(Climate Action, Irregular Migration and Zero Hunger)
علم و شعور کی روشنی سے جہالت کی تاریکیوں کو چیرنے والا ادارہ، منہاج یونیورسٹی لاہور، ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر فکری ہم آہنگی، ماحولیاتی شعور، انسانی ہمدردی اور عالمگیر ترقی کے اہداف کو یکجا کرنے میں پیش پیش نظر آیا، جب اس کے اسکول آف پولیٹیکل سائنس نے مورخہ 26 اپریل 2025 کو ایک عظیم الشان بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ یہ کانفرنس نہ صرف علمی و فکری مکالمے کا مظہر تھی بلکہ انسانیت کی فلاح، قدرتی وسائل کے تحفظ، اور دنیا کو بھوک، مہاجرت اور ماحولیاتی آلودگی جیسے خطرات سے بچانے کی ایک منظم کوشش بھی۔
اس کانفرنس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری (ڈپٹی چیئرمین، بورڈ آف گورنرز، منہاج یونیورسٹی لاہور) نے فرمائی۔ یہ کانفرنس بین الاقوامی فکری مکالمہ کا مظہر تھی، جس میں اندرون ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے بھی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔ بیرون ملک سے تشریف لانے والی شخصیات میں؛ پروفیسر ڈاکٹر فرینز باومن (سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، اقوام متحدہ، امریکہ)، پروفیسر ڈاکٹر افسر راٹھور (سابق ایگزیکٹو، اقوام متحدہ، آسٹریا)، مسٹر مائیکل زنکانیل(ڈائریکٹر آسٹرین انسٹی ٹیوٹ فار یورپین اینڈ سیکورٹی پالیسی، آسٹریا)، مس مائیو ساتو (چیف آف مشن، IOM، پاکستان)، مس فلورنس رولے (نمائندہ FAO، پاکستان)، مس رانا رحیم (ICMPD، پاکستان/کینیڈا)، مس میختھلڈ گئیر (آسٹریا) شامل تھیں۔
پروفیسر ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد (وائس چانسلر) نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ منہاج یونیورسٹی عالمی ترقیاتی ایجنڈے کی علمبردار ہے، جو نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک جامع، بااختیار اور پائیدار معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے۔
ڈاکٹر یاسر خان نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد اور موضوعاتی وسعت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس انسانیت کو درپیش مہلک خطرات کے خلاف مشترکہ فکری جدوجہد کی بنیاد رکھتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ’’ماحولیاتی تبدیلی، چیلنجز، قوانین اور کمزور اقوام پر اثرات‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ کس طرح ماحولیاتی تبدیلی اور زہریلے فضلے کا غیر منصفانہ اخراج کمزور طبقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے۔ انہوں نے "زہریلی نوآبادیات" (Toxic Colonialism) کے تصور پر گفتگو کرتے ہوئے ان روشوں پر تنقید کی، جن کے تحت وہ اپنا صنعتی فضلہ ترقی پذیر اقوام پر منتقل کر کے انسانی صحت، حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام کو خطرات میں ڈال رہا ہے۔ انھوں نے اس اقدام کو 2022ء میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب اور افریقی خطے میں طویل خشک سالی جیسے مظاہر کو اقوامِ عالم کے لیے ایک وارننگ قرار دیا اور یاد دلایا کہ کرۂ ارض پر کسی ایک خطے کی کوتاہی، سب کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ماحولیاتی قوانین اور عالمی معاہدات جیسے کہ کیوٹو پروٹوکول، پیرس معاہدہ اور باسل کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان قوانین کی موجودگی کے باوجود عملی سطح پر ان پر عملدرآمد کا فقدان لمحۂ فکریہ ہے۔ فطرت کی حفاظت دراصل انسانی وقار، اخلاقی ذمہ داری اور دینی فریضہ ہے۔ تمام اقوام اپنی سرحدی تنگ نظری کو ترک کر کے مشترکہ انسانی بقا کے لیے اجتماعی اقدام کریں۔ صاف توانائی، مضبوط معیشت اور ذمہ دارانہ طرزِ زندگی ہی کی بدولت مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ زمین اللہ کی امانت ہے، اور ہم سب اس کے نگہبان ہیں۔
اس کانفرنس میں درج ذیل تین پینل ڈسکشنز بھی ہوئیں۔ جن میں ملکی و غیر ملکی سکالرز نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا:
1۔ موسمیاتی تبدیلی اور عوامی شعور: اس موضوع کے تحت ماحولیاتی تعلیم، آگہی مہمات اور تعلیمی اداروں کے کردار پر گہری بصیرت سے بحث کی گئی۔
2۔ غذائی تحفظ اور بھوک کا خاتمہ: اس عنوان کے تحت میں بھوک کے خاتمے کے لیے عالمی اشتراک، زرعی اصلاحات اور غذائی رسائی کے مساوی مواقع کو زیر بحث لایا گیا۔
3۔ غیر قانونی ہجرت۔ علاقائی حکمتِ عملی کی ناگزیر پکار: اس موضوع کے تحت ہجرت کی بنیادی وجوہات، قانونی چیلنجز اور پالیسی فریم ورک پر مدلل گفتگو کی گئی۔
اس کانفرنس میں محترم چوہدری منظور احمد( رکن مرکزی عاملہ پاکستان پیپلز پارٹی اور سابق رکن قومی اسمبلی) نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یہ کانفرنس عصرِ حاضر کے اہم ترین عالمی مسائل پر سنجیدہ مکالمہ اور ٹھوس فکری رہنمائی فراہم کر رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، ہجرت اور غذائی تحفظ جیسے چیلنجز پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ میں اس اقدام پر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اور منہاج یونیورسٹی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
پروفیسر ڈاکٹر خرم شہزاد (رجسٹرار منہاج یونیورسٹی) نے کانفرنس میں اختتامی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ہمیں اس حقیقت کا احساس دلاتا ہے کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں موسمیاتی تغیر، غیر قانونی ہجرت اور غذائی عدم تحفظ جیسے مسائل نے نوعِ انسان کو ایک کڑے امتحان سے دوچار کر رکھا ہے۔ آج ہم نے ان چیلنجز کا ادراک محض علمی گفتگو تک محدود نہیں رکھا، بلکہ ایک عزم و شعور کے ساتھ عمل کی جانب پیش قدمی کا عہد کیا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم بھوک کے خاتمے، موسمیاتی توازن اور باعزت و منصفانہ ہجرت کے خواب کو تعبیر دیں۔ آج ہم نے علم کے افق پر نئی راہیں تلاش کیں، تخلیقی فکر کی شمعیں روشن کیں اور بین الاقوامی تعاون کے باب رقم کیے۔ اب ہمیں چاہیے کہ ان خیالات کو عمل کی صورت میں ڈھالیں، اس علم کو بانٹیں، دوسروں کو شریکِ سفر بنائیں اور تبدیلی کی اس تحریک کو نئی جہت دیں۔
کانفرنس کے اختتام پر پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ’’گلوبل سینٹر فار مائیگریشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ کا باضابطہ افتتاح کیا۔ یہ مرکزِ تحقیق، پالیسی سازی اور مکالمے کوفروغ دے گا اور ہر سال کانفرنسز، تربیت اور اشاعتوں کے ذریعے علمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دے گا۔
یہ بین الاقوامی کانفرنس نہ صرف فکری وسعت کی ایک زندہ تصویر تھی بلکہ اس نئے عالمی شعور کی بنیاد بھی ہے، جو سرحدوں، رنگوں اور مذاہب سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت کی فلاح کا داعی ہے۔