور کے حکم سے پولیس نے خود اس وقت کے SP ماڈل ٹاؤن ایاز سلیم کی موجودگی و نگرانی میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ اور گردونواح میں بیئریئرز لگوائے۔ رٹ پٹیشن 22367/2010 کی سماعت کے دوران عدالتِ عالیہ کے حکم سے مورخہ 20/01/2011 کو ایازسلیم سابق SP ماڈل ٹاؤن لاہور عدالتِ عالیہ میں حاضر ہوئے اور اپنا بیان قلمبند کروایا جس میں عدالت عالیہ کو تحریری یقین دہانی کروائی کہ انہوں نے ادارہ منہاج القرآن اور گرد و نواح کے مکینوں کی سیکیورٹی کے لئے 16 پولیس اہلکاران کو 24 گھنٹے متعین کردیا ہے اور متعلقہ سڑکوں پر جرسی بیرئیرز (Jersey Barriers) رکھوا دیے ہیں۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی و کرپشن کے خلاف اور عوام کے حقوق کی بازیابی و آئین کی بالادستی کے لیے شیخ الاسلام کے تحریک چلانے کے اعلان کے ردِعمل میں حکومت نے اس تحریک کو کچلنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی جس کے نتیجہ میں یہ سانحہ رونما ہوا۔
2010ء سے 2014ء یعنی چار سال تک یہ بیریئر لگے رہے۔ اس دوران میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، عوام کے حقوق کی بازیابی اور قانون وآئین کی بالادستی کے لیے پاکستان آکر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تو حکومت بوکھلا اُٹھی اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی اور اس تحریک کو کچلنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔
چنانچہ اس منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مورخہ 16 جون 2014ء کو رانا ثناءاللہ وزیر قانون کی زیرصدارت اجلاس ہوا۔ فیصلہ کیا گیا کہ ادارہ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی رہائش گاہ کے اردگرد لگے بیریئرز کو ہٹانے کے بہانے دھاوا بولا جائے گا اور جو بھی شخص اس میں رکاوٹ بنے گا، اُسے ختم کردیا جائے۔ چنانچہ اگلے دن اس منصوبے پر من و عن عمل کیا گیا اور اپنے مکروہ و مذموم مقاصد کے حصول کے لیے سیدھی گولیاں چلائی گئیں جس کے نتیجہ میں 14 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی وقوعہ کےبعد FIR درج نہ کی گئی تو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین نے FIRکے اندراج کے لیے جسٹس آف پیس کی عدالت سے رجوع کیا۔ جسٹس آف پیس نے مورخہ 16 اگست 2014ء کوایف، آئی، آرکے اندراج کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود پولیس نےسانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی ایف، آئی، آرکا اندراج نہ کیا۔ ملزمان نے جسٹس آف پیس کے حکم کے خلاف معزز عدالت عالیہ لاہور سے رجوع کیا۔ معزز عدالت عالیہ لاہور نے ملزمان کی پٹیشن (مورخہ 26/08/2014) کو خارج کردی۔ جس پر بالاخر پولیس نےبہ دل نخواستہ مقدمہ نمبر (696/14) تھانہ فیصل ٹاؤن لاہور مورخہ 28/08/2014 کو درج کردیا۔ مگر پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پر 50 سے زائد مختلف تھانوں میں ایف، آئی، آر درج کردیں تاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین، گواہان، مضروبان شامل تفتیش نہ ہو سکیں۔
مورخہ 17 جون 2014ء کو ہی پولیس کی مدعیت میں جھوٹی FIR No.510/14 درج کرکے زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کرکے دنیا کی تاریخ میں ظلم وناانصافی کی نئی مثال قائم کردی۔ حکومت کی اس بدنیتی اور ظالمانہ اقدامات پر اگست 2014ء میں اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا اور پھر اکتوبر 2014ء تک 72 دن کا ایک طویل دھرنا دیا گیا۔ اس کے نتیجہ میں بالآخر پاکستان عوامی تحریک ملزمان کے خلاف اپنی FIR کٹوانے میں کامیاب ہوئی۔
بعد ازاں اس سانحہ پر مقدمہ نمبر 510/14 میں JIT تشکیل پائی جس میں دو ایجنسیوں (MI,ISI) کی نمائندگی بھی شامل تھی۔ جس میں دونوں ایجنسیوں (MI,ISI)نے کہا کہ اس FIR کو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود اس مقدمہ کا چالان انسداد دہشت گردی کورٹ لاہور میں پیش کیا گیا اور جنوری 2015ء سے اب تک PATکے بے گناہ افراد اس مقدمہ میں پیش ہو رہے ہیں، جس میں 600 سے زائد تاریخیں ہو چکی ہیں۔ MI,ISI کے اس اختلافی نوٹ کی موجودگی میں مقدمہ نمبر 510/14 کا چالان انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن اس کے باوجود انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں چالان پیش کیاگیا۔
مقدمہ نمبر 510/14 (پولیس مدعی) میں JIT کے مطابق پولیس نے ریکارڈ میں تبدیلی اور اسلحہ کی درست تفصیلات نہ دی تھیں۔ اس JIT میں دو ممبران جن کا تعلق MI اور ISIکے ساتھ تھا، ان کے علاوہ تمام ممبران پولیس افسران تھے۔
JIT نے اس بات کو تسلیم کیا کہ جب پولیس سے آرمز اینڈ ایمونیشن کی تفصیلات مانگی گئی کہ کتنا اسلحہ ایشو کیا گیا۔۔۔ ؟ کتنا استعمال کیا گیا۔۔۔ ؟ او ر کتنا واپس جمع کروایا گیا۔۔۔ ؟ تو پولیس نے فہرستیں دینے سے انکار کردیا۔ جبکہ مذکورہ بالا دوممبران (MI,ISI) نے یہاں تک کہہ دیا کہ مقدمہ نمبر 510/14 قابل منسوخی ہے۔
عبدالروف SI انچارج ایلیٹ فورس کو JIT نے دوران تفتیش متعددبار طلب کیا۔ دوران تفتیش اس نے تسلیم کیا کہ ایلیٹ فورس کی جانب سے 469SMGکے اور 59 راونڈ G3 رائفل کے فائر کیے گئے۔ بعد میں اگلی پیشی پر اس نے بتایا کہ ایس پی عبدالرحیم شیرازی نے اسے کہا تھا کہ ریکارڈ تبدیل کردیا جائے۔
JIT کی جانب سے CCPO لاہور کو لیٹر نمبری 449/PSSB مورخہ 30/06/14 کو بھیجا گیا جس میں تمام افسران اور جوانوں کی پوسٹنگ اور ٹیلی فون نمبرز، ایشوکردہ ہتھیار اور ان کے سیریل نمبرز اور استعمال ہونے والے ایمونیشن کی تفصیل مطابق روزنامچہ ہائے، ٹیرگیس گنز اور ان کا مصرف اور آپریشن کےدوران کتنے ٹیرگیس شیل استعمال ہوئے، دیگر سامان کوئی بھی جو اس اپریشن کے دوران کم یا ناکارہ ہوا، اس کی تفصیل JIT کو بہم پہنچائی جائے مگر اس کی مکمل تفصیل آج تک نہیں پہنچائی گئی۔
بعد ازاں اس سانحہ پر حکومت نے ایک JIT تشکیل دی۔ اس JIT نے مقدمہ میں تفتیش، انتہائی متعصبانہ، حقائق کے برعکس اور یکطرفہ کی۔ جو میڑیل، Evidence مقدمہ کی تفتیش کو مکمل کرنے کے لئے Collect کرنی تھی، وہ نہ کی گئی۔
تمام ریکارڈ، گورنمنٹ کے اداروں اور ان بااثر ملزمان کے زیر قبضہ تھا جس تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی رسائی ہر گز ممکن نہیں تھی مگر وہ ریکارڈ جس سےمقدمہ نمبر 510/14 جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتا تھا اورمقدمہ نمبر 696/14 سچا ثابت ہوتا تھا، وہ جان بوجھ کر تفتیش کے ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا گیا۔
اس JIT نےسرکاری ریکارڈ، میڈیا ریکارڈ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ریکارڈ، CDR اور ٹی وی چینلز کے متعلقہ لوگوں کو بھی شامل تفتیش نہ کیا۔
17 جون 2014ء پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن ہے جس دن نواز، شہباز حکومت نے اپنے مکروہ و مذموم مقاصد کے حصول کے لیے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت دو خواتین سمیت 14 افراد شہید کردیے۔ اس ریاستی دہشتگردی کی پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
وہ تمام میڑیل اور شہادتیں جن کو تفتیش کا حصہ بنانا ضروری اور لازمی ہے، ان تک تاحال مستغیثِ مقدمہ کی رسائی نہیں ہے۔ یہ JIT پوری طرف ناکام رہی کہ ساری شہادتوں کو مسل کا حصہ بنائے۔ درست تفتیش کرنا، درست ٹرائل کرانا ہر شہری کا Statutory Right ہے جو اس کو آئین اور قانون نے دیاہے۔ یہ JIT کوئی بھی میڑیل شہادتیں صفحہ مسل پر نہ لائی ہے اور اس نے درست حقائق اورصحیح شہادتوں کو چھپایا ہے جو کہ ان کے Partپر بددیانتی ہے۔ اس JIT نے مذکورہ بالا سارا ریکارڈ جو مقدمہ کے درست فیصلہ کے لیے ضروری تھا، اُسے عدالت میں جمع نہیں کروایا۔
حتی کہ اس JIT نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کسی زخمی، چشم دید گواہ کا کوئی بیان ریکارڈ نہ کیا بلکہ جانبدارتفتیش کرکے سانحہ کے تمام مرکزی ملزمان سابق وزیر اعظم نوازشریف، موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف، سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ ودیگران اورپولیس افسران جو بطور ملزمان ایف آئی آر میں نامزد تھے، بدیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس JIT نے ان ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی بلکہ ان تمام ملزمان کو کلین چٹ دے دی گئی اورسانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی دادرسی نہ کی گئی۔
اس صورت حال میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے پاس استغاثہ دائر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ لہذا عدالت میں چالان پیش ہونے کے فوری بعد انسداددہشت گردی عدالت لاہور میں استغاثہ دائر کردیا گیا۔ استغاثہ کیس میں 56 زخمی وچشم دید گواہان کے بیانات مکمل ہونے کے بعد مورخہ 7فروری 2017ء کو انسداددہشت گردی عدالت لاہور نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں 124 ملزمان، کانسٹیبل سے لے کر آئی جی پنجاب تک، اس وقت کے DCO کیپٹن (ر)محمد عثمان، اس وقت کے TMO نشتر ٹاؤن علی عباس بخاری، اس وقت کے AC ماڈل ٹاؤن طارق منظور چانڈیو کو بطور ملزمان طلب کرلیا تھا لیکن 12 ملزمان جن میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، رانا ثناءاللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ ودیگران جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی، ان کو طلب نہ کیا تھا۔
استغاثہ میں ٹرائل کورٹ ازخود فوجداری مقدمہ کی سماعت کے دوران شفاف ٹرائل کے لیے بقیہ شہادت برآمدگی، فرانزنک اور ڈیجٹل وغیرہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتی ہے۔ بلکہ صرف اور صرف غیر جانبدار JIT ہی شفاف ٹرائل کے لئے ان تقاضوں کو پورا کرسکتی ہے۔ اس لئے 2018ء میں تنزیلہ امجد (مقتولہ سانحہ ماڈل ٹاؤن)کی بیٹی بسمہ امجد نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کے لیے سپریم کورٹ ہیومن رائٹس کیس نمبر 69031/18 میں نئی JIT کے لئے درخواست گزاری جس کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربینچ نے مورخہ 5 دسمبر 2018ء کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں سماعت کی اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دلائل کی روشنی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی ازسرنو تفتیش کےلئے نئی JIT بنانے کا فیصلہ ہوا۔
مورخہ 3 جنوری 2019ء کو پنجاب حکومت نے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں نئی JIT کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ سپریم کورٹ کے فلو ر پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کے لئے تشکیل پانے والی نئی JIT نے مورخہ 14 جنوری 2019ء سے لے کر 20 مارچ 2019ء تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام زخمی، چشم دید گواہان اور شہداءکے لواحقین کے بیانات ریکارڈ کر لئے تھے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی طرف سے نئی JIT کے روبرو پہلی دفعہ تمام زبانی ودستاویزی ثبوت شہادتوں کی شکل میں پیش کردیے گئے اور اس طرح اس نئی JIT نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام ملزمان سے بھی تفتیش مکمل کرلی تھی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث افسران و اہلکاران کے خلاف کسی کارروائی کا نہ ہونا بلکہ تمام افسران و اہلکاران کو پرکشش عہدوں سے نوازا جانا اور ترقیاں دینا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔
سربراہ JIT اے ڈی خواجہ نے لاہور ہائی کورٹ میں جواب داخل کروایا۔ اُس ریکارڈ کے مطابق نئی JIT نے 281 بیانات ریکارڈ کیے اور 80 % تفتیش مکمل کرلی۔ نئی JIT نےسانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام ملزمان بشمول سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف، موجودہ وزیر اعظم میاں شہبازشریف، سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناءاللہ، ڈاکٹر توقیر شاہ PSO ٹو وزیر اعلیٰ پنجاب، سابق آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش مکمل کرلی تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ وقوعہ کیوں ہوا ہے۔۔۔ ؟ اس کے پیچھے کیا سازش کارفرما تھی۔۔۔ ؟اس وقوعہ کے پیچھے کو ن کون سازشی عناصر موجود ہیں۔۔۔ ؟اور یہ سازش کہاں سے چلی۔۔۔ ؟ اور کس طرح اس سازش پر عملدرآمد ہوا ؟
اس نئی JIT کے ذریعے حقائق سامنے آنے کے خوف کے سبب فوری طور پر کچھ قوتیں متحرک ہو گئیں اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان (رضوان قادرہاشمی SHO تھانہ فیصل ٹاؤن، مدعی مقدمہ 510/14) اور خرم رفیق ہیڈ کانسٹیبل کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے JIT کی تشکیل کا پنجاب حکومت کا نوٹیفکیشن 22 مارچ 2019ء کو معطل کردیااور JIT کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مزید تفتیش کرنے سے روک دیا گیا۔
اس سانحہ پر نہ صرف حکومت نے مظلومین و متاثرین کی FIR درج نہ ہونے دی بلکہ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پر جھوٹی FIR درج کروادی۔ بعد ازاں یکطرفہ طور پر JIT تشکیل دے دی، جس نےمقدمہ کی انتہائی متعصبانہ انداز سے حقائق کے برعکس تفتیش کی اور کئی قانونی تقاضوں کو مدنظرنہ رکھا۔
JIT کے نوٹیفکیشن کی معطلی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے عبوری حکم مورخہ 22 مارچ 2019ء کے خلاف سپریم کورٹ اسلام آباد میں رجوع کیا۔ مورخہ 13 فروری 2020ء کو سابق چیف جسٹس، جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جس میں سپریم کورٹ نے 13 فروری 2020ء کولاہور ہائی کورٹ کو ڈائریکشن دی کہ نیا بینچ تشکیل دے اور ترجیحاً تین ماہ کے اندرفیصلہ کیاجائے۔ لیکن سپریم کورٹ کی تین ماہ کی ڈائریکشن کے باوجود بھی لاہور ہائی کورٹ کے 7 رکنی لارجربینچ نے فریقین کے دلائل جو عرصہ دراز سے مکمل ہوچکے ہیں، اس کے باوجود تاحال فیصلہ نہیں کیا۔
یہ JIT جسے ہائی کورٹ نے معطل کررکھا ہے، سارا میڑیل Collect کرکے 173 Crpc کی رپورٹ عدالت میں بجھوائے تو تب ہی استغاثہ کی کاروائی میں وہ میڑیل طلب کیا جاسکتا ہے اور اس بنیاد پر ہی سزاوجزا کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس JIT کی معطلی کا حکم ختم کرکے اس کا اپنے کام کو مکمل کرنا لازم وضروری ہے تاکہ تمام ریکارڈ کو طلب کرکے صفحہ مسل پر لایا جاسکے۔
انسداددہشت گردی عدالت لاہورنے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں مرکزی ملزمان کو طلب نہ کیا تو اس حکم کے خلاف مستغیث نے معزز عدالت عالیہ لاہور سے رجوع کیا جو باآور ثابت نہ ہوا اور مستغیث استغاثہ نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف عدالت عظمیٰ پاکستان میں Crl.P.L.A No 1039/18 دائر کردی، جو تا حال سماعت کے لیے مقرر نہ ہوئی ہے۔
جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو مل گئی تھی۔ جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت گری کرنے کا ذمہ دار 2014ء کی پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کو ٹھہرایا ہوا ہے۔ لیکن جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ دستاویزات جس میں ملزمان کے بیان حلفی ٹیلی فون ڈیٹا ریکارڈ، حساس اداروں کی رپورٹس ودیگر دستاویزات شامل ہیں، وہ تمام دستاویزات سانحہ کے متاثرین کو آج تک فراہم نہ کی گئی۔ ان تما م منسلکہ دستاویزات کےحصول کے لیے 2018ء میں لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی ہوئی ہے جو کہ ابھی تک لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں قائم JIT نے جب سانحہ کے تمام زخمیوں، گواہان، شہداء کے لواحقین کے بیانات ریکارڈ کرلیے اور تمام ملزمان سے تفتیش مکمل کرلی تو ان حقائق کے سامنے آنے کے خوف کے سبب لاہور ہائی کورٹ کے ذریعے اس JIT کو مارچ 2019ء میں معطل کرتے ہوئے مزید تفتیش سے روک دیا گیا اور تاحال بحال نہیں کیا گیا۔
انسداددہشت گردی عدالت لاہور نے ہمارے 5 مرکزی ملزمان (سابق ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) محمد عثمان، سابق آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا، سابق ڈی آئی جی آپریشز رانا عبدالجبار، سابق ایس پی ماڈل ٹاؤ ن لاہور طارق عزیز، سابق ٹی ایم او نشتر ٹاؤن لاہورعلی عباس بخاری) کواستغاثہ کیس میں 265/k ضابطہ فوجداری کے تحت بری کردیا ہے اور سانحہ کےمزید 8 ملزمان نے بھی انسداددہشت گردی عدالت لاہور میں بریت کے لیے 265/k ضابطہ فوجداری کے تحت درخواستیں دے رکھی ہیں۔
شفاف ٹرائل اس وقت تک ناممکن ہے جب تک شفاف تفتیش نہ ہو۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ شفاف ٹرائل تو دورکی بات ابھی تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو غیرجانبدار تفتیش کا حق بھی نہیں ملا۔
اِن پولیس افسران کی بریت سے یہ امر متحقق ہوگیا ہے کہ انصاف کا نظام ظلم کا نظام بن چکا ہے۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت ملزموں نے ٹرائل کورٹ میں بریت کی درخواستیں دی ہیں۔ اگر ملزمان ٹرائل کورٹ سے بریت کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر اگر جے آئی ٹی کو کام کرنے کی اجازت مل بھی گئی تو انصاف نہیں ہو سکے گا کیونکہ قانون کے مطابق ایک کیس میں کسی پر دو بار مقدمہ نہیں چل سکتا۔ لگتا ہے یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ ایک پلاننگ کے ساتھ شہداء کے ورثاء کے ساتھ قانونی کھیل کھیلا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم سے پنجاب حکومت کی طرف سے 14 جنوری 2019ء میں اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں تشکیل دی جانے والی نئی JIT جسے لاہور ہائی کورٹ نے 22 مارچ 2019ء کو معطل کردیا تھا، اس JIT کی بحالی سے ہی سانحہ ماڈل ٹاؤن کےمتاثرین کو انصاف ملے گا۔
اس JIT کو معطل کرنے کی دلیل یہ پیش کی گئی تھی کہ چونکہ پہلے سے ہی اس سانحہ پر ایک JIT موجود ہے جو اپنی تفتیش کرچکی ہے (حالانکہ اُس پہلی JIT ) نے مکمل طور پر متعصبانہ طرزِ عمل اختیار کیا اور متاثرین کے بجائے ملزمان کی پشت پناہی کی اور ہم اس پر پہلے ہی دن سے عدم اعتماد کا اظہار کرچکے تھے) جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سیکشن 19 انسداددہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت ایک سے زائد JIT بنانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہے۔ جب تک کسی مقدمہ کا فیصلہ نہ ہو جائے، اس وقت تک دوبارہ تفتیش ہو سکتی ہے، اگر عدالت میں مقدمہ کا چالان اور فردِ جرم بھی عائد ہو جائے تو بھی دوبارہ تفتیش سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔
غیر جانبدار تفتیش سے ہی انصاف کا عمل ٹریک پر آئے گا۔ کسی بھی مقدمہ کے انصاف کے لیے شفاف تفتیش کا ہونا ضروری ہے۔ شفاف ٹرائل اس وقت تک ناممکن ہے جب تک شفاف تفتیش نہ ہو۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ شفاف ٹرائل تو دورکی بات ابھی تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو غیرجانبدار تفتیش کا حق جو عدالت عظمیٰ نے دیا تھا اور JIT کی تفتیش جو آخری مراحل میں تھیں، معزز عدالت عالیہ لاہور نے اس کو روک کر تاحال اس پر آج تک کوئی فیصلہ نہ دیا ہے۔ معزز عدالت عالیہ لاہوراور معزز عدالت عظمیٰ پاکستان میں زیر سماعت درخواست ہائے کے فیصلہ کے بغیر ٹرائل کو جاری رکھنا انصاف کا قتلِ عام ہے۔
شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لیے حصولِ انصاف کی جدوجہد اپنی پوری طاقت، عزم اور استقامت
کے ساتھ جاری ہے۔ اس جد و جہد میں شہداء کے ورثاء کا شیخ الاسلام پر غیر متزلزل یقین
اور اعتماد کا اظہار قابلِ فخر اورقابلِ تقلید ہے
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حصولِ انصاف کی جدوجہد کو 11 سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی
قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کی ذاتی دلچسپی اور راہنمائی
میں انسداددہشت گردی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک مسلسل قانونی چارہ جوئی پوری طاقت،
عزم، استقامت کے ساتھ جاری وساری ہے اور ان شاءاللہ تعالیٰ اُس وقت تک جاری رہے گی
جب تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین اورشہداء کے لواحقین کو انصاف نہیں مل جاتا اور اس
سانحہ میں ملوث عناصر کیفرِ کردار تک نہیں پہنچ جاتے۔