آپ کے فقہی مسائل: دارالافتاء تحریک منہاج القرآن

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

دارالافتاء تحریک منہاج القرآن، زیرِ نگرانی: مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: کیا کاروبار کا نقصان حصہ دار کے ذمہ ڈالنا جائز ہے؟

جواب: کاروبار میں نفع ونقصان میں شراکت کے مطابق جیسا معاہدہ کیا جائے گا ویسا ہی اس کا حکم ہو گا۔ اگر پارٹنر کے ساتھ معاہدہ اس طرح طے ہوا تھا تو اس سے نقصان کا مطالبہ کر سکتے ہیں، وگرنہ نہیں۔ جس طرح منافع میں شراکت کا معاہدہ ہوتا ہے کہ کتنے فیصد منافع ملے گا، ویسے ہی نقصان میں بھی معاہدہ ہوتا ہے کہ حصہ دار نے نقصان کی صورت میں کتنے فیصد ادا کرنا ہے۔

سوال: کیا ادھار فروخت کرنے کی صورت میں زیادہ رقم وصول کرنا جائز ہے؟

جواب: اگر کسی چیز کی قیمت 900 روپے ہے تو اس کو ادھار دیتے وقت یہ طے کیا جائے کہ اس کی قیمت 1000 روپے ہوگی۔ ایسا کرنا جائز ہے۔ یعنی 900 روپے کسی کو ادھار دے کر 1000 روپے وصول نہیں کیے جا رہے ہیں بلکہ سودا طے پا رہا ہے کہ یہ چیز ہے اس کی قیمت بعد میں دی جائے گی مگر چیز ابھی وصول کی جائے گی۔ اس میں گاہک کے لیے آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے گاہک کی ایک حد تک ضرورت پوری ہوتی ہے۔ اصولاً سودا صحیح ہے۔ البتہ دوکاندار گاہک سے حسن سلوک اور رحمدلی و ہمدردی کے تحت کم سے کم نفع لے تو اسلامی سیرت سے قریب تر ہے۔ اس طرح سودا شرعاً جائز ہے، اس میں حرمت کی دلیل نہیں۔

سوال: شے کو دیکھے بغیر اس کی بیع کا کیا حکم ہے؟

جواب: شریعت مطہرہ کی رو سے آپ جو جنس خریدتے ہیں اس کا تعین کرنا ضروری ہے کہ آپ نے کون سی اور کتنی جنس خریدی ہے۔ جنس بےشک وہیں رکھی رہے مگر وہ آپ کے قبضے میں ہونی چاہیے، کہ آپ جب چاہیں اس کو مصرف میں لائیں، چاہیں بیچیں یا صدقہ کر سکیں۔ اس کی مقدار، قسم اور قیمت وغیرہ کا تعین واضح کرنا لازم ہے۔ صرف اسی صورت میں آپ اس کے نفع و نقصان کے مالک ہو سکتے ہیں۔ آپ کا دوست اس خرید و فروخت پر آپ سے اجرت وصول کرے یا نہ کرے، یہ اس کی مرضی اور صوابدید ہے۔ مگر جنس، اس کی مقدار، قسم اور قیمت کو معین کرنا ضروری ہے۔

سوال: کیا فکس منافع دینے والی کسی مسلم یا غیرمسلم کمپنی کو اپنی رقم کاروبار کے لیے دینا جائز ہے؟

جواب: فکس منافع دینے والی کمپنی کو اپنی رقم کاروبار کے لیے دینا جائز نہیں ہے۔ مسلمانوں کے پاس اس طرح کے کاروبار کے لیے شرعی طریقہ بیع مضاربہ اور مشارکہ کی صورت میں موجود ہے۔

مضاربہ میں سرمایہ ایک شخص کا اور محنت دوسرے شخص کی ہوتی ہے، مضاربہ سے جتنا منافع حاصل ہو، طے شدہ مناسب کے مطابق آپس میں تقسیم کر لیں گے۔

مشارکہ میں دو یا زیادہ لوگ اپنا اپنا سرمایہ لگاتے ہیں، جو منافع ہوتا ہے، آپس میں طے شدہ مناسب کے مطابق تقسیم کر لیتے ہیں۔

مسلمان یہ دونوں طریقے اپنا کر اپنا کاروبار اور منافع بڑھا سکتے ہیں۔ کوئی بھی کمپنی ہو، خواہ مسلمانوں کی یا ہندوؤں کی یا کسی بھی، اگر اس نے منافع فکس کیا، مثلاً ایک لاکھ پر 5000 تو یہ جائز نہیں ہے اور اگر منافع میں سے طے شدہ تناسب کے مطابق کمپنی آپ کو دے تو یہ جائز ہے۔ گویا فکس کرنے کے دو طریقے ہوئے:

(1) ایک لاکھ لے کر 5000 دے دینا، یہ صورت جائز نہیں ہے۔ یہ سود ہے۔

(2) دوسری صورت ایک لاکھ لے کر 10 یا 5 فیصد دے تو یہ جائز ہے۔

کیونکہ دوسری صورت میں رقم فکس نہیں ہے، اس لیے یہ صورت جائز ہے۔ ہو سکتا ہے ایک ماہ آپ کا منافع 5 فیصد کی صورت میں 1000 ہو اور دوسرے ماہ 5 فیصد کی صورت میں منافع 8000 ہو، ایسی صورت میں انسان نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے۔ جبکہ پہلی صورت میں ایسا نہیں ہے۔ اس نے ہر صورت میں 5000 جو فکس کیے ہیں، ادا کرنے ہیں اور یہ سود ہے جو حرام ہے۔

ایسی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے شرعاً کوئی حرج نہیں، ان کے لیے جائز ہے، کیونکہ وہ فقط محنت مزدوری کرتے ہیں، سود کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا کمیشن پر محنت مزدوری کرنے والوں کے لیے ایسی کمپنیوں میں کام کرنا جائز ہے۔ البتہ سود لینے والا، دینے والا، گواہ اور کاتب (اس کو لکھنے والا) ان کے لیے جائز نہیں ہیں۔ حدیث میں ان چار لوگوں کو سود خور کہا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ متبادل کام تلاش کرتے رہیں، جونہی انہیں کسی دوسری جگہ کام ملے، سود والی کمپنی سے فوراً کام کرنا چھوڑ دیں۔

حالت اضطراری میں حرام چیز بھی حلال ہو جاتی ہے، اگر سود کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور دوسرا کوئی راستہ نہیں تو پھر جائز ہے۔ جیسے جان بچانے کے لیے مردار کا کھا لینا وغیرہ قرآن میں آیا ہے :

 فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۝

(البقرۃ، 2: 173)

’’پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر (زندگی بچانے کی حد تک کھا لینے میں) کوئی گناہ نہیں، بیشک اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔ ‘‘

غیر مسلموں کے ساتھ کام کرنا یا تجارت کرنا اصلاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے، فقط سود اور حرام کاموں میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہونا چاہیے۔ فقط ایسے کفار سے جو مسلمانوں کے دشمن ہوں، جنہیں حربی کہا جاتا ہے، ان کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات جائز نہیں، جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہوں اور ہر وقت مسلمانوں کو ایذا اور تکلیف دیں۔

سوال: کیا شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر کی ہے؟

جواب: اسلام کا نظریہ معیشت فطرت سے ہم آہنگ اور تمام معاشی مشکلات کا حل ہے، اس لئے کہ یہ نظام نہ تجربات کا مرہون منت ہے اور نہ اقتصادی ماہرین کی ذہنی کاوش کا نتیجہ بلکہ یہ معاشی نظام پروردگار نے تجویز کیا اور پیغمبر اسلام ﷺ نے پیش کیا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ۝

(القصص، 28: 77)

’’اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ ‘‘

اسلام کے معاشی نظام کی یہ خاصیت ہے کہ وہ طبیعتوں میں بلندی، ذہنوں میں وسعت اور دلوں میں خلقِ خدا سے محبت پیدا کرتا ہے، وہ دولت جمع کرنے، یا تعیّش کی زندگی اختیار کرنے کے بجائے ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ g سے روایت ہے کہ ایک شخص حاضر بارگاہ ہوکر عرض گزار ہوا:

يَا رَسُولَ ﷲِ سَعِّرْ۔ فَقَالَ بَلْ اَدْعُو ثُمَّ جَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ ﷲِ سَعِّرْ فَقَالَ بَلْ ﷲُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ وَإِنِّي لَاَرْجُو اَنْ اَلْقَی ﷲَ وَلَيْسَ لِاَحَدٍ عِنْدِي مَظْلَمَةٌ.

’’یا رسول اللہ ﷺ (اشیاء) نرخ مقرر فرما دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا بلکہ دعا کروں گا، پھر ایک شخص نے آکر عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ! بھاؤ مقرر فرما دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بھاؤ گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور میں یہ آرزو رکھتا ہوں کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں کہ میں نے کسی پر بھی زیادتی نہ کی ہو۔ ‘

(احمد بن حنبل، المسند، 2: 337، رقم: 8429)

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ ﷺ بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إِنَّ ﷲَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ وَإِنِّي لَاَرْجُو اَنْ اَلْقَی ﷲَ وَلَيْسَ اَحَدٌ مِنْکُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ.

’’ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا۔ ‘‘

(ابی داؤد، السنن، 3: 272، رقم: 3451)

اسلام کا اقتصادی و معاشی نظام ایک مکمل نظامِ معیشت ہے جس میں دنیاوی منافع کو قرآنِ مجید نے ’فضل‘ اور ’خیر‘ کہا ہے اور رسول اکرم ﷺ نے حلال طریقے سے رز ق کے حصول کو اہم فریضہ قرار دیا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ میں اشیاء کو ذخیرہ کر کے مصنوعی قلت پیدا کرنے، اشیاء کے عیوب چھپا کر بیچنے، ملاوٹ کرنے، قسم کھا کر اشیاء فروخت کرنے، ناپ تول میں کمی کرنے اور ایسی ہی دیگر برائیوں سے باز رہنے کے نہ صرف احکام صادر فرمائے ہیں بلکہ ان پر سخت وعید بھی سنائی ہے۔

شرعِ متین میں متعارف کروائے گئے خرید وفرخت کے نظام میں منافع کی کوئی حد متعین نہیں کی کہ اتنا جائز ہے اور اس سے زائد ناجائز، تاہم شرع نے ناجائز اور ظالمانہ منافع خوری پر پابندی عائد کی ہے۔ اسلام نے حکومتِ وقت کو اختیار دیا ہے کہ منصفانہ منافع کا معیار مقرّر کر کے زائد منافع خوری کا خاتمہ کرے۔

لہٰذا ایک مسلمان کے لیے مارکیٹ کی عام اور متعارف قیمت سے زیادہ وصول کرنا اور لوگوں کی مجبوری و لاعلمی سے فائدہ اُٹھانا جائز نہیں۔ ایسی ناجائز منافع خوری سے احتراز لازم ہے جس میں بازار کی عام اورمتعارف قیمت سے زیادہ قیمت وصول کی جائے۔

سوال: غیر مسلموں سے کس حد تک تعلقات رکھنے چاہییں؟

جواب: غیر مسلم لوگوں کے ساتھ برابری کے تعلقات رکھنے چاہئیں۔ ایسے تعلقات ہونے چاہیے جس سے ہماری قومی غیرت مجروح نہ ہو۔ اپنے عقائد کی حفاظت کریں اور ضرورت کے مطابق دوسروں سے تعلقات رکھیں۔ غیر مسلم کے ساتھ بطور کلاس فیلو، پڑوسی یا ساتھی کی حد تک تو دوستی رکھ سکتے ہیں لیکن اس وقت تک کہ وہ ہمارے عقیدہ کے لیے خطرہ نہ ہو۔ یعنی وہ اپنے عقیدہ پر رہے اور ہم اپنے عقیدہ پر قائم رہیں۔ یا پھر یہ امید ہو کہ اسے ہم اسلام کی طرف لے آئیں گے تو دوستی رکھنا جائز ہے۔ اگر یہ خطرہ ہو کہ وہ ہمیں اسلام کی پٹری سے اتار دے گا تو پھر اس کے ساتھ دوستی جائز نہیں ہے۔

سوال: مسجد میں ایک بار جماعت ہو جائے تو کیا وہاں دوسری جماعت کرانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: مسجد میں ایک بار جماعت ہونے کے بعد دوبارہ جماعت کروائی جا سکتی ہے۔ اگر اتفاقاً کچھ لوگ رہ جاتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور اگر جان بوجھ کر پہلی جماعت سے نماز نہ پڑھے اور بدعت پھیلانے اور فتنہ پیدا کرنے کے لیے کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔ ورنہ کوئی حرج نہیں۔

سوال: کیا ضامن پر مکمل ذمہ داری ڈالنا جائز ہے جبکہ اصل فریق موقع پر موجود ہو اور ضامن بار بار کہہ رہا ہو کہ یہ اصل بند ہ آپ کے پاس موجود ہے اور آپ اپنے معاملات و واجبات اس سے طے کرلیں ؟

جواب: کسی چیز پر ضامن ہونا یا کفالت کرنا اس کی کئی صورتیں ہیں مثلاً کفالت بالنفس، کفالت بالمال وغیرہ۔ اگر ضامن نے یہ کہا تھا کہ میں فلاں تاریخ کو بندہ حاضر کروں گا اور اس نے مقررہ تاریخ کو بندہ حاضر کر دیا تو ضامن بری الذمہ ہوگیا۔ اگر اس نے کہا کہ فلاں بندے نے مقررہ تاریخ تک رقم یا کوئی اور چیز واپس نہ کی تو میں ادا کروں گا تو ضامن کے لئے لازم ہوگا کہ وہ مقررہ تاریخ تک رقم کی واپسی کا بندوبست کرے۔
بغیر کسی شرط یا معاہدہ کے ضامن پر مکمل ذمہ داری ڈالنا درست نہیں ہے۔ اگر ضامن نے صرف یہ کہا تھا کہ میں بندہ حاضر کروں گا تو وہ بری الذمہ ہے۔ اگر اصل بندہ معاملات کو حل نہیں کر رہا تو پھر عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔