اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو نہ صرف عبادات بلکہ اخلاقیات، معاملات اور معاشرتی رویوں کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ دینِ اسلام کی تعلیمات کا مرکزی محور انسانی کردار کی تعمیر اور معاشرتی اصلاح ہے۔ اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور ان کے سیرت و کردار کو انسانیت کے لیے نمونہ قرار دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد اخلاقی تربیت تھا۔
نبی کریم ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کی تعلیمات کو عملی شکل دی۔ بالعموم جملہ صحابہ کرام اور بالخصوص خلفاء راشدین کی زندگیاں قرآن و سنت کی بیان کردہ اخلاقی تعلیمات کی آئینہ دار تھیں۔ ان میں سے ایک نمایاں ہستی تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ جاہ و حشمت کے مالک، شیریں کلام اور شرم وحیا کے پیکر تھے۔ ایسے نیک فطرت کہ نہ قبل از اسلام کسی بت کو سجدہ کیااور نہ کبھی شراب کی طرف مائل ہوئے۔ آپ خود فرماتے ہیں:
ما تغنيت ولا تمنيت، ولا مسست ذكري بيميني منذ بايعت بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا شربت خمراً في جاهلية ولا في إسلام، ولا زنيت في جاهلية ولا في إسلام.
(سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، ص: 243)
میں نے کبھی گیت نہیں گایا، نہ کسی چیز کی تمنا کی اور جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر ہاتھ رکھ کر بیعت کی ہے تب سے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو نہیں چھوا، زما نہ جاہلیت میں بھی اور قبولِ اسلام کے بعد بھی کبھی شراب نوشی نہیں کی اور نہ زنا کیا۔
آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں دو صفات؛ حیا اور بردباری بہت نمایاں تھیں۔ دورِحاضر میں جہاں بے حیائی اور عدم برداشت عام ہو چکی ہے، وہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
حیا: باطنی حسن کا مظہر
اسلام میں اخلاقی صفات کو انتہائی اہم مقام حاصل ہے، خصوصاً حیا (شرم و حجاب) اور بردباری (حلم و صبر) کو انسان کے باطنی حسن کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ان صفات کا نہ صرف تذکرہ کیا گیا ہے بلکہ ان کی اہمیت کو واضح کر کے مومنین کو ان پر عمل کی تاکید بھی گئی ہے۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰی لَهُمْ.
(سورہ النور، 24: 30)
’’آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ ‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
والحياء شعبةٌ من الإيمان.
(صحیح بخاری، کتاب الایمان، رقم الحدیث: 9)
’’حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ ‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غنی کی ذات ان تعلیمات کی عملی تصویر تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَشَدُّ أُمَّتِي حَيَاءً عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ.
(أبونعيم، حلية الأولياء، 1: 56)
’’میری امت میں سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہیں۔ ‘‘
ان کا لباس، نشست و برخاست، گفتگو، حتیٰ کہ نبی ﷺ کے سامنے بیٹھنے کا انداز بھی انتہائی محتاط اور باوقار ہوتا۔ حیا ان کی زندگی کا مرکزی اصول تھا۔ کامل الحیاء والایمان کا لقب بھی صرف آپ رضی اللہ عنہ ہی کے شایانِ شان ہے۔
آپ ﷺ کے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے فرامین آپ رضی اللہ عنہ کی باطنی طہارت اور اعلیٰ کردار کی گواہی ہیں اور یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دینا، آپ رضی اللہ عنہ پر غیر معمولی اعتماد اور محبت کا اظہار ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ میرے گھر میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے، اس عالم میں کہ آپ ﷺ کی دونوں مبارک پنڈلیاں کچھ ظاہر ہو رہی تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنے اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے اجازت دے دی اور آپ ﷺ اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنے اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے اجازت دے دی جبکہ آپ ﷺ اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آنے اجازت طلب کی تو حضور نبی اکرم ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے۔ حضرت عثمان آکر باتیں کرتے رہے۔
جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: یا رسول الله ﷺ ! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے ان کا فکر و اہتمام نہیں کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تب بھی آپ نے کوئی فکر و اہتمام نہیں کیا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
أَلاَ أَسْتَحْيِيْ مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِيْ مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ.
مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4: 1866)
’’میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔ ‘‘
اخلاقِ عالیہ، صفاتِ حمیدہ، عاداتِ شریفہ اور خصائلِ کریمہ آپ رضی اللہ عنہ کے خمیر میں شامل تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
فَاِنَّهُ مِنْ اَشْبَهِ اَصْحَابِیْ بِیْ خُلُقًا.
(طبرانی، المعجم الکبیر، 1/76)
’’بے شک عثمان میرے صحابہ میں سے خُلق کے اعتبار سے سب سے زیادہ میرے مشابہ ہے۔ ‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری زندگی اس خصلت کو نہ صرف اپنایا بلکہ ایسی مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک مشعلِ راہ بن چکی ہیں۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں "ذوالنورین" یعنی "دو نوروں والے" کا لقب ملا، کیونکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا۔ پہلے حضرت رقیہj سے اور پھر ان کے انتقال کے بعدحضرت ام کلثومj سےنکاح کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ذَاکَ امْرُؤٌ یُدْعٰی فی الْمَلَاِ الْاَعْلٰی ذَالنُّوْرَیْنِ.
(ابن حجر العسقلانی، الاصابة، ج: 4، ص: 457)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسی عظیم الشان ہستی ہیں کہ جنہیں آسمانوں میں ذوالنورین کہا جاتا ہے۔
یہ نبی کریم ﷺ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر غیر معمولی اعتماد اور محبت کا اظہار تھا۔ ان دونوں نکاحوں کے پیچھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی دینداری، تقویٰ اور حیا کا بڑا کردار تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَوْ كَانَ عِندِي ثَالِثَةٌ لَزَوَّجْتُهَا عُثْمَانَ۔
(الطبقات الكبرى لابن سعد، ج: 3، ص: 41)
’’اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو میں اسے بھی عثمان سے بیاہ دیتا۔ ‘‘
نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے باطنی طہارت اور اعلیٰ کردار کی گواہی ہے۔ حیا ایسی صفت ہے جو انسان کے اندرونی حسن کی عکاسی کرتی ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس صفت کی کامل تصویر تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودk سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اللَّهُمَّ ارْضَ عَنْ عُثْمَانَ فَإِنِّي رَاضٍ عَنْهُ.
(سنن الترمذی، کتاب الفضائل، باب فضل عثمان، رقم الحدیث: 3784)
اے اللہ! عثمان سے راضی ہو جا، بے شک میں اُس سے راضی ہوں۔
یہ دعا ظاہر کرتی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے باطن کی طہارت، ان کی حیاداری اور اخلاقی وقار کا رب العالمین کے محبوب نبی ﷺ کی نگاہ میں کیا مقام تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مجلس میں اکثر خاموش رہتے تھے اور فضول باتوں سے پرہیز کرتے۔ اگر کوئی معاملہ پیش آتا تو سوچ سمجھ کر بات کرتے، حتیٰ ان کے تقویٰ اور حیا کے سبب صحابہ کرامlاُن کے مشوروں پر عمل پیرا ہوتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ہم نےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو سب سے زیادہ حیادار اور نرم دل پایا۔ ‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیا کوئی محدود یا وقتی رویہ نہ تھا بلکہ ان کی زندگی کا مستقل اور بنیادی جز تھا۔ ان کی ذات حیا کی چلتی پھرتی تصویر تھی۔ ان کی حیا نے نہ صرف انہیں نبی کریم ﷺ کا قرب عطا کیا بلکہ معاشرے میں بھی اصلاح کا ذریعہ بنی۔ آج کے بے حیائی سے بھرپور دور میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت ایک مکمل رہنما ہے جو ہر فرد اور معاشرے کو پاکیزگی، پردہ، تہذیب اور اخلاق کی راہ دکھاتی ہے۔
بردباری: متوان شخصیت کی علامت
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ذات کا دوسرا نمایاں وصف حلم و بردباری تھا۔ یہ ایک اعلیٰ اخلاقی وصف ہے جسے قرآن و سنت میں نہایت پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ وہ صفت ہے جو انسان کو غصے، انتقام، اور جذباتی ردعمل سے بچاتی ہے اور ایک متوازن شخصیت اور معاشرے کی تشکیل میں مدد دیتی ہے۔ اسلام نے سختی، غصہ، انتقام اور بدلہ کو ناپسند کیا ہے، اور حلم، بردباری اور معاف کر دینا ایمان کی علامت قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ.
(سورہ آل عمران، 3: 134)
’’ اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔ ‘‘
یہ آیت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شخصیت پر مکمل طور پر صادق آتی ہے۔ انہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی نہایت حلم، صبر اور نرمی کا مظاہرہ کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ابتدائے اسلام ہی میں اسلام قبول کیا، اور ان کے اسلام لانے پر قریش کی جانب سے سخت مخالفت ہوئی۔ ان پر دباؤ ڈالا گیا، خاندانی تعلقات توڑے گئے اور انہیں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں، لیکن انہوں نے ہر موقع پر صبر کا دامن تھامے رکھا۔ بردباری اس وقت سب سے اہم ہوتی ہے جب انسان پر ظلم ہو رہا ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جوانی میں ہی حلم کی یہ صفت نمایاں ہو چکی تھی اور انہوں نے معاشرتی مخالفت کے باوجود زبان سے کوئی سخت کلمہ نہیں نکالا۔
آپ رضی اللہ عنہ سن چوبیس ہجری کی ابتداء میں مجلس شوری کے انتخاب سے تیسرے خلیفہ راشد اور امیر المومنین منتخب ہوئے۔ آپ حلیم الطبع حکمران تھے، رعایاکی شکایات کونہایت تحمل سے سنتے تھے اور پھر حتی المقدور ان کا زالہ کرتے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب خلیفہ کا عہدہ سنبھالا تو ان پر مختلف قسم کے اعتراضات ہونے لگے، حالانکہ ان کا طرز حکومت نہایت نرم، مشاورتی اور رواداری پر مبنی تھا۔ ایک شخص نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سخت لہجے میں کہا: اے عثمان! تو نے فلاں کو کیوں عہدہ دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نہ غصہ کیا، نہ بدلہ لیا، بلکہ مسکرا کر فرمایا:
’’اگر وہ تمہاری بات سے بہتر کام کرے، تو پھر تم خوش ہو جاؤ گے اور اگر میری رائے درست ثابت ہوئی تو تمہیں مجھے دعا دینی چاہیے۔ ‘‘
یہ حلم کا عظیم مظاہرہ تھا۔ عام حکمران ایسے سوالات پر ناراض ہو جاتے ہیں، مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حلم اور فہم و فراست سے جواب دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بردباری آپ ﷺ کی اس تعلیم کا عملی نمونہ تھی، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ما كانَ الرِّفقُ في شيءٍ إلَّا زانَهُ، ولا نُزِعَ من شيءٍ إلَّا شانَهُ.
(صحیح مسلم، کتاب البروالصلۃ والآداب، رقم الحدیث: 2594)
’’نرمی جس چیز میں ہو، اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس سے نکال دی جائے، وہ چیز بدنما ہو جاتی ہے۔ ‘‘
عہد عثمانی کے نصف ثانی (سن 30 تا 35 ہجری) میں فتنے پیدا ہونے شروع ہوئے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں سوچی سمجھی سازش کے نتیجے میں بعض لوگوں نے شورش پیدا کر دی جس سے فتنہ وفساد کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ عنہ پر اقرباء پروری کا الزام لگایاگیا۔ باغیوں نے مختلف گورنروں کے خلاف وہاں کی عوام سے جھوٹے خطوط لکھوا دیے کہ خلافتِ عثمانیہ کے گورنر عوام پر ظلم کرتے ہیں۔ اس پر بزرگ صحابہ کرام پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنی جس نے متعلقہ علاقوں میں جا کر تحقیق کی مگر یہ افواہ ہر طرح سے جھوٹ ثابت ہوئی۔ حج کے موقع پر آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں نے سازشیوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا مشورہ دیا مگر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اس امت کے لیے جس فتنے کا خوف ہے وہ آ کر رہے گا، اگرچہ اس کا دروازہ سختی سے بند کر دیا جائے، لہذا میں اس دروازے کو نرمی سے بند کروں گا، البتہ حق تعالی کی حدود میں ہر گز نرمی نہیں برتوں گا۔ ‘‘
باغیوں کی الزام تراشی، بے ادبی اور بدکلامی کے باوجود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ حتی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی رہائش گاہ کا چالیس روز محاصرہ رہا، آپ رضی اللہ عنہ کو ضروریاتِ زندگی سے محروم کردیا گیا مگر کیا شانِ استغنائی تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ نے خندہ پیشانی سے یہ سب برداشت کیا اور صبرو تحمل کے عملی پیکر بنے رہے
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام زندگی اس قرآنی اصول پر عمل کیا۔
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ.
(سوره فصلت، 41: 34)
’’ برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔ ‘‘
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نہ صرف اسلامی معاشرت کو حلم و بردباری کا عملی پیغام دیا بلکہ اپنے کردار سے معاشرتی اخلاقیات کو نئی جہت بخشی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام میں باغی گروہ نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ باغیوں نے ان کے خلاف افواہیں پھیلائیں، بیت المال کے فیصلوں پر اعتراض کیا اور مطالبات کی فہرست پیش کی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر اعتراض کا جواب دیا، حتی کہ جب بات بے ادبی اور بدکلامی تک پہنچ گئی، تب بھی انہوں نے صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ آپ کی رہائش کا چالیس روز محاصرہ رہا، آپ کو ضروریات زندگی سے محروم کر دیا گیا مگر کیا شان استغنائی تھی کہ خندہ پیشانی سے بھوک وپیاس برداشت کرتے رہے مگر صبر وتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ محاصرے کے دوران صحابہ کرامl کے باربار اجازت طلب کرنے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ نے باغیوں کو کچلنے کا اذن نہ دیا۔ آپ نے فرمایا:
لا أُريدُ أن يُراقَ دمٌ بسببي.
(ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج: 7، ص: 265)
’’میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کا خون بہایا جائے۔ ‘‘
یہ ایک عظیم المرتبت شخص کا غیر معمولی صبر اور امت پر شفقت کا مظہر تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی جان قربان کر دی، لیکن امت میں اختلاف، قتل و غارت اور خانہ جنگی کا دروازہ کھولنا پسند نہ کیا۔ کم وبیش سات سو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں آپ کی حفاظت پر مامور تھے اور باغیوں کو کچلنے کی اجازت طلب فرماتے رہے مگر آپ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ حضرت قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ ابوسھلہ رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ حضرت عثمان نے یوم الدار ( محاصرہ کے دن) کو فرمایا جب وہ محصور تھے کہ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے ایک وصیت فرمائی تھی پس میں اسی پر صابر ہوں۔ (مسند امام احمد بن حنبل)
جب باغی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں گھس آئے اور انہیں شہید کرنے لگے، اس وقت بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ انہوں نے نہ کوئی بددعا کی اور نہ چیخ و پکار کی۔ آخری وقت میں اپنے غلاموں کو بھی آزاد کر دیا اور ظلم وستم کے تمام وار اپنی جان پر جھیلے۔ ان کے ہاتھ میں قرآن تھا، اور شہادت کے وقت ان کے خون سے قرآن کا صفحہ تر ہو گیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا طرزِ عمل ہمیں سکھاتا ہے کہ انتقام کی جگہ صبر اور غصے کی جگہ نرمی کو ترجیح دینی چاہیے۔ یہی وہ صفات ہیں جن کی وجہ سے حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لِکُلِّ نَبِیِّ رَفِیْقٌ وَ رَفِیْقِیْ یَعْنِی فِی الْجَنَّةِ عُثْمَانُ.
(سنن ترمذی، رقم الحدیث: 4540)
ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان رضی اللہ عنہ ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حیا اور بردباری کے معاشرتی اثرات
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بردباری صرف ان کی ذاتی صفت نہ تھی، بلکہ اس نے اسلامی معاشرے میں وسعتِ قلب، برداشت، اور حسنِ خلق کی فضا قائم کی۔ ان کے دور میں مختلف علاقوں میں فتنے ابھرے، مگر انہوں نے ہروقت امت کو جوڑے رکھا، جنگ سے بچایا، اور نرمی سے اصلاح کی کوشش کی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بردباری اور حلم نے نہ صرف ان کی ذات کو بلند کیا بلکہ پوری اسلامی معاشرت کو نرمی، اتحاد اور صبر و ضبط کی طرف مائل کیا۔ ان کا طرزِ خلافت، طرزِ حکومت اور طرزِ شہادت ہمیں سکھاتا ہے کہ اصل قوت انتقام میں نہیں بلکہ حلم، معافی اور بردباری میں ہے۔ اگر آج کا معاشرہ ان اوصاف کو اپنا لے، تو بے راہ روی، بے حیائی، نفرت اور انتشار جیسے مسائل کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیا اور حلم نے مدینہ اور اسلامی دنیا میں ایک ایسا ماحول قائم کیا جس میں فواحش و منکرات کم ہو گئے، لوگ ایک دوسرے کے ادب و احترام کا خیال رکھنے لگے اورگفتگو، معاملات، اور عوامی رویے شائستہ ہو گئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بردباری نے اسلامی قیادت کو یہ نظریہ دیا کہ اقتدار کا مقصد غلبہ نہیں، خدمت ہے، مخالفت پر بدلہ لینا نہیں بلکہ اصلاح کرنی ہے اور عوامی مسائل کا حل غصہ نہیں بلکہ صبر سے ہوتا ہے۔
آج کی دنیا میں جہاں قیادت غصے اور انتقام کی روش پر ہے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بردباری ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ قیادت کا اصل حسن؛ حلم و شفقت ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دینی تعلیمات کو نرمی، اخلاق اور سادہ اسلوب سے عام کیا۔ ان کا لہجہ کبھی سخت نہ ہوتا، وہ خطبات میں نرم الفاظ استعمال کرتے اور لوگوں کو محبت سے نصیحت کرتے۔ آپ رضی اللہ عنہ یہی نرمی معاشرے میں دعوتِ دین کی قبولیت کا سبب بنی۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی سیرت ہمارے موجودہ معاشرتی بحرانوں کے حل کی ایک روشن مثال ہے۔ آج کا معاشرہ فحاشی و عریانی، غصہ، سختی اور انتقام پر مبنی رویوں میں گھرا ہوا ہے۔ قیادت میں حلم اور بردباری کا فقدان ہے جبکہ نوجوانوں میں حیا ناپید ہو چکی ہے۔ اگر ان مسائل کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سب کا حل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت میں موجود ہے۔ ان کی زندگی اسلامی اخلاقیات کا عملی نمونہ تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ ایسی حیا کے حامل تھے کہ نبی کریم ﷺ اور فرشتے بھی ان سے حیا کرتے، اور ایسی بردباری رکھتے کہ دشمنوں کے دل بھی نرم ہو جاتے۔ ان کی یہی دو نمایاں صفات، یعنی حیا اور حلم، وہ بنیادیں ہیں جو فرد کو بہتر انسان بناتی ہیں، معاشرے کو صالح بناتی ہیں اور امت کو جوڑے رکھتی ہیں۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نہ صرف اسلامی معاشرت کو حلم و بردباری کا عملی پیغام دیا بلکہ اپنے کردار سے معاشرتی اخلاقیات کو نئی جہت بخشی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ایسا معاشرتی ماڈل قائم کیا جو قیامت تک کے لیے قابلِ عمل ہے۔ ان کی صفات نے دلوں کو جوڑا، معاشرتی فساد کو روکا اور امت میں اخلاق، محبت اور برداشت کا بیج بویا۔ اگر آج بھی ہم ان صفات کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنا لیں تو ہمارا معاشرہ امن، محبت اور اخلاقی بلندی کا نمونہ بن سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت سے سبق لیتے ہوئے اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، زبان و بیان میں حیا پیدا کریں، سختی کی جگہ نرمی اور غصے کی جگہ صبر و تحمل کو اپنائیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جو معاشرتی اصلاح کا حقیقی ذریعہ ہے اور جس سے امتِ مسلمہ ایک بار پھر اخلاقی عروج حاصل کر سکتی ہے۔