انسانی مقصدِ حیات اور فلسفہ مزاحمت

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

گذشتہ سے پیوستہ

دنیا میں آنے سے قبل اللہ رب العزت نے انسان کی سرشت میں اس کا مقصد ودیعت فرمادیا تھا۔ مقصدِ حیات کا شعور اللہ تعالیٰ جنھیں عطا کر دیتا ہے، انھیں لگن،شوق، جذبہ اور عشق کی آگ نصیب ہوجاتی ہے مگر پھر بھی وہ کامیابی کی ان منازل کو حاصل کرنے کے بعد تڑپتے رہتے ہیں، ان کی روح بے قرار رہتی ہے اوروہ ہمیشہ حصولِ مقصد کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اس کی ایک بہت ہی خوبصورت مثال حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا ایک واقعہ ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر ائمہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ تصوف، عقائد، فلسفہ، اصلاحِ احوالِ امت اور اخلاقیات کے باب میں ان کا ایک خاص مقام ہے۔ آج اسلامی دنیا میں کوئی کتاب ان کے حوالہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد ہمیں احساس ہوگا کہ اگر امام غزالیؒ جیسی شخصیت اِن کیفیات میں مبتلا تھی تو پھر ہماری بے فکری ہمیں کس انجام سے دوچار کردے گی۔

امام غزالیؒ بیان فرماتے ہیں کہ جب میں جوانی کی دہلیز پار کر کے اپنی عملی زندگی میں آیا تو اللہ تعالیٰ مجھے اتنی شہرت اور علمی مقام و مرتبہ عطا فرما چکا تھا کہ میں جلد ہی بادشاہِ وقت کا نورِ نظر بن گیا تھا۔ بادشاہ نے کوئی فیصلہ کرنا ہوتا یا دین کا کوئی مسئلہ پوچھنا ہوتا تو وہ مجھ سے ہی پوچھتا اور جو میں کہہ دیتا تو اس علاقے اور اُس دور کا ہر عالمِ دین میری بات پر سرِ تسلیم خم کرلیتا۔ عرب و عجم سے بڑے بڑے علماء دور دراز سے سفر کر کے میری مجالس میں زانوئے تلمذ تہہ کرتے۔ اس وقت بغداد شہر کے اندر میری مجلس سے بڑھ کر کوئی مجلس مشہور نہ تھی۔ طول و عرض سے لوگ کشاں کشاں میرے پاس آتے۔ اللہ رب العزت نے رتبہ اور شہرت دے رکھی تھی اور بادشاہ کی طرف سے انعام و اکرام اور نوازشات کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری تھا اور خطابات کے ذریعے بھی دین کی خدمت ہورہی تھی۔ الغرض یہ ساری شہرت، عزت، نام اور وسائل اللہ رب العزت نے دین کی خدمت کے توسل سے عطا کر رکھے تھے۔ گویا مادی حوالے سے زندگی میں سکون ہی سکون تھا۔

امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ اس کے باوجود میں ایک بے قراری اور بے چینی میں مبتلا ہوگیا۔ میں نے اپنی پریشانی کا ذکر اپنے دوستوں سے کیا کہ مجھے جو کچھ علم حاصل ہے، صبح و شام اپنی تصنیف و تالیف اور خطابات کے ذریعے اسے لوگوں سے بیان کرتا رہتا ہوں۔ میں جو کچھ بیان کرتا ہوں، مجھے اس پر یقین ہے، وہ قرآن و سنت سے ہے اور درست ہے، لیکن میری پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ میں جن بزرگوں کے احوال و واقعات بیان کرتا ہوں، جب ان کے احوال و کیفیات کو اپنے آپ میں نہیں دیکھتا تو گھبرا جاتا ہوں کہ میں علم الیقین کے بعد عین الیقین کی کیفیت کو کیوں حاصل نہیں کر پارہا؟

علم الیقین سے عین الیقین تک کا سفر

گویا اعلیٰ علمی و فکری مقام و مرتبہ پر پہنچنے کے باجود امام غزالی محسوس کرتے ہیں کہ جن بزرگانِ دین کے واقعات کو میں پڑھتا اور بیان کرتا ہوں، ان بزرگانِ دین کو حاصل مشاہدات اور کیفیات سے میں کیوں محروم ہوں۔۔۔ ؟ مجھے وہ تجلیات کیوں نظر نہیں آرہیں۔۔۔ وہ کیفیات مجھے کیوں نصیب نہیں ہورہیں۔۔۔ میں علم الیقین سے عین الیقین تک کیوں نہیں پہنچ پارہا۔ پس یہ سوچ و فکر ان کے لیے باعثِ تشویش بن گئی تھی۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ جنھیں مقصدِ حیات کی لگن لگ جاتی ہے تو پھر وہ صرف ظاہری کامیابی پر اکتفا نہیں کرتے کہ ’یہی دین کا راستہ ہے،یہی درست راستہ ہے اور دین کی خدمت کی وجہ سے جو مقام و مرتبہ مل گیا ہے، اتنا کافی ہے۔ ‘ نہیں بلکہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ اگر میں اس دنیا سے اسی کیفیت میں چلا گیا اور مجھے علم الیقین کے بعد عین الیقین حاصل نہ ہوا تو یقیناً خدمتِ دین کے نتیجے میں جنت تو مل جائے گی لیکن جو مقصدِ حیات تھا،اگر وہ حاصل نہ کرپایا تو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کیا جواب دوں گا۔ امام غزالیؒ کو بھی یہی فکر دامن گیر تھی کہ وہ کیفیات ومشاہدات، جن کا تذکرہ میں اپنے خطابات اور تصنیفات میں کرتا تھا، اگر وہ نہ پاسکا، ان کیفیات کو محسوس نہ کرسکا اور ان مشاہدات کو اپنی نگاہ سے نہ دیکھ پایا اور بن دیکھے اور محسوس کیے دنیا سے رخصت ہوگیا، تو کیا بنے گا؟

جب امام غزالیؒ نے اپنے دوستوں سے اپنی اس پریشانی کا ذکر کیا تو ان کے دوست احباب کہنے لگے کہ غزالی! اس سوچ اور کیفیت کے سبب، یہ عہدہ و منصب اور بادشاہِ وقت کی قربت و خدمت کا اعزاز نہ چھوڑنا۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد یہ سوچ اور کیفیت چلی جائے لیکن بعد میں یہ مقام و مرتبہ ڈھونڈنے سے بھی آپ کو نہیں ملے گا۔

امام غزالیؒ کے دوست احباب کے ساتھ ساتھ آپ کے گھر والے بھی پریشان تھے کہ آسائش اور آرام دہ زندگی ہے، سکون میسر ہے،شاید کچھ دن بعد یہ کیفیت چلی جائے، اگر موجودہ منصب و مقام ترک کردیا تو بعدمیں اس پر پچھتاوے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے کئی بار ارادہ کیا کہ سب کچھ چھوڑ دوں اور کہیں دور چلا جاؤں لیکن ہر بار ارادہ ملتوی کردیتا۔ ایک عرصہ کے بعد میں نے اللہ رب العزت کے حضور ہمت، استقلال اور ارادہ کی مضبوطی و پختگی کے لیے دعا کی۔ کچھ عرصہ بعد اللہ رب العزت نے مجھ سے میرے بولنے کی طاقت سلب کرلی اور میرا بولنا بند ہوگیا۔ اب میں ارادہ کر کے بھی کلام نہیں کر سکتا تھا۔ پہلے لوگ میرے علم و فکر کی وجہ سے میرے پاس آتے تھے اور میں انھیں وعظ و نصیحت کرتا تھا مگر اب بولنے کی طاقت کے سلب ہونے کے بعد میں ان کے کسی کے کام کا نہ رہا۔ لوگ میری مجالس میں آتے مگر میں ان سے خطاب نہ کرسکتا۔ نتیجتاً رفتہ رفتہ لوگوں کی دلچسپی مجھ سے ختم ہونے لگ گئی۔

اب میرے لیے اپنے ارادے پر عمل کرنا آسان ہوگیا تھا۔ چنانچہ جو وسائل میسر تھے، میں نے اپنے بچوں کے حوالے کیے اور حج کے لیے عازمِ سفر ہوا۔ حج کے بعد کسی کو آگاہ کیے بغیر شام چلا گیا اور گمنامی کی زندگی بسر کرنے لگا۔ میں اسی فکر میں تھا کہ عین الیقین کے درجے پر کیسے پہنچوں۔ میں بڑے بڑے علماء،فقہاء اور مشائخ کی مجالس میں بیٹھا لیکن پھر بھی علم الیقین سے آگے نہ بڑھا۔ فلاسفہ اور متوکلین کے پاس بیٹھا کہ وہاں سے مجھے علم الیقین سے کچھ آگے کی خبر ملی۔ ایک عرصہ تک میں سمجھتا رہا کہ یہی راستہ ہے مگر بعد ازاں وہاں بھی مجھے علم الیقین سے آگے کی کچھ خبر نہ ملی۔ میں نے انھیں بھی چھوڑا اور پھر صوفیاء و اولیاء کی مجلس کو اختیار کیا۔ یہاں میں نے ریاضت و مجاہدہ کرنا شروع کیا۔ کبھی دمشق کی کسی مسجد کے مینار میں اور کبھی کسی مسجد کے گوشے میں، خلوتوں میں محوِ جستجو رہا۔ میں دس سال دنیا چھوڑ کر کیفیاتِ عشق کی دریافت میں سرگرداں رہا۔

اس دوران کبھی کبھی مجھے یہ خیال بھی آتا تھا کہ پہلے زندگی میں دین کا کام تو کرتا تھا، اب تو وہ بھی نہیں کرتا۔ لیکن پھر میں اپنے اندر جھانک کر دیکھتا تو احساس ہوتا کہ ہو سکتا ہے وہ سب اعمال اللہ کے حکم سے نہ کرتا رہا ہوں اور قیامت کے دن اگر اللہ پوچھ لے کہ غزالی وہ سب کچھ میرے لیے تو نہیں کر رہا تھا تو کیا جواب دوں گا؟ یہ سوچ کر میں واپس پلٹ جانے کے خیال کو ترک کردیتا۔

الغرض ان تمام احساسات کے سبب امام غزالیؒ نے ہر شے ترک کر دی۔ دس سال کے دورانیہ میں ایک دو مرتبہ ہی اہل و عیال سے ملنے کے لیے گئے، بقیہ تمام عرصہ خلوت اور گمنامی میں زندگی بسر کرنے لگے۔

دس سال بعد خواب میں تاجدار کائنات ﷺ تشریف لائے اور حکم فرمایا کہ غزالی! جاؤ، اب شہرِ بغداد لوٹ جاؤ۔ اب ہم حکم دے رہے ہیں کہ میرے دین کی خدمت کرو۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ ان دس سالوں میں مجھے جلوت سے اتنی بیزاری ہوگئی تھی کہ میرا دل نہیں چاہ رہا تھا کہ واپس لوگوں کی طرف لوٹ جاؤں۔ میں یہ سوچ کر رُک گیا کہ ایک دو دن تک جاتا ہوں۔

کچھ روز بعد حضور نبی اکرم ﷺ دوبارہ خواب میں تشریف لائے اور پھر فرمایا کہ غزالی! میں نے کہا ہے کہ واپس شہرِ بغداد لوٹ جاؤ اور میرے دین کا کام کرو۔ فرماتے ہیں کہ اس مرتبہ بھی مجھ سے سستی ہوئی اور میں بغداد روانہ نہ ہوا۔

تیسری بار تاجدار کائنات ﷺ نے پھر حکم فرمایا کہ غزالی اب دین کی خدمت کے لیے لوٹ جا، اللہ رب العزت تیرے نام کو اور کام کو رہتی دنیا تک کے لیے امتِ محمدیہ کے لیے نمایاں کردے گا۔

میں خوفزدہ ہوگیا کہ اب میری طبیعت کی سستی کہیں گستاخی تصور نہ ہو، لہذا میں نے سب کچھ چھوڑا اور بغداد شہر واپس پلٹ گیا اور از سرِ نو خدمتِ دین، وعظ و نصیحت اور اصلاحِ احوال کا کام شروع کردیا۔

مزاحمت: قبولیت کی علامت ہے

امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ اس دوران میں نے احیاء العلوم الدین لکھنا شروع کی۔ اب میں دین کی جو خدمت سرانجام دے رہا تھا، وہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم اور فرمان کے مطابق تھی لیکن اِس دور اور پہلے والے دور میں فرق یہ تھا کہ پہلے جب کلام کرتا تھا، لکھتا تھا تو تعریف کی جاتی تھی اور اب میں وعظ و نصیحت کرتا یا کتابیں لکھتا تو ہر کوئی مذمت کرتا تھا۔ اب میری مجلس ویران نظر آنے لگی اور میری کتب جلائے جانے لگیں۔ پہلے جب اپنی مرضی سے کرتا تھا تو ہر طرف سے تعریف اور داد ملتی تھی اور اب جب آقا علیہ السلام نے اس فریضہ پر مامور فرمایا ہے تو مخالفتوں اور مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

یاد رکھیں! مزاحمتوں کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جب کوئی ذمہ داری اور نوکری پر آتا ہے تو مخالفت ساتھ لاتا ہے لیکن جب انسان اپنے نفس کے نتیجے میں کچھ کر رہا ہوتا ہے تو ہر طرف سے داد مل رہی ہوتی ہے۔ اس لیے دین کے کام میں جب مزاحمت ہو تو یہ نہ سمجھیں کہ میں ناکام ہوں یا مولا مجھ سے ناراض ہےبلکہ یہ مزاحمت اور مخالفت جتنی بڑھتی چلی جائے، جان لیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اسی قدر زیادہ راضی ہیں۔ یہ ان نوجوانوں کے لیے پیغام ہے جو مزاحمت سے گھبرا کر ڈپریشنز کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیں! مزاحمت تو قبولیت کی علامت بن کرآتی ہے۔

امام غزالیؒ بھی ان مزاحمتوں اور مخالفتوں سے پریشان ہوکر سوچنے لگے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے حکم سے آیا ہوں اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ غزالی! تیری بات گھر گھر پہنچ جائے گی مگر یہاں تو ایسا نظر نہیں آرہا ہے۔ اسی پریشانی میں مبتلا تھے کہ ایک رات خواب میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دستِ مبارک میں آپ کی کتاب ’’احیاء العلوم الدین‘‘ اٹھائے ہوئے تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ غزالی!کیوں دکھی ہوتا ہے، کیا اس پر راضی نہیں کہ تیرا لکھا ہوا ہم پڑھتے ہیں۔ صبح اٹھے تو دل کی کیفیت بدل چکی تھی۔ اب آپ ہر ایک سے بے نیاز ہوگئے کہ حضورعلیہ السلام کے ہاں میری لکھی ہوئی تحریر مقبول ہے تو زمانہ کچھ بھی سمجھے،اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پھر امام غزالیؒ کے افکار کی قبولیت کی انتہا یہ ہوئی کہ مسلمان تو مسلمان عالمِ مغرب کے مسیحی اور یہود تک نے آپ سے استفادہ کیا۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امام غزالی کی کتب سے مسلم دنیا کے تمام علماء میں سے بھی سب سے زیادہ اہل یہود نے استفادہ کیا ہے۔ ان کا عقیدہ قبالہ مکمل طور پر امام غزالی کی فکر کا نچوڑ ہے۔ امام غزالی کی تعلیمات کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ عاِلم مغرب میں جب اخلاقی تنزل شروع ہوا تو ان کے مزاج کے مطابق تو جتنی بھی روحانی تحریکیں وہاں پر چلیں، وہ امام غزالی کی تعلیمات سے فیض یافتہ تھیں۔

مزاحمت: اللہ تعالیٰ کا اصولِ نشوونما

یاد رکھیں! وہ مزاحمت جس سے ہم گھبراتے ہیں، دراصل اللہ رب العزت کا اصولِ نشوونما ہے۔ اللہ رب العزت اس مزاحمت کو انسان کی شخصیت کو بنانے اور سنوارنے کے لیے ہی پیدا فرماتا ہے۔ اگر کسی کو اپنے دورِ مزاحمت کے بعد اللہ رب العزت اچھے حالات عطا کر دے مگر اس کا رویہ اور مزاج منفی ہوجائے یا سخت ہوجائے کہ میرے ساتھ یہ لوگ ایسا کرتے تھے، اب میں ان سے دو گنا برا رویہ رکھوں گا تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو قانون اس کی شخصیت کو سنوارنے کے لیے اسے عطا کیا،وہ اسے سمجھا ہی نہیں کہ اس کی شخصیت و کردار کو بنانے کے لیے اللہ رب العزت نے اسے مزاحمت کے تصور میں ڈالا تھا۔

کائنات میں کوئی بھی شے مزاحمت کے بغیر وجود نہیں رکھتی۔ اللہ رب العزت نے انسان کی شخصیت میں بہت سارے جواہر پیدا فرمائے ہیں۔ ان جواہر کو فعال کرنے کے لیے مزاحمت در کار ہے اور یہی مزاحمت اس کے اندر پوشیدہ خصوصیات کو نکھارتی ہے۔ ایک معروف قول ہے کہ مشکل حالات بڑے انسان پیدا کرتے ہیں۔۔۔ بڑے انسان اچھے حالات پیدا کرتے ہیں۔۔۔ اچھے حالات کمزور انسان پیدا کرتے ہیں۔۔۔ اور پھر کمزور انسان برے حالات پیدا کرتے ہیں۔۔۔ اور پھر وہ برے حالات مضبوط شخصیات پیدا کرتے ہیں۔

پس فلسفہ مزاحمت یہ ہے کہ انسان جس قدر سخت حالات کے اندر پرورش پاتا ہے، اس کی پوشیدہ خصوصیات اتنی ہی نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ پاکستانی ڈاکٹرز کی پوری دنیا میں شہرت اور نیک نامی ہے، اس کے پیچھے بھی یہی فلسفہ مزاحمت ہے۔ وہ سخت حالات کے اندر ٹریننگ لیتے ہیں،ہسپتالوں کے ناگفتہ بہ حالات، وسائل و ادویات کی کمی، ایک ایک بیڈ پر دو تین مریض وغیرہ، وہ ان تمام حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ اپنی عقل کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، نتیجتاً مریض ٹھیک کر دیتے ہیں۔ اپنی ٹریننگ کے دوران کے ان برے حالات کے نتیجے میں وہ ذہین ڈاکٹرز بن جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس جہاں پر بہت زیادہ Technology, Advancement, comfirtability ہے، ان کا انحصار 100 فیصد ٹیسٹ کے اوپر ہے۔ مریض ٹیسٹ کروا کر آئے تو جواب ملے گا کہ ہم رپورٹ دیکھ کر بتائیں گے۔ وہ خود سے اپنی عقل استعمال کرنا بھول جاتے ہیں۔

یاد رکھیں! ہم جو مشکل کام کرتے ہیں، اسی کے سبب ہماری پوشیدہ صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ اگر ہم ساری زندگی آرام دہ ماحول میں رہیں تو پھر تھوڑی سی مشکل بھی ہمارے لیے موت ثابت ہوگی۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنے آپ کو مستعد اور فعال رکھتے ہیں،بھاگ دوڑ کرتے ہیں، جِم کرتے ہیں، ایکسرسائزز کرتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں، جسمانی مشقت کرتے ہیں اور بھوک و پیاس برداشت کرتے ہیں تو اس سے ہمارے اندر برداشت کا مادہ بڑھ جاتا ہے۔

رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہوگئیں

یہی مشقت اور چیلنج دین کی عبادات میں بھی ہے۔ بزرگانِ دین اور اہل اللہ رات دیر تک ریاضت کرتے تھے،طویل قیام و سجدے کرتے تھے،قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے، ذکر و اذکار کرتے تھے، لیکن تھکتے نہیں تھے۔ آج ہم معمولی سی مشقت کو برداشت نہیں کرپاتے اور تھک جاتے ہیں کیونکہ ہم نے اپنے جسم کو اس طرح کی مشقتوں کا عادی نہیں بنایا، جسم کو اس طرح کے چیلنجز نہیں دیے اورمزاحمت کے دور میں اپنے جسم، ذہن اور سوچوں کو دورِ مزاحمت میں ابھرنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنا نہیں سکھایا۔ نتیجتاً مطلوبہ صلاحیتیں ہمارے اندر سے ابھر کر سامنے نہیں آتیں۔ جوں جوں آرام پسندی بڑھتی چلی جاتی ہے، کمزور لوگ پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں، جن کے اندر تحمل و برداشت کا فقدان ہوتا ہے۔ مزاحمت کے اس عمل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یاد رکھیں! مزاحمت ہمارے نقصان کے لیے نہیں بلکہ یہ ہمیں بنانے کے لیے ہے۔ اللہ رب العزت نے کائنات کا بھی یہی اصول رکھا ہے۔ اگر ہم کائنات کا تجزیہ کریں تو یہ کائنات بھی ایک مزاحمت کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ بگ بینگ تھیوری بھی ایک مزاحمت کا نام ہے،جس سے ہر ایک چیز وجود میں آئی ہے۔

اسی طرح آج دنیا میں کوئی اچھا کاروباری بننا چاہتا ہے تو جتنا وہ اپنے آپ کو چیلنج کرے گا، جتنی زیادہ محنت کرے گا، اتنا ہی کامیاب کاروباری بن جائے گا۔ اگر کوئی سوچے کہ میں پرسکون بھی رہوں، صرف ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں، یہی کافی ہے تو وہ بڑا کاروباری نہیں بن سکتا،کیونکہ وہ مشقت اور محنت نہیں کرتا۔

استاد اگر تحقیق میں محنت نہیں کرے گا تو وہ بڑا عالم نہیں بنے گا۔ جو جتنی کوشش کرے گا، اسے اتنا ملے گا، جتنی محنت کرتا چلا جائے گا، اتنی ہی منفعت بڑھتی چلی جائے گی۔ روحانی عبادت، ریاضت،معرفت اور کرامت ہر شے میں یہی تصور ہے کہ انسان جس راہ میں جس قدر اپنے آپ کو مشقت و ریاضت کا خوگر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اسی حساب سے عطا کرتا ہے۔

پرانے ادوار کے صوفیاء ریاضتوں اور مشقتوں میں بہت آگے تھے، اس لیے ان کا مقام بھی اونچا تھا۔ ہم لوگ بہت کمزور اور ناقص ہیں اور آسانیوں و آسائشوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اتنا دے دیتا ہے جس سے گزارا ہوتا رہتا ہے لیکن ریاضت کی کمی کی وجہ سے اتنا نہیں دیتا کہ ہم زمانے میں ایک منفرد و ممتاز مقام کے حامل ہوجائیں۔ یہ ہر انسان کا اپنا سودا اور اپنی سمجھ ہے۔ مزاحمت کا اصول اپنی جگہ پر قائم ہے،اسے سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے اپنانے کی ضرورت ہے اور اپنے مقاصد کی طرف یکسو ہونا ناگزیر ہے۔

ظاہری اور باطنی مزاحمت

مزاحمت دو طرح کی ہوتی ہیں:

1۔ خارجی و ظاہری مزاحمت

2۔ باطنی مزاحمت

خارجی مزاحمت باہر سے ہوتی ہے اور باطنی مزاحمت اندر سے ہوتی ہے۔ خارجی مزاحمت پر صبر کرنا سیکھیں اور باطنی مزاحمت کی مزاحمت کریں۔ ہم اس کے برعکس کرتے ہیں۔ خارجی مزاحمت کی مزاحمت کرتے ہیں جبکہ سستی،کاہلی، نفس کی آلائشیں اور خواہشات کے خلاف باطنی مزاحمت نہیں کرتے بلکہ اسے قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ باطنی مزاحمت یہ ہے کہ جو خواہش ہمیں کام سے روکے اور ہماری کیفیات، اخلاص اور خیر کے کام کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالے تو اس کی مزاحمت کریں، اس کو توڑیں اور اس سے جنگ کریں۔

خارجی مزاحمت یہ ہے کہ باہر سے آنے والی دشمنیوں اور مخالفتوں پر صبر کریں، اس پر اپنا وقت اور طاقت کو ضائع نہ کریں کہ ’فلاں میری مخالفت کرتا ہے،اس نے مجھے یہ کہا، اس نے مجھ سے برا سلوک کیا، اس نے میری عزت اور تکریم نہیں کی، اس نے میری کام کی توقیر نہ کی‘، یہ سب خارجی مزاحمتیں ہیں۔ اس خارجی مزاحمت پر صبر کریں، نظر انداز کریں اور بے نیاز ہوجائیں۔ پس جب نفس کی طرف سے مزاحمت ہو تو اس کی مزاحمت کریں،اسے توڑیں، اس سے جنگ کریں اور اس پر فتح حاصل کریں اور جب خارجی عوامل اور تعلقات کی طرف سے مزاحمت ہو تو اس پر صبر کریں۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ظاہری و باطنی دونوں طرح کے مقصدِ حیات میں کامیابی عطا فرمائے، مقصدِ حیات کے انتخاب میں بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت عطا فرمائے اورخارجی مزاحمتوں پر صبر اور اندرونی مزاحمتوں پر مزاحمت کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ ۔