ﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربانی دینا نہایت اعلیٰ و اَرفع اور مقرب ترین عمل ہے۔ یہ عمل جس قدر پُرخلوص ہوگا خالقِ کائنات کی نظر میں اُسی قدر مقبولیت کا سبب بنے گا۔ اَہلِ حق روزِ اوّل سے ہی رب کی رضا کے لیے قربانیاں دیتے چلے آئے ہیں۔ کسی نے اللہ کی راہ میں اپنے وقت کو قربان کیا۔۔۔ تو کسی نے اُس کی رضا کے لئے اپنا سارا مال و اسباب نثار کر دیا۔۔۔ کسی نے رب کی خوشنودی کے لیے اپنے گھر بار، اَعزاء و اقارب اور وطن کی قربانی دیتے ہوئے ہجرت کی۔۔۔ تو کسی نے کلمۂ حق کہنے کی پاداش میں کوڑے کھائے اور طعن و تشنیع کے تیر برداشت کیے۔۔۔ کسی نے حق کی خاطر اپنے ہی اعزاء اور خونی قرابت داروں سے قطع تعلقی کی قربانی دی۔۔۔ اور کسی پر اُن کے آقاؤں نے وحشت و بربریت کی اِنتہا کر دی۔ الغرض ہر حق پرست کو اس راہ میں طرح طرح کی مشکلات، مصائب اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور قربانیوں کی ادائیگی سے ہر رکاوٹ کو ٹھکراتے ہوئے آگے بڑھنے پر ہی انہیں کامیابی، کامرانی، سرفرازی اور سربلندی سے نوازا گیا۔
یوں تو راہِ حق میں پیش کی گئی ہر قربانی ہی قابلِ ستائش ہے، مگر سب سے افضل اور معتبر قربانی خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس کی راہ میں لڑتے ہوئے جان قربان کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کرنے کو یوں بقاے دوام بخشا گیا کہ اس کے عوض شہادت کا سرمدی منصب رکھ دیا گیا۔ قرآن مجید میں فلسفۂ شہادت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ملنے والی موت، موت نہیں بلکہ حیاتِ ابدی ہے اور یہ اللہ رب العزت کا بیش بہا انعام ہے۔
لاریب شہید کو موت نہیں، وہ مر کر زندہ رہتا ہے
کسی انساں کا یہ قول نہیں، رب میرا خود یہ کہتا ہے
تاریخِ عالم گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے والی پہلی جان سے لے کر آج کے دن تک لاکھوں، کروڑوں افراد نے رب رحیم کی رضا کو پایا ہے۔ ان خوش بخت اور سعید افراد میں انبیاء کرام رضی اللہ عنہ اور ان کے اَصحاب بھی ہیں، صدیقین بھی ہیں، صالحین بھی ہیں اور علماء و فضلا بھی ہیں۔ ہر ایک کی قربانی دائمی ہے اور ہر شہید نے اپنے عظیم مقصد کے حصول کے لیے جان کا نذرانہ پیش کر کے اپنے فریضہ کی تکمیل کا حق ادا کرکے اعلیٰ مقام حاصل کیا ہےمگر اپنی افادیت اور آفاقی اثرات کے حوالے سے شہادتِ امام حسین اور شہداء معرکۂ کرب و بلا کو ایک منفرد و ممتاز مقام حاصل ہے۔ سبطِ رسول ﷺ جگر گوشۂ علی و بتول حضرت علیہ السلام نے اپنے بہتّر (72) رُفقاء کے ہم راہ جس تسلیم و رضا کے انداز سے جامِ شہادت نوش فرمایا ہے، وہ انہیں مقامِ ابدیت پر فائز کر گیا ہے۔ علامہ اقبالؔ اس جاں نثاری کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
تقریباً چودہ سو سال گزر جانے کے باوجود بھی شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر زندہ و جاوید ہے۔ اس کی شہرت روز افزوں اور اس کا ذکر وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ حسینیت حق کا استعارہ اور یزیدیت باطل اور فتنہ و شر کا عنوان بن گئی ہے۔ شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کی اس قدر شہرت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ دراصل سیرتِ محمدی ﷺ کا ہی تکملہ اور تتمہ ہے۔۔۔ یہ حضور اکرم ﷺ کی سوانحِ حیات کے گوشوں میں سے ہی ایک گوشہ ہے۔۔۔ اور اِستقامتِ حسین رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے فضائل و کمالات میں سے ایک کمال ہے۔ اس شہادت کا وجود سیرتِ مصطفیٰ ﷺ سے الگ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ رفعت و عظمت کا جو رنگ ہمیں سیرت النبی ﷺ میں نظر آتا ہے، شرف و قبولیت کی وہی جھلک شہادتِ امام حسین ﷺ میں بھی نظر آتی ہے۔
اسی لیے انسانی تاریخ کے اوراق جب بھی صداقت، حق پرستی، حق گوئی اور بے مثال بہادری کے لازوال کردار تلاش کرتے ہی ں تو کربلا کا معرکہ اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ سرِفہرست نظر آتا ہے۔ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ تاریخِ اسلام کا ایک ایسا سنگِ میل ہے جو ضمیر انسانی کی بیداری، حق و باطل کے معرکہ میں لازوال قربانی اور آئندہ نسلوں کے لیے حق گوئی اور عزیمت و استقامت کا ناقابلِ فراموش درس ہے۔ یہ واقعہ رہتی دنیا تک ایک پکار ہےکہ کبھی ظلم کے سامنے سر نہ جھکانا، چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کا پسِ منظر
یزید لعین نے جب اسلام کے مقدس اصولوں کو پامال کرتے ہوئے اپنی شخصی آمریت کو دین کا لبادہ پہنانا چاہا، تب ضمیرِ انسانیت کے سب سے روشن مینار، جادۂ حق کے مسافر امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے خلاف علمِ حق بلند کیا اورفرمایا:
يَزِيدُ رَجُلٌ فَاسِقٌ، شَارِبٌ لِلْخُمُورِ، قَاتِلٌ لِلنَّفْسِ الْمُحْتَرَمَةِ، وَمِثْلِي لَا يُبَايِعُ مِثْلَهُ.
’’یزید ایک فاسق، عادی شرابی اور قابل احترام (بے گناہ) جانوں کو قتل کرنے والا ہے، اور میرے جیسا شخص اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔ ‘‘
یہ ایک فرد کا انکار نہ تھا، بلکہ باطل اور جبر و استبداد کے نظام کے خلاف صدائے حق اور بغاوت تھی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا میں اپنی اور اپنے خانوادہ کی قربانی دے کر ثابت کردیا کہ دینِ محمدی ﷺ کو بچانے کے لیے جان کی قربانی دینا عین فریضہِ ایمان ہے۔ انہوں نے اس بات کا برملا اعلان کیا کہ وہ یزید پلید کی بیعت کو اس لیے رد کرتے ہیں کیونکہ وہ ایک ظالم، جابر اور باطل حکمران ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہکا باطل نظام کے خلاف قیام دراصل ایک زندہ ضمیر کی آواز ہے، جو ہر انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ظلم و جبر کے خلاف قیام کرے، چاہے اس کا نتیجہ کتنی ہی بڑی قربانی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤی اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ.
(النساء، 4: 135)
’’اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو۔ ‘‘
یعنی ظالم کوئی بھی ہو اس کے خلاف مظلوم کی مدد کرو۔ حدیث نبوی میں افضل جہاد کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے، حضرت ابو سعید خدری g روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ.
(سنن أبي داود: 4344)، (سنن الترمذي: 2174، وحسّنه.)
’’سب سے افضل جہاد جابر و ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا ہے۔ ‘‘
امام حسین رضی اللہ عنہ کا قیام کسی شخصی اختلاف یا اقتدار کی کشمکش کے لیے نہیں تھا، بلکہ یہ ایک بگڑتے ہوئے دینی، اخلاقی اور سیاسی نظام کے خلاف ضمیرِ انسانی کی بیداری تھی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے اچھی طرح سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ جان چلی جائے گی، گھر لٹ جائے گا، خاندان کے چراغ بجھ جائیں گے مگر حق گوئی سے منہ نہ موڑا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی یہ جرأت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم کسی بھی قیمت پر سچ کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ امام عالی مقام کا انکار یزید کے خلاف فقط ایک سیاسی مؤقف نہ تھا بلکہ یہ ضمیر کی حقیقی صدا تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کسی مصلحت یا وقتی فائدے کی خاطر حق سے دستبردار ہونا گوارا نہ کیا۔ آپ کی شہادت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ضمیر کی آواز سننا اور اسے تھامے رکھنا ایک کامل مؤمن کا شیوہ ہے، خواہ پوری دنیا مخالفت میں کیوں نہ ہو۔
شاہ است حسین، پادشاہ ہست حسین
دین است حسین، دیں پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست، در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
’’شاہ بھی حسین ہیں، بادشاہ بھی حسین ہیں، دین بھی حسین ہیں دین کی پناہ بھی حسین ہیں۔ آپ نے اپنا سر کٹوا دیا لیکن یزید کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا، سچ یہ ہے کہ کلمہ ٔ طیبہ کی بنیاد بھی حسین ہیں۔ ‘‘
شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ (احادیث مبارکہ کی روشنی میں)
آج ایک ایسا طبقہ بھی وجود میں آچکا ہے کہ جس کے افراد نہایت درجہ کور چشم، شقی القلب اور حُبِ اَہلِ بیتِ اَطہار سے عاری ہیں۔ یہ لوگ تاریخِ اسلام کے اس دِل دوز اور جگر خراش سانحے کو محض قصے کہانیاں کہتے، تاریخ کے ان واقعات کو جھٹلاتے، انہیں بیان کرنے والوں کی تکذیب و تضحیک کرتے حتیٰ کہ استہزاء کر کے بغض و عنادِ اَہلِ بیت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ محض اُن کا بُغض و عناد نہیں بلکہ ان کا شدید ترین خبثِ باطن ہے۔ یزید سے محبت اور آلِ محمد ﷺ سے عداوت انہیں دولتِ اِسلام اور متاعِ ایمان سے محروم کر کے عذابِ اَلیم، عذابِ عظیم اور عذابِ مُھِیْن سے دو چار کر کے جہنم کا ایندھن بنا دے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی تمام تر کاوشوں کے باوجود واقعۂ کربلا کی اہمیت کم نہیں ہو سکتی۔ جو ایسا کرنے کی جسارت کرتا ہے، وہ شجرِ اسلام کی جڑوں کو کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ حضور ﷺ کے فرمودات، اُمہات المؤمنین کے اِرشادات اور صحابہ کرام کے بیانات اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہیں۔ نیز ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کربلا کا واقعہ محض ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق سیرتِ نبوی ﷺ کی پیشین گوئیوں اور اہلِ بیت کی عظمت سے ہے۔ اس سلسلہ میں چند احادیث مبارکہ اور روایات ملاحظہ ہوں:
1۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آقا رضی اللہ عنہ کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ ! آج کیا بات ہے، چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے:
ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء.
آپ کی امت آپ( ﷺ ) کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے۔
(المعجم الکبير، 3: 109، رقم: 2819)
2۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
أخبرني جبرئيل ان ابني الحسين يقتل بأرض العراق فقلت لجبرئيل ارني تربة الارض التي يقتل فيها، فجاء فهذه تربتها۔
’’مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سرزمین میں قتل کر دیا جائے گا۔ میں نے کہا: جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسین کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔ ‘‘
(کنز العمال، 12: 126، ح: 34313)
جبرئیل نے کربلا کی مٹی لاکر حضور نبی کریم ﷺ کو دی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہوگیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ دیا تھا اور وہ ہرروز اس کو دیکھتیں اور فرماتیں: اے مٹی! جس دن تو خون ہوجائے گی، وہ دن بڑا بھاری دن ہوگا۔
(المعجم الکبیر، 3: 108)
3۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حسین بن علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا۔
آپ ﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نہ صرف مقتل کی نشاندہی کردی کہ یہ عراق کا میدان کربلا ہوگا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ یہ عظیم سانحہ کب رونما ہوگا۔
4۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر دعا فرمایا کرتے:
اللهم انی اعوذبک من رأس الستين وامارة الصبيان.
اے اللہ میں ساٹھ ہجری کی ابتدا اور (گنوار) لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
60 ہجری کی ابتدا میں ہی ملوکیت کی طرف قدم بڑھایا جاچکا تھا اور خلفائے راشدین کے نقش قدم سے انحراف کی راہ نکالی جا رہی تھی۔
5۔ حضرت یحیٰ حضرمی کہتے ہیں کہ میں سفر صفین میں حضرت علیg کے ساتھ تھا۔ جب ہم نینوا کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا: اے ابو عبداللہ! فرات کے کنارے رکنا۔ میں نے عرض کیا: کیوں؟ فرمایا کہ تاجدار کائنات ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے:
ان الحسين يقتل بشط الفرات و اراني قبضة من تربته.
حسین رضی اللہ عنہ فرات کے کنارے قتل ہوگا اور مجھے وہاں کی مٹی بھی دکھائی۔
شہادت امام حسین کی انفرادیت اور عظمت کا یہ پہلو بطور خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس اس عظیم واقعہ کے تذکرے عہدِ رسالت میں ہی ہونے لگے تھے اور اس سانحہ کی خبر دیتے ہوئے آپ ﷺ کی چشمانِ مقدسہ پر نم تھیں۔ کسی واقعہ کا اپنے ہونے سے قبل مقبولیت حاصل کرلینا، اس کے غیر معمولی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
محبتِ اہلِ بیت اطہار علیہ السلام جزوِ ایمان ہے
مؤدت و محبتِ اہلِ بیتِ اَطہار علیہ السلام ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور عقائد کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے جو نصوصِ قرآن، احادیثِ صحیحہ اور سنتِ نبوی سے ثابت ہے۔ یہ عقیدہ سنتِ نبوی، صحابۂ کرام، تابعین، اَتباع التابعین، ائمۂ اَربعہ، فقہاے کرام، محدثین اور ائمۂ اُصولِ دین سے تسلسل کے ساتھ نقل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ موجودہ زمانے میں اَہلِ بیتِ اَطہار f علیہ السلام ساتھ محبت و مؤدت کے اس عقیدۂ صحیحہ کو ذاتی اور سیاسی تعصبات و مفادات کی بھینٹ چڑھانے کی مذموم سعی کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ سراسر مقامی، علاقائی اور سیاسی معاملات ہیں جن پر سیاسی تجزیے تو بنتے ہیں مگر اُن کا عقائد کے ساتھ قطعاً کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر بدقسمتی سے ان سیاسی عوامل کے اثرات براہِ راست عقائد پر مرتب ہوئے اور ان کی وجہ سےلوگوں کے عقائد اورنظریات متاثر ہونے لگے۔
تاریخی طور پر خارجیت کا تسلسل زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ ان کا فکری ارتقاء اگرچہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہو چکا تھا مگر ان کا عملی ظہور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ہوا۔ حُبِّ اَہلِ بیتِ اَطہار علیہ السلام کو شیعیت قرار دینا بھی اِسی خارجی ذہن کی پیداوار اور زاویۂ نگاہ ہے۔ مسلکی عداوت، علاقائی سیاست اور بین الاقوامی ایجنڈا؛ ان سب عوامل نے مل کر لاشعوری طور پر کئی لوگوں کےذہن بدل دیے اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ اب اُنہیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ہم اُسی پیڑ کی جڑیں کاٹ رہے ہیں جس کے سائے تلے خود بیٹھے ہیں۔ اس مسلکی عداوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب اَہلِ بیت کا نام لینے کو شیعیت سمجھا جاتا ہے۔ امام حسن، امام حسین یا اَہلِ بیتِ اَطہار علیہ السلام کا اگر ادب سے نام لے لیں تو فوراً فتویٰ داغ دیا جاتا ہے کہ یہ شیعیت بول رہی ہے۔ اِسی طرح یزید پلید اور اُس کے ماتحت طبقہ کی بے ایمانی اور خبثِ باطن پر بات کی جائے اور اُس کے کفریہ اعمال کی نشاندہی کی جائے تو بھی ریڈ الرٹ ہوجاتا ہے کہ اس طرح کہنے والے اَہلِ تشیع ہی ہو سکتے ہیں۔
اس بڑھتے ناسور اور مشکوک و مذموم سوچ نے اچھے بھلے صحیح العقیدہ لوگوں کے ذہن بھی گرد آلود کر دیے ہیں اور عامۃ الناس کو مخمصے اور تشکیک میں ڈال دیا ہے۔ ان خارجی اثرات کی پیدا کردہ فضا اور ماحول کے باعث ضروری ہے کہ اَہلِ بیتِ اَطہارf کے حوالے سے عامۃ المسلمین کے قلوب و اذہان پر پڑی گرد کو ہٹا کر اُن کے عقائد کو صاف اور اُجلا کیا جائے۔
ذہن نشین رہے کہ اَہلِ سنت کے اس عقیدہ کا شیعیت و رافضیت سے رتی برابر تعلق نہیں ہے بلکہ یہ اَہلِ سنت کی اپنی فکری تاریخ، نظریاتی رُجحان، اِعتقادی میراث اور ایمان کی اساس ہے۔ یہ خارجی ذہنیت ہی ہے جس نے امام عالی مقام کی ذاتِ اقدس اور اَہلِ بیتِ اَطہار علیہ السلام کے ساتھ محبت و مؤدت کم کرنے کے لیے طرح طرح کے فکری، اعتقادی، تاریخی اور نظریاتی مغالطے پیدا کیےاور تشکیک پر مبنی ابحاث کی روایت ڈالی۔
عصرِ حاضر میں شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کی معنویت اور عملی تقاضے
آج جب کہ دنیا مختلف قسم کے ظلم، جبر، استبداد، کرپشن اور منافقت کا شکار ہے، کربلا کا پیغام اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی معنویت پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں ہو چکی ہے۔ یہ پیغام ضمیر کی آواز کی صورت میں ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں حق گوئی، عدل اور حریت کو کیسے زندہ کریں۔ شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کی عصری معنویت یہی ہے کہ ہم دینِ اسلام کی بقاء کے تقاضوں کو سمجھیں کہ دین اسلام کی بقا کا راز کس امر میں پوشیدہ ہے۔ ہم ظاہری مفادات کے بجائے اصولوں کی پاسداری کریں۔ ہم وقتی کامیابیوں کے بجائے اس راستے پر چلیں کہ جس کے نتیجہ کے طور پر حقیقی کامیابی نصیب ہو۔ ہم دین کی عزت کی بحالی کے لیے درست وقت پر درست اقدام کریں اور اس اقدام کے مطابق ہر طرح کی قربانی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں۔
یاد رہے کہ معرکہ کربلا کسی ایک نسل، قوم یا مذہب کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ صرف مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے رہنما ہیں۔ آج بھی ہر مظلوم حسین کی طرف دیکھتا ہے، اور ہر ظالم و جابر یزید کا جانشین تصور کیا جاتا ہے۔ عصرِ حاضر میں ظلم کے خلاف جدوجہد کے ہر علمبردار کو چاہیے کہ وہ کربلا سے سبق لیتے ہوئےظلم کے آگے سر نہ جھکائے، حق پر ڈٹا رہے، اور کسی کمزوری، مصلحت یا خوف کے تحت حق کو نہ چھوڑے۔ یہی حسینیت ہے۔ یہی ضمیر کی صدائے بازگشت ہے۔
بہ قول شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری آج شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ ہمیں دعوت دیتی ہے کہ اپنےضمیر کی تربیت کریں، حق کو پہچانیں اور باطل سے نفرت کریں۔ اپنے اندر حق گوئی کی جرأت پیدا کریں اور سچ کو کسی قیمت پر نہ چھوڑیں۔ ظلم کے خلاف قیام کریں، خواہ وہ ظلم سماجی ہو، معاشی ہو یا فکری ہو۔ اصلاحِ معاشرہ میں اپنا کردار ادا کریں، ہر شعبہ زندگی میں دین کی روح کے مطابق کردار ادا کریں۔ محبتِ اہلِ بیت کو عملی جامہ پہناتے ہوئے امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت صرف سوگ یا عقیدت کے اظہار تک محدود نہ رہے، بلکہ ان کے مشن کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کریں۔
آج کے مسلم معاشرے کے لیے امام حسین رضی اللہ عنہ کا باطل نظام کے خلاف قیام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں کبھی ظلم کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہیے۔ نہ صرف ہمیں اپنے ذاتی معاملات میں بلکہ ہر سطح پر حق گوئی کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی نے یہ ثابت کیا کہ حق کی آواز کبھی کمزور نہیں ہوتی، چاہے دنیا کا کوئی بھی جابر اور طاقت ور حکمران اس کے مقابل کھڑا ہو۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے ہمیں یہ سکھایا کہ انسان کی سب سے بڑی طاقت اس کا ضمیر ہے اور ضمیر کی آواز پرعمل کرنا ہی انسانیت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ امام عالی مقام نے کربلا میں جو قربانی دی، وہ دراصل ہر انسان کو سچائی، استقامت اور حق گوئی کے لیے ایک روشن مثال فراہم کرتی ہے۔
آئیے! ہم امام حسین رضی اللہ عنہکی سیرت کو اپنے عمل میں ڈھالیں اور اس کی روشنی میں اپنے جملہ معاملات کو درست کریں تاکہ ہم بھی اپنی زندگیوں میں حق کے راستے پر ثابت قدم رہ کر اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکیں اور بارگاہِ الٰہی میں بھی سرخرو ہو سکیں۔ اللہ رب العزت ہمیں امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق اور ہر دور میں دینِ اسلام کی بقا کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ ۔