اداریہ: اسلام میں انسانی حقوق کا تصور

چیف ایڈیٹر ماہنامہ منہاج القرآن

اسلام محض عبادات نہیں بلکہ حقوق العباد اور معاملات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ اللہ رب العزت نے سورہ البقرہ میں نیکی کی حقیقت کو اس طرح واضح کیا ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر اللہ کی کتاب پر، پیغمبروں پر ایمان لائے اور اللہ کی محبت میں اپنا مال قرابت داروں، یتیموں،محتاجوں، مسافروں اور غلاموں کو آزاد کروانے پر خرچ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز قائم کرے، زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کرے تو اُسے پورا کرے، سختی، تنگ دستی، مصیبت، بیماری، جنگ کی شدت کے وقت صبر کرے، یہ اعمال اور اخلاق و کردار اپنانے والے لوگ ہی سچے اور پرہیز گار ہیں۔ اللہ رب العزت کا یہ فرمان زندگی کا کوڈ آف کنڈکٹ ہے۔ اسی فرمانِ الہٰی میں جہاں بہت سارے حکم صادر فرمائے گئے ہیں وہاں وعدوں کو پورا کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے اور اپنے مال میں ضرورت مندوں اور مستحقین کو شامل کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ اسلام نے بنی نوع انسان کی عزت و تکریم پر جس قدر توجہ مرکوز کی ہے، کسی اور چیز پر نہیں کی۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی لاتعداد احادیث مبارکہ موجود ہیں کہ کسی کو ناحق تکلیف نہ دو، اذیت میں مبتلا نہ کرو، عزتِ نفس کو مجروح نہ کرو، جو وعدہ کرو، اُسے پورا کرو۔ ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طورپر منایا جاتا ہے۔ مقتدر حلقے سیاسی، سماجی تنظیمیں اور مختلف سماجی راہ نما اس دن مزدور کے حقوق اور وقار کی بات کرتے ہیں اور اس ضمن میں شکاگو کے مزدور مقتولین اور ان کی جدوجہد کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ شکاگو کے مزدوروں نے اپنے حقوق کے لئے جانوں کے نذرانے دئیے اور اس وقت کی سرمایہ دار سوچ سے کسی حد تک ریلیف حاصل کیا۔ مزدوروں کی اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی تحریک کی عمر 200 سال سے زیادہ پرانی نہیں ہے جبکہ اسلام نے 14 سو سال قبل جہاں ہر طبقہ کے حقوق و فرائض کا تعین کیا، وہاں مزدوروں کے لئے بھی ایک خصوصی چارٹر پیش کیا۔

اسلامی تعلیمات میں واضح احکامات دئیے گئے ہیں کہ جس سے جو وعدہ کرو اُسے پورا کرو اور کسی کی حق تلفی نہ کرو جبکہ آج صورت یہ ہے کہ آج یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اُنہیں کم سے کم معاوضہ ادا کر کے اپنا فائدہ حاصل کیا جائے اور اُن کی حق تلفی کی جائے۔ یہ رویہ بین الاقوامی قوانین، ملکی قوانین کے ساتھ ساتھ اسلام کے واضح احکامات کے بھی برخلاف ہے۔ کسی مزدور کا سب سے بڑا انسانی حق یہ ہے کہ اُسے اُس کی محنت کا بروقت اور پورا معاوضہ ادا کیا جائے۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ اسلام میں انسانی حقوق‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اسلامی فکر و عمل انسانی حقوق کو انسان کے اللہ تعالیٰ سے تعلق عبدیت کے نقطہ نظر سے دیکھتی ہے جبکہ انسانی حقوق کا مغربی تصور سیکولر ہے جو انسان کے بطور شہری ریاست سے تعلقات پر مبنی ہے، دونوں نقطہ ہائے نظر میں فرق یہ ہے کہ اسلام میں اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے جو تمام کائنات کا رب ہے اور اس کے احکام بلند و برتر اور اعلیٰ قانون کا درجہ رکھتے ہیں ‘‘۔

مغرب کا انسانی حقوق کا تصور فرد اور ریاست کے تعلقات پر منحصر ہے جبکہ اسلام کا انسانی حقوق کا تصور ریاست اور جغرافیے کی حدود و قیود سے بالاتر ہے۔ انسان جس علاقہ اور خطہ میں بھی ہے بطور انسان اس کے کچھ حقوق ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً کسی انسان کو ناحق قتل نہیں کیا جاسکتا، اُس کو بے توقیر نہیں کیا جا سکتا، چادر اور چار دیواری کا تحفظ دائمی اور غیر مشروط ہے۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مزید لکھتے ہیں:

’’عادلانہ اور منصفانہ معاشی نظام کے قیام کے لئے آجر و اجیر میں عدل و انصاف پر مبنی تعلقات کار ضروری ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے عدل و انصاف پر مبنی معاشی نظام کے اسی بنیادی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے مزدوروں کے حقوق کا تعین فرمایا اور انہیں ہر طرح کا معاشی تحفظ عطا کیا۔ قرآن حکیم کی تعلیمات کے مطابق معاشی تفاوت انسانی مساوات کی روح کو بے اثر نہیں کرسکتی بلکہ نفس واحدہ سے تخلیق پانے کے سبب تمام انسان مساوی عزت و تکریم کے حامل ہیں‘‘۔

اسلام کا تصورِ مساوات اسے باقی ادیان و مذاہب سے جدا اور بلند تر اخلاقی مقام عطا کرتا ہے۔ انسانی معاشروں میں یہ تو قابلِ قبول ہے کہ کوئی شخص اپنی ذاتی کاوش، خداداد صلاحیتوں سے زیادہ مال و دولت جمع کر لے مگر اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ بالادست اور مال دار طبقہ، کمزور طبقات کو نظر انداز کر دے اور اُسے روٹی، کپڑا، مکان، روزگار جیسے بنیادی حق سے محروم کر دے۔ بے شک اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے، رزق کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے، تنگ کر دیتا ہے یعنی رزق کی تنگی اور فراخی اللہ رب العزت کی قدرت میں آتی ہے تاہم کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کی حق تلفی کرے یا اُس کی تنگ دستی میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے۔

اسی طرح اسلام میں عورتوں اور بچوں سے مشقت کی ممانعت کی گئی ہے۔ بچے کسی بھی قوم کے مستقبل کا سرمایہ ہوتے ہیں اور خواتین معاشرہ کا ناقابلِ فراموش حصہ ہوتی ہیں۔ ان کی اچھی تعلیم و تربیت اچھے مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اکثر بچے، خاص طور پر گاؤں، دیہات میں، سکول نہیں بھیجے جاتے اور کسی چھوٹے موٹے کام پر لگا دیئے جاتے ہیں تاکہ ان کی تنخواہ یا دیہاڑی سے گھر کے خرچ میں مدد مل سکے۔ یہ سب وقتی طور پر کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے لیکن مستقبل میں اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کا فقدان ان میں احساسِ کمتری پیدا کرتا ہے۔ بہتر ماحول، معاشرہ میں باعزت مقام اور محبت نہ ملنے کی وجہ سے ان میں معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ سگریٹ نوشی، بدکلامی، خودغرضی، پیسے کی ہوس، غم و غصہ کے جذبات اور بڑے ہوکر سرمایہ دار سے مخالفت، دشمنی اور بدلہ لینے کی خواہشات ان کے کردار کو تباہ کردیتی ہیں۔ یہ تمام برائیاں اکثر ان سے بچپن میں مزدوری کرانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ لہذا بچوں سے محنت و مزدوری کروانے کو ممنوع قرار دینا اور ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا قوم و ملت کے لیے ضروری ہے۔ ایسا ہی کچھ حال خواتین سے مزدوری کروانے سے ہوتا ہے۔ کام پر جانے کی وجہ سے اکثر اوقات خواتین اپنے بچوں پر توجہ نہیں دے پاتیں،جس کے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

مزدوروں کے حقوق کا تحفظ افراد، طبقات اور اداروں کی ذمہ داری بھی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی ذمہ داری ریاست کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی طبقہ مزدور کے حقوق کو غصب نہ کر سکے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے اس حد تک واضح احکامات اور تعلیمات سے نوازا ہے کہ آپ ﷺ نے مزدور سے اُس کی مزدوری کے تعین سے قبل کام لینے سے منع فرمایا ہے۔ اسی طرح معروف احادیث مبارکہ ہیں کہ مزدور پر مزدوری کی ادائیگی کے حوالے سے ظلم کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور حکم دیا کہ مزدور کو مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس دنیا کی خوبصورتی اور تعمیر و ترقی کے سارے کھیل مزدور کی شبانہ روز محنت کے مرہون منت ہیں۔ اگر کسان گندم اگانا بند کر دے تو دنیا کی ایک بڑی آبادی بھوک کا شکار ہو جائے، مزدور ہاتھ روک لیں تو عالیشان گھروں کی تعمیر خواب بن کر رہ جائے۔ دنیا کے خوشحال ترین انسانوں کی خوشحالی محنت کش طبقہ کی خدمت کے مرہون منت ہے۔ ایک نہایت ایمان افروز حدیث مبارک ہے جسے پڑھ کر ہمیں اندازہ ہونا چاہیے کہ محنت کش کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہاں کیا عزت اور قدر و منزلت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جب کسی کا خادم اُس کے لئے کھانا تیار کرے پھر وہ کھانا لائے اور اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو تو اُسے اپنے ساتھ بٹھا لے کہ وہ بھی کھائے، اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے خادم کے ہاتھ پر ایک دو لقمے رکھ دے‘‘۔

یہ مزدور کی محنت کا اعتراف بھی ہے اور اس میں انسانیت کی تکریم کا سبق بھی ہے۔

اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(چیف ایڈیٹر: ماہنامہ منہاج القرآن)