احکام شریعت میں رسول اللہ ﷺ کے حکم کی اہمیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا ایمان افروز خطاب

محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت قرآن مجید میں جب کوئی حکم دیتا ہے تو وہ اپنے نام کے ساتھ رسول اکرم ﷺ کے نام کو بھی شامل کرتا ہے۔ اس اسلوب سے یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ احکامِ شریعت، محبت، اطاعت، ادب، تعظیم، اتباع، بیعت، وفاداری، الغرض وہ تمام احکامِ شریعت جن کا تعلق اللہ سے بھی ہے اور رسول ﷺ کی ذاتِ گرامی سے بھی ہے، اس حوالے سے اللہ اور رسول ﷺ کے حکم میں کوئی تفریق و امتیاز نہ کیا جائے اور اس باب میں رسول کے حکم کی اہمیت کو کم نہ سمجھا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ اسی حکمت کے تحت رسول اللہ ﷺ کے نام کو اپنے ساتھ جمع اور شریک کرتا ہے۔

اسی طرح رسول اکرم ﷺ جب اپنے کسی کام کا ذکر کرتے تو اس میں اللہ تعالیٰ کا نام اپنے نام کے ساتھ ملاتے ہیں کہ ’اللہ اور اس کے رسول نے یہ کہا یا کیا‘ حالانکہ وہ کام رسول اکرم ﷺ نے کیا ہوتا ہے مگر آپ ﷺ اسے دونوں یعنی اللہ کی طرف بھی اور اپنی طرف بھی منسوب فرماتے۔

اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم ﷺ کےاسماء کو جمیع احکامِ شریعت کے باب میں واؤ عاطفہ کے ساتھ جمع کرنے کے حوالے سے قرآن مجید کی آیات اور آپ ﷺ کی احادیث مبارکہ کا مطالعہ ہم اس سلسلہ وار مضمون کے گزشتہ حصہ میں کرچکےہیں۔ آیئے! اس حوالے سے مزید احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں:

1۔ حضرت امامہ بن سھل بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی عبیدہ رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا اور اس میں یہ بھی درج کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ﷲُ وَرَسُولُہُ مَوْلَی مَنْ لَا مَوْلَی لَہُ.

(ترمذي، السنن، أبواب الفرائض، باب ما جاء في میراث الخال، 4: 421، رقم: 2103)

’’جس کا کوئی مولیٰ نہیں، اس کا اللہ اور رسول مولیٰ ہے۔ ‘‘

یعنی جس کا کوئی مدد گار، دوست اور حمایتی نہیں، اس کا مددگار، حمایتی اور دوست اللہ اور رسول ہے۔ پس اپنے اس فرمان میں آقا علیہ السلام نے اپنے اور اللہ کے اسماء گرامی دونوں کو ولایت میں یکجا کر دیا۔ اس اسلوب سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یہ کہنا کہ ’’صرف اللہ کاحکم حجت ہے اور رسول کا حکم حجت نہیں ہے‘‘، یہ عقیدہ؛ قرآن مجید، حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت، حدیث و سنتِ نبوی، مکمل دین، شریعت کی تمام تعلیمات، آقا علیہ السلام کے عمر بھر کے معمول یہاں تک کہ دین کے مکمل مزاج کا انکار ہے۔

2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ قَتَلَ مُعَاہَدًا لَہُ ذِمَّۃُ ﷲِ وَذِمَّۃُ رَسُولِہِ لَمْ یَرَحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ وَإِنَّ رِیحَہَا لَیُوجَدُ مِنْ مَسِیرَۃِ سَبْعِینَ عَامًا.

(ابن ماجہ، السنن، کتاب الدیات، باب من قتل معاہدا، 2: 896، رقم: 2687)

’’جس نے کسی معاہد (وہ غیر مسلم جو معاہدۂ امن میں تھا اور اس کو اسلامی حکومت نے جان و مال کی اسی طرح کی امان دی تھی جس طرح مسلمان کو دی جاتی ہے)کو قتل کردیا (محض یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ کافر ہے، حالانکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ لڑ بھی نہیں رہا) جس کی جان و مال کی حفاظت اللہ اور اللہ کے رسول کے ذمہ تھی تو قاتل جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا حالانکہ جنت کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے بھی سونگھی جاسکتی ہے۔ ‘‘

احکامِ شریعت، محبت، اطاعت و اتباع، ادب و تعظیم، بیعت، وفاداری الغرض وہ تمام احکام جن کا تعلق اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے ہے، ان تمام میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم میں تفریق و امتیاز کرنا منع ہے
اس حدیث مبارک میں ’’ذمۃ اللہ و ذمۃ رسولہ‘‘ کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ خلفائے راشدین سیدنا صدیق اکبر، سیدنا فاروق اعظم، سیدنا عثمان غنی، سیدنا علی المرتضیٰl کے دور میں بھی جب ایسے امن کے معاہدے ہوتے تو وہ بھی یہ نہیں لکھتے تھے کہ ’معاہد خلفائے راشدین کے ذمے میں ہیں‘ بلکہ وہ لکھتے کہ ’وہ اللہ اور رسول کے ذمے میں ہیں۔ ‘ معلوم ہوا کہ یہ عقیدہ صحابہ کا بھی تھا کہ وہ جسے امان دیتے توکہتے کہ ’یہ اللہ اور رسول کی امان میں ہے‘ جس کی حفاظت کی ذمہ داری لیتے تو کہتے کہ ’یہ اللہ اور رسول کی حفاظت میں ہے۔ ‘

افسوس کہ آج ذہن اتنے بدل چکے ہیں کہ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں توحید کی بڑی معرفت اور سمجھ ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’جان تو اللہ کے ذمے ہوتی ہے، حفاظت اللہ کرنے والا ہے، رسول کا نام کیوں لے لیا ہے۔ ‘ یاد رکھیں! یہ جہالت کی انتہا ہے اور ہم نے اس جہالت کو علم کا نام دے رکھا ہے۔ آقا علیہ السلام سے بڑھ کر توحید کو جاننے والا اور اس کی تبلیغ کرنے والا کون ہے۔ آقا علیہ السلام معاہد کے بارے میں خود فرمارہے ہیں کہ ’اس کی جان کی حفاظت اللہ اور رسول کے ذمہ ہے‘ اور اپنے اس فرمان میں آپ ﷺ اللہ اور رسول کے نام کو خود جمع فرمارہے ہیں۔ جب سے احکامِ شریعت کے باب میں اللہ اور رسول کے نام کو جدا کرنے کا فتنہ شروع ہوا ہے، تب سے یہ ساری خرابی عقیدہ، عمل اور علم میں پیدا ہوگئی۔

3۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

اجْتَمَعَ أَرْبَعُونَ رَجُلا مِنَ الصَّحَابَۃِ، یَنْظُرُونَ فِی الْقَدَرِ، وَالْجَبْرِ، فِیہِمْ أَبُو بَکْرٍ، وَعُمَرُ، فَنَزَلَ الرُّوحُ الأَمِینُ جِبْرِیلُ، فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ اخْرُجْ عَلَی أُمَّتِکَ، فَقَدْ أَحْدَثُوا، فَخَرَجَ عَلَیْہِمْ فِی سَاعَۃٍ، لَمْ یَکُنْ یَخْرُجُ عَلَیْہِمْ فِیہَا، فَأَنْکَرُوا ذَلِکَ مِنْہُ، وَخَرَجَ عَلَیْہِمْ مُلْتَمِعًا لَوْنُہُ، مُتَوَرِّدَۃً وَجْنَتَاہُ، کَأَنَّمَا تَفَقَّأَ بِحَبِّ الرُّمَّانِ الْحَامِضِ، فَنَہَضُوا إِلَی رَسُولِ ﷲِ، حَاسِرِینَ أَذْرُعَہُمْ تَرْعَدُ أَکُفُّہُمْ، وأَذْرُعُہمْ، فَقَالُوا: تُبْنَا إِلَی ﷲِ وَرَسُولِہِ، فَقَالَ: أَوْلَی لَکُمْ إِنْ کِدْتُمْ لَتُوجِبُونَ، أَتَانِی الرُّوحُ الأَمِینُ، فَقَالَ: اخْرُجْ عَلَی أُمَّتِکَ، یَا مُحَمَّدُ فَقَدْ أَحْدَثَتْ.

(طبرانی، معجم الکبیر، 2: 95، رقم: 1423)

چالیس صحابہ کرامؓ ایک جگہ بیٹھ کر مسئلہ جبرو قدر پر غور و فکر کررہے تھے۔ ان میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروقؓ بھی شامل تھے۔ اسی دوران حضرت جبرائیل امین حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا: اے محمد( ﷺ ) اس گروہ کے پاس تشریف لے جائیں، انھوں نے نئی بحث شروع کردی ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام ان کے پاس تشریف لے گئے۔ صحابہ کرامؓ نے آپ کو آتے دیکھا تو متعجب ہوئے۔ آپ کی حالت ایسی تھی کہ چہرہ چمک رہا تھا، رخسار سرخ تھے (غصے کی وجہ سے)۔ گویا کھٹے انار کے دانے پھٹ پڑے ہوں۔ تمام صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوگئے، (خوف کے سبب) ان کی آستین اوپر تھیں اور بازو کانپ رہے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: افسوس تم پر! تم تو ہلاک ہونے کے قریب تھے۔ میرے پاس روح الامین آئے اور کہا: اس گروہ کی طرف جائیں، انھوں نے نئی بحث شروع کردی ہے۔

اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ انسانی عقل اور فہم میں ہمیشہ ایسے سوالات ابھرتے تھے، لہذا یہ صحابہ بھی تقدیر کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔

آقا علیہ السلام کا صحابہ کرامؓ کو تقدیر پر بحث کرنے سے منع کرنے سے یہ امر بھی واضح ہوا کہ دین نے بحث و مباحثہ کی حد مقرر کی ہے کہ جس بات کے سمجھنے کی کامل صلاحیت نہ ہو، اس بارے میں بحث نہ کرو، یہ نہ ہو کہ حد عبور ہوجائے۔

اس حدیث مبارک میں ہمارے موضوع سے متعلقہ حصہ یہ ہے کہ جب صحابہ کرامؓ کو معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے اس بحث کو ناپسند کیا ہے تو وہ تو عرض کرنے لگے: یارسول اللہ! ہم اللہ کی بارگاہ میں اور اللہ کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں۔

آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو یہ نہیں فرمایا کہ ’کیا کہہ رہے ہو، توبہ تو صرف اللہ کی بارگا ہ میں ہوتی ہے، میری بارگاہ میں کیا توبہ کررہے ہو۔ ‘ نہیں، یہ نہیں فرمایا، اس لیے کہ اسلوب یہ تھا کہ اگر معافی آقا علیہ السلام سے مانگنی ہے تو ساتھ ہی اللہ کا نام بھی لیا جاتا اور اگر اللہ سے معافی مانگنی ہے تو رسول اکرم ﷺ کا نام بھی ساتھ ہی لیا جاتا ہے۔

آج کا زمانہ صحابہ کرام، تابعین، اتباع التابعین، سلف صالحین کے پاکیزہ دور اور روحانیت والے عقیدے سے اتنا دور چلا گیا ہے کہ آج اگر کوئی کہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں یا حضور علیہ السلام کی طرف تائب ہوتا ہوں تو کئی لوگ یہ سن کر کہیں گے کہ ’ایساکہنا شرک ہے۔ ‘ افسوس کہ ہم نے ساری حدیں توڑ دی ہیں اور سمجھ ہی نہیں رہے کہ توحید کہاں تک ہے اور شرک کہاں سے شروع ہوتاہے۔۔۔ ؟ کیا کہنا شرک ہے اورکیا کہنا شرک نہیں ہے۔۔۔ ؟ اللہ اور رسول کے لیے کیا کیا کلام کرنا بدستور توحید میں ہی رہنا ہے۔۔۔ ؟ ہمیں ان حدوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

4۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

اشْتَرَتْ نُمْرُقَۃً فِیہَا تَصَاوِیرُ فَلَمَّا رَآہَا رَسُولُ ﷲِ قَامَ عَلَی الْبَابِ فَلَمْ یَدْخُلْہُ فَعَرَفْتُ فِی وَجْہِہِ الْکَرَاہِیَۃَ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ ﷲِ، أَتُوبُ إِلَی ﷲِ وَإِلَی رَسُولِہِ مَاذَا أَذْنَبْتُ.

(بخاري، الصحیح، کتاب البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، 2:742، رقم:1999)

’’میں کچھ پردے خرید کر لائی، جن کے اوپر کچھ تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ جب آپ ﷺ گھر تشریف لائے اور آپ ﷺ کی نگاہ ان پر پڑی تو آپ ﷺ دروازے پر ہی کھڑے ہوگئے اور گھر میں داخل نہ ہوئے۔ میں نے جب آپ کے چہرۂ اقدس پر ناپسندیدگی کے اثرات دیکھے تو فوراً آگے بڑھی اور عرض کیا کہ مجھ سے جو خطا ہوئی ہے، اس پر میں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں اور اللہ کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں۔ ‘‘

ام المومنین کی اس بات پر آقا علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ ’میری بارگاہ میں نہیں بلکہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ ‘ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں فرق ہم نے پیدا کیے ہیں۔۔۔ اِن بارگاہوں کو ہم نے جدا کیا ہے۔۔۔ ان ہستیوں کو قرآن نے جدا کیا اور نہ حدیث و سنتِ رسول نے جدا کیا۔۔۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ، سیدنا ابو بکر و عمر، عثمان و علی اور صحابہ کرامؓ نے انھیں جدا نہیں کیا۔۔۔ آقا  علیہ السلام نے خود کو کبھی اللہ سے اور اللہ نے کبھی خود کو اپنے محبوب ﷺ سے جدا نہیں کیا۔

جب بھی کفاریا اہلِ کتاب سے معاہدات ہوتے اور انھیں جان و مال کی امان دی جاتی تو حضور نبی اکرم ﷺ اور جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ واضح طور پر ’’فی ذمۃ اللہ و ذمۃ رسولہ‘‘ کے الفاظ لکھتے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام کا عقیدہ تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے امان دی، اسے اللہ نے امان دی

5۔ آقا  علیہ السلام نے ایک معاہدہ کے تحت اہلِ نجران کی حفاظت کی ذمہ داری لی۔ اس معاہدے کے الفاظ تھے:

وَلِنَجْرَانَ وَحَاشِیَتِہَا ذِمَّۃُ ﷲِ وَذِمَّۃُ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ رَسُوْلِ ﷲِ، عَلَی دِمَائِہِمْ وَأَنْفُسِہِمْ وَمِلَّتِہِمْ وَأَرْضِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ وَمِلَّتِہِمْ وَرہبانیتہم وأساقِفَتِہِمْ وَغَائِبِہِمْ وَشَاہِدِہِمْ وَغَیْرِھِمْ وَبَعْثِھِمْ وَأَمْثِلَتِھِمْ، لَا یُغَیَّرُ مَا کَانُوْا عَلَیْہِ، وَلَا یُغَیَّرُ حَقُّ مِنْ حُقُوقِھِمْ وَأَمْثِلَتِھِمْ، لَا یُفْتَنُ أُسْقُفٌ مِنْ أُسْقُفِیَّتِہِ، وَلَا رَاہِبٌ مِنْ رَہْبَانِیَّتِہِ، وَلَا واقف مِنْ وقافیتہٖ، عَلَی مَا تَحْتَ أَیْدِیْہِمْ مِنْ قَلِیْلٍ أَوْ کَثِیْرٍ، وَلَیْسَ عَلَیْھِمْ رَھَقُ.

( ابن سعد، الطبقات الکبری، 1: 288، رقم: 358)

نجران اور اس کے اطراف کے لوگوں کے لیے اللہ کی طرف سے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے امان ہے۔ ان کی جانوں، ان کے دین، ان کی زمین، ان کے مال، مذہب، عبادت گاہوں، ان کے سرداروں، سفیروں، ان کے حاضر اور غائب افراد، وفود اور ان کے نمائندوں کے لیے۔ نہ ان کے موجودہ حالات کو بدلا جائے گا، نہ ہی کسی حق کو تبدیل کیا جائے گا۔ کوئی مذہبی راہنما اپنی حیثیت اور عہدے سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ نہ کسی راہب کو اپنی رہبانیت (عبادت) سے روکا جائے گا۔ نہ کوئی وقف کرنے والا اپنے وقف سے محروم ہوگا۔ جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے، خواہ کم ہو یا زیادہ، اس میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی اور ان پر کوئی ظلم یا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔

آقا علیہ السلام اہلِ نجران اور ان کی پوری قوم، تمام طبقات، ان کے حاضرین، غائبین، چھوٹے بڑے تاجر، راہب، مرد عورت، الغرض ان کے تمام طبقات کی جان و مال، مذہب، تجارت، معیشت، سیاست اورجمیع امور میں حفاظت کی ذمہ داری کا ایک معاہدہ لکھوا رہے ہیں اور اس معاہدہ کا آغاز ان الفاظ سے کیا جارہا ہے:

ذِمَّۃُ ﷲِ وَذِمَّۃُ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ رَسُوْلِ ﷲِ.

اہل، نجران اللہ اور اللہ کے نبی محمد ( ﷺ ) کی ذمہ داری اور امان میں ہیں۔

اسی طرح اہلِ ثقیف اور اہلِ ایلہ سے معاہدہ ہوا تو وہاں بھی آقا علیہ السلام نے ان کے لیے یہی جملے تحریر کروائے۔

(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1: 284، 289)

الغرض عہد نبوی کے تمام معاہدات اور دستاویزات میں جہاں بھی کسی کی جان و مال کی امان کا ذکر آیا ہے، ہر جگہ اللہ اور رسول ﷺ کا ذکر یکجا ہے۔ یہ اسلام کا قاعدہ ہے اور یہیں سے ہمارا عقیدہ اخذ ہوتا ہے۔ اس سے اللہ اور اللہ کے رسول کے فرمان کا یکساں حجت ہونا۔۔۔ امت پر اللہ اور اللہ کے رسول کی ذمہ داری کا یکساں حجت ہونا۔۔۔ رسول کے فرمان، امان اور ذمہ داری کا فرمانِ الٰہی ہونا۔۔۔ رسول کی ذمہ داری، اللہ کی ذمہ داری قرار پانا۔۔۔ اور رسول کے ہر حکم کا امت کے لیے اللہ کے حکم کی طرح فرض و واجب اور حجت ہونا ثابت ہوتا ہے۔

ان معاہدات میں یہود و نصاریٰ کو امان دینے والے رسول اللہ ﷺ ہیں مگر آپ ﷺ اس امان کو اللہ کی طرف سے بھی قرار دے رہے ہیں۔ اس وقت کسی نے یہ نہیں کہا کہ ’امان دینے والا اللہ ہے، رسول تو امان دینے والا نہیں ہوتا، رسول تو اللہ کا قرآن اور وحی کی تعلیم پہنچانے کے لیے ہوتا ہے۔ ‘ ایسا کسی نے نہیں کہا بلکہ اس امان اور ذمہ کو اللہ کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بھی ہر ایک نے قبول کیا۔

صحابہ کرامؓ سے جب کوئی ایسا عمل سرزد ہوجاتا جسے آپ ﷺ ناپسند فرماتے تو اُن کی زبان پر فوری یہ کلمات جاری ہوجاتے؛ تبنا الی اللہ والی رسولہ، ہم اللہ کی بارگاہ میں اور اس کے رسول کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں۔

میثاق مدینہ میں بھی حضور نبی اکرم ﷺ نے جگہ جگہ اللہ اور رسول کا اکٹھا ذکر فرمایا اور جہاں بھی امان یا کسی حکم اور ذمہ داری کا ذکر کیا تو اللہ اور رسول ﷺ کا ذکر اکٹھا فرمایا۔

بنو زھیر کو امان نامہ لکھواتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

فَإِنَّہُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ ﷲِ وَرَسُولِہِ.

( أحمد بن حنبل، المسند، 5:77، رقم: 20756)

بنو زھیر کے لوگ اللہ کی دی ہوئی امان کے تحت اور اس کی رسول کی عطاکردہ امان کے تحت امان پاگئے۔

یہ امان انھیں رسول اللہ ﷺ دے رہے ہیں مگر آپ ﷺ اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کو بھی شامل کررہے ہیں تاکہ ہر ایک کو معلوم ہوجائے کہ رسول اللہ ﷺ کا کسی کو حفظ و امان دینا درحقیقت اللہ ہی کی طرف سے حفظ و امان دینا ہے۔

ہم بھی سفر پر جائیں تو ’’فی امان اﷲ و رسولہ‘‘ کے الفاظ کہتے ہیں۔ اس کی دلیل بھی آپ ﷺ کے مذکورہ الفاظ ہی ہیں۔ یہ آپ ﷺ کا مستقل اصول تھا کہ اگر کسی کو امان دیتے یا معاہدات کے ذریعے کسی کے حفظ وامان کو یقینی بناتے تو اسی طرح کا کلام ارشاد فرماتے۔

6۔ اہلِ ایلیاء سے معاہدہ کے وقت آپ ﷺ نے جو الفاظ تحریر کروائے وہ نہایت قابلِ غور ہیں۔ فرمایا:

وان تولیتم آذنکم بحرب من اللہ ورسولہ.

(أبو قاسم، کتاب الأموال: 270)

اگر تم اس معاہدۂ امن سے پھر گئے، اگر تم نے اس طے شدہ معاہدے کی مخالفت کی اور اسے توڑ ڈالا تو پھر میں تمہیں آگاہ کرتاہوں کہ تم اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ جنگ کو دعوت دو گے۔

گویا آپ ﷺ نے امان کا معاملہ ہو تب بھی ’’اللہ اور اللہ کے رسول کی امان‘‘ کا ذکر کیا۔۔۔ اگر جان و مال کی پناہ کا معاملہ ہو تب بھی ’’اللہ اور اللہ کے رسول کی پناہ‘‘کا ذکر کیا۔۔۔ اور جنگ کرنے کا معاملہ ہو تو تب بھی ’’اللہ اور اللہ کے رسول سے جنگ‘‘ کے الفاظ ارشاد فرمائے۔

قرآن مجید کا بھی یہی اسلوب ہے۔ ارشاد فرمایا:

یُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ.

(المائدۃ، 5: 33)

یعنی جو لوگ ڈاکہ زنی کرتے ہیں، دہشت گردی کرتے ہیں، قتل و غارت گری کرتے ہیں اور معاشرے کو حراساں کرتے ہیں، وہ اللہ اور اللہ کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں۔

قابلِ غور امر یہ ہے کہ مخالفت اور بغاوت تو حکمِ الٰہی سے ہو رہی ہے، مگر اللہ نے اپنے نام کے ساتھ رسول کے نام کا بھی ذکر فرمایا۔

7۔ عطا بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ میں عبید بن عمیر لیثی کے ہمراہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں گیا اور ان سے ہجرت کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

لَا ہِجْرَۃَ الْیَوْمَ کَانَ الْمُؤْمِنُونَ یَفِرُّ أَحَدُہُمْ بِدِینِہِ إِلَی ﷲِ تَعَالَی وَإِلَی رَسُولِہِ.

(بخاری، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب ہجرۃ النبی ﷺ وأصحابہ إلی المدینۃ، 3: 1416، رقم: 3687)

آج ہجرت نہیں ہے۔ قبل ازیں اہلِ ایمان کو اپنا دین بچانے کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف بھاگنا پڑتا تھا، اس خوف سے کہ کہیں وہ فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ لیکن آج اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کردیا ہے۔ آج اپنے رب کی جہاں کوئی چاہے عبادت کر سکتا ہے۔ ہاں اب جہاد اور نیت کا ثواب ہے۔

صحابہ کرامؓ کا عمر بھر کا یہ معمول اور عقیدہ تھا کہ جب بھی ان سے کوئی چیز پوچھی جاتی یا وہ خود بیان فرماتے، یا کسی کو امان دیتے یا کوئی معاہدہ کرتے تو ہمیشہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے نام کواکٹھا ذکر کرتے۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان اس ہجرت سے متعلق ہے جو مکہ سے مدینہ کی طرف ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، اب اس طرح ہجرت فرض نہیں ہے۔ وہ ہجرت صرف اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف تھی۔ قابلِ غور مقام یہ ہے کہ ہجرت ایک عمل ہے، جو صدقِ نیت پر قائم ہے۔ اللہ کے حکم کی تعمیل پر قائم ہے، اللہ کے لیے سفر کرنا ہے، اللہ کی رضاکے لیے ترکِ وطن کرنا ہے مگر اس ہجرت کو بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اللہ اور اللہ کے رسو ل کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔

قرآن مجید میں بھی ہجرت کے متعلق اس اسلوب کو اختیار کیا گیا۔ ارشاد فرمایا:

وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْۢ بَیْتِهٖ مُهَاجِرًا اِلَی اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ.

(النساء، 4: 100)

’’ اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے۔ ‘‘

بات اس طرح بھی مکمل ہو سکتی تھی کہ جو اللہ کی طرف ہجرت کے لیے نکلا لیکن قرآن نے یہ اسلوب اختیار نہیں کیا کہ فقط ’’ہجرت الی اللہ‘‘ کہہ دیا، نہیں بلکہ ساتھ ہی ’’رسولہ‘‘کا بھی اضافہ فرما دیا۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

الْأَعْمَالُ بالنیاتِ فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ إِلَی دُنْیَا یُصِیبُہَا أَوْ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا فَہِجْرَتُہُ إِلَی مَا ہَاجَرَ إِلَیْہِ وَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ إِلَی ﷲِ وَرَسُولِہِ فَہِجْرَتُہُ إِلَی ﷲِ وَرَسُولِہِ.

(بخاري، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب ہجرۃ النبی ﷺ وأصحابہ إلی المدینۃ، 3: 1416، رقم: 3685)

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ پس جس کی ہجرت دنیا کے حصول کے لیے ہو یا کسی عورت سے نکاح کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اسی مقصد کے لیے ہے اور جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کے لیے ہے۔

مذکورہ تمام احادیث میں ہر جگہ اللہ اور اللہ کے رسول کا نام اکٹھا ذکر ہورہا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے نام کو اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرامین و ارشادات میں اللہ تعالیٰ کے نام کو جوڑا۔ معلوم ہوا کہ دونوں بارگاہیں ایک ہیں مگر ہم نے اپنی کم عقلی کے سبب دونوں کو جدا کررکھا ہے۔

8۔ صحابہ کرامؓ نے کبھی فقط یہ نہیں کہا کہ ’’ﷲُ أعلم‘‘ (اللہ بہتر جانتا ہے) بلکہ وہ ہمیشہ یہی کہتے کہ اللہ ورسولہ اعلم (اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے) جبکہ ہم میں سے کئی کہتے ہیں ’’واللہ اعلم بالصواب‘‘۔ کیا ہم صحابہ کرام سے زیادہ توحید کا فہم اور سمجھ رکھنے والے ہیں۔ اس سلسلہ میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:

رسول اﷲ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا:

أَتَدْرُونَ مَا الْإِیمَانُ بِاﷲِ وَحْدَہُ؟ قَالُوا: ﷲُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ.

(بخاري، الصحیح، کتاب الإیمان، باب أداء الخمس من الإیمان، 1: 29، رقم:53)

کیا تم جانتے ہو اللہ کی توحید پر ایمان لانا کیا ہے؟ صحابہ کہہ سکتے تھے کہ اللہ بہتر جانتا ہے مگر انھوں نے یہ نہیں کہا بلکہ عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔

حضرت زید بن خالد الجھنی روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ میں آپ ﷺ کی اقتداء میں نماز فجر ادا کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ ﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:

ہَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوا: ﷲُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ.

(بخاری، الصحیح، کتاب الآذان، باب یستقبل الإمام الناس إذا سلم، 1: 290، رقم: 810)

کیا تم جانتے ہو کہ آج رات تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کی: اللہ اور رسول ہی بہتر جانتا ہے۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے مجھے فرمایا:

یَا مُعَاذُ، ہَلْ تَدْرِی حَقَّ ﷲِ عَلَی عِبَادِہِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی ﷲِ؟ قُلْتُ: ﷲُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ.

(بخاری، الصحیح، کتاب الجہاد، باب اسم الفرس والحمار، 3: 1049، رقم: 2701)

اے معاذ! کیا تم جانتے ہو بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے اور اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟ میں عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن آپ ﷺ نے قرآن مجید کی آیت مبارکہ؛ یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَھَا کی تلاوت فرمائی تو صحابہ کرامؓ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا:

أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُہَا؟ قَالُوا: ﷲُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ.

(ترمذی، السنن، أبواب صفۃ القیامۃ، باب 7، 4: 619، رقم: 2429)

کیا تم جانتے ہو کہ زمین کی خبریں کیا ہوں گی؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتا ہے۔

ó حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

ہَلْ تَدْرُونَ مَا ہَذِہِ وَمَا ہَذِہِ وَرَمَی بِحَصَاتَیْنِ قَالُوا: ﷲُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ.

(ترمذی، السنن، أبواب الأمثال، باب ما جاء فی مثل بن آدم وآجلہ وأملہ، 5: 152، رقم: 2870)

کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے اور یہ کیا ہے اور دو کنکریاں پھینکیں۔ (یعنی کسی چیز کی مختلف مثالیں بیان کیں) صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن غروبِ آفتاب کے وقت آقا علیہ السلام نے مجھ سے پوچھا:

یَا أَبَا ذَرٍّ، أَتَدْرِی أَیْنَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ؟ قُلْتُ: ﷲُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ.

(بخاری، الصحیح، کتاب التفسیر، باب والشمس تجری لمستقر لہا، 4: 1806، رقم: 4524)

اے ابوذر! کیا تم جانتے ہو کہ سورج غروب ہو کر کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے۔

آخر الذکر حدیث کے علاوہ دیگر مذکورہ احادیث کے حوالے سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ’آپ ﷺ نے جن امور کے متعلق صحابہ کرامؓ سے سوال کیا، ان کا تعلق ان دینی امور و احکام کے ساتھ تھا جو اللہ اور اس کے بھیجے ہوئے رسول ہی جانتے ہیں، اس لیے کہ یہ تمام احکام رسول اکرم ﷺ کے ذریعے ہی ہم تک پہنچے۔ ‘ اگر ان کی اس بات کو درست مان لیا جائے تو آخر الذکر حدیث مبارک کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ اس سوال کا تعلق تو سائنس، کائناتی نظام اور سورج کی گردش کے نظام کے ساتھ ہے کہ غروب کے بعد سورج کہاں جاتا ہے؟ یہ مسئلہ قرآن مجید میں بیان نہیں ہوا تھا مگر صحابہ کرامؓ کا عقیدہ تھا کہ قرآن مجید میں وحی کے طور پر کوئی چیز نازل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، اس کا تعلق احکامِ شریعت کے ساتھ ہو یا احکامِ دنیا کے ساتھ، اس کا تعلق گردشِ شمس و قمر کے ساتھ ہو یا زمینی و آسمانی کائنات کے حقائق کے ساتھ، ان تمام کے بارے میں یہی جواب ہے کہ اللہ اور اس کارسول بہتر جانتا ہے۔

مذکورہ تمام آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ قرآن مجید میں اللہ نے اپنے نام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے نام کو جوڑا۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے حدیث و سنت نبوی میں اپنے نام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے نام کو بیان کیا۔۔۔ اور صحابہ کرامؓ کا عمر بھر کا یہ معمول اور عقیدہ تھا کہ جب بھی ان سے کوئی چیز پوچھی جاتی یا وہ بتاتے، یا کسی کو امان دیتے یا کوئی معاہدہ کرتے تو ہمیشہ اللہ اور اللہ کے رسول کے نام کواکٹھا ذکر کرتے۔

گویا اسلام کے عقیدے کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ دونوں کے فرمان کی حجیت یکساں ہے۔ اگر ہم اس اسلوب اور عقیدہ کے خلاف کریں گے تو سراسر ناجائز کریں گے۔ ایسا کرنا قرآن و حدیث، صحابہ کرامؓ کے طریقہ اور دین کا انکار کرنا ہوگا۔ اگر ہم رسول کے حکم اور ارشاد گرامی کو اللہ کے حکم اور ارشاد گرامی سے الگ ٹھہرا کر رسول کے حکم کی حجیت کا انکار کریں اور صرف اللہ کے فرمان اور قرآن کو حجت مانیں تو یہ پورے دینِ اسلام کی نفی ہے۔ حدیث کاحجت ہونا تو ایک طرف رہا، دین کے جمیع امور میں اللہ رب العزت نے اپنے اور رسول اکرم ﷺ کے نام کو یکجا کر دیا۔ اللہ اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ان دونوں کو الگ کرنے اور ان میں کسی کی اہمیت زیادہ کرنے اور کسی کی اہمیت کم کرنے کا حق نہیں دیا ہے۔

(جاری ہے) ۔