اسلام ایک جامع دین ہے جو انسان کی انفرادی و اجتماعی، ظاہری و باطنی، جسمانی و روحانی، ہر پہلو کی تربیت کرتا ہے۔ اس دینِ فطرت کے عظیم شعائر میں "حج" اور "قربانی" کو خاص مقام حاصل ہے۔ یہ دونوں عبادات نہ صرف اللہ تعالیٰ سے بندگی کا عہد ہیں بلکہ وہ روحانی اسباق بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں جو آج کے انسان کو تزکیۂ نفس، ایثار، قربانی، مساوات، اخوت اور خدمتِ خلق کا پیغام دیتے ہیں۔ عصر حاضر میں جب مادّہ پرستی، خودغرضی، نفسانفسی اور اجتماعی بے حسی کا غلبہ ہے، حج اور قربانی کی روح کو از سر نو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیسے حج اور قربانی کی اصل روح تزکیۂ نفس اور خدمتِ خلق ہے۔
حج کا مفہوم و اہمیت
حج كا لغوی معنى ارادہ کرنا ہے، اور اصطلاح میں اس کا معنی ہے:
هو عبارة عن الأفعال المخصوصة من الطواف والوقوف في وقته محرما بنية الحج سابقا.
(الفتاوی الہندیہ، 1: 216)
حج: مخصوص افعال مثلا طواف اور وقوف اپنے وقت میں بحالت احرام پہلے سے حج کی نیت سے ادا کرنے سے عبارت ہے۔
حج ارکان اسلام میں سے ایک بنیادی رکن ہے۔ اُمت مسلمہ پر اس کی فرضیت اللہ تعالی کے اس فرمان سے ثابت ہے:
وَ لِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا.
(آل عمران، 3: 97)
اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔
گویا حج ہر اس شخص پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے جو صاحبِ استطاعت ہو۔ صاحبِ استطاعت ہونے سے مراد ہے جو سفری اخراجات برداشت کر سکتا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لئے بھی اتنا مال ومتاع رکھتا ہو کہ اس کے ادائیگی حج پر جانے کے بعد وہ کسی کے دست نگر نہ ہوں، اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی صحت بھی اس قابل ہو کہ وہ سفر اور مناسک حج کی تکالیف کو جھیل سکتا ہو۔
حج کی فضیلت و اہمیت پر بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں، جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حج مبرور کو فضیلت والے اعمال میں سے ایک شمار کیا ہے، اور اس کی جزا جنت کو قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو رضائے الٰہی کے لئے حج کرے جس میں نہ کوئی بے ہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب، وہ حج کر کے ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہو۔
حج کی مشروعیت پر اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت ہم پر آشکار ہو گی کہ یہ محض ایک سفر یا رسمی عبادت نہیں بلکہ یہ ایک جامع تربیت گاہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰی كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ.
(الحج، 22: 27)
’’اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو وہ تمہارے پاس پیدل اور تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہو جائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے ہیں۔ ‘‘
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ حج انسانیت کے ہر طبقے کو ایک مرکز پر اکٹھا کرتا ہے، جہاں کوئی امیر و غریب، عربی و عجمی، کالا و گورا نہیں بلکہ سب اللہ کے بندے ہوتے ہیں۔ حج میں احرام باندھنا، دنیاوی لباس سے دستبرداری، نفسانی خواہشات کی قربانی اور طواف و سعی جیسے اعمال دراصل نفس کی تطہیر کا ذریعہ بنتے ہیں۔
اگر حج کے پورے عمل کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا سارے کا سارے عمل تزکیۂ نفس اور خدمتِ خلق پر منتج ہوتا ہے۔ حج کے لئے دیگر عبادات کی بہ نسبت جگہ کو متعین کر دیا گیا۔ دیگر عبادات ہم کسی بھی جگہ پر ادا کر سکتے ہیں، مثلاً: نماز کسی بھی پاک زمین پر ادا کر سکتے ہیں، اسی طرح روزہ کہیں بھی رکھا جا سکتا، زکوۃ کہیں بھی دی جا سکتی ہے، صدقہ و خیرات کہیں بھی دیے جا سکتے ہیں، لیکن حج ایک مخصوص جگہ کے علاوہ کہیں بھی ادا نہیں کیا جا سکتا، اس کے مناسک کے لیے چند مقامات مخصوص ہیں، یہ وہیں ادا ہوتے ہیں کسی اور جگہ ادا نہیں ہو سکتے۔
حج: تزکیہ و تطہیرِ نفس کا ذریعہ
جب یہ بات ہم نے سمجھ لی تو اس میں نفس کی تطہیر کا پہلو بھی آسانی سے سمجھ آ جائے گا۔ وہ اس طرح کہ نفس انسانی جس جگہ رہ رہا ہو، وہ اس سے مانوس ہوتا ہے لیکن حج جیسی عبادت کے لئے انسان کو اپنا وطن مالوف چھوڑنا پڑتا ہے، نہ صرف وطن مالوف بلکہ اپنے اہل وعیال، اپنے اعزا و اقارب، اپنے دوست احباب، اپنا گھر بار، اپنا کاروبار سب کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خاطر چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس سے انسان کو دائمی طور پر اس دنیا کو چھوڑنے کا بھی خیال آتا ہے کہ جب وہ ان سب مانوس چیزوں کو چھوڑ کر راہی ملک عدم ہو جائے گا۔
اسی طرح جب بندہ میقات پر پہنچتا ہے تو علاقائی زرق برق اور قیمتی لباس اتار کر دو سفید کپڑے (احرام) پہن لیتا ہے، اس سے اسے سادگی اور مساوات کا درس میسر آتا ہے، اس کے علاوہ مرنے کے بعد کفن پہنائے جانے کا خیال دل میں جاگزیں ہوتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا: "محرم کون سا لباس نہ پہنے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ وَلَا الْعِمَامَةَ وَلَا السَّرَاوِيلَ وَلَا الْبُرْنُسَ...
(صحیح البخاري، 1: 228، رقم: 131)
’’’قمیص، عمامہ، پاجامہ، شلوار اور موزے نہ پہنے۔ ‘‘
ایک بدو سے آپ ﷺ نے فرمایا:
أَمَّا الطِّيبُ الَّذِي بِكَ فَاغْسِلْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَمَّا الْجُبَّةُ فَانْزِعْهَا.
’’جو خوشبو تمہارے جسم پر ہے، اسے تین بار دھو ڈالو، اور جو جبہ ہے اسے اتار دو۔ ‘‘
ان احادیث سے جہاں ہمیں احرام کے بارے میں کئی فقہی احکام کا پتا چلتا ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ احرام کی حالت دراصل عبادت کی اعلیٰ ترین کیفیت ہے جس میں بندہ اپنی دنیاوی حیثیت، شان، اور زیب و زینت کو ترک کر کے خالص عبدیت کی طرف لوٹتا ہے۔ یہ لباس اور خوشبو کی ممانعت باطنی خشوع کے ظاہری اظہار کے لیے ہے۔ انسان جب لباسِ فخر و تفاخر چھوڑ کر سادہ دو چادروں میں آ جائے تو تذلل اور خضوع پیدا ہوتا ہے۔
ان احکام کی بعض تفصیلات عقل کو بظاہر غیر منطقی لگ سکتی ہیں، لیکن ان کا مقصد صرف اللہ کے حکم کی تعمیل اور بندگی کا اظہار ہے۔
جیسا کہ امام غزالی نے فرمایا: ’’ایسے اعمال جن کی علت سمجھ میں نہ آئے، وہ بندگی کی اصل روح کو نمایاں کرتے ہیں۔ ‘‘
لباس، خوشبو، زیب و زینت ترک کرنا دراصل دنیاوی وابستگیوں سے نجات کی عملی تربیت ہے، جو تزکیۂ نفس کا اہم ذریعہ ہے۔ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج و عمرہ محض ظاہری اعمال نہیں، بلکہ ان کے پیچھے ایک گہری روحانی تربیت ہے۔ احرام کی حالت میں لباس و خوشبو کی ممانعت ہمیں بندگی، عاجزی، اور دنیا سے بے نیازی کا سبق دیتی ہے، اور اللہ کے حکم کے سامنے عقل کو سرنگوں کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔
’’شاہ ولی اللہ دہلوی، حجة الله البالغة (2: 91) میں لکھتے ہیں: ’’حج و عمرہ کا احرام نماز میں تکبیر کے مثل ہے، جس میں اخلاص، تعظیم اور نیت کی مضبوطی کا ظاہری اظہار ہوتا ہے۔ اس میں عادتیں ترک کر کے اللہ کے حضور عاجزی اور خشیت ظاہر کی جاتی ہے۔ ‘‘
اس لیے احرام میں زینت، شکار اور دیگر معمولات زندگی سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے تاکہ دل میں اللہ کی عظمت کا احساس پیدا ہو اور نفس کی سرکشی کو قابو میں لایا جائے۔
احکامِ حج کی عقلی توجیہ ممکن نہیں
علاوہ ازیں حج کے بہت سارے مناسک ایسے ہیں جن کی عقلی توجیہ ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی ان کو بجا لانا مقبول حج کے لیے از حد ضروری ہے۔ یہ سب یا تو اس لیے کہ اللہ کے پیاروں کی ادائیں دوہرائی جاتی رہیں یا یہ نفسِ انسانی کی تربیت ہے کہ جو بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہو، اسے بلا چون و چرا پورا کیا جائے اس میں خیر ہی خیر ہے خواہ وہ عقل میں آنےوالی شے ہو یا ماورا عقل شے ہو۔ جیسا کہ حاجی بیت اللہ کے گرد دیوانہ وار چکر لگاتا ہے۔ عقل اس سے اس کی وجہ پوچھتی ہے۔۔۔ وہ تلبیہ کہتا ہے: ’’لبیک اللهم لبیک...‘‘ اور بلند آواز سے دہراتا ہے۔ عقل کہتی ہے: ’’چیخنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘۔۔۔ پھر جب خانہ کعبہ پر نظر پڑتی ہے، تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ عقل کہتی ہے: ’’رونے کی کیا بات ہے؟‘‘۔۔۔ پھر وہ مزدلفہ سے منیٰ واپس آتا ہے اور جمرات کو کنکریاں مارتا ہے، تو عقل کہتی ہے: ’’کیا تمہیں جنون ہو گیا ہے؟ ان بے جان پتھروں کو کیوں مار رہے ہو۔۔۔ ؟‘‘ لیکن ان سب سوالوں کا جواب دینے سے عقل عاجز ہے۔ فقط یہ بات کہ ان اعمال کی انجام دہی کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ ان اعمال کی انجام دہی سے انسان احکامِ الٰہیہ کی ہر حال میں پابندی اور اُس کے حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا سیکھتا ہے۔
امام غزالی احیاء علوم الدین (1: 215) میں کہتے ہیں: ’’رمی جمار جیسا عمل صرف بندگی کے اظہار کے لیے ہے۔ چونکہ اس کا کوئی عقلی مفہوم نہیں، اس لیے اس میں صرف اللہ کے حکم کی تعمیل مقصود ہے۔ عقل اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ یہی خالص بندگی ہے۔ ‘‘
اسی لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لبیک بحجة حقًا تعبّدًا ورقًّا
(المغني عن حمل الأسفار، 1: 165)
یعنی: میں حاضر ہوں، حج کے لیے، حق کے ساتھ، عبادت و بندگی کے طور پر۔
یہاں حضور نبی اکرم ﷺ نے تلبیہ میں حج کی روح اور نیت کو واضح فرمایا کہ حج صرف ایک جسمانی سفر یا مذہبی رسم نہیں، بلکہ یہ اللہ کے لیے ایک سچا، خالص، عاجزانہ اور عبادت بھرا عمل ہے۔ انسان حج میں اپنی خودی، غرور اور دنیاوی وابستگیوں کو چھوڑ کر مکمل طور پر اللہ کے حضور حاضر ہوتا ہے، جیسے ایک بندہ اپنے آقا کے دربار میں عاجزی سے حاضر ہوتا ہے۔
سو حج ایک عظیم عبادت ہے جس کے ہر پہلو میں گہرے روحانی اور اجتماعی معانی پوشیدہ ہیں۔ حج کے مختلف مناسک جیسے طواف، صفا و مروہ کی سعی، منیٰ، عرفات اور مزدلفہ کی طرف جانا یہ سب اعمال انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں، گو کہ عقلِ محض ان کے اسرار کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتی۔
یہ مناسک دراصل انسان کو نفس کی سرکشی سے بچانے، اس کی خواہشات پر قابو پانے اور دل کو اللہ کی محبت و بندگی سے منور کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ حاجی جب ان اعمال کو انجام دیتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے رب کے حضور جھکتا ہے بلکہ اپنی ذات، غرور اور خواہشات کو بھی فنا کرتا ہے۔
مزید برآں، حج ایک ایسا عالمی اجتماع ہے جہاں رنگ، نسل، زبان اور قومیت کے فرق مٹ جاتے ہیں۔ سب ایک ہی لباس میں، ایک ہی نیت کے ساتھ، ایک ہی رب کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں۔ یہ حج کا وہ پہلو ہے جو مساوات، اخوت اور اتحاد کا عملی مظہر ہےاور یہی وہ اقدار ہیں جن کی آج کی منتشر اور متعصب دنیا کو شدید ضرورت ہے۔
یوں حج صرف ایک عبادت ہی نہیں، بلکہ ایک جامع تربیت ہے جو انسان کے باطن کو پاک، معاشرت کو منظم اور امت کو متحد کرتی ہے۔
قربانی: مفہوم اور اہمیت
واجبات حج میں سے ایک قربانی بھی ہے جس کا کرنا ہر حاجی کے لئے ضروری ہے، اسی طرح امت مسلمہ کے ہر صاحبِ استطاعت فرد پر قربانی واجب ہے، قربانی کیا ہے ؟ امام راغب اصفہانی اس کی تعریف یوں کرتے ہیں:
القربان ما يتقرب به إلى الله وصار في التعارف اسما للنسيكة التي هي الذبيحة.
قربانی وہ چیز ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، اصطلاح شرع میں یہ قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے۔
اس تعریف سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی کا اصل مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے اور یہ محض ایک رسمی عمل نہیں بلکہ خلوص، تقویٰ اور اطاعت کا مظہر ہے۔ قرآن پاک میں قربانی کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالی نے ارشاد فرمایا:
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّیَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ.
(الحج، 22: 34)
’’اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اللہ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیں۔ ‘‘
یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت ہے جو خالص اطاعت و تسلیم کی علامت ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ.
(الصافات، 37: 103)
’’پھر جب دونوں (رضائے الٰہی کے سامنے) جھک گئے (یعنی دونوں نے مولا کے حکم کو تسلیم کرلیا) اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے پیشانی کے بل لِٹا دیا (اگلا منظر بیان نہیں فرمایا)۔ ‘‘
یہ آیت اطاعت و تسلیم کے اس مثالی اور بے نظیر منظر کو بیان کرتی ہے جہاں اللہ کے خلیل، حضرت ابراہیم علیہ السلام، اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ منظر صرف ایک والد کی طرف سے بیٹے کی قربانی کا واقعہ نہیں بلکہ ایمان، قربانی، وفاداری اور خالص بندگی کا اعلیٰ ترین مظاہرہ ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں اللہ کا حکم پایا اور بغیر کسی تردد کے اسے حقیقت میں بدلنے کے لیے کمربستہ ہو گئے، جبکہ حضرت اسماعیل، جو ابھی سنِ بلوغ کو ہی پہنچے تھے، بخوشی، بغیر کسی جھجک کے، اپنے آپ کو اللہ کے راستے میں پیش کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ انہوں نے عرض کیا:
یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ؗ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ.
(الصافات 37: 102)
ابّا جان! وہ کام (فوراً) کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
یہ صرف جسمانی قربانی کا واقعہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم تر حقیقت ہے۔ یہ قربانی جان سے بڑھ کر تھی، یہ نفس کی قربانی تھی، خواہشاتِ نفس کو اللہ کے حکم کے تابع کرنے کا مظاہرہ تھا اور دنیاوی محبتوں، خصوصاً اولاد کی محبت کو اللہ کی محبت پر قربان کرنے کا عملی اظہار تھا۔
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ قربانی صرف ذبح کا نام نہیں بلکہ دل کی وہ کیفیت ہے جہاں انسان اپنی تمام تر وابستگیوں کو اللہ کی رضا پر قربان کرنے کو تیار ہو جائے۔ یہی وہ حقیقی روحِ قربانی ہے جسے قرآن نے اس مثالی واقعے کے ذریعے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم.
(سنن الترمذی)
’’عید قربان کے دن آدمی کا سب سے محبوب عمل اللہ کے نزدیک خون بہانا ہے۔ ‘‘
یہ حدیث قربانی کے عمل کی فضیلت، عظمت اور روحانی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ عیدالاضحی کے دن جب مسلمان اللہ کے حکم کی تعمیل میں جانور قربان کرتے ہیں، تو یہ محض ایک رسم یا ثقافتی مظاہرہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے محبوب عبادت قرار دیا گیا ہے۔
قربانی: قربتِ الہٰی کا ذریعہ
قربانی کا مقصد صرف جانور ذبح کرنا نہیں، بلکہ یہ عمل انسان کو ایک عظیم پیغام دیتا ہے کہ جب اللہ کی رضا کا معاملہ درپیش ہو، تو انسان کو ہر چیز قربان کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ چاہے وہ مال ہو، جسے ہم اپنی محنت سے کماتے ہیں، یا وقت ہو، جو ہماری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے، یا پھر نفس کی خواہشات ہوں، جو اکثر ہمیں اللہ کی رضا سے دور لے جاتی ہیں۔
قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کی رضا سب سے مقدم ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سنت سے ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ قربانی کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایمان، اطاعت اور اخلاص ہی وہ بنیادی اصول ہیں جو ایک مؤمن کی زندگی کا رخ متعین کرتے ہیں۔
لہٰذا، قربانی کے عمل کو صرف ایک تہوار نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے اپنی روح کی تربیت، نفس کی اصلاح اور اللہ سے قربت کا ذریعہ بنایا جائے تاکہ ہم نہ صرف ظاہری طور پر، بلکہ باطنی طور پر بھی اس عظیم عبادت کا حق ادا کر سکیں اور اس کی روح تقوی کو پا سکیں، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْكُمْ.
الحج، 22: 37)
ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے
تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے۔
سو اسں ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حج اور قربانی کا سب سے اہم مقصد اپنی ہوائے نفس کو مارنا اور اسے ذبح کرنا ہے جسے تقوی کا نام دیا جاتا ہے، اور تقوی ہی اصل کامیابی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ. وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ.
(الشمس، 91: 9۔10)
بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔ اور بیشک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)
خلاصۂ کلام
حج کے تمام مناسک اور قربانی کا عمل، انسان کو اپنے نفس کا محاسبہ سکھاتے ہیں۔ وہ انا، غرور، لالچ، خود پسندی اور دنیاوی وابستگیوں کو چھوڑ کر اللہ کے قریب ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کہا جا تا ہےکہ حج ایک مدرسہ ہے اور قربانی اس کی عملی مشق۔ اگر ان دونوں عبادات سے انسان کا دل نہ بدلے تو وہ رسم تو ہوگی، روح نہیں۔
اسی طرح دین اسلام انفرادی عبادات کے ساتھ اجتماعی بھلائی پر بھی زور دیتا ہے۔ حج کے دوران اجتماعیت، قربانی کے گوشت کی تقسیم، حج کے سفر میں دوسروں کی مدد، یہ سب خدمت خلق کے جذبے کو جِلا دیتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
خَيرُ النَّاسِ أَنفَعُهُمْ لِلنَّاسِ.
(المعجم الاوسط)
’’بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو۔ ‘‘
قربانی کے گوشت کی تقسیم کا حکم بھی اسی خدمتِ خلق کا مظہر ہے:
فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ.
(الحج، 22: 36)
’’تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو (بھی) کھلاؤ۔۔ ‘‘
آج کے دور میں جب غربت، افلاس، بے حسی اور طبقاتی تقسیم عام ہے، قربانی کا یہ درس ہمیں غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کے ساتھ محبت، ایثار اور سخاوت کا رویہ اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔ آج کا انسان مادّہ پرستی، انانیت، اور روحانی خلا کا شکار ہے۔ ایسے میں حج اور قربانی جیسے شعائر ہمیں دوبارہ فطرت کی طرف بلاتے ہیں، جہاں ہم اپنے نفس کو قابو میں رکھ کر دوسروں کی بھلائی کے لیے جیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
دلِ مردہ دل نہیں ہے، اِسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمّتوں کے مرضِ کُہن کا چارہ
یعنی دل کی زندگی، تزکیہ نفس اور خدمتِ خلق میں ہے، اور یہی حج و قربانی کا حقیقی پیغام ہے۔ آج کے دور میں جب انسانیت مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، حج اور قربانی کی روح کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا از حد ضروری ہے۔ یہ عبادات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہم اللہ کی رضا کے لیے اپنی خواہشات کو قربان کریں اور دوسروں کی خدمت کریں۔ حج اور قربانی صرف عبادات نہیں بلکہ روحانی تربیت اور سماجی فلاح کے عظیم ذرائع ہیں۔ ان کی روح کو سمجھ کر عمل کرنا ہی ہمارے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔