16 شوال المکرم وہ مبارک و باسعادت دن ہے جس دن عالم اسلام اور تاریخ پاکستان کی ایک نابغہ روزگار شخصیت کا عرس منعقد کیا جاتا ہے جو کہ حکیم الامت ہیں جنھوں نے اس دور میں نہ صرف امت مسلمہ کے جملہ امراض کی تشخیص کی بلکہ اس کے علاج کے لیے ایک عظیم ہمہ جہت شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے مانگا اور پھر اسے اپنی زیر تربیت علم و حکمت، عشقِ الہٰی و عشقِ رسالت ﷺ ، حق و صداقت، عبادت و ریاضت، فقرِ غوثیت اور اعلیٰ سیرت و کردار کے سانچے میں ڈھال کر ایسا طبیب تیار کیا جو آج پوری دنیا کے کونے کونے میں امتِ مسلمہ میں پیدا ہونے والے ہر بگاڑ کا علاج کررہا ہے۔ یوں آپ محسن الملت بھی ہیں۔ جملہ کارہائے نمایاں سرانجام دینے پر آپ ایسی یکتائے روزگار شخصیت بنے کہ آج دنیا آپ کو فریدالملت کے لقب سے جانتی ہے۔ میری مراد فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ ہیں۔
اس سال 16 شوال المکرم بمطابق 15 اپریل 2025ء بروز منگل آپ کا 52 واں سالانہ عظیم الشان عرس مبارک بڑے تزک و احتشام کے ساتھ انعقاد پذیر ہوا۔ زائرین کی آمد کا سلسلہ ایک روز قبل شروع ہوگیا تھا۔ کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، مریدکے، فیصل آباد، سرگودھا، چنیوٹ، شورکوٹ، بھکر اور دیگر کئی شہروں سے سیکڑوں محبین و متوسلین، کارکنان و قائدین و وابستگان تحریک منہاج القرآن نے خوبصورت چادریں اور پھول مزارِ اقدس پر پیش کیے۔
سب سے بڑا قافلہ محترم جواد حامد نائب ناظم اعلیٰ ایڈمنسٹریشن و اجتماعات کی قیادت میں مرکز لاہور سے جھنگ پہنچا جس میں مرکزی قائدین اور سٹاف ممبران کی ایک کثیر تعداد شامل تھی۔
عرس مبارک کی تقربیات کا آغاز بعد نماز فجر قرآن خوانی سے ہوا۔ بعد نماز ظہر غسل مزارِ اقدس ہوا۔ بعد از نمازِ عصر سجادہ نشین و متولی دربار فرید ملتؒ الحاج صاحبزادہ محمد صبغت اللہ قادری نے مرکزی قائدین و زائرین کے ہمراہ مزار شریف پر چادر چڑھائی اور پھولوں کی چادریں چڑھائیں گئیں۔
خصوصی تقریب محفل ذکرو نعت کا آغاز بعد نماز عشاء تلاوت کلام الہٰی سے قاری مظہر عباس سلطانی نے کیا اور جھنگ کے معروف نعت خواں آفتاب قمر قادری اور محمد ارسلان قادری نے خوبصورت انداز میں بارگاہِ سرور کونین ﷺ میں ہدیہ عقیدت و محبت پیش کیا۔ فخرالقراء زینت القراء قاری نور احمد چشتی (لاہور) نے اپنے مخصوص دلآویز انداز میں آیات ربانی کا نور بکھیرا تو پورا مجمع اشکبار آنکھوں اور مسرورقلب و روح سے جھوم اٹھا۔ لاہور سے تشریف لائے ہوئے عالمی شہرت یافتہ نعت خوانان منہاج نعت کونسل شہزاد برادران، محمد شکیل طاہر اور حسان منہاج الحاج محمد افضل نوشاہی نے وجد آفریں انداز میں جب عشق حبیب کبریا ﷺ کی تاروں کو چھیڑا تو حاضرین پر عجب کیفیات طاری ہوگئیں۔
عرس مبارک کی تقریب سے محترم علامہ صاحبزادہ ظہیر احمد نقشبندی نے خصوصی خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت فرید ملتؒ کی شخصیت میں علم و حکمت کا ایک خوبصورت امتزاج تھا۔ آپ نے علومِ دینیہ میں گہری مہارت حاصل کی اور اپنے اس علم کا استعمال امت کی فلاح کے لیے کیا۔ آپ کا علمی سفر صرف کتابوں تک محدود نہیں تھا۔ آپ نے اپنی روحانی تربیت کے لیے مختلف بزرگوں سے فیض حاصل کیا۔ آپ نے اپنے وقت کی عظیم علمی و روحانی شخصیات کی صحبت میں رہ کرعلومِ باطنی اور علومِ دین، فقہ، تصوف اور دیگر اسلامی علوم میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ ان بزرگوں کی رہنمائی نے آپ کو صرف علمی لحاظ سے نہیں، بلکہ روحانی طور پر بھی بلند مقام عطا کیا۔ آپ نے اپنے اس روحانی سفر کی تکمیل میں، علم کے دریچوں کو کھولا اور اس علم سے نہ صرف اپنے آپ کو روشن کیا، بلکہ اپنے گرد و نواح کی دنیا کو بھی اس روشنی سے منور کیا۔ آپ کا علمی و روحانی سفر اس بات کا غماز ہے کہ علم کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک مسلسل تلاش ہے جو روح کی تکمیل تک جاری رہتی ہے۔
حضرت فرید ملت ؒ کی شخصیت میں سب سے نمایاں خصوصیت آپ کا عشقِ رسول ﷺ تھا۔ آپ نے ہمیشہ اپنی زندگی کو حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ڈھالا اور اپنے تمام افعال میں آپ ﷺ کی محبت اور اتباع کو اپنے لیے نصب العین بنایا۔ اسی عشق رسول ﷺ کے جذبہ نے آپ کی زندگی کو سنوارا اور آپ کے وجود کو نئے معنی بخشے۔ آپ کا قلبِ مبارک اُمتِ مسلمہ کی حالتِ زار کو محسوس کرتا تھا اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے آپ ہمہ وقت فکر مند رہتے تھے۔ آپ کا دل امت کی فلاح اور عروج کی آرزو میں تڑپتا تھا۔ یہی وہ درد تھا جس نے آپ کو بے چین کر رکھا تھا اور جس کے غم میں آپ کا دل ہمیشہ بے قرار رہتا تھا۔ آپ کا یہ درد، عشقِ رسول ﷺ کا عکاس تھا۔ آپ کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ آپ نے اس درد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو قلب کی غنا کے ساتھ ساتھ درد و دلسوزی کی بے مثال دولت سے بھی نوازا تھا۔ وہ درد کون سا تھا جس نے آپ کی سکون و اطمینان کی کیفیت کو درہم برہم کر دیا تھا۔۔۔ ؟ وہ غم کس بات کا تھا جس نے آپ کے باطنی سکون کو تہہ و بالا کررکھا تھا۔۔۔ ؟ یہ درد دراصل امتِ مسلمہ کی محرومیت اور ذلت اور پستی کا درد تھا۔ آپ کو امت کی کم ہمتی کا دکھ تھا، جو آپ کے دل میں ایک گہرا سانحہ بن کر مسلسل غم و اندوہ کی صورت میں ڈھل رہا تھا۔ رسالت مآب ﷺ سے آپ کا بے پایاں عشق کا تقاضا تھا کہ آپ امتِ محمدیہ ﷺ کے دکھوں کو اپنے دل میں محسوس کریں اور ان کی حالتِ زار کا مداوا کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کریں۔ چنانچہ آپ کی زبان ہمیشہ ذکر میں مشغول رہتی، مگر آپ کا دل امت کی عظمتِ رفتہ اور سربلندی کی بازیابی کے لیے بے چین و مضطرب تھا۔
عشقِ رسالت مآب ﷺ اور نسبتِ مصطفوی کا جو اعجاز تھا، اس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے حضرت فریدِ ملتؒ کو بے شمار اخلاقی اوصافِ جمیلہ سے مزین کیا۔ صدق و اخلاص، تسلیم و رضا، فقر و قناعت، زہد و ورع، صبر و استقامت اور عبادت و ریاضت میں آپ سلف صالحین کا کامل نمونہ تھے۔ آپ کی سیرت ایک ایسی زندہ کتاب تھی جس میں اعلیٰ ترین اخلاقی خصوصیات جھلکتی نظر آتی۔
اس عرس مبارک کے موقع پر ایک اہم تقریب منہاج انسٹیٹیوٹ آف قرأت اینڈ تحفیظ القرآن دارالعلوم فریدیہ قادریہ جھنگ صدر سے حفظ القرآن مکمل کرنے والے حفاظ و حافظات میں تقسیم اسناد حفظ القرآن تھی۔ یہ تقریب بہت ہی خوبصورت اور پروقار تھی۔ جس میں حفاظ سفید لباس دستار فضیلت اور حافظات بلیک گاؤن اور مخصوص منہاجی سکارف میں ملبوس سٹیج پر تشریف لائے اور ڈائریکٹر دارالعلوم و متولی دارالعلوم اور مرکزی قائدین سے اپنی اپنی اسناد وصول کیں۔
اس تقریب کو اس وقت چار چاند لگ گئے جب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دوران سفر ویڈیو کال کے ذریعے تمام قائدین، مہمانانِ گرامی اور جملہ حاضرین کو سلام دیا اور خوش آمدید کہا۔ بالخصوص اسناد حاصل کرنے والے حفاظ و حافظات اور ان کے والدین کو یہ سعادت ملنے پر خصوصی مبارکباد اور اپنے دعائیہ کلمات سے نوازا۔ شیخ الاسلام نے الحاج محمد صبغت اللہ قادری متولی دربار حضرت فریدِ ملت، ان کے صاحبزادے محمد طاہر قادری اور علامہ عبدالقدیر قادری ڈائریکٹر دارالعلوم، اساتذہ کرام اور جملہ منتظمین کی کاوشوں کو سراہا جن کی شبانہ روز محنت و لگن سے یہ سعادتیں نصیب ہوئیں اور اسے فرید ملت کا خصوصی فیضان قرار دیا مبارکباد اور دعاؤں سے نوازا۔