منہاج یونیورسٹی لاہور میں حسان بن ثابت سینٹر فار ریسرچ اِن نعت لٹریچر اور نعت فورم انٹرنیشنل کے اشتراک سے 13 اپریل 2025ء بروز اتوار چوتھی قومی ادبی نعت کانفرنس 2025ء کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں اردو ادب اور نعتیہ تحقیق کے نامور محققین، شعرا اور دانشور شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کا کلیدی موضوع ’’اکیسویں صدی میں نعتیہ ادب کے تخلیقی و تحقیقی رجحانات‘‘ تھا۔ جس کے تحت؛ موجودہ دور میں نعتیہ ادب کا منظرنامہ، نعت گوئی میں عصری اسلوب اور فنی تکنیک، نعتیہ شاعری کے فکری، روحانی اور ادبی پہلو اور نعتیہ تحقیق و تنقید میں بدلتے ہوئے رجحانات کو زیر بحث لایا گیا۔ ڈائریکٹر ریسرچ سنٹر ڈاکٹر سرور حسین نقشبندی نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ صاحبزادہ تسلیم احمد صابری نے نقابت کے فرائض سرانجام دیے۔
وائس چانسلر منہاج یونیورسٹی لاہور پروفیسر ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد نے ملک بھر سے تشریف لائے ہوئے معزز مہمانوں، شعراء، محققین، اساتذہ اور طلبہ و طالبات کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ منہاج یونیورسٹی لاہور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی قیادت میں نعتیہ تحقیق و تنقید کا ایک مضبوط مرکز بن چکی ہے، جہاں ادبِ نعت کے فروغ کے لیے باقاعدہ ڈیپارٹمنٹ، کورسز، ورکشاپس اور لائبریری قائم کی جا چکی ہے۔ ہم تمام معزز مہمانانِ گرامی نعت سے محبت رکھنے والوں اور طلبہ و طالبات کے مشکور ہیں جنہوں نے اس کانفرنس کو کامیاب بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
چیئرمین بورڈ آف گورنرز منہاج یونیورسٹی لاہور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کانفرنس سے بذریعہ وڈیو لنک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیز کی سطح پر قائم ہونے والا یہ پہلا نعت ریسرچ سینٹر ہے، جس نے مختصر مدت میں دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقوں کی توجہ حاصل کر لی ہے اور غیر معمولی پذیرائی پائی ہے۔ اس سینٹر میں نعت کے مبارک فن سے متعلق علمی، فنی اور تربیتی کورسز باقاعدگی سے کروائے جا رہے ہیں۔ نئی نسل کے طلبہ و طالبات کو براہِ راست ماہرینِ نعت اور متخصصین سے اکتسابِ علم و فن کا نادر موقع میسر ہے۔ منہاج یونیورسٹی لاہور کی انتظامیہ قابلِ مبارکباد ہے، جنہوں نے نعت کو صرف ایک جذبے یا روایت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے باضابطہ طور پر ایک علمی و فکری شعبہ بنا دیا ہے۔ یہ ادارہ 21 ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق تحقیق، تنقید، تربیت اور تدریس کے ذریعے نعتیہ ادب کو نئے افق عطا کر رہا ہے۔ یہ کانفرنس صرف ایک علمی اجتماع نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جو یہ پیغام دے رہی ہے کہ نعت صرف شاعری نہیں بلکہ روحانی بلندی، فکری رفعت اور شعوری آگہی کا ذریعہ ہے۔ دنیا بھر سے معزز اسکالرز، محققین، شعراء اور اساتذہ کی شرکت اس کانفرنس کو عالمی وقار اور مقام عطا کر رہی ہے۔
سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور محترم پیر نورالحق قادری نے نعت کانفرنس میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں کہا کہ منہاج یونیورسٹی لاہور کا یہ قابلِ تحسین اقدام نعتیہ ادب کی علمی و فکری بنیادوں کو مضبوط کر رہا ہے۔ نعت رسول مقبول ﷺ محض شاعری نہیں بلکہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا وہ والہانہ اظہار ہے جو دلوں کو منور اور معاشروں کو سنوار دیتا ہے۔ اس اہم علمی و ادبی کانفرنس کے انعقاد پر منہاج یونیورسٹی کی انتظامیہ اور نعت ریسرچ سینٹر کے جملہ منتظمین کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔
معروف محقق، نقاد اور نعت گو ڈاکٹر ریاض مجید اور پروفیسر ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری نے بھی نعت کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے اس بامقصد کانفرنس کے انعقاد کو نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے ایک تاریخی سنگِ میل قرار دیا اور منہاج یونیورسٹی کے اس علمی اقدام کو سراہا۔
کانفرنس سے پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نعت گوئی کا فن عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا ایک پاکیزہ اظہار ہے جو ادب اور روحانیت کا حسین امتزاج ہے اور اُمت کے فکری و اخلاقی ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ منہاج یونیورسٹی کا حسان بن ثابت سینٹر نعت کو صرف ایک روایتی صنفِ شاعری نہیں بلکہ ایک جامع علمی، فکری اور تربیتی شعبہ بنا کر نئی نسلوں کو عشقِ رسول ﷺ سے وابستہ کر رہا ہے۔ نعت خوانی اسلامی تہذیب و ثقافت کے وہ روشن پہلو ہیں جو امتِ مسلمہ کے دلوں میں محبتِ رسول ﷺ ، روحانی بیداری اور دینی جذبات کو تازہ کرتے ہیں۔ تاہم ان کا استعمال پیشکش اور انداز اگر شریعت کی روشنی میں ہو تو یہ دین کے فہم و ذوق میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔
نعت خوانی کے دوران شریعت کی حدود کا خیال رکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ایسی نعتیں جن میں غلو کیا گیا ہو، یعنی نبی کریم ﷺ کو اللہ کی صفات دی گئی ہوں یا ایسی باتیں جو اسلامی عقائد کے خلاف ہوں، وہ شرعی لحاظ سے درست نہیں۔ اسی طرح نعت خوانی کے آداب بھی مقرر ہیں مؤدب انداز اختیار کرنا، خاموشی سے سننا اور محفل کا شائستہ ماحول برقرار رکھنا۔ اگر نعت خوانی ان اصولوں کے تحت ہو تو یہ صرف ثواب کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ دل کی دنیا کو بدلنے کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے۔
اسی طرح قوالی کا مقصد صرف موسیقی یا تفریح نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا اصل ہدف روحانی کیفیت اور قلبی بیداری ہو۔ جب قوالی شرعی حدود میں رہ کر کی جائے، اس میں استعمال ہونے والے آلاتِ موسیقی فقہاء کی اجازت کے مطابق ہوں، اشعار اسلامی عقائد سے ہم آہنگ ہوں اور انداز و ماحول میں کوئی بے پردگی، غیر اخلاقی حرکت یا ناچ گانے کا رنگ نہ ہو تو یہ قوالی ایمان کو تازگی عطا کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نعت اور قوالی جب دل کو اللہ اور اس کے محبوب ﷺ کی طرف مائل کریں، تو یہ رحمت کا ذریعہ ہیں لیکن اگر یہی چیزیں صرف نفس کی تسکین یا دنیاوی لذت کے لیے استعمال ہوں، تو پھر یہ مقصد سے ہٹ جاتی ہیں۔ اس لیے ہر عاشقِ رسول ﷺ اور صاحبِ ذوق مسلمان کو چاہیے کہ وہ نعت و قوالی جیسے روحانی ذرائع کو شریعت کے دائرے میں رکھ کر اپنائے تاکہ اس کے ذریعے دل کا تزکیہ، روح کی پاکیزگی اور ایمان کی تازگی نصیب ہو۔
کانفرنس میں "21 ویں صدی کے نعتیہ تخلیقی و تحقیقی رجحانات" کے موضوع پر دو پینل ڈسکشن منعقد کیے گئے۔ پہلے پینل ڈسکشن میں اردو ادب اور نعتیہ تحقیق سے وابستہ نامور شخصیات نے ’’نعت گوئی کے عصری اسلوب، فکری وسعت اور تحقیقی جہات‘‘ پر گفتگو کی۔ سیشن میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ نعتیہ ادب نے جدید دنیا کے فکری و تخلیقی تقاضوں کے ساتھ کس طرح ہم آہنگی پیدا کی ہے۔ پینلسٹ حضرات میں ڈاکٹر سعادت سعید، ڈاکٹر شبیر قادری، ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس، پروفیسر جلیل عالی، ڈاکٹر ناصر عباس نیئر، ڈاکٹر سید حامد فاروق بخاری شامل تھے۔ یہ پینل ڈسکشن نعتیہ ادب کے سنجیدہ قاری، محقق اور تخلیق کار کے لیے ایک فکری و روحانی رہنمائی کا ذریعہ بنی۔
دوسرےپینل ڈسکشن میں ’’عصر حاضر میں خواتین کی نعتیہ ادبی، تخلیقی اور تحقیقی خدمات‘‘ کو موضوع بنایا گیا۔ اس بصیرت افروز نشست میں ملک کی ممتاز علمی و ادبی خواتین؛ صوفیہ بیدار، ڈاکٹر نبیلہ رحمان، نورین طلعت عروبہ، سیدہ سعدیہ، ڈاکٹر عظمیٰ زریں نازیہ، شگفتہ فردوس اور ڈاکٹر شاہدہ دلاور نے شرکت کی اور خواتین کے نعتیہ کردار، علمی فکر اور ادبی رجحانات پر مدلل گفتگو کی۔ اس سیشن میں اس امر کا جائزہ لیا گیا کہ 21 ویں صدی میں خواتین کس طرح نعتیہ ادب کے فروغ، تحقیق اور تخلیق میں فعال اور نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں، اور ان کی تخلیقات کس طرح فکری گہرائی اور روحانی شعور کی عکاسی کرتی ہیں۔
کانفرنس کے تحت ایک نہایت اہم، علمی اور فکر انگیز ٹیکنیکل سیشن (مقالہ جات کی پیشکش) کا انعقاد بھی کیا گیا۔ یہ سیشن معروف ماہرِ تعلیم ڈاکٹر سید سلطان شاہ (ڈین فیکلٹی آف لینگویجز، منہاج یونیورسٹی لاہور) کی زیرِ صدارت منعقد ہوا، جس میں ممتاز اسکالرز و محققین ڈاکٹر سیدہ سعدیہ، ڈاکٹر اسد محمود خان، علی صابر رضوی، محمد شعیب مرزا، ڈاکٹر شوکت محمود شوکت، ڈاکٹر عبدالجبار قمر اور محترمہ خدیجۃ الکبریٰ نے اپنے تحقیقی و تنقیدی مقالات پیش کیے۔ مقالہ نگاروں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح نعتیہ شاعری نے جدید ادبی اور فکری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی قائم رکھی ہے اور اس صنفِ ادب میں تحقیق و تنقید کا دائرہ مسلسل وسعت اختیار کر رہا ہے۔ یہ علمی اور روحانی نشست نعت سے محبت رکھنے والے اہلِ ذوق کے لیے ایک بامعنی، فکرانگیز اور یادگار تجربہ ثابت ہوئی۔
کانفرنس میں پر ڈائریکٹر ریسرچ سینٹر ڈاکٹر سرور حسین نقشبندی کی مرتب کردہ کتاب 'حفیظ تائب: شخصیت و فن'، ان کی نعتیہ کتاب 'حضور جانتے ہیں'، اور خصوصی سہ ماہی شمارہ 'مدحت' سمیت مختلف شعراء اور نعت گو شعراء کی کتب کی رونمائی کی گئی۔
اس کانفرنس کےتحت ایک نعتیہ مذاکرہ کا انعقاد بھی کیا گیا۔ اس مذاکرے میں پروفیسر ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری، ڈاکٹر طاہر حمید تنولی، ڈاکٹر سعید احمد سعیدی، حسین مجروع، ڈاکٹر محمد شہزاد مجددی اور ابوالحسن خاور شامل تھے۔ اس نعتیہ مذاکرے کو ڈاکٹر حافظ خورشید احمد کوآرڈینیٹ کر رہے تھے۔
کانفرنس میں ایک باوقار قومی نعتیہ مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ مشاعرے کی صدارت ملک کے معروف محقق، قادر الکلام شاعر ڈاکٹر ریاض مجید نے کی، جب کہ پروفیسر جلیل عالی مہمانِ خصوصی تھے۔ مشاعرہ کی نظامت اور میزبانی کے فرائض معروف نعت گو شاعر ابوالحسن خاور نے سرانجام دیے۔ اس نعتیہ مشاعرہ میں ملک بھر سے نامور شعراء، ادبی و علمی شخصیات اور نعت گو حضرات نے شرکت کی اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں نذرانہ ہائے عقیدت پیش کیے۔
ڈاکٹر سید طاہر رضا بخاری (سیکرٹری اوقاف و مذہبی امور، حکومتِ پنجاب) نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں منہاج یونیورسٹی لاہور اور جملہ منتظمین کو ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں کہ اس پُرفتن اور مادّہ پرستی کے دور میں نعت جیسے بابرکت موضوع پر علمی و تحقیقی کام ہو رہا ہے، جو بلاشبہ ایک بڑی دینی، فکری اور تہذیبی خدمت ہے۔ یہ ادارہ (منہاج یونیورسٹی) عشقِ رسول ﷺ کے فروغ اور نعتیہ ادب کی ترویج و ترقی کا جو عظیم فریضہ سرانجام دے رہا ہے، وہ نہایت احسن اور قابلِ تقلید ہے۔ نعت کو جس علمی و ادبی وقار اور تحقیق کے ساتھ اس ادارے نے قومی سطح پر منظم کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ میں اس عظیم ادارے کے بانی پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے علمی، فکری اور روحانی میدان میں جو روشن چراغ جلائے ہیں وہ آج نسلِ نو کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
کانفرنس کے اختتامی سیشن میں کانفرنس کا اعلامیہ ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ سینٹر راشد حمید کلیامی نے پیش کیا۔
کانفرنس میں مجوعی طور پر 42 تحقیقی مقالہ جات پیش کیے گئے۔ 7 مقالہ جات ٹیکنیکل سیشن میں پڑھے گئے۔ 18 اہلِ علم و فن نے تین مختلف نعتیہ موضوعات پر علمی و فنی ابحاث میں حصہ لیا۔ 9 ماہرینِ علم و ادب نے نعت کے مختلف پہلوؤں پر فکری رہنمائی مہیا کی۔ سال 2024 اور 2025 میں 11 نعتیہ کتب کی تقریبِ رونمائی اس کانفرنس میں منعقد ہوئی۔
کانفرنس کے اختتامی سیشن میں رجسٹرار منہاج یونیورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر خرم شہزاد نے قومی نعت کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر پاکستان سمیت دنیا بھر سے تشریف لانے والے معزز مہمانانِ گرامی، اسکالرز، نعت گو شعرا، محققین اور شرکائے کانفرنس کا دلی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس ان شاء اللہ علمی و روحانی محفل نعت گوئی کے فروغ، عشقِ رسول ﷺ کے ابلاغ اور ادبِ مصطفیٰ ﷺ کے فروزاں چراغ کو نئی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بنے گی۔
ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز منہاج یونیورسٹی لاہور پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے معزز مہمانانِ گرامی اور فنِ نعت میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کو شیلڈز سے نوازا۔