انسان کی جبلت اور فطرت میں باری تعالیٰ نے خوف، غم و حزن اورمسرت و شادمانی بھی رکھی ہے۔ انسان اپنی زندگی میں جب اپنے لیے کوئی فوری خطرہ محسوس کرتا ہے تو اس کا ردعمل وہ کبھی پریشانی کی صورت میں دیتا ہے، کبھی گھبراہٹ اور کبھی خوف و دہشت کی صورت میں دیتا ہے۔ انسان کو جب بھی زندگی میں کوئی گہرا صدمہ پہنچے یا وہ کسی حادثے کا شکارہو، کسی غم میں مبتلا ہو یا کسی مہلک مرض کا شکار ہو، کسی نامعلوم خوف کے قبضے میں ہو یا کسی سازش اور شیطنت کا شکار ہوتو اس وقت اس کے خوف کا علاج کیسے کیا جائے؟ جدید دنیا نے اس پر ریسرچ کی ہے۔ مختلف ماہرین نفسیات نے اس کے مختلف جوابات دیئے ہیں مگر جس جواب کو سب سے زیادہ پذیرائی اور مقبولیت ملی ہے وہ یہ ہے کہ ایسے شخص کو تسلی کے چند کلمات اور اطمینان کے چند الفاظ یا جملے بولے جائیں، یوں اس کے خوف، دکھ اور خطرے کا مداوا ہوجائے گا۔
انسانی زندگی میں یہ خوف ایک مریض کو سب سے زیادہ لاحق ہوتا ہے۔ اس کا مرض جوں جوں بڑھتا ہے توں توں اس کو اپنی زندگی کے بارے میں لاحق خوف بڑھنے لگتا ہے۔ اس پر یہ خوف مسلط ہوجاتا ہے کہ مرض کا بڑھنا اس کی زندگی کو ختم کرسکتا ہے۔ جسمانی امراض اور مرضِ خوف و خطرہ میں مبتلا مریضوں کے لیے رسولِ رحمت ﷺ نے ایک جامع اصولِ طب عطا فرمایا ہے جو رفعِ خوف کا باعث ہے۔ ابورمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے آپ اپنی وہ چیز دکھائیں جو آپ کی پشت پر ہے کیونکہ میں طبیب ہوں، آپ نے فرمایا:
الله الطبيب بل انت رجل رفيق طبيبها الذي خلقها.
(سنن ابی داود، حدیث نمبر 4207)
”طبیب تو اللہ ہے، بلکہ تو رفیق ہے (مریض کو تسکین اور دلاسے دیتا ہے) طبیب تو وہی ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے“۔
یہ حدیث مبارک ایک طبیب کو واضح راہنمائی عطا کرتی ہے کہ وہ مریض کے علاج کے ساتھ ساتھ اس کی تسلی و اطمینان کے لیے چند الفاظ بول کر اس کے خوف کو دور کرے اور اس کو نفسیاتی طور پر مضبوط کرے، مرض کے خلاف اس کے مدافعاتی عمل کو تقویت دینے کے لیے اس مریض کو خوف اور صدمے سے باہر نکالے اور اس کے بڑھتے ہوئے ذہنی صدمے کو کم کرے، اس کی زندگی کے حادثے میں اس کا معاون و مددگار بنے۔ اس کو دوبارہ صحت مند بنانے میں دلچسپی لے، مریض سے اپنی محبت کا اظہار کرے، اس کے ذہنی اور جسمانی دکھ کو ہر ممکن سکھ میں بدلنے کی کاوش کرے۔
اسی کردار کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ نے ایک بیمار شخص کی عیادت کو کارِ ثواب ٹھہرایا ہے اور ایک مریض شخص کی عیادت کو اپنی سنتِ مطہرہ بنایا ہے اور ہر مسلمان کو تاکید کی ہے کہ جب تمھارا کوئی مسلمان بھائی بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کو جاؤ اور اس کے لیے کلماتِ خیر کہو اور اس کی عیادت کلماتِ تسلی اور الفاظِ اطمینان کے ساتھ کرو۔ اس لیے کہ تمھارے یہ کلمات اس کی بیماری میں اس کے لیے ایک حوصلہ اور ایک قوت و طاقت ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا دَخَلْتُمْ عَلَى الْمَرِيضِ، فَنَفِّسُوا لَهُ فِي الْأَجَلِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَرُدُّ شَيْئًا، وَهُوَ يَطِيبُ بِنَفْسِ الْمَرِيضِ۔.
جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس کی اجل کو مہلت دو (یعنی اس کو امید دلاؤ ) کیونکہ ایسا کرنے سے اس کو نفسیاتی حوصلہ ہوتا ہے۔
(سنن ابن ماجه، كتاب الجنائز، الرقم: 1438)
رسول اللہ ﷺ جب بھی کسی مریض کی عیادت کرتے تو آپ کی سنت مبارکہ یہ تھی کہ آپ ﷺ مریض کو سلام کرنے کے بعد سب سے پہلے اس کے حالاتِ مرض پوچھتے اور اس سے اس کے مرض کی علامات سنتے، پھر کلماتِ تسلی اور کلماتِ اطمینان ارشاد فرماتے کہ طھور ان شاء اللہ، اللہ نے چاہا تو تمھیں جلد صحت یابی دے گا اور سب ٹھیک ہوجائے گا۔
آپ ﷺ کے ان کلمات مبارکہ سے مریض پر نفسیاتی اثر یہ ہوتا کہ اس سے مریض کی تنہائی دور ہوجاتی اور مرض کا بوجھ کم ہوجاتا، اپنی ذہنی کیفیت اور اپنی جسمانی اذیت کے اظہار سے اسے اطمینان قلب ہوتا اور رسول اللہ ﷺ کے کلمات طہور ان شاء اللہ، اس کی بیماری میں مدافعتی جذبہ بن جاتے۔ یوں وہ مریض اپنے اندر اپنی صحت کی ایک نئی چمک اور امید محسوس کرتا۔
صبر اور دعا کے ذریعے مدد
انسانی زندگی میں آنے والے خوف، گھبراہٹ، ڈر اور غم کا سبب کبھی کوئی بیماری ہوتی ہے، کبھی کوئی سماجی تنازع و جھگڑا ہوتا ہے، کبھی کوئی فساد و فتنہ ہوتا ہے، کبھی کوئی خاندانی مسئلہ ہوتا ہے۔ ان میں سے جو سبب بھی ہو، انسان پر پریشانی و گھبراہٹ طاری ہوجاتی ہے۔ اس خوف، خطر اور گھبراہٹ کا علاج قرآن مجید نے صبر کی صورت میں کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ. الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ ۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ.
(البقرہ، 2: 155-156)
’’اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک ہم بھی اﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے غم و مصیبت اور خوف و حزن کو دور کرنے کے لیے نماز اور صبر سے مدد لینے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ.
(البقرہ، 2: 45)
’’اور صبر اور نماز کے ذریعے (اللہ سے) مدد چاہو۔ ‘‘
علاوہ ازیں اس قسم کے لاحق خوف و خطرہ میں اسوۂ رسول اہل ایمان کو راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ غزوہ احزاب و خندق میں دشمن نے مدینہ منورہ کا ہر طرف سے محاصرہ کرلیا تھا، دشمن کی فوج کے کچھ لوگ خندق پھلانگ کر اندر بھی آگئے، اس وقت لشکرِ اسلام کو، افراد راشن اور اسلحہ کی شدید کمی کا سامنا تھا اور دشمن کی طاقت اور قوت کے مسلسل دباؤ نے ایک دہشت اور خوف کا ماحول بھی طاری کردیا تھا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ گھبراہٹ کی اس کیفیت میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ سب لوگ گھبرائے ہوئے ہیں، دہشت کا یہ عالم ہے کہ دل سینوں سے اچھل کر باہر آنے کو ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر سب مجاہدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو یہ دعا مسلسل اور بار بار پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا:
اللهم استر عوراتنا وآمن روعاتنا.
(مشكوة المصابيح، كتاب الدعوات:2455)
’’اے اللہ ہماری کمزوریوں کو چھپا لے اور دشمن کے حملے سے ہمیں محفوظ فرما۔ ‘‘
اس دعا کا نتیجہ یہ نکلا، مجاہدینِ اسلام کا حوصلہ بہت زیادہ بڑھ گیا اور ان کو دشمن کے مقابلے میں استقامت اور ثابت قدمی کی دولت میسر آئی۔ نتیجتاً دشمن بھاگ گیا۔ اسی موقع پر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے حوصلے کو بڑھاتے ہوئے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ عنقریب تم روم اور ایران کو فتح کرو گے۔
ایمان باللہ اور عملِ صالح میں رسوخ
خوف و غم سے نجات کا باعث
قرآن مجید نے انسان کو خوف و دہشت سے بچانے کے لیے مختلف احکامات دیئے ہیں، جن کی پیروی سے انسان خوف و غم سے نجات پالیتا ہے۔ قرآن مجید انسان کو رب سے واصل کرتا ہے۔ رب سے تعلق میں استحکام اور اس پر استقامت انسان کو ہر خوف و دہشت اور خطرے سے محفوظ کردیتی ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے اہلِ ایمان کی یہ خوبی بتائی ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚ.
(الاحقاف، 46: 13)
’’ بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ‘‘
انسانی زندگی میں خوف اور حزن ایک بہت بڑی حقیقت ہے، کسی بھی شخص کی زندگی سے اس کی نفی نہیں کی جاسکتی۔ ہر شخص اپنی اپنی سطح پر خوف اور حزن کا شکار ہوتا ہے۔ انسانی زندگی میں کیفیاتِ خوف اور احساساتِ حزن سے ہر کسی کو گزرنا پڑتا ہے مگر کچھ لوگ اللہ سے اتنے واصل اور اس کے اتنے مقرب ہوتے ہیں کہ وہ تقویٰ کو اپنا زیورِ حیات بنالیتے ہیں، اللہ کی فرمانبرداری کو اپنی بندگی کی علامت بنالیتے ہیں اور اللہ کی رضا و خوشنودی کو اپنی زندگی کا حاصل بنالیتے ہیں۔ اب ایسے لوگوں کو باری تعالیٰ لاخوف علیھم اور ولاھم یحزنون کی خوشخبری ان کلمات کے ساتھ دیتا ہے:
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.
(یونس، 10: 62)
’’ خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔ ‘‘
اسلام نے خوف، دہشت اور خطرے کا علاج ایمان باللہ، ایمان بالآخرۃ اور عملِ صالح میں رکھا ہے۔ اس حقیقت کا اعلان قرآن یوں کرتا ہے:
مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.
(المائدۃ، 5: 69)
’’ جو بھی (سچے دل سے تعلیماتِ محمدی کے مطابق) اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ‘‘
اللہ کی ذات پر ایمان، آخرت پر ایمان اور عملِ صالح کا دوام انسان کے لیے ایک قوی خیال بن جاتا ہے، جو اس کو خوف اور حزن میں مبتلا نہیں ہونے دیتا۔ اس لیے کہ پریشانی حالات سے نہیں بلکہ خیالات سے پیدا ہوتی ہے۔ انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری میں رہنا چاہیے۔ ان خیالات کا حامل شخص کبھی بھی ڈپریشن میں مبتلا نہیں ہوتا۔
اسی طرح باری تعالیٰ نے انسانی زندگی میں ڈپریشن، خوف، گھبراہٹ، خطرات اور خدشات سے بچنے کا یہ ضابطہ بھی دیا ہے کہ اپنے ایمان کو مضبوط رکھو، عملِ صالح کو ہر دم اپناؤ، نماز کو اپنی پختہ عادت بناؤ اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے عمل کو لازمی اختیار کرو۔ یہ سارے اعمال تمھارے لیے اجر کا باعث ہوں گے اور رب کی بارگاہ سے تمھیں انعام یافتہ لوگوں میں شامل کردیں گے جن کی پہچان یہ ہے کہ وہ ہر خوف اور ہر حزن سے محفوظ کرلیے گئے ہیں۔ ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.
(البقرہ، 2: 277)
’’ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، اور ان پر (آخرت میں) نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔ ‘‘
انسانی زندگی اللہ کی بندگی کے بغیر بے کار ہے اور جو اس روشِ بندگی سے ہٹتا ہے، وہ زندگی میں کبھی چین و سکون نہیں پاسکتا۔ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری انسانی حیات میں امید لاتی ہے۔ ارشاد فرمایا:
فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ.
(البقرہ، 2: 38)
’’ جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا، نہ ان پر کوئی خوف (طاری) ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ‘‘
گویا ہدایت کی پیروی انسان کو خوف اور غم سے نجات دلانے کا باعث ہے۔ باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں چالیس سے زائد مقامات پر انسان کو خوف و غم اور حزن و ملال سے محفوظ ہونے کی بشارت دی ہے لیکن اس بشارت کے استحقاق کی شرطِ ایمان، تقویٰ اور عملِ صالح کو قرار دیا ہے۔
توکل علی اللہ
خوف اور دہشت سے انسان کو پہنچنے والے ممکنہ خطرہ سے بچانے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جب ظاہری اسباب ناکافی ہوجائیں اور تمام امدادی ذرائع ناکام ہوجائیں تو پھر اللہ کی مدد نازل ہوکر اپنے بندوں کو سنبھالتی ہے۔ ان حالاتِ خوف و دہشت میں بندے کی اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دل سے اللہ پر توکل اور بھروسے کو کمزور نہ پڑنے دے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کے بعد طرح طرح کے خیالات کے پیشِ نظر اللہ کی بارگاہ میں یوں عرض کناں ہوتے ہیں:
قَالَ اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ اِلَی اللّٰهِ
(یوسف، 12: 86)
’’ انہوں نے فرمایا: میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف ﷲ کے حضور کرتا ہوں۔ ‘‘
پریشانی، غم، خوف و حزن انسانی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ کسی انسان کو اس سے مفر نہیں ہے اور کوئی انسان اس سے ماوراء نہیں ہے۔ جب یہ خوف و غم اور حزن و ملال انسانی زندگی میں آتا ہے، تو یہ انسان کو اپنے مولا کے زیادہ سے زیادہ قریب کرتا ہے، یہ انسان کو اللہ کی معرفت و قربت اور اس کی عبادت و ریاضت اور اس کی رضا و خوشنودی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ یہ نعمتوں میں کمی نہیں کرتا بلکہ یہ نعمتوں میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ یہ غم و خوف جب رخصت ہوتا ہے تو انسان کو بے پناہ خوشی و مسرت کی کیفیات عطا کرتا ہے اور یہ حالت انسان کو اللہ کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کی دعوت دیتی ہے اور پھر انسان یوں اللہ کی بارگاہ میں شکر گزار ہوتا ہے:
وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ؕ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۙ.
(فاطر، 35: 34)
’’ اور وہ کہیں گے ﷲ کا شکر و حمد ہے جِس نے ہم سے کُل غم دُور فرما دیا، بے شک ہمارا رب بڑا بخشنے والا، بڑا شکر قبول فرمانے والا ہے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ باری تعالیٰ اپنے بندوں کو مصیبت و آفت، خوف و دہشت، خدشات و خطرات میں تنہا نہیں چھوڑتا۔ بندہ مصیبت میں جب بھی اسے پکارتا ہے، وہ اس کی دستگیری اور مدد کرتا ہے۔۔۔ وہ بندے کی فریاد کو اجیب دعوۃ الداع اذا دعان کی نوید کے ساتھ سنتا ہے۔۔۔ وہ ہر آڑے وقت اور مصیبت میں اپنے بندے کی مدد کو آتا ہے۔۔۔ اور اس کو اپنی رحمت اور نصرت سے سہارا دیتا ہے۔۔۔ اور وہ ہر مصیبت کو اس سے رفع کرتا ہے۔ جدید علم نفسیات بندے کی اس حالت کا علاج تحلیلِ نفسی سے کرتی ہے جبکہ قرآنی علم بندے کی اس حالت کا علاج اللہ کی رحمت اور اس کی نصرت طلبی میں دیتا ہے اور بندے کو یہ مدد یقیناً ملتی ہے۔ اس لیے کہ وہ مصیبت و آفت میں اس شہنشاہِ مطلق اور معبودِ حقیقی کو پکارتا ہے جو نحن اقرب الیہ من حبل الورید کے مصداق بندے کے سب سے زیادہ قریب ہے۔
خلاصۂ کلام
باری تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو انسانوں کے جملہ امراض اور جملہ مسائل کے حل کے لیے قیامت تک بحیثیت ایک رہبر و ھادی بناکر بھیجا ہے۔ انسانوں کے دماغی و نفسیاتی مسئلے ہوں یا سیاسی و معاشی مسائل یا ان کے عائلی و خاندانی معاملات ہوں، غرضیکہ ہر ہر شعبہ حیات کے لیے آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ہمیں صدق دل کے ساتھ ان کو اپنانا ہے اور اپنی زندگی کا ان کو لازمی حصہ بنانا ہے۔
بلاشبہ انسانی زندگی اپنے طبعی احوال میں کسی نہ کسی وجہ سے خوف و غم اور وحشت و پریشانی کا شکار رہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی خوف اپنے مثبت پہلوؤں میں ایک انسان کو ناقابلِ تسخیر بنادیتا ہے۔۔۔ وہ اپنے اس خوف پر قابو پاکر زندگی کے جدوجہد کے نئے راستوں کو مزید منظم کرلیتا ہے۔۔۔ اپنے تخلیقی و تعمیری عمل کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔۔۔ اور اپنی ظاہری ناکامی کے عوامل کو اپنی عظیم کامیابی کا زینہ بنالیتا ہے۔ خوف و خطرہ کی حالت میں جب انسان خود کو اللہ کی پناہ میں دے دیتا ہے اور افوض امری الی اللہ کو اپنا وظیفۂ حیات بنالیتا ہے تو باری تعالیٰ اس کی دستگیری اور مدد کرتا ہے۔ پھر وہ سوائے اللہ کے کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتا۔ وہ صاحبِ تقویٰ ہوکر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان؛
فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ.
(آل عمران، 3: 175)
’’پس ان سے مت ڈرا کرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔ ‘‘
کے مصداق ہر ایک کے ڈر اور خوف سے بے نیاز ہوکر صرف خوفِ خدا کا پیکر بن جاتا ہے۔ اس طرح خوف و آزمائش بھی اہلِ ایمان کے لیے انعاماتِ الہٰیہ کا باعث بنتے ہیں۔