حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اتنا ہی کافی نہیں کہ وہ اپنی ذاتی اور انفرادی اصلاح و درستگی کو مدنظر رکھے اور اس کے بعد اس کو اس بات سے کوئی سروکار نہ ہو کہ اس کے اردگرد معاشرے میں کیا ہورہا ہے اور معاشرہ کس قسم کے اخلاقی، سماجی معاشرتی بگاڑ اور کن ہولناک خرابیوں کا شکار ہورہا ہے؟ کسی معاشرتی اور عمومی بگاڑ اور خرابی کا نقصان اس کے مرتکب کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے بُرے اور تکلیف دہ اثرات متعدی ہوتے ہیں اور سارے معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس وقت تعلیماتِ نبوی ﷺ سے بہت دور ہوچکا ہے۔ سیرۃ النبی ﷺ کی روشنی میں ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ہم صرف اپنی ذاتی، اپنے خاندان اور اپنے اہل و عیال کی فلاح و بہبود اور ان کی بہتر سے بہتر زندگی کے لیے فکر مند نہ رہیں بلکہ معاشرے میں ظلم و زیادتی کے ازالہ کے ساتھ ساتھ نقصِ امن کے اسباب سے بھی گریز کریں۔ اسی صورت ہم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں، برکات اور خوشنودی کا مستحق ٹھہرا سکتے ہیں۔
فقط اپنے لیے، اپنے کاروبار اور اپنے اہل و عیال کے لیے جینا کوئی کمال نہیں۔ کمال یہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے جیے اور مرے، ظلم کی بیخ کنی کے لیے اپنی صلاحیتوں اور استعدادکے مطابق کاوشیں بروئے کار لائے اور قیامِ امن کے لیے ہر سطح پر اپنا کردار ادا کرتا رہے۔ ذیل میں ظلم و زیادتی کے ازالہ اور نقصِ امن کے اسباب سے گریز کے حوالے سے سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں ہماری معاشرتی ذمہ داریوں کو بیان کیا جارہا ہے:
ظلم و زیادتی کا ازالہ، ہماری معاشرتی ذمہ داری
انسانی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ (Might is right) کا اندھا، کالا اور ظالمانہ قانون دنیا کے ہر خطے میں رائج رہا ہے۔ بعثتِ نبوی ﷺ سے قبل روم، ایران، یورپ، ہندوستان وغیرہ جیسے تمام ممالک میں انتہائی ظالمانہ اور استحصالی نظامِ حکومت نافذ تھا۔ ہر جگہ بڑے، باوسائل لوگ، سلاطین، حکمران، درباری امراء و زعماء، ارباب من دون اللہ بنے ہوئے تھے۔ ان کے تشدد، مظالم، جبر وقہر، ناانصافی، ناترسی اور سنگ دلی کے واقعات پڑھ کر انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
خطۂ عرب کی صورتِ حال کا اندازہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی اس فی البدیہہ اور فصیح و بلیغ تقریر سے لگایا جاسکتا ہے جو انھوں نے ہجرتِ حبشہ کےموقعہ پر شاہِ نجاشی کے سامنے فرمائی تھی۔ انھوں نے دورِ جاہلیت کی عمومی معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’اے بادشاہ! ہم ایک جاہل قوم تھے، بتوں کو پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے، ہمسایوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے اور ہم میں سے ہر طاقتور آدمی کمزور آدمی کو کھا (اس کا استحصال کر) رہا تھا (یاکل القوی منا الضعیف) پس ہم اسی (پریشان کن) صورتِ حال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ہم میں سے ایک عظیم الشان رسول کو مبعوث فرمایا جو ہم میں سے ہی ہے، ہم اس کے نسب، خاندان، اس کی صداقت، اس کی امانت اور اس کی پاکدامنی کو بخوبی جانتے ہیں۔ ‘‘
(ابنِ ہشام، سیرت النبی ﷺ ، 1: 358)
اس تقریر کا ایک جملہ یاکل القوی منا الضعیف (ہم میں سے ہر قوی آدمی ضعیف و کمزور آدمی کو کھارہا تھا) انتہائی قابلِ غور ہے جو ہمارے مذکورہ موقف کی تائید کرتا ہے۔
عرب میں اسی قسم کے عمومی حالات میں جب غرباء و مساکین اور کمزور لوگوں پر ظلم و زیادتی بڑے لوگوں کا عام وطیرہ بن چکا تھا تو مکہ کے ایک رئیس اور بااثر آدمی عاص بن وائل سہمی نے جب قبیلہ زبید کے ایک اجنبی مسافر سے مال خرید کر اس کی قیمت دینے سے انکار کردیا تو ہر طرف سے مایوس ہوکر اس زبیدی نے ایک دن جبل ابوقبیس پر کھڑے ہوکر حرم شریف میں اپنے اوپر ہونے والے اس ظلم و زیادتی کے خلاف واویلا کرتے ہوئے ’’آلِ فہرک‘‘ کو اپنی مدد کے لیے پکارا تو نبی رحمت ﷺ کے تایا جان حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک پر علاقے کے ایک بزرگ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں چند قبائل کے معززین اور سرکردہ حضرات نے اس قسم کے ظلم و زیادتی کی روک تھام اور ازالہ کے لیے ایک معاہدہ کیا جو ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
نبی رحمت ﷺ کی عمر اس وقت اگرچہ صرف بیس سال تھی اور یہ عمر عام طور پر مذکورہ قسم کے قومی، سنجیدہ اور سماجی و معاشرتی مسائل میں دلچسپی رکھنے کی نہیں ہوتی مگر مظلوموں کی حمایت و نصرت کے فطری جذبہ کے تحت آپ ﷺ نے اس معاہدہ میں شرکت فرمائی، جس میں یہ عہد کیا گیا تھا:
1۔ اہل مکہ یا باہر سے آنے والے کسی بھی آدمی پر ظلم ہوگا تو ہم لوگ ہمیشہ کے لے اس کی حمایت میں ایک ہاتھ اور طاقت بن جائیں گے۔
2۔ ظالم کے خلاف ہاتھ اس وقت تک اٹھا رہے گا جب تک کہ وہ مظلوم کا حق واپس نہ کردے۔
3۔ ہر اجنبی اور مسافر کے جان و مال کی حفاظت کریں گے۔
یہ معاہدہ چونکہ رحمتِ دو عالم ﷺ کی فطرتِ سلیمہ اور انصاف پسند مزاج کے عین مطابق اور آپ ﷺ کے غمخوار دل کی آواز تھا، اس لیے بعثت کے بعد بھی آپ ﷺ اس معاہدہ میں شرکت پر بڑے فخر کے ساتھ اظہارِ مسرت فرمایا کرتے تھے۔
اس معاہدہ میں نبی رحمت ﷺ کی شرکت محض ’’خانہ پری‘‘ اور ’’برکت‘‘ کے لیے نہیں تھی بلکہ آپ ﷺ نے اس میں بھرپور اور سرگرم کردار ادا کرتے ہوئے نوجوانوں کا ایک گروہ ساتھ ملاکر اس میں جان ڈال دی تھی، جو ذمہ دارانِ معاہدہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرایا کرتا تھا۔
ایک دفعہ مکہ کے ایک دولت مند تاجر نے جب حسبِ عادت مکہ کے باہر سے آنے والے ایک شخص کی بیٹی اغوا کرلی تو آپ ﷺ نے نوجوانوں کی جماعت کی مدد سے اغواء شدہ بچی کو برآمد کرایا۔ اسی طرح ایک دفعہ ابوجہل نے مکہ مکرمہ میں آنے والے ایک تاجر سے سامان خرید کر قیمت ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تو آپ ﷺ نے اکیلے جاکر اس تاجر کو ابوجہل سے قیمت دلوائی۔
(ابن کثیر، البدایہ والنہایہ)، (ابن ہشام، سیرت النبی ﷺ ، 1: 145)، (امام سہیلی، الروض الانف، 1: 157)
’’ظلم‘‘ سے مراد وہ ناروا کمی یا زیادتی ہے جو لوگ ایک دوسرے پر کرتے ہیں اور یہ ظلم و زیادتی قرآن و سنت کی متعدد نصوص کے مطابق حرام ہے۔ ظلم و زیادتی کی روک تھام پر تعلیماتِ محمدی میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور قصاص و حدود کی کڑی اور عبرتناک سزائیں رکھی گئی ہیں۔ اس میں یہی حکمت اور مصلحت نظر آتی ہے کہ اگر ظلم کی روک تھام نہ کی جائے اور اس کے سامنے مضبوط بند نہ باندھا جائے تو پوری قوم اور ملک کا امن و امان برباد ہوکر رہ جائے اور لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت داؤ پر لگ جائے۔ چنانچہ قرآن مجید کی صریح ہدایت ہے:
وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.
(المائدۃ، 5: 2)
’’ اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور ﷲ سے ڈرتے رہو۔ بے شک ﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے۔ ‘‘
نبی رحمت ﷺ نے اہلِ اسلام کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ نہ تو ایک دوسرے پر ظلم کریں اور نہ کسی مسلمان پر ظلم ہونے دیں۔
(صحیح بخاری، ابواب المظالم والقصاص)
آپ ﷺ نے اہلِ اسلام پر یہ ذمہ داری بھی عائد کی ہے کہ وہ ظلم کا تماشا نہ دیکھتے رہیں بلکہ آگے بڑھ کر ظالم کا ہاتھ پکڑ لیں۔ چنانچہ خادمِ رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
انصرا خاک ظالما او مظلوما۔ قال: یارسول اللہ! ھذا ننصرہ مظلوما فکیف ننصرہ ظالما؟ قال: تاخذ فوق یدیہ.
(صحیح بخاری، ابواب المظالم والقصاص)
تو اپنے بھائی کی مدد کر، چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ انھوں نے پوچھا: یارسول اللہ ﷺ ! ہم مظلوم ہونے کی حالت میں اپنے بھائی کی مدد کریں (یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے) مگر اس کے ظالم ہونے کی صورت میں ہم اس کی کیسے مدد کریں گے؟
آپ ﷺ نے فرمایا: (اس کی مدد یہ ہے) کہ تو اس کے ظالم ہاتھوں کو پکڑے۔
پھر حدیث کے الفاظ اور ترکیب سے مترشح ہوتا ہے کہ ظالم آدمی کا ہاتھ روک کر اس کی مدد کرنا مظلوم کی مدد کرنے سے مقدم ہے۔
ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے یہ پیشین گوئی فرمائی کہ آنے والے زمانوں میں بے وقوف، جاہل اور ظالم قسم کے حکمران آئیں گے اور ساتھ یہ بھی تنبیہ فرمائی کہ جو آدمی ایسے حکمرانوں کے پاس جاکر ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور (اپنے قول و فعل) سے ان کے ظلم پر ان کی اعانت کرے گا:
فلیسوا منی ولست منہم
ان کا مجھ سے اور میرا ان سے کوئی تعلق یا واسطہ نہیں۔
(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الامارۃ)
خلاصہ یہ کہ ظلم کا ازالہ اور ظالم کو اپنی حد تک روکنا اور اس کے خلاف احتجاج کرنا تاکہ وہ اس سے باز آجائے ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے۔ اگر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیں گے تو اس خاموشی اور چشم پوشی کا نقصان سارے معاشرے کو پہنچے گا۔
نقصِ امن کے اسباب سے گریز، ہماری معاشرتی ذمہ داری
عمومی مشاہدہ کے علاوہ اس حقیقت پر قرآن مجید کی نص موجود ہے کہ معاشرتی امن وامان کا ہونا اور معاشرے کا دنگا فساد، خون خرابہ، لڑائی جھگڑا اور ہر قسم کی بدامنی سے محفوظ و مامون ہونا، اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے۔
معاشرتی امن و امان اور اطمینان و سکون کی غیر معمولی اہمیت و ضرورت اور افادیت کے پیشِ نظر نبی رحمت ﷺ نے ہر ایسے قول و فعل سے سختی سے منع فرمایا اور اس کی مذمت بیان فرمائی ہے جو معاشرے کے امن و امان میں خلل انداز یا اشتعال انگیزی اور لڑائی جھگڑے کا باعث و سبب بن سکتا ہو اور ایسے تمام امور کی تعریف و توصیف اور حوصلہ افزائی فرمائی ہے جو معاشرے میں باہمی محبت، رواداری اور صلح، امن و آشتی کا ذریعہ بنتے ہوں۔
ذیل میں ہم چند ایسے بڑے بڑے اسباب کی نشاندہی کریں گے جو معاشرتی امن کے لیے سم قاتل کا درجہ رکھتے ہیں اور ان سے بچنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے:
(1) تنگ نظری سے بچنا
معاشرے میں فتنہ و فساد، خون ریزی، زیادتی اور پھر بدامنی کا ایک بڑا سبب تنگ نظری ہے۔ تنگ نظری کا معنی؛ رنگ، نسل، وطن اور عقیدہ یا مذہب میں اختلاف کی بنیاد پر اپنے مخالف کو برداشت نہ کرنا، اسے قبول نہ کرنا، اسے دیکھ نہ سکنا اور اس سے زندگی کا حق بھی چھین لینے کی کوشش کرنا ہے۔ قاضی عیاضؒ اور دوسرے محدثین و سیرت نگاروں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ’’صفتِ حلم‘‘ کی وضاحت و تفصیل میں متعدد مثالیں بیان کی ہیں۔ یہاں صرف ایک بے نظیر مثال کا ذکر کافی ہوگا:
جب نجران کے عیسائی وفد کے ساتھ مذاکرات اور گفتگو کے دوران ان کی عبادت کا وقت ہوگیا تو آپ ﷺ نے کھلے دل سے انہیں مسجد نبوی میں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے انہیں روکنا چاہا تو آپ ﷺ نے فرمایا: دعوھم، انہیں چھوڑ دو اور اپنے طریقے کے مطابق نماز پڑھنے دو۔ بعد ازاں اسلام سے ان کے انکار کے باوجود انہیں امان نامہ بھی عنایت فرمایا۔
(ابنِ قیم، زادالمعاد، 3: 629)
(2) عصبیت کی نفی
انسانی معاشرے میں نقصِ امن کے اسباب و وجوہات میں سے ایک بڑا سبب ’’عصبیت‘‘ بھی ہے۔ عصبیت یہ ہے کہ آدمی کسی کی محض اس بنیاد پر حمایت کرے کہ وہ اس کی قوم اور برادری سے تعلق رکھتا ہے، چاہے وہ ناحق، غلط اور دوسرے پر ظلم کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا:
امن العصبیۃ ان یحب الرجل قومہ؟
کیا یہ بات عصبیت میں داخل ہے کہ آدمی اپنی قوم کے ساتھ محبت رکھے۔ فرمایا:
لا ولکن العصبیۃ ان ینصر الرجل قومہ علی الظلم
(مشکوٰۃ المصابیح، باب المفاخرۃ والعصبیۃ)
نہیں: بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم و زیادتی کے معاملے میں بھی اپنی قوم کی مدد کرے۔
نبی رحمت ﷺ نے عصبیت کے جذبہ کے قلع قمع کے لیے بطور وعید ارشاد فرمایا:
لیس منا من دعا الی عصبیۃ ولیس منا من قاتل عصبیۃ ولیس منا من مات علی عصبیۃ.
(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی العصبیۃ)
’’وہ شخص ہم (مسلمانوں) میں سے نہیں جس نے (دوسرے لوگوں کو) عصبیت کی طرف بلایا اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جس نے محض عصبیت کی بنا پر (کسی دوسرے سے) جنگ کی اور وہ آدمی بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کے جذبہ پر مرگیا۔ ‘‘
احادیث میں ’’مامنا‘‘ اور ’’لیس منا‘‘ یا ’’لیس منی‘‘ کے الفاظ کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الفاظ حد درجہ زجرو توبیخ اور تنبیہ کے لیے آتے ہیں۔ یہ جملہ عموماً آپ ﷺ کی زبان وحیٔ ترجمان پر اس وقت آتا جب کوئی کام کفر کے قریب اور ایمان کے منافی ہوتا۔ پھر ایک مسلمان کے لیے نبی رحمت ﷺ کی طرف سے لاتعلقی کے اعلان سے بڑھ کر بڑی بدنصیبی اور بدبختی یا سزا کیا ہوگی۔
(3) اسلحہ کی نمائش سے گریز کی تعلیم
معاشرتی امن کے بگاڑ کا ایک سبب اسلحہ کی نمائش بھی ہے کیونکہ کسی آدمی کی طرف اسلحہ سے اشارہ کرنے میں چاہے، وہ مذاق میں ہی ہو، ایک تو اس بات کا خدشہ ہے کہ مشارٌ الیہ آدمی خوف زدہ ہوگا اور اچانک خوف زدہ ہونے سے انسان کو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ دوسرا اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اسلحہ غیر ارادی طو رپر چل جائے اور سامنے والا آدمی جان سے جائے اور یہ چیز باہمی خونریزی اور پھر معاشرے میں بدامنی کا ذریعہ بن جائے۔ اس لیے ’’سد ذریعہ‘‘ کے طور پر نبی رحمت ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمادیا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لایشیر احدکم الی اخیہ بالسلاح فانہ لا یدری احدکم لعل الشیطان ینزع فی یدہ فیقع فی حفرۃ من النار.
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب النہی عن الاشارۃ بالسلاح الی مسلم)
’’تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ شاید شیطان (اسے غصہ دلادے اور) اس کے ہاتھ میں کپکپی طاری کردے، پھر وہ (بے گناہ قتل کی سزا میں) جہنم کی آگ میں جاگرے۔ ‘‘
ایک دوسری حدیث میں نبی رحمت ﷺ نے فرمایا:
من اشار الی اخیہ بحدیدۃ فان الملئکۃ تلعنہ حتی یدعہ وان کان اخاہ لا بیہ وامہ.
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب النہی عن الاشارۃ بالسلاح الی مسلم)
جس آدمی نے اپنے بھائی کی طرف کسی آہنی ہتھیار سے اشارہ کیا تو فرشتے اس پر لعنت (رحمت الہٰی سے دوری کی بددعا) بھیجتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس اشارہ کو ترک کردے، چاہے وہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو۔
اب بھائی کے عموم میں مسلمان کے علاوہ غیر مسلم انسانی بھائی بھی آسکتا ہے۔ گویا غیر مسلم کو بھی اس انداز میں ڈرانا دھمکانا جائز نہیں۔
(4) ڈرانے، دھمکانے یا دہشت گردی کی ممانعت
کسی کو ڈرانا اور خوف زدہ کرنا بھی چونکہ انسان کے ذہنی اطمینان و سکون اور امن و امان میں خلل انداز ہونا ہے، چاہے وہ ہنسی مزاح میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے نبی رحمت ﷺ نے ایسا کرنے سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لا یحل لمسلم ان یروع مسلما.
(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب من یاخذ الشیٔ من مزاح)
کسی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو ڈرائے۔
کسی آدمی کا مال چھپانا بھی چونکہ اس کے لیے پریشانی اور ڈر کا سبب ہوتا ہے، اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے ایسا کرنے سے بھی منع کیا۔ ارشاد فرمایا:
لا یاخذن احدکم متاع اخیہ لا عبا ولا جادا.
(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب من یاخذ الشیٔ من مزاح)
تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کا سامان ہرگز نہ چھپائے، نہ مذاق میں، نہ جان بوجھ کر۔
یہ تو معمولی قسم کے خوف اور ڈر پیدا کرنے سے ممانعت ہے۔ بڑے پیمانے پر خلقِ خدا کو خوف زدہ اور ہراساں کرنا، دہشت پھیلانا، بے گناہ انسانوں کا قتل کرنا، ان پر تشدد کرنا، خودکش حملے کرنا، لوگوں کے املاک اور جائیدادیں تباہ کرنا، ان کی عزت و آبرو سے کھیلنا، ملک میں بدامنی اور انارکی پھیلانا جسے آج کی اصطلاح میں دہشت گردی (Terrorism) کہا جاتا ہے، ان سب کا دینِ مصطفوی میں کہاں جواز ہوسکتا ہے۔ یہ سب اعمال دینِ اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ تعلیماتِ اسلامیہ قطعی طور پر ان افعال کی نفی کرتی ہیں۔
(5) ذاتی و شخصی ذمہ داریاں
ایک آدمی کی ذاتی و شخصی اعتبار سے کئی حیثیات و مراتب ہوسکتے ہیں، مثلاً بیٹا، بیٹی، بھائی، بہن، والد، والدہ، شوہر، بیوی، داماد، سسر، ساس، بہو، طالب علم، استاذ، شاگرد، پڑوسی، دوست، رشتہ دار، اہل محلہ، دکاندار، گاہک، کارخانہ دار، مزدور، امام، خطیب، موذن، مقتدی، افسر، ماتحت، سیاستدان، حکمران، وزیر، مشیر، سول و آرمی آفیسر، سپاہی، زمیندار، مزارع، مہمان، میزبان، محرم، غیر محرم وغیرہ ہونا۔ اب کسی بھی حیثیت سے وہ شتر بے مہار، مادر پدر آزاد اور ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا مالک نہیں کہ اپنی خواہشاتِ نفس کے مطابق جو کچھ اس کے دل میں آئے، وہ کرتا جائے۔ اس شتر بے مہاری اور ’’من چاہی روش و طرزِ زندگی‘‘ کا دنیا کا کوئی بھی قانون، حکومت اور معاشرہ اجازت نہیں دیتا اور ایک مسلمان و کلمہ گو تو اس بات کا پابند ہے کہ اس کی تمام خواہشات تعلیماتِ نبوی ﷺ کی پابند ہوجائیں۔ چنانچہ اس حوالے سے نبی رحمت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
لایومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ.
(مشکوٰۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش اُس دین یا شریعت کے تابع نہ ہوجائے جس کو میں لایا ہوں۔
اس حدیث کی رو سے مذکورہ حیثیات میں سے ایک مسلمان کی معاشرے میں جو بھی حیثیت ہے، اس حیثیت کے حوالے سے تعلیماتِ نبوی ﷺ نے اس پر جو معاشرتی ذمہ داریاں عائد کی ہیں، ان کا پوراکرنا اس کے لیے شرعی و اخلاقی فریضہ ہے۔
والدین، اولاد، اساتذہ، بیوی بچوں الغرض ہر وہ شخص جس کے ساتھ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی کے اندر واسطہ پڑتا ہے، اُن تمام کے حوالے سے اپنی معاشرتی ذمہ داریاں اور ان کے حقوق کی ادائیگی کو ہمہ وقت پیشِ نظر رکھنا ہمارا اخلاقی و قانونی فریضہ ہے۔
خلاصۂ بحث
معاشرے کا ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق اپنے دائرہ میں اور اپنی جگہ پر ذمہ دار ہے۔ معاشرے میں جس کی جتنی بڑی حیثیت اور جتنا بڑا عہدہ ہے، اس کی معاشرتی ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑی ہے۔ ظاہر ہے جو ذمہ داری ایک سربراہِ حکومت کی ہوگی وہ عام آدمی یا شہری کی نہیں ہوسکتی۔ نبی رحمت ﷺ کے ارشاد گرامی؛ کلکم راعٍ وکلکم مسئول عن رعیتہ کے مصداق ہم میں سے ہر ایک نگران اور محافظ ہے اور قیامت کے دن ہم سے ہماری رعیت (زیرِنگرانی افراد اوراشیاء) کے بارے پوچھا جائے گا۔
اس قاعدہ و کلیہ کی رو سے ضروری ہے کہ معاشرے میں اگر کہیں کسی فرد پر ظلم و زیادتی ہورہی ہے تو اس ظلم کا روکنا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ ظالم کا ہاتھ اگر نہ روکا جائے تو پھر معاشرے میں کسی کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں رہے گی۔ اسی طرح معاشرتی امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے عقلی و نقلی طور پر ضروری ہے کہ ان تمام اسباب و محرکات سے بچنے کی کوشش کی جائے جو معاشرتی امن و امان تباہ کرنے کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ معاشرتی امن و امان اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ بعد ازیں ہر فرد کا اپنی ذاتی و شخصی حیثیت سے معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرنا بھی عقل و نقل کا تقاضا ہے اور اس سلسلے میں نبی رحمت ﷺ کی سیرتِ طیبہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔