حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ: حکمرانوں کے لیے قابلِ تقلید اُسوہ

علامہ عمر تلمسانی

یومِ شہادت یکم محرم الحرام کی مناسبت سے خصوصی تحریر

میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پڑھتا ہوں تو دل جھوم اٹھتا ہے۔ اس مطالعہ سے جذبات کو مہمیز لگتی ہے اور ہمت کو جولانی ملتی ہے۔ یہ انسان کتنا عظیم تھا! دل کی بہادری اور طبیعت کی سختی کے ساتھ رقتِ قلب اور رحمدلی بھی انتہا درجے کی! یہ کیسا حسین امتزاج تھا کہ سختی میں صلابت تھی مگر سنگدلی نہیں۔۔۔ نرمی میں رحم و محبت تھی مگر ضعف و بزدلی کا شائبہ بھی نہ تھا۔۔۔ حکمت تھی تو ایسی کہ اسے خدا کی طرف سے خصوصی عطا ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔۔۔ بصیرت و ذہانت کا یہ درجہ تھا کہ حالات کو دیکھ کر ٹھیک ٹھیک نتائج اخذ کرلیتے تھے۔۔۔ نہ تعریف سے ریشہ خطمی ہوتے نہ تنقید سے مشتعل۔۔۔ حق کا ساتھ دیتے اور اس کے سامنے سرجھکادیتے۔ انسان کی قدرو منزلت کیسے بلند ہوتی اور اس کی شان کیونکر پست ہوجاتی ہے؟ اس سوال کا جواب حضرت عمر رضی اللہ عنہ بخوبی جانتے تھے۔ انسانیت کو سربلند کرنے کے لیے ہر کام کیا اور انسانوں کی ذلت کا ہر راستہ بند کردیا۔

ذیل میں آپ رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے چند گوشوں کو بیان کیا جارہا ہے:

مردم شناسی

حضرت عمر رضی اللہ عنہ مردانِ کار کی قابلیت کا صحیح اندازہ لگاتے تھے اور مناسب لوگوں کو مناصب عطا فرماتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے نزدیک اہم چیز کام تھا نہ کہ افراد۔ جو شخص کسی کام کو اچھی طرح سے سرانجام دے سکتا ہو، اس کا انتخاب کرلینا چاہیے خواہ اس سے آپ کا تعارف ہو یا نہ ہو۔ تعلقات، جذبات اور ذاتی مصلحتیں تو بدلتی رہتی ہیں مگر اقدار اپنی جگہ قائم رہتی ہیں۔ اسلام میں بنیادی قدر یہ ہے کہ کسی شخص کو ذمہ داری سونپتے وقت اس کی قابلیت اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے اس کی خدمات کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ یہ اصول اپنانے سے معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور کوئی کدورت پیدا نہیں ہوتی۔ ذاتی تعلقات کا انکار نہیں کیا جاسکتا مگر دیرپا چیز انسان کے اعمال اور کردار ہیں۔ جنہیں ہم گمنام سمجھتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک قابلِ قدر ہوتے ہیں۔

نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کا ایک ایلچی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے لوگوں کے حالات پوچھے۔ اس نے کہا: ’’فلاں فلاں تو شہید ہوگئے ہیں اور بہت سے دوسرے بھی میدان میں کام آگئے ہیں جن کو ہم نہیں جانتے۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’تم جانو یا نہ جانو، اللہ تو جانتا ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ کی راہ میں کام کرنے والے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ بھی ہوں تو انہیں کوئی غم نہیں ہوتا اور نہ اس گمنامی سے انہیں کوئی نقصان ہی پہنچتا ہے۔

حقیقت میں انسانوں کی قدرو قیمت اللہ کی نظروں میں ہونی چاہیے اور وہ سب کچھ جانتا ہے۔ مخلوق کے علم میں کسی کے کارنامے آبھی جائیں تو اس سے اس کی قدرو قیمت میں اضافہ نہیں ہوسکتا اور چھپے رہیں تو اس سے اس کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔ کتنے ہی گمنام مخلص لوگ ہوتے ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے اور جسم گرد آلود نظر آتے ہیں۔ لوگوں کی نگاہوں میں ان کی کوئی قدر نہیں ہوتی مگر اللہ کے ہاں ان کا یہ مقام ہوتا ہے کہ اگر وہ قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو جھوٹا نہیں ہونے دیتا۔

میں اگر یہ کہوں کہ دنیا بھر میں گمنام سپاہی کا جو تصور پایا جاتا ہے، اس کی بنیادی فکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دی تھی تو اس میں مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے اعمال کو دیکھتے تھے، بے شک وہ غیر معروف ہی کیوں نہ ہوں۔

انسانی قدرو قیمت کے پیمانے

انسانوں کی قدرو قیمت کا تعین کرنے کے لیے ہر شخص اور ہر نظام کے اپنے اپنے پیمانے ہوتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک پیمانہ یہ تھا کہ کسی شخص نے امتِ مسلمہ کے لیے کیا خدمات پیش کی ہیں۔ اس معاملے میں آپ رضی اللہ عنہ نے اتنا عظیم الشان معیار قائم کیا کہ اس کی بدولت تمام لوگوں کو ان کا جائز مقام و مرتبہ بھی ملا اور ان کے دل بھی سکون سے مالا مال ہوئے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں عمرو بن طفیل رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے۔ ان کا ایک ہاتھ یمامہ کی جنگ میں کٹ گیا تھا۔ مجلس کے دوران کھانے کا وقت ہوا تو حاضرین کے لیے دستر خوان بچھ گیا اور کھانا چن دیا گیا۔ حضرت عمرو بن طفیل رضی اللہ عنہ ایک جانب ہٹ کر بیٹھ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو ان سے کہا:’’شاید آپ اپنے ہاتھ کی وجہ سے الگ جا بیٹھے ہیں؟‘‘ عمرو رضی اللہ عنہنے جواب دیا: ’’جی ہاں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر فرمایا:

’’خدا کی قسم میں اس وقت تک یہ کھانا نہیں چکھوں گا، جب تک تم اپنے ہاتھ سے اس کو تہہ و بالا نہ کردو۔ حاضرین میں سے تمھارے سوا کوئی بھی ایسا نہیں جس کے جسم کا کوئی حصہ جنت میں پہنچ چکا ہو۔‘‘

حضرت عمرو بن طفیل رضی اللہ عنہ پتہ نہیں کیوں دستر خوان سے دور جا بیٹھے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بھلا کون ان سے کراہت محسوس کرسکتا تھا۔ وہاں تو اپنے مقدس فریضوں کو ادا کرنے کے دوران زخم کھانے والوں کی انتہائی قدر کی جاتی تھی۔ یہ ایک بے نظیر مثال تھی جو انسانوں کو قربانی پر ابھارتی اور ان سے کارہائے نمایاں سرانجام دلواتی تھی۔ جس کے جسم کا کوئی حصہ راہِ خدا میں کام آجاتا تھا، اسے حقارت سے دیکھنے کی بجائے نہایت احترام کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قائم کیے ہوئے یہ سنگِ میل آج بھی بڑا وزن رکھتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کی نفسیات سے خوب واقف تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ ایسے طریقے سے علاج کرتے تھے جو فائدہ مند ہو اور ان چیزوں سے اجتناب برتتے تھے جو لوگوں کے لیے مضر ثابت ہوسکتی تھیں۔ آپ کا طریقہ علاج ایسا کامل تھا کہ مذموم عادتیں ترک کردی جاتی تھیں اور اوصافِ حمیدہ غالب آجاتے تھے۔ ہوا و ہوس کے جذبات دب جاتے تھے اور للہیت پروان چڑھتی تھی۔

مجاہدؒ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے امیرالمومنین کی خدمت میں خط لکھا اور پوچھا: ’’اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے جو نافرمانی کی خواہش بھی نہیں رکھتا اور اس کا ارتکاب بھی نہیں کرتا؟‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہنے اس کے جواب میں لکھا: ’’جو لوگ نافرمانی کی خواہش رکھنے کے باوجود اللہ کے خوف کی وجہ سے اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں انہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے چن لیا ہے۔‘‘

لوگوں کی اکثریت خواہشاتِ نفس کی غلامی اختیار کرلیتی ہے۔ بہت کم لوگ نفس کے دھوکے اور شیطان کے ورغلانے کو سمجھتے اور اپنامناسب دفاع کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی توفیق سے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسے لوگوں کو بشارت دیا کرتے تھےکہ ان کے رب کے ہاں ان کے لیے بلند درجات ہیں۔ آپ انہیں ترغیب دلاتے کہ وہ اس کٹھن راستے پر ثابت قدمی اور دوام کےساتھ چلتے رہیں اور متزلزل لوگوں کو آپ رضی اللہ عنہ غیرت دلایا کرتے تھے کہ وہ برائی کی ترغیبات میں آنے کی بجائے اپنے ایمان اور پاکیزگی پر ڈٹ جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کے اس قول سے یہ مفہوم سمجھا تھا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

’’جو شخص کسی حرام کام کو کرنے کی قدرت رکھتا ہو مگر اسے اللہ کے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس دنیا میں اس شخص کو حلال طریقے سے اس حرام چیز سے زیادہ بہتر چیز عطا فرمادیتا ہے اور آخرت کا ثواب تو بدرجہا اعلیٰ و ارفع ہے۔‘‘

قربانیاں دینے والے دلوں میں زندہ رہیں

انسانی زندگی میں اخلاص اور باہمی محبت و مؤدت کا بڑا مقام ہے۔ انسانوں کی قدرو قیمت اور ان کے کارناموں کی تحسین وہی کرسکتے ہیں جو حساس ذہن اور درد مند دل رکھتے ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کو مشہور سپہ سالار اور صحابی رسول ﷺ حضرت نعمان رضی اللہ عنہبن مقرن کی شہادت کی اطلاع ملی تو آپ کو بڑا صدمہ پہنچا۔ نعمان رضی اللہ عنہ کی خدمات اور دشمنوں کے مقابلے پر قابلِ فخر کارنامے ان کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ وہ مسجدِ نبوی میں منبرِ رسول پر چڑھے، آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے اور چہرے سے غم اور حزن نمایاں تھا۔ دیکھنے والے بھی رونے لگے اور مسجد نبوی میں موجود ہر شخص اشک بار ہوگیا۔

بظاہر یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے جسے عمر رضی اللہ عنہ کے سیرت نگاروں نے لکھا ہے مگر اس کے پیچھے ایک بہت بڑی حقیقت جلوہ گر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دنیا کو بتادیا کہ کارنامے سرانجام دینے والے سربکف مجاہدوں کو محض الفاظ کا خراج یا کسی انعام و اکرام اور تمغے کا اعزاز ان کی خدمات کا حقیقی اعتراف نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کے لیے دل میں مقام و مرتبہ ہونا چاہیے۔ موت اور قبر کی مٹی کی تہیں انہیں ظاہری طور پر توہم سے دور کردیتی ہیں مگر ہمارے دلوں میں وہ زندہ رہتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کے ساتھ ان کے ماتحتوں کا معاملہ رسمی نہیں ہوتا بلکہ براہِ راست دلوں سے دل جڑے ہوتے ہیں۔

ادائیگی فرض کا لطف اور جوابدہی کا احساس

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بطور حاکم اپنے فرائض کی ادائیگی میں سرگرم عمل رہتے تھے۔ بہت سے نیک نفس حکمران اور بھی ہیں جو اپنے واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کرتے تھے اور آج بھی اگر کوئی حکمران سنجیدگی سے کمرِ ہمت باندھ لے تو یہ کام کرسکتا ہے مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس معاملے میں کمال یہ ہے کہ وہ ان فرائض کی ادائیگی میں لطف محسوس کرتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ عبادت کا حصہ تھا۔ رعایا کے لیے جذباتِ محبت اور نیکی کے کاموں کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہنا، ان کی شان تھی۔ انھوں نے خلافت کا بھاری بوجھ جس کے اٹھانے سے پہاڑ عاجز تھے، اٹھایا اور اس کا حق ادا کردیا۔ اس بوجھ کے باوجود وہ دوسروں کا بوجھ کم کرنے اور اپنے اوپر زیادہ بوجھ لادنے کی فکر میں رہتے تھے۔ حقداروں کے پاس پہنچ کر ان کا حق ادا کیا کرتے تھے۔ وہ راتوں کو گلی کوچوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے حالات معلوم کرتے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے کندھوں پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود رجسٹر اٹھائے بنو خزاعہ کے پاس قدید پہنچے اور ان کے وظیفے انہیں دیتے ہوئے فرمایا: ’’یہ ان کا حق ہے۔ انہیں اپنا یہ حق وصول کرکے اتنی خوشی نہیں ہوئی ہوگی جتنی خوشی مجھے ادا کرکے ہورہی ہے۔ تم لوگ میری تعریف نہ کرو۔ میں نے کیا تیر مارا ہے بس اپنا فرض ادا کیا ہے۔‘‘

یہ عظمتِ کردار کہاں مل سکتی ہے؟ سربراہِ مملکت اپنی پیٹھ پر سامان لادے لوگوں تک پہنچتا ہے اور نہ کوئی اعلان ہوتا ہے اور نہ تشہیر، نہ سپاسنامہ اور نہ قصیدہ خوانی۔ وہ اللہ کے سامنے حاضری اور جوابدہی کے احساس سے مالا مال تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ بندوں کے معاملے میں اللہ نے ان پر کیا کچھ واجب کررکھا ہے۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ حقدار بے چارے جوتیاں چٹخاتے رہتے ہیں اور پوری زندگی اپنے جائز حقوق کے حصول اور داد رسی کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ کبھی کوئی حق مل جاتا ہے ورنہ اکثر ان لوگوں کے حصے میں حرماں نصیبی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ حکومتی اداروں کو چلانے والوں کے دلوں میں اگر خوفِ خدا پیدا ہوجائے تو ہر حقدار کو اس کا حق مل سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اس کاجواب آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ حقیقت واضح ہے کہ خدا کا خوف دلوں میں نہیں ہے مگر اس کا اظہار کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ ’’نازک مزاجِ شاہاں تابِ سخن ندارد۔‘‘

وقت: ایک قیمتی اثاثہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی رعایا کے ہر معاملے میں اسی طرح دلچسپی لیتے تھے، جس طرح والدین اپنی اولاد کے جملہ امور کی نگرانی کرتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ لوگ اپنے وقت کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ کبھی آپ رضی اللہ عنہ انہیں پیار محبت سے سمجھاتے اور کبھی درہ لہرا کر انہیں تاکید کرتے تھے۔ رات کو دیر تک جاگتے رہنا آپ کو ناپسند تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ جلد سونے کی عادت ڈالیں تاکہ جلد اٹھ سکیں اور اگر توفیق مل جائے تو تہجد کی سعادت حاصل کرسکیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فضول کاموں اور عبث باتوں کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ وقت بہت قیمتی متاع ہے اور کام بے شمار ہیں جن کی تکمیل کے لیے وقت کا ایک ایک لمحہ احتیاط سے استعمال میں لانا چاہیے۔ اگر لوگ عشاء کی نماز کے بعد کہانی قصے سننے سنانے کے لیے بیٹھ جاتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سخت ناگوار گزرتا۔ آپ رضی اللہ عنہ انہیں سرزنش فرماتے اور کہتے: ’’پہلی رات کہانی قصوں کی نذر کردیتے ہو اور پچھلی رات لمبی تان کر سوجاتے ہو۔ عشاء کے بعدکراماً کاتبین کو بھی ذرا آرام کرنے دیا کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ کائنات میں بڑی حکمت اور اپنے بندوں کے مفادکو ملحوظ رکھا ہے۔ وہ بندوں کے نفع و نقصان کو خوب جانتا ہے۔ اس نے دن کو کام کاج اور تلاشِ معاش کے لیے اور رات کو آرام و راحت کے لیے پیدا کیا ہے۔ رات کو جلد سوجانے والا شخص اگلے دن اپنے کاموں میں پوری چستی اور نشاط کے ساتھ علی الصباح مشغول ہوجاتا ہے۔ نہ اس پر سستی اور کاہلی کا غلبہ ہوتا ہے اور نہ وہ اونگھتا ہے۔ راتوں کو لمبی محفلیں جماکر بیٹھے رہنا انسان کے لیے ہر لحاظ سے نقصان دہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ عشاء کی نماز سے قبل سونے اور عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند فرمایا کرتے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب لوگوں کو یہ حکم دیا کہ رات کو جلد سوجایاکریں تو ان کے پیش نظر یہی حدیث رسول اور حکم ربانی تھا جو سورۃ المزمل کی آیت6 میں دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:’’بے شک (پچھلی) رات کو اٹھنا (اور عبادت میں مصروف ہوجانا) نفس امارہ کو کچلنے اور صحیح اور سچی بات کہنے کی عادت ڈالنے کے لیے بہت مفید ہے۔‘‘

رات کی خاموشی اور تنہائی میں اللہ کی اطاعت و عبادت کا جو لطف آتا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ سکونِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ خاموش فضا میں دل و دماغ، آنکھیں اور کان، سوچ اور دھڑکن ہر چیز اللہ کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ رات کی سیاہ زلفیں خشوع و خضوع سے دل کو بھردیتی ہے اور رکوع و سجود، قیام و قعود، دعا و مناجات، ہر مرحلہ کیف و سرور سے مالا مال کردیتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نوجوانوں کے اندر قوت و صحت اور زندگی و مردانگی کے آثار دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم نوجوان ظاہرو باطن ہر لحاظ سے اسلام کی شوکت و قوت کا مظہر بن جائیں۔ ایک نوجوان کو مریل چال چلتے ہوتے دیکھا تو پوچھا: ’’کیا تم بیمار ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں، امیرالمومنین میں بالکل تندرست ہوں۔‘‘ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے درہ لہرایا اور فرمایا: ’’پھر یہ مردنی تم پر کیوں چھائی ہوئی ہے۔ جوانمردوں کی طرح چلو۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی رعایا کے ہر خاص و عام کو تذکیر و نصیحت کرتے رہتے تھے۔ امہات المومنین رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھاتے ہوئے سورہ احزاب کی تلاوت کی اور ان آیات پر پہنچے جن میں رب العزت نے آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کو یا نساء النبی کہہ کر خطاب کیا ہے تو آواز بلند ہوگئی۔ نماز کے بعد لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ امہات المومنین رضی اللہ عنھن کو وہ عہد یاد دلانا مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے خصوصی طور پر نازل فرمایا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں تذکیر اور یاددہانی سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ تذکیر کا اہلِ ایمان کو فائدہ ہوتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

’’نصیحت کیا کرو۔ بے شک نصیحت سے اہلِ ایمان کو نفع پہنچتا ہے۔‘‘

(الذاریات :55)

دینِ اسلام کی وسیع الظرفی

دین آسانی کا داعی ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کے لیے تنگی پیدا کرنا نہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وضوکرنا چاہا مگر کہیں سے پانی نہ مل سکا۔ ایک عیسائی عورت کے پاس پانی تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے بلا کراہت اس کے گھڑے میں سے پانی لیا اور وضو کرلیا۔ اس نصرانی عورت پر امیرالمومنین کے اس عمل کا بڑا مثبت اثر پڑا۔ اس نے سوچا کہ امیرالمومنین نے اسے نصرانی ہونے کی وجہ سے نجس اور ناپاک نہیں سمجھا اور نہ اس کے بارے میں کوئی مذہبی تنگ نظری اور تعصب ہی دکھایا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بعض شعبوں میں مسلمان افسروں کے ساتھ عیسائی اور یہودی افسروں کو بھی ذمہ داریاں سونپ دیا کرتے تھے۔ خصوصاً جبکہ اس خاص شعبے کے لیے مسلمانوں کے اندر موزوں افراد نہ مل سکتے ہوں۔ یہ عہدے عموماً مالیات کے شعبے میں ہوتے تھے البتہ انتظامی اور کلیدی مناصب پر مسلمانوں ہی کو متعین کیا جاتا تھا۔ صحیح مسلم میں ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی ذمیوں سے سرکاری خدمات لی جاسکتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو یزید طائی کو اپنی قوم کے صدقات اور زکوٰۃ وصول کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی حالانکہ وہ عیسائی تھا۔

لا یعنی مباحث سے اجتناب

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فضول کاموں اور لغو مشغلوں کو ہرگز پسند نہ کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ ہر اس کام کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے جو مفید اور نتیجہ خیزہو جبکہ لا یعنی افعال پر سرزنش فرمایا کرتے تھے۔ مسلمان کی زندگی بامقصد ہے، اس لیے اس کا کوئی لمحہ بھی بلامقصد نہیں گزرنا چاہیے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ عراق سے ایک شخص مدینہ آیا ہے جو قرآن مجید کے متشابہات کے بارے میں سوال جواب کی محفلیں سجاتا ہےاور لوگوں کے ذہن ان مباحث کے نتیجے میں پراگندہ ہورہے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے منع کیا مگر اس نے اپنا مشغلہ جاری رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے پاس بلایا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کھجور کی دو تازہ چھڑیاں تیارکرلیں۔ وہ آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا:’’تم کون ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’میں اللہ کا بندہ ہوں اور میرا نام صبیغ بن غسل ہے۔ ‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں اللہ کا بندہ عمر بن خطاب ہوں۔‘‘ پھر چھڑی اٹھائی اور اس کی خوب مرمت کی۔ اس نے مار کھانے کے بعد کہا: ’’امیرالمومنین! اب بس کیجئے۔ میرے سر میں جو خناس تھا، اب نکل گیا ہے۔ میں اب ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے مدینہ سے جلاوطن کرکے بصرہ بھیج دیا۔

آج امتِ مسلمہ کا حال ملاحظہ کیجیے۔ آزادیٔ فکر کے نام پر کئی نام نہاد مفکرین لوگوں کے ایمان و عقیدہ پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ یہ چبا چباکرباتیں کرنے والے فلاسفر اور ادبا بڑی عیاری سے ہماری ایمانی بنیادوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ ایسے ایسے مباحث میں نوجوانوں کو الجھاتے ہیں، جن سے ان کا ایمان متزلزل ہوجائے۔ ان لوگوں کو کھلی چھٹی ہے۔ نہ ان پر قدغن ہے، نہ ان کی ہرزہ سرائی پر پابندی، یہ صورتِ حال اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

خلاصۂ کلام

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کا مکمل احاطہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کر دکھایا وہ آپ رضی اللہ عنہ کے سوا کسی دوسرے کے بس میں نہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے امتِ مسلمہ کی خوش بختی اور کامیابی کا ایسا انتظام کیا تھا جو تاریخ انسانی میں ہمیشہ یاد گار رہے گا۔ اس عظیم مقام کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی انکساری کا یہ عالم تھا کہ اکثر کہا کرتے تھے:

’’کاش! میرے کندھوں پر یہ بوجھ نہ ڈالا جاتا۔‘‘

کبھی کبھار آپ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا: ’’اے کاش میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا۔‘‘

آپ احکم الحاکمین کے سامنے روزِ حشر کی حاضری کے تصور ہی سے کانپ اٹھتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا:

’’خلافت کی ذمہ داری اٹھانا میرے نزدیک اتنا مشکل اور کٹھن کام ہے کہ اگر کوئی میری گردن مار دیتا تو اس بوجھ کے مقابلے میں میرے لیے وہ آسان ہوتا۔‘‘ شہادت کے وقت فرمایا:

’’جو بھی میرے بعد خلیفہ مقرر ہوجائے، وہ جان لے کہ اس خلافت کے کام میں شدت کی ضرورت ہے مگر اس شدت میں جبروت نہیں ہونی چاہیے اوراس کام میں نرمی کی ضرورت ہے مگر اس نرمی میں کمزوری کا اظہارنہیں ہونا چاہیے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک حکمران کے طور پر ایسا مکمل نمونہ پیش کیا کہ آج تک آپ رضی اللہ عنہ منصف حکمرانوں کے لیے قابلِ تقلید اسوہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی بے پناہ نعمتوں سے نوازا تھا۔

وہ اسی خاک اور مٹی سے پیدا ہوئے تھے مگر ان کی روح بہت عظیم، جامع اور کامل تھی۔ ہمارے لیے آپ رضی اللہ عنہ کی سیرت میں تربیت اور درس و عبرت کے بے شمار پہلو ہیں۔ وہ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے تھے اور اللہ نے ایسے ہی لوگوں کی اقتداء کا حکم دیا ہے۔